ازل سے ایک ہجر کا اسیر ہے،اخیر ہے
یہ دل بھی کیا لکیر کا فقیر ہے،اخیر ہے
ہمارے ساتھ حادثہ بھی دفعتاً نہیں ہوا
جو ہاتھ میں نصیب کی لکیر ہے،اخیر ہے
ہمارے قتل پر ہمیں ہی دوش دے رہے ہیں آپ
جناب من جو آپ کا ضمیر ہے، اخیر ہے
بہار نے کیا بھی تو خزاؤں کا بھلا کیا
یہ زندگی بھی موت کی سفیر ہے،اخیر ہے
شعیب بخاری