یا اللہ لاہور کے ہر چوک کو پیشہ ور فقیروں سے نجات دلا۔
مانگنا بھی ایک فن ہے پہلے کبھی فقیر ہاتھ پھیلائے آگے سے گزر جایا کرتے تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فقیر بھی ایسے ڈھیٹ ہو گئے ہیں کہ تنگ پاجامے کی طرح ساتھ ہی چمٹ جاتے ہیں ۔۔۔ فقیروں سے زیادہ میں فقیرنیوں سے تنگ ہوں جو مسکین شکل بنا کر کہتی ہیں "اے کچھ تو دے دے "
ایک فقیر نے مجھ سے دس روپے مانگے ۔ میں نے نکال کر دے دیئے تو بڑے ڈرامائی انداز میں یوں بولا جیسے اللہ والا فقیر ہو یعنی پہنچا ہوا بندہ ۔ بولا "منگ پُتر کی منگنا ایں "۔ میں نے کہا "بابا جی میرے دس روپے واپس کر دیو" ۔ فوراً سیدھا ہو کر تیز تیز چلنے لگ گیا ۔
پرانے وقتوں میں فقیر آٹھ آنے یا روپیہ لے کر ڈھیروں دعائیں دیتے جاتے تھے آجکل تو کوئی دس سے نیچے بات بھی نہیں کرتا اور دعا بھی کوئی نہیں دیتے ۔
کل پریس کلب کے باہر ایک فقیر مل گیا ۔ فقیر کیا تھا پورا شفقت چیمہ تھا ۔۔ بڑے جلال سے بولا "اے بابو" ۔ میں نے کہہ دیا "ہاں بابے" ۔ کڑک کر بولا "نکال پچاس روپے" ۔ میں نے شرارتً اس کے کشکول میں ہاتھ ڈالا تو اس نے میری کلائی پکڑ لی اور بولا "اے کی کرنا پیا ایں ؟" ۔ میں نے کہا "بابا خود ہی تو کہا کہ نکال پچاس روپے" ۔ کڑک کر بولا "اپنی جیب سے نکال کاکا" ۔ میں نے ہنس کر پانچ کا سکہ اس کے کشکول میں ڈال دیا ۔ فقیر بولا "جا کاکا تو نے مجھے پانچ روپے دیئے اللہ تجھے پانچ بچے دے گا" ۔
یہ سُن کر میرے چودہ طبق روشن ہو گئے میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کیونکہ کہ میں پانچ کی بجائے بابے کو پچاس روپے دینے والا تھا !
ویسے، حقیقی سائلین صورت سے ہی پہچانے جا سکتے ہیں
یہ کیا طرفہ تماشا ہے کہ :’ ہر ایک کثیر مسلم آبادی میں گداگروں کی بھیڑ’’خوب‘‘ دیکھی جاتی ہے‘۔ میں خود ایک کثیر مسلم آبادی میں مقیم ہوں روز نئے نئے فتنے گداگروں کے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
توبہ استغفارابھی پچھلے دنوں ایک واقعہ سنا ۔
ایک پر ہجوم سرکاری دفتر کے باہر ایک برگر والے کا ایک فقیر سے کسی بات پر جھگڑا ہو رہا تھا۔ جب جھگڑے کی تفصیل سُنی تو کافی حیرت انگیز بات سننے کو ملی۔
چونکہ یہاں ایک دنیا آتی جاتی ہے سو فقیر ہر آنے جانے والے شخص کو کھانا کھلانے کا کہتا ہے بلکہ یہ کہتا ہے کہ برگر دلا دو۔ مخیر حضرات برگر والے کو برگر کے پیسے دیتے ہیں اور برگر والے سے کہتے ہیں کہ اس فقیر کو ایک برگر دے دینا۔
برگر والے اور فقیر کا یہ معاملہ طے ہے کہ برگر والا پیسے جمع کرتا جائے گا اور برگر نہیں بنائے گا۔ فقیر ہر "شکار "کے بعد برگر والے کو اسکور بڑھنے کا بتاتا رہتا ہے ۔ شام میں برگر والا اپنا کمیشن رکھ کر باقی پیسے فقیر کو دے دیتا ہے۔
