قرآن شریف میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ دونوں نام (بطور اسمِ عَلَم) آئے ہیں۔ یہاں ترجیح؟ بہرحال، وہ آپ کا مؤقف ہے۔ والسلام ۔
ضلی اور بروزی نبوت کی جعلسازی کے تحت کچھ اس لوگ نامِ نامیِ ختم الرسل احمد کو ذومعنوی انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ سلمان بھائی کا یہ اشارہ انہیں لوگوں کی طرف ہو سکتا ہے۔
 
میری گزارش کو اگر "دخل در معقولات" نہ سمجھا جائے تو عرض کروں؟ کسی جرح میں نہ ڈالئے گا، نظر انداز کرنے کا حق آپ کو بہر حال حاص ہے۔

مصرع کے آخر میں یائے معروف یا مجہول؛ واوِ مجہول واقع ہو اور اس سے پہلے ہمزہ ہو، اس کی تو بہت مثالیں ہیں کہ ایسی یاے یا واو کو گرا بھی دیتے ہیں (گرانا لازم نہیں ہے)۔ یہ اسقاط ہمزہ کے سوا کوئی اور حرف ہو تو وہاں ایسی یاے یا واو کو گرانے کی کوئی مثال اتفاق سے میری نظر سے نہیں گزری۔ سو میں یہ گمان کرتا ہوں کہ ایسا اسقاط صرف ہمزہ کے ساتھ خاص ہے۔؛ اور دوہے میں تو یہ بہت عام ہے۔ دیگر شاعری میں بھی ہے۔ یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ کسی وزن کے آخر میں ہجائے کوتاہ کا واقع ہونا اور یاے، واو کو گرا کر ہجائے کوتاہ باقی رہ جانا دو مختلف مظاہر ہیں۔ عام مشاہدہ یہی ہے کہ مثلاً ہم مصرع کے آخر میں "باتیں کتابی" کی یاے کو گرا دیتے ہیں تو صوت بچتی ہے "باتیں کتاب"۔ یہ صورت میرے نزدیک مستحسن نہیں۔

اسقاط یا گرانا (جو بھی نام آپ دے لیجئے) اور ایصال ایک سہولت ہے، لازم قطعاً نہیں ہے۔ اس سہولت سے فائدہ اٹھانے میں اگر آپ کے شعر کا حسن جاتا ہو، جمالیات اور نرماہٹ متاثر ہوتی ہو، کوئی معنوی اِشکال پیدا ہوتا ہو، شعر اپنے شعری مقام سے ہٹتا ہو، (وغیرہ) تو اس سہولت کو کام میں نہ لانا اولیٰ۔ لہٰذا اس پر اصرار نہیں کیا جانا چاہئے یعنی اسے لازم قرار نہ دیا جائے۔

تجربہ یہ بھی بتاتا ہے کہ بسا اوقات ایصال سے شعر میں روانی بڑھتی ہے یعنی بہتری آتی ہے۔

برائے توجہ جناب سلمان دانش جی ، جناب ظہیراحمدظہیر ، جناب الف عین ۔
 
آخری تدوین:
اگر کسی بحر میں لفظ "محمد" کیلیے آسانی سے وزن دستیاب ہے تو احمد کی بجائے اسی نام نامی کو پہلی ترجیح دینی چاہیے۔

میری گزارش:
قرآن شریف میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ دونوں نام (بطور اسمِ عَلَم) آئے ہیں۔ یہاں ترجیح؟ بہرحال، وہ آپ کا مؤقف ہے۔ والسلام ۔​
ضلی اور بروزی نبوت کی جعلسازی کے تحت کچھ اس لوگ نامِ نامیِ ختم الرسل احمد کو ذومعنوی انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ سلمان بھائی کا یہ اشارہ انہیں لوگوں کی طرف ہو سکتا ہے۔

کتاب اللہ کی سند پر میں کون ہوتا ہوں، کوئی اضافہ یا رائے زنی کرنے والا؟ و ما علینا الا البلاغ!
 

اکمل زیدی

محفلین
ایک کوشش ....توجہ کا طالب الف عین شاکرالقادری سلمان دانش جی صاحبان

فخر بنی جو رب کا وہ نبی کی ذات
ہیں جانشین جنکے مولائے کائنات
- - - - - - - - - - - - - - - -
ہے رب ذوالجلال تیرا ثنا خوان
نعتیں ہیں آیتیں گواہ ہے یہ قران
ایک بار پھر . . . طالب توجہ ...
@الف عین صاحب
 

