آپ کے ہاں سائلین کس طرح فریاد کرتے ہیں؟؟؟

جاسمن

لائبریرین
شاید کہیں بتایا ہو کہ ایک شخص کو بھیک ختم کرائی تھی۔۔۔جو شاید ابھی مانگنا شروع ہی ہوا تھا۔۔۔۔۔اگر نہیں بتایا تو سماجی بہبود والی لڑی میں بتاؤں گی ان شاءاللہ۔۔۔۔ایک اور فقیرنی سے دھوکا کھانے والے واقعہ کا ذکر بھی اُسی لڑی میں۔۔۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
ہمارے ہاں جو مانگنے والی اکثر آتی ہے تو بڑے عجیب انداز میں کہتی ہے
نی باجی آٹا دے دے
دو سال کا میرا بھانجا ایک دن اس نے صدا سن لی مانگنے والی کی۔ بس جب بھی اسے یاد آجائے تو کہتا رہتا کہ باجی آٹا دے دے اور بابا اسکے روک ٹوک میں رہتے
 

جاسمن

لائبریرین
کسی کی مدد کر دی جائے تو اکثر وہ مزید کوئی فرمائش بھی کرنے لگتا ہے۔
اس کے علاؤہ بہت سے نشئی بھی بھیک مانگتے ہیں۔ ان پہ مجھے ترس بھی آتا ہے۔ معاشرہ ان کی بہت تحقیر کرتا ہے۔ اور خود کو حق بجانب بھی سمجھتا ہے۔
باقی دوسرے فقیروں کی طرح یہ بھی بہت بلکہ زیادہ ہی ڈھیٹ ہوتے ہیں۔
آج اے ٹی ایم کے باہر ایسے نوجوان کو ہسپتال لے کے گئی تھی جو کہہ رہا تھا کہ اس کے پاؤں میں فریکچر ہے اور اسے دس روپے دیے جائیں۔
 
ہمارے یہاں سائلین ایسے مانگتے ہیں اگر آپ نے ایک کو بھی خیرات دے دی پھر آپ کے پیچھے ایک ٹولا لگ جائے گا۔ آپ کی جیب خالی ہوجائے گی سائلین ختم نہیں ہونگیں۔
 
مشہور فوٹوگرافر ایس ایم بخاری کی وال سے۔
۔۔۔۔

یا اللہ لاہور کے ہر چوک کو پیشہ ور فقیروں سے نجات دلا۔ یہ اتنے ڈھیٹ فقیر ہیں کہ گاڑی کا شیشہ توڑ کر اندر بھی ہاتھ ڈال لیں۔ راہ چلتے بازو پکڑ لیتے ہیں۔ پتا نہیں کس نسل کے فقیر آ گئے۔

مانگنا بھی ایک فن ہے پہلے کبھی فقیر ہاتھ پھیلائے آگے سے گزر جایا کرتے تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فقیر بھی ایسے ڈھیٹ ہو گئے ہیں کہ تنگ پاجامے کی طرح ساتھ ہی چمٹ جاتے ہیں ۔۔۔ فقیروں سے زیادہ میں فقیرنیوں سے تنگ ہوں جو مسکین شکل بنا کر کہتی ہیں "اے کچھ تو دے دے "
ایک فقیر نے مجھ سے دس روپے مانگے ۔ میں نے نکال کر دے دیئے تو بڑے ڈرامائی انداز میں یوں بولا جیسے اللہ والا فقیر ہو یعنی پہنچا ہوا بندہ ۔ بولا "منگ پُتر کی منگنا ایں "۔ میں نے کہا "بابا جی میرے دس روپے واپس کر دیو" ۔ فوراً سیدھا ہو کر تیز تیز چلنے لگ گیا ۔

پرانے وقتوں میں فقیر آٹھ آنے یا روپیہ لے کر ڈھیروں دعائیں دیتے جاتے تھے آجکل تو کوئی دس سے نیچے بات بھی نہیں کرتا اور دعا بھی کوئی نہیں دیتے ۔

