سید عمران
محفلین
ابھی پچھلے دنوں ایک واقعہ سنا ۔
ایک پر ہجوم سرکاری دفتر کے باہر ایک برگر والے کا ایک فقیر سے کسی بات پر جھگڑا ہو رہا تھا۔ جب جھگڑے کی تفصیل سُنی تو کافی حیرت انگیز بات سننے کو ملی۔
چونکہ یہاں ایک دنیا آتی جاتی ہے سو فقیر ہر آنے جانے والے شخص کو کھانا کھلانے کا کہتا ہے بلکہ یہ کہتا ہے کہ برگر دلا دو۔ مخیر حضرات برگر والے کو برگر کے پیسے دیتے ہیں اور برگر والے سے کہتے ہیں کہ اس فقیر کو ایک برگر دے دینا۔
برگر والے اور فقیر کا یہ معاملہ طے ہے کہ برگر والا پیسے جمع کرتا جائے گا اور برگر نہیں بنائے گا۔ فقیر ہر "شکار "کے بعد برگر والے کو اسکور بڑھنے کا بتاتا رہتا ہے ۔ شام میں برگر والا اپنا کمیشن رکھ کر باقی پیسے فقیر کو دے دیتا ہے۔
چونکہ یہ ایک عام سا برگر ہے تو اس کی قیمت ساٹھ روپے ہے۔ اور برگر والا ہر برگر پر دس روپے رکھ کر باقی فقیر کو دے دیتا ہے۔
جس روز لڑائی ہوئی۔ اُس دن معاملہ یہ ہوا کہ فقیر نے 100 سے اوپر برگر کمائے اور طے شدہ پروگرام کے تحت برگر والے کو ہر برگر پر دس روپے رکھ کر 50 روپے فی برگر کے حساب سے ادائیگی کرنا تھی۔
تاہم برگر والے کو اُس روز حسابِ سود و زیاں کی سوجھی اور اُس نے کہا کہ میں سارا دن اتنی محنت سے برگر بنا کر بیچتا ہوں اور فی برگر 20 روپے کماتا ہوں۔ اور یہ فقیر کچھ نہیں کرتا اسے فی برگر 50 روپے ملتےہیں۔ لہٰذا آج سے مجھے ایک برگر پر 20 روپے ملنے چاہیے۔
سو یہ تھی وہ کہانی جس نے ہمیں اس لڑی کی یاد دلا دی۔
یونانی حکمت والے کسی حکیم کو اور ہومیو یتھک میڈیسن والے ہومیو ڈاکٹرکو اپنی دوکانوں پر بٹھاتے ہیں جو نسخے پر ان کی دوائیں تجویز کرکرکے سیل بڑھاتا ہے۔ اسی طرح فارماسوٹیکل والے بھی ڈاکٹروں سے ساز باز کرکے نسخے پر اپنی دوائیں لکھنے کو کہتے ہیں۔۔۔برگر والے نے اپنا بزنس ٹھپ کر لیا۔۔۔ اب روز کی مفت دیہاڑی گئی۔۔۔ فقیر کا کیا ہے۔ کسی اور برگر والے سے بھاؤ تاؤ کر لے گا۔
بے چارے فقیر نے یہ انٹرنیشنل آزمودہ و مجرب نیز تیر بہدف فارمولا آزمایا تو کیا برا کیا۔۔۔
نقصان تو برگر والے کا ہوا جو فارمولا ناشناس نکلا۔ اپنے پاؤں پہ خود کلہاڑی مارلی۔۔۔
اسی لیے کہتے ہیں زمانہ کی رفتار کا ساتھ دینا چاہیے۔ اپنے آپ کو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اپ گریڈ کرنا چاہئے جو جاہل برگر والا نہ کرسکا۔
نتیجۃً نوکیا فون کی طرح اپنا بزنس ٹھپ کربیٹھا۔۔۔
ناہنجار کہیں کا!!!