خاورچودھری

محفلین
دوستان عزیز السلام علیکم!
شاید بہت سارے دوست اس بات سے آگاہ ہونگے کہ میں اٹک (پنجاب) پاکستان سے ایک سہ ماہی مجلہ "فروغِ نعت" کے نام سے شائع کرتا ہوں اب تک اسکی بارہ اشاعتیں مکمل ہو چکی ہیں اور ہمر شمارہ اپنی اشاعت کے اعتبار سے خاص اشاعت ہوتا ہے ۔ اس سلسلہ میں آئندہ کے لیے جو اہداف متعین کیئے گئے ہیں ان میں نعتیہ دوہا نگاری پر مشتمل ایک خاص اشاعت کا اہتمام بھی ہے آپ سے درخواست ہے کہ اگر آپ نے کچھ نعتیہ دوہے لکھ رکھے ہوں تو انہیں یہاں سیئر کیجئے اور اگر نہیں لکھ رکھے تو آیئے اور لکھیئے قطرہ قطرہ می شود دریا کی مصداق مجھے یقین ہے کہ یہاں بہت سا مواد جمع ہو جائے گا
اگر نعتیہ دوہا نگاری سے متعلق آپ کے پاس کوئی مضامین ہوں یا آپ لکھنا چاہیں تو اس کے لیئے بھی فروغ نعت کے صفحات حاضر ہیں
امید ہے کہ تمام شعرائے محفل کو دوہا کے اوزان سے آگاہی ہوگی تاہم اس سلسلہ میں ایک مختصر تعارفی تحریر پیش ہے جو سوشل میڈیا پر نعتیہ دوہوں کی تحریک کے لیئے لکھی گئی ہے
=============

اردو نعتیہ دوہا

دوہا ایک قدیم ہندی صنف سخن ہے جو کہ عام طور پر صوفیوں، بھگتوں اور سنتوں نے اپنے معاشرہ کی اصلاح کے لیے استعمال کی ہے۔ صوفی اور اہل دل حضرات چونکہ معاشرہ کاحصہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے نباض اور مزاج آشنا بھی ہوتے ہیں اس لیے انہوں نے اپنے واعظانہ اور عارفانہ کلام کے لیے جن اصناف سخن کو منتخب کیا وہ یقینا اپنی تاثیر کے اعتبار سے انسانی معاشرت میں گہری جڑیں رکھتی ہیں۔ دوہا بھی ایک ایسی صنف سخن ہے۔ دوہے کا بنیادی تہذیبی تعلق تو ہندو دھرم سے زیادہ مانوس تھا۔ لیکن لفظ زندہ ہوتے ہیں اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ اسی طرح زبانیں بھی اردگرد کے ماحول اور بولیوں سے متاثر ہو کر اپنا ارتقائی سفر جاری رکھتی ہیں۔ بالکل اسی طرح ادبی اصناف سخن بھی زمان و مکان کو تبدیلیوں کے ساتھ تغیر پذیررہتی ہیں۔ دوہا بھی صدیوں کے سفر کے بعد ارتقا کے بہت سے مراحل طے کر چکا ہے آج کا دوہا یقینا ابتدائی دور سے زبان و بیان اور تہذیبی رنگ و اسلوب کے اعتبار سے بہت مختلف ہے تاہم یہ خوش کن بات ہے کہ دوہے نے زبان و بیان کے مختلف اسالیب بدلنے کے باوجود اپنے رنگ و مزاج کے ان بنیادی عناصر کو برقرار رکھا ہے جو کہ اس کی اثر پذیری کے ضامن ہیں۔
دوہے کی زبان نہایت نرم و نازک ہندوستانی زبان ہے وقت، علاقہ، تہذیب اور موضوعات کے اعتبار سے اس کی زبان میں تغیر و تبدل بھی رونما ہوا ہے دوہا بانی کو اردو عربی، فارسی اور دوسری علاقائی زبانوں سے بھی انسیت پیدا ہوئی اور مختلف زبانوں کے الفاظ جب دوہے کے مترنم آہنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیر ہوئے تو ایک دوسرے کی تہذیبی اقدار کو قبلو کرتے ہوئے یک جان ہوئے چلے گئے دوہے کی زبان کے اس خوبصورت ارتقا میں مسلم صوفیا کا اہم کردار ہے۔ ہندوستان کےبعد پاکستان میں بھی دوہا نگاری کی ایک مضبوط روایت موجود ہے۔ یہاں آ کر جہاں دوہے کی زبان کو نئی وسعت ملی وہاں اس کے موضوعات اور اس کے مخصوص اوزان میں بھی تہذیبی تبدیلیاں پیدا ہو ئی ں۔ جمیل الدین عالی نے دوہے کے مخصوص وزن میں موجود وسرام(وقفہ) ختم کر کے ایک رواں دواں وزن میں دوہے کہے تو ہندو پاک میں ایک محاذ کھڑا ہو گیا ۔ ان کے دوہے کو دوہا تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا تاہم جمیل الدین عالی کے ہم نواؤں نے مستقل مزاجی کے ساتھ عالی کی پیروی میں نہ صرف دوہے کہے بلکہ اسے دوہے کی "عالی چال" قرار دے کر اس کا دفاع بھی کیا۔ اور اب وقت کے ساتھ ساتھ جمیل عالی کے دوہوں کو بھی سند تسلیم عطا کر دی گئی ہے۔
دوہے کا وزن:
دوہے کا ایک مخصوص وزن ہے جس کی بنیاد ہندی عروض "پنگل" پر ہے۔ ایک مخصوص بحر جس میں 24 ماترائیں ہوتی ہےلیکن اس طرح کہ بحر کے پہلے حصے میں 13 ماترائیں ہونگی اور اس کے بعد ایک ماترا کا وقفہ اور دوسرے حصہ میں 11 ماترائیں اس طرح ایک مصرع مکمل ہو گا۔
24=11+13
ڈاکٹر فراز حامدی کا یہ دوہا، دوہے کے لیے مخصوص وزن اس کے ماتراوں کی تقسیم اور آہنگ سے واقفیت حاصل کرنے میں بہت مفید ثابت ہوگا۔
تیرہ گیارہ ماترا، بیچ بیچ وشرام
دو مصرعوں کی شاعری، دوھا جس کا نام