کل پریس کلب کے باہر ایک فقیر مل گیا ۔ فقیر کیا تھا پورا شفقت چیمہ تھا ۔۔ بڑے جلال سے بولا "اے بابو" ۔ میں نے کہہ دیا "ہاں بابے" ۔ کڑک کر بولا "نکال پچاس روپے" ۔ میں نے شرارتً اس کے کشکول میں ہاتھ ڈالا تو اس نے میری کلائی پکڑ لی اور بولا "اے کی کرنا پیا ایں ؟" ۔ میں نے کہا "بابا خود ہی تو کہا کہ نکال پچاس روپے" ۔ کڑک کر بولا "اپنی جیب سے نکال کاکا" ۔ میں نے ہنس کر پانچ کا سکہ اس کے کشکول میں ڈال دیا ۔ فقیر بولا "جا کاکا تو نے مجھے پانچ روپے دیئے اللہ تجھے پانچ بچے دے گا" ۔

یہ سُن کر میرے چودہ طبق روشن ہو گئے میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کیونکہ کہ میں پانچ کی بجائے بابے کو پچاس روپے دینے والا تھا !
 

فرقان احمد

محفلین
ویسے، حقیقی سائلین صورت سے ہی پہچانے جا سکتے ہیں اور، یہ جو پیشہ ور فقیر ہوتے ہیں، ان کی 'اداکاری' ہی سبھی احوال سنائے دیتی ہے۔ تاہم، ہم اداکاری پر مر مٹتے ہیں، اور اصل سائلین عام طور پر مدد امداد سے محروم ہی رہ جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک المیہ ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
یا اللہ لاہور کے ہر چوک کو پیشہ ور فقیروں سے نجات دلا۔

آمین ۔

بلکہ کراچی اور پاکستان کے دیگر شہروں کے لئے بھی آمین۔ :)
مانگنا بھی ایک فن ہے پہلے کبھی فقیر ہاتھ پھیلائے آگے سے گزر جایا کرتے تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فقیر بھی ایسے ڈھیٹ ہو گئے ہیں کہ تنگ پاجامے کی طرح ساتھ ہی چمٹ جاتے ہیں ۔۔۔ فقیروں سے زیادہ میں فقیرنیوں سے تنگ ہوں جو مسکین شکل بنا کر کہتی ہیں "اے کچھ تو دے دے "

:):):)

ایک فقیر نے مجھ سے دس روپے مانگے ۔ میں نے نکال کر دے دیئے تو بڑے ڈرامائی انداز میں یوں بولا جیسے اللہ والا فقیر ہو یعنی پہنچا ہوا بندہ ۔ بولا "منگ پُتر کی منگنا ایں "۔ میں نے کہا "بابا جی میرے دس روپے واپس کر دیو" ۔ فوراً سیدھا ہو کر تیز تیز چلنے لگ گیا ۔

ہاہاہاہاہا۔۔۔! :p

پرانے وقتوں میں فقیر آٹھ آنے یا روپیہ لے کر ڈھیروں دعائیں دیتے جاتے تھے آجکل تو کوئی دس سے نیچے بات بھی نہیں کرتا اور دعا بھی کوئی نہیں دیتے ۔

یہ تو ہے۔ پہلے فقیروں کے لہجے میں بھی بڑی شفقت ہوتی تھی۔

اب تو بڑے " پروفیشنل" ہو گئے ہیں۔ :)

کل پریس کلب کے باہر ایک فقیر مل گیا ۔ فقیر کیا تھا پورا شفقت چیمہ تھا ۔۔ بڑے جلال سے بولا "اے بابو" ۔ میں نے کہہ دیا "ہاں بابے" ۔ کڑک کر بولا "نکال پچاس روپے" ۔ میں نے شرارتً اس کے کشکول میں ہاتھ ڈالا تو اس نے میری کلائی پکڑ لی اور بولا "اے کی کرنا پیا ایں ؟" ۔ میں نے کہا "بابا خود ہی تو کہا کہ نکال پچاس روپے" ۔ کڑک کر بولا "اپنی جیب سے نکال کاکا" ۔ میں نے ہنس کر پانچ کا سکہ اس کے کشکول میں ڈال دیا ۔ فقیر بولا "جا کاکا تو نے مجھے پانچ روپے دیئے اللہ تجھے پانچ بچے دے گا" ۔

:) :) :)

یہ سُن کر میرے چودہ طبق روشن ہو گئے میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کیونکہ کہ میں پانچ کی بجائے بابے کو پچاس روپے دینے والا تھا !