چونکہ یہ ایک عام سا برگر ہے تو اس کی قیمت ساٹھ روپے ہے۔ اور برگر والا ہر برگر پر دس روپے رکھ کر باقی فقیر کو دے دیتا ہے۔
جس روز لڑائی ہوئی۔ اُس دن معاملہ یہ ہوا کہ فقیر نے 100 سے اوپر برگر کمائے اور طے شدہ پروگرام کے تحت برگر والے کو ہر برگر پر دس روپے رکھ کر 50 روپے فی برگر کے حساب سے ادائیگی کرنا تھی۔
تاہم برگر والے کو اُس روز حسابِ سود و زیاں کی سوجھی اور اُس نے کہا کہ میں سارا دن اتنی محنت سے برگر بنا کر بیچتا ہوں اور فی برگر 20 روپے کماتا ہوں۔ اور یہ فقیر کچھ نہیں کرتا اسے فی برگر 50 روپے ملتےہیں۔ لہٰذا آج سے مجھے ایک برگر پر 20 روپے ملنے چاہیے۔
سو یہ تھی وہ کہانی جس نے ہمیں اس لڑی کی یاد دلا دی۔
توبہ توبہ ۔واقعی کسقدر تکلیف دہ ہے۔تاہم برگر والے کو اُس روز حسابِ سود و زیاں کی سوجھی اور اُس نے کہا کہ میں سارا دن اتنی محنت سے برگر بنا کر بیچتا ہوں اور فی برگر 20 روپے کماتا ہوں۔ اور یہ فقیر کچھ نہیں کرتا اسے فی برگر 50 روپے ملتےہیں۔ لہٰذا آج سے مجھے ایک برگر پر 20 روپے ملنے چاہیے۔
برگر والے نے اپنا بزنس ٹھپ کر لیا۔۔۔ اب روز کی مفت دیہاڑی گئی۔۔۔ فقیر کا کیا ہے۔ کسی اور برگر والے سے بھاؤ تاؤ کر لے گا۔ابھی پچھلے دنوں ایک واقعہ سنا ۔
ایک پر ہجوم سرکاری دفتر کے باہر ایک برگر والے کا ایک فقیر سے کسی بات پر جھگڑا ہو رہا تھا۔ جب جھگڑے کی تفصیل سُنی تو کافی حیرت انگیز بات سننے کو ملی۔
چونکہ یہاں ایک دنیا آتی جاتی ہے سو فقیر ہر آنے جانے والے شخص کو کھانا کھلانے کا کہتا ہے بلکہ یہ کہتا ہے کہ برگر دلا دو۔ مخیر حضرات برگر والے کو برگر کے پیسے دیتے ہیں اور برگر والے سے کہتے ہیں کہ اس فقیر کو ایک برگر دے دینا۔
برگر والے اور فقیر کا یہ معاملہ طے ہے کہ برگر والا پیسے جمع کرتا جائے گا اور برگر نہیں بنائے گا۔ فقیر ہر "شکار "کے بعد برگر والے کو اسکور بڑھنے کا بتاتا رہتا ہے ۔ شام میں برگر والا اپنا کمیشن رکھ کر باقی پیسے فقیر کو دے دیتا ہے۔
چونکہ یہ ایک عام سا برگر ہے تو اس کی قیمت ساٹھ روپے ہے۔ اور برگر والا ہر برگر پر دس روپے رکھ کر باقی فقیر کو دے دیتا ہے۔
جس روز لڑائی ہوئی۔ اُس دن معاملہ یہ ہوا کہ فقیر نے 100 سے اوپر برگر کمائے اور طے شدہ پروگرام کے تحت برگر والے کو ہر برگر پر دس روپے رکھ کر 50 روپے فی برگر کے حساب سے ادائیگی کرنا تھی۔
تاہم برگر والے کو اُس روز حسابِ سود و زیاں کی سوجھی اور اُس نے کہا کہ میں سارا دن اتنی محنت سے برگر بنا کر بیچتا ہوں اور فی برگر 20 روپے کماتا ہوں۔ اور یہ فقیر کچھ نہیں کرتا اسے فی برگر 50 روپے ملتےہیں۔ لہٰذا آج سے مجھے ایک برگر پر 20 روپے ملنے چاہیے۔
سو یہ تھی وہ کہانی جس نے ہمیں اس لڑی کی یاد دلا دی۔
آج کل کا سب سے معروف طریقہ یہ ہے۔۔۔ اس دھاگے کی مناسبت سے شامل کر رہا ہوں۔ سیاسی مت سمجھا جائے۔