اب ہم جب اردو زبان کے آہنگ میں اس کا عروضی جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا ہی سے اردو میں دوہا کے لیے متبادل بحر کے طور پر مندرجہ ذیل وزن کو منتخب کر لیا گیا تھا۔
(فعلن فعلن فاعلن۔ فعلن فعلن فاع)
اس کا مصرع دو اجزا پر مشتمل ہوتا ہے اور دونوں اجزا کے مابین وقفہ دوسرے جز کے آخر میں "فاع" آنا ضروری ہے۔ اردو میں دوہے کے مصرع کے جزو اول اور جزو دوم کے یہ ارکان ہوسکتے ہیں۔
فعلن فعلن فاعلن ۔۔۔۔ فعلن فعلن فاع
فعلن فعلن فاعلن۔۔۔۔ فعلن فعل فعول
فعلن فعولن فاعلن۔۔۔ فعلن فعلن فاع
فعلن فاعلن فاعلن۔۔۔۔ فعلن فعل فعول
فعل فعولن فاعلن۔۔۔۔ فعلن فعل فعول
فعل فعولن فاعلن ۔۔۔۔ فعل فعولن فاع
فعل فاعلن فاعلن۔۔۔۔ فعل فعول فعول
فعل فاعلن فاعلن ۔۔۔۔فعل فاعلن فاع
جزو اول کے کوئی سے ارکان اور جزو دوم کے کوئی سے ارکان کا اجتماع بنا لیں۔ دوہے کے تمام 54 اوزان کی صورتیں ظاہر ہو جائیں گی۔لیکن مقبول ترین وزن کی صورت وہی ہے جو پہلے لکھ دی گئی ہے۔ اور آخر میں "فاع "کا لانا بھی لازمی حد تک پسندیدہ قرار پایا ہے۔ ہندو پاک میں عام طور پر دوہے کے وزن کا یہی چلن برتا جاتا ہے۔ اور یہی مقبول ترین ہے۔
دوہے کی ہیئت میں نعت نگاری
اس لیے ضروری ہے کہ جس طرح رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں اسی طرح نعت بھی ایک ایسی موضوعاتی صنف سخن ہے جو تمام موضوعاتی اور ہیئتی اصناف سخن کے لیے رحمت کا درجہ رکھتی ہے۔ نعت نبی نے جس صنف سخن کو اپنے اظہار کے لیے منتخب کیا وہ صنف کامیاب و سرخرو قرار پاتی ہے۔
تو قارئین فروغ نعت جہاں دوسری اصناف میں بھرپور نعت نگاری ہو رہی ہے تو "دوہا "کیوں اس سے محروم رہے؟ میرا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ دوہا ابھی تک نعت نا آشنا ہے دوہے میں نعت کہی گئی لیکن بہت کم۔ میرے علم کے مطابق ابھی تک نعتیہ دوہوں پر مشتمل الگ سے مجموعے شائع نہیں ہوئے۔ دوہوں کے مختلف مجموعوں میں نعتیہ دوہے ضرور موجود ہیں لیکن دوہا اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کو مستقلا نعت کے لیے اپنایا جائے۔ اسی مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے فروغ نعت کے تحت نعتیہ دوہے لکھوانے کی تحریک کا آغاز کیا گیا تھا۔۔ فروغ نعت کے ابتدائی شماروں میں اٹک کے مستند دوہا نگار مشتاق عاجز اور محمد خاور چودھری کے نعتیہ دوہے شائع کیے گئے جو اسی سلسلہ کی کڑی تھے۔ سوشل میڈیا پر فروغ نعت کی دیگر ایکٹیویٹیز کے ساتھ ساتھ دوہا کی صنف میں نعت لکھنے کی تحریک کا آغاز بھی کیا جارہا ہے ۔



بہت خوب شاکر صاحب ۔۔۔۔۔۔ دوہے سے متعلق مزید معلومات کے لیے میری نئی کتاب اردو دوہے کا ارتقائی سفر کو دیکھا جاسکتا ہے ،، جو دو جلدوں میں قبلہ اعجاز عبید صاحب نے اپنی آن لائن لائبریری میں شامل کی ہے ۔۔۔۔۔ لنک دے رہا ہوں
http://lib.bazmeurdu.net/
 
Top