پچاس بچوں کی دعا۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے، حقیقی سائلین صورت سے ہی پہچانے جا سکتے ہیں

کسی کا شعر یاد آ گیا آپ کی بات سے:

صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خوددار ہو ا کرتے ہیں

لیکن حقیقی سائلین کو پہچاننا بڑا مشکل کام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حقیقی ضرورت مند کبھی پیچھے نہیں پڑتے۔
 

فاخر

محفلین
یہ کیا طرفہ تماشا ہے کہ :’ ہر ایک کثیر مسلم آبادی میں گداگروں کی بھیڑ’’خوب‘‘ دیکھی جاتی ہے‘۔ میں خود ایک کثیر مسلم آبادی میں مقیم ہوں روز نئے نئے فتنے گداگروں کے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ آپ جہاں چلے جائیں وہیں بھکاریوں کی ایک لمبی لائن ملے گی ۔ حتیٰ کہ بعد ِ فجر جب پوری آبادی سورہی ہوتی ہے تو یہ بیچارے گداگر اپنے ’’فرائض‘‘ میں لگ جاتے ہیں ۔اور اپنے ’’عجیب و غریب‘‘ صداؤں سے نیند کی پری کو بھگادیتے ہیں۔ ان کی ’’شرارت‘‘ رمضان المبارک میں خوب دیکھنے کو ملتی ہے ۔ میں طبعاً پیشہ ور گداگروں سے محتاط رہتا ہوں ؛لیکن میرا احتیاط بھی اس دن ہارگیا جب جس فقیر کو میں اصلی محتاج سمجھ کردس بیس روپے دیا تھا وہ اگلی پان کی دوکان پر جاکر ’’بھانگ‘‘ خرید رہا تھا ۔ :p:p
وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں کسی بھی ’’پیشہ ور‘‘ بھکاری کو کچھ نہیں دیتا ۔ ممکن ہے کہ:’میرے اس عمل سے اصلی محتاج بھی اس ’’بے اعتنائی‘‘ کا شکار ہوجاتے ہوں گے؛لیکن کیا کروں اب اپنے حلال کی کمائی کو یوں فقیروں کے ہاتھوں ’’پامال‘‘ نہیں دیکھ سکتا نا! ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ کیا طرفہ تماشا ہے کہ :’ ہر ایک کثیر مسلم آبادی میں گداگروں کی بھیڑ’’خوب‘‘ دیکھی جاتی ہے‘۔ میں خود ایک کثیر مسلم آبادی میں مقیم ہوں روز نئے نئے فتنے گداگروں کے دیکھنے کو ملتے ہیں۔

حالانکہ اسلام میں بھیک مانگنے کو پسند نہیں کیا جاتا۔

اور کسبِ حلال کی طرف رغبت دلانے کا حکم ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ابھی پچھلے دنوں ایک واقعہ سنا ۔

ایک پر ہجوم سرکاری دفتر کے باہر ایک برگر والے کا ایک فقیر سے کسی بات پر جھگڑا ہو رہا تھا۔ جب جھگڑے کی تفصیل سُنی تو کافی حیرت انگیز بات سننے کو ملی۔

چونکہ یہاں ایک دنیا آتی جاتی ہے سو فقیر ہر آنے جانے والے شخص کو کھانا کھلانے کا کہتا ہے بلکہ یہ کہتا ہے کہ برگر دلا دو۔ مخیر حضرات برگر والے کو برگر کے پیسے دیتے ہیں اور برگر والے سے کہتے ہیں کہ اس فقیر کو ایک برگر دے دینا۔

برگر والے اور فقیر کا یہ معاملہ طے ہے کہ برگر والا پیسے جمع کرتا جائے گا اور برگر نہیں بنائے گا۔ فقیر ہر "شکار "کے بعد برگر والے کو اسکور بڑھنے کا بتاتا رہتا ہے ۔ شام میں برگر والا اپنا کمیشن رکھ کر باقی پیسے فقیر کو دے دیتا ہے۔

چونکہ یہ ایک عام سا برگر ہے تو اس کی قیمت ساٹھ روپے ہے۔ اور برگر والا ہر برگر پر دس روپے رکھ کر باقی فقیر کو دے دیتا ہے۔

جس روز لڑائی ہوئی۔ اُس دن معاملہ یہ ہوا کہ فقیر نے 100 سے اوپر برگر کمائے اور طے شدہ پروگرام کے تحت برگر والے کو ہر برگر پر دس روپے رکھ کر 50 روپے فی برگر کے حساب سے ادائیگی کرنا تھی۔

تاہم برگر والے کو اُس روز حسابِ سود و زیاں کی سوجھی اور اُس نے کہا کہ میں سارا دن اتنی محنت سے برگر بنا کر بیچتا ہوں اور فی برگر 20 روپے کماتا ہوں۔ اور یہ فقیر کچھ نہیں کرتا اسے فی برگر 50 روپے ملتےہیں۔ لہٰذا آج سے مجھے ایک برگر پر 20 روپے ملنے چاہیے۔

سو یہ تھی وہ کہانی جس نے ہمیں اس لڑی کی یاد دلا دی۔ :) :) :)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ابھی پچھلے دنوں ایک واقعہ سنا ۔

ایک پر ہجوم سرکاری دفتر کے باہر ایک برگر والے کا ایک فقیر سے کسی بات پر جھگڑا ہو رہا تھا۔ جب جھگڑے کی تفصیل سُنی تو کافی حیرت انگیز بات سننے کو ملی۔

چونکہ یہاں ایک دنیا آتی جاتی ہے سو فقیر ہر آنے جانے والے شخص کو کھانا کھلانے کا کہتا ہے بلکہ یہ کہتا ہے کہ برگر دلا دو۔ مخیر حضرات برگر والے کو برگر کے پیسے دیتے ہیں اور برگر والے سے کہتے ہیں کہ اس فقیر کو ایک برگر دے دینا۔

برگر والے اور فقیر کا یہ معاملہ طے ہے کہ برگر والا پیسے جمع کرتا جائے گا اور برگر نہیں بنائے گا۔ فقیر ہر "شکار "کے بعد برگر والے کو اسکور بڑھنے کا بتاتا رہتا ہے ۔ شام میں برگر والا اپنا کمیشن رکھ کر باقی پیسے فقیر کو دے دیتا ہے۔

چونکہ یہ ایک عام سا برگر ہے تو اس کی قیمت ساٹھ روپے ہے۔ اور برگر والا ہر برگر پر دس روپے رکھ کر باقی فقیر کو دے دیتا ہے۔

جس روز لڑائی ہوئی۔ اُس دن معاملہ یہ ہوا کہ فقیر نے 100 سے اوپر برگر کمائے اور طے شدہ پروگرام کے تحت برگر والے کو ہر برگر پر دس روپے رکھ کر 50 روپے فی برگر کے حساب سے ادائیگی کرنا تھی۔

تاہم برگر والے کو اُس روز حسابِ سود و زیاں کی سوجھی اور اُس نے کہا کہ میں سارا دن اتنی محنت سے برگر بنا کر بیچتا ہوں اور فی برگر 20 روپے کماتا ہوں۔ اور یہ فقیر کچھ نہیں کرتا اسے فی برگر 50 روپے ملتےہیں۔ لہٰذا آج سے مجھے ایک برگر پر 20 روپے ملنے چاہیے۔

سو یہ تھی وہ کہانی جس نے ہمیں اس لڑی کی یاد دلا دی۔ :) :) :)
توبہ استغفار
 

سیما علی

لائبریرین
ہمارے یہاں تو جمعرات کو آتا ہے اور اتنا ڈانٹ کر مانگتا ہے ایسا لگتا ہے قرض واپس مانگ رہا ہے ۔۔ہمارا ٹیوشن پڑھنے آنے والا بچہ اُسکی آواز سے ڈر کر فوراً سبق یاد کرلیتا 🤩🤩🤩🤩🤩
 

سیما علی

لائبریرین
تاہم برگر والے کو اُس روز حسابِ سود و زیاں کی سوجھی اور اُس نے کہا کہ میں سارا دن اتنی محنت سے برگر بنا کر بیچتا ہوں اور فی برگر 20 روپے کماتا ہوں۔ اور یہ فقیر کچھ نہیں کرتا اسے فی برگر 50 روپے ملتےہیں۔ لہٰذا آج سے مجھے ایک برگر پر 20 روپے ملنے چاہیے۔
توبہ توبہ ۔واقعی کسقدر تکلیف دہ ہے۔
 

علی وقار

محفلین
غیب کا علم اللہ کے پاس ہے اس لیے یہ تو نہ کہوں گا کہ جس سائل کا تذکرہ کرنے جا رہا ہوں، وہ حقیقت میں مستحق ہے یا نہیں۔ ایک سائل نے یہ طریقہ اپنا رکھا ہے کہ وہ ہر ایک دو ماہ بعد دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور ایک خط گھر میں اس کے حوالے کر دیتا ہے جو کہ دروازہ کھولے۔ یوں اس لیٹر کی انٹری گھر تک ہو جاتی ہے اور یہی تصور کیا جاتا ہے کہ یہ بینک وغیرہ سے آیا ہے یا کوئی آفیشل لیٹر ہے۔ اس لیٹر کو کھولا جائے تو اس میں ایک تحریری فریاد ہوتی ہے کہ میری مدد کی جائے، میرا تعلق کسی فلاحی ادارے سے ہے۔ اس کے بعد، ایک آدھ منٹ کے بعد ڈور بیل بجتی ہے اور لیٹر واپس طلب کر لیا جاتا ہے۔ کئی بار اس کی امداد کی جا چکی ہے مگر اب جی چاہتا ہے کہ ہاتھ کھینچ لیا جائے کیونکہ مجھے پیسے طلب کرنے کا یہ طریقہ عجیب سا لگتا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ابھی پچھلے دنوں ایک واقعہ سنا ۔

ایک پر ہجوم سرکاری دفتر کے باہر ایک برگر والے کا ایک فقیر سے کسی بات پر جھگڑا ہو رہا تھا۔ جب جھگڑے کی تفصیل سُنی تو کافی حیرت انگیز بات سننے کو ملی۔

چونکہ یہاں ایک دنیا آتی جاتی ہے سو فقیر ہر آنے جانے والے شخص کو کھانا کھلانے کا کہتا ہے بلکہ یہ کہتا ہے کہ برگر دلا دو۔ مخیر حضرات برگر والے کو برگر کے پیسے دیتے ہیں اور برگر والے سے کہتے ہیں کہ اس فقیر کو ایک برگر دے دینا۔

برگر والے اور فقیر کا یہ معاملہ طے ہے کہ برگر والا پیسے جمع کرتا جائے گا اور برگر نہیں بنائے گا۔ فقیر ہر "شکار "کے بعد برگر والے کو اسکور بڑھنے کا بتاتا رہتا ہے ۔ شام میں برگر والا اپنا کمیشن رکھ کر باقی پیسے فقیر کو دے دیتا ہے۔

چونکہ یہ ایک عام سا برگر ہے تو اس کی قیمت ساٹھ روپے ہے۔ اور برگر والا ہر برگر پر دس روپے رکھ کر باقی فقیر کو دے دیتا ہے۔

جس روز لڑائی ہوئی۔ اُس دن معاملہ یہ ہوا کہ فقیر نے 100 سے اوپر برگر کمائے اور طے شدہ پروگرام کے تحت برگر والے کو ہر برگر پر دس روپے رکھ کر 50 روپے فی برگر کے حساب سے ادائیگی کرنا تھی۔

تاہم برگر والے کو اُس روز حسابِ سود و زیاں کی سوجھی اور اُس نے کہا کہ میں سارا دن اتنی محنت سے برگر بنا کر بیچتا ہوں اور فی برگر 20 روپے کماتا ہوں۔ اور یہ فقیر کچھ نہیں کرتا اسے فی برگر 50 روپے ملتےہیں۔ لہٰذا آج سے مجھے ایک برگر پر 20 روپے ملنے چاہیے۔

سو یہ تھی وہ کہانی جس نے ہمیں اس لڑی کی یاد دلا دی۔ :) :) :)
برگر والے نے اپنا بزنس ٹھپ کر لیا۔۔۔ اب روز کی مفت دیہاڑی گئی۔۔۔ فقیر کا کیا ہے۔ کسی اور برگر والے سے بھاؤ تاؤ کر لے گا۔
 
Top