فرحان عباس
محفلین
شاکر بھائی میرے سوال کا جواب دے دیں پلیز
در اصل دوہے کا عروضی ڈائجسٹک سسٹم اضافت والی تراکیب کو بہت جلد ہضم نہیں کرتا یا یوں کہہ لیں کہ مرکبات اور اضافتین دوہے کے مزاج کے ساتھ ہم آہنگ نہیں اس سلسلہ میں بہت مہارت کی ضرورت ہوگیاوشو بھائی ٹیگ کرنے کا شکریہ.
شاکربھائی پہلا دوہا لکھا ہے دیکھیں ٹھیک ہے؟
حق ہے تیرا راستہ . حق تیرا پیغام
سردار_ دو جہان تو ،اونچا تیرا نام
ایک مصرع کے دو اجزا ہیں ۔۔۔ ماہرین نے یہ تو وضاحت کر دی ہے کہ تمام اوزان کے جزو اول کے ساھ کسی بھی جزو ثانی کو استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن جو سوال آپ نے کیا ہے اس کی وضاحت مجھے معلوم نہ وہ سکی لیکن بھائی یہ تو ایک سیدھی سادھی بات ہے کہ دوہی تو مصرعے ہیں اور اگر کوئی شاعر دو مصرعوں میں ایک جیسے اوزان کو استعمال پر قادر نہیں تو وہ دوہا کہنے کی مشقت کیوں کرے
جس سے اعلیٰ ہوجائے، ہر ادنیٰ تخلیقجس سے نکھر جائے مری، ہر ادنی تخلیق
ایسی نعتیں لکھنے کی، اللہ دے توفیق
برادران مکرم یہاں بار بار جمیل الدین عالی کو کوٹ کیا جا رہا ہے میں پہلے ہی یہ کہہ جکا ہوں کہ جمیل الدین عالی نے دوہے کی اوزان میں موجود بسرام کو ختم کر کے رواں بہر میں دوہے لکھے تو پورے ہندوستان میں اور پاکستان میں بھی دوہے کی صنف پر نظر رکھنے والے ماہرین فن نے عالی کے دوہوں کو دوہا تسلیم کرنے سے انکار کیا کیونکہ وہ دوہا کی روایئتی بحر کے مطابق نہ تھے یہ الگ بات کہ جمیل کے دوہے کی پیروی میں دوہا کہنا نسبتا آسان اور زیادہ رواں تھا پاکستان میں تو جمیل عالی کو کچھ ہم نوا ملے اور انہوں نے ان کی پیروی میں دوہے لکھے بالآخر پاکستان کی حد تک جمیل کے دوہوں کو دوہا مان لیا گیا ۔۔ لیکن ہندوستان میں دوہے کی معروف بحر وہی ہے جس کو یوں بیاں کیا گیا ہے
قبلہ شاکر القادری صاحب۔ میں آپ کی خدمت میں کئی پارٹیشن سے قبل کے کلاسیکل دور میں لکھنے والے ہندو اور مسلم شعرا کے بیسیوں ایسے حوالے پیش کر سکتا ہوں جس میں آپ کے ارشاد کے مطابق آخری رکن فاع اور فعول کی پابندی تو کی گئی ہے لیکن ان لوگوں نے دوہوں میں بھی فاع اور فعول کی آخری ی ، یے وغیرہ بالکل ایسے ہی گرائی جیسے عمومی طور پر غزل اور نظم کے سخن اصول عروض کے تحت کیا جاتا ہے۔ میرے استاد گرامی فرماتے ہیں کہ غزل، رباعی اور دوسری اصناف سخن کی نسبت دوہا نویسی میں لچک اور تنوع ہے لہذا کلاسیکل ینڈین شعرا کے ہاں عام دوہوں اور بھجنوں میں بھی بحور کی کافی ورائٹی اور لچک نظر آتی ہے۔ آپ میرے دادا استاد ہیں تو میرا آپ سے بھی یہی سوال ہے کہ دوہوں میں فاع اور فعول کے وزن کے تحت عالی۔ گالی، سالی اور سوالی، موالی، خیالی وغیرہ کیوں نہیں باندھا جا سکتا، جبکہ ایس کی مثالیں صرف جمیل الدین عالی مرحوم کے ہی نہیں کلاسیکل ہندوستانی شعرا میں بھی عام ملتی ہیں۔ میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ رباعی کی طرح دوہے کی بھی مخصوص بحریں ہیں ( گو کہ مجھے کلاسیکل اور موجودہ شعرا میں فعلن کی سالم | بحر ہندی میں بھی ایسے دوہے ملے ہیں، جن میں آخری فعلن میں تسبیغ کر کے ساکت حرف پر اختتام ہے ) لیکن اردو سخن کا کوئی بھی قاری یا مجھ سا بچونگڑا مبتدی اس بات کو ماننے کیلیے تیار نہیں کہ دوہے میں عروض کے عمومی اصولوں کے مطابق اختتامی حروف کو گرانے کی اجازت نہیں ہے۔ میرے اس موقف کی بنیاد دوہوں کی کلاسیکل رینج سے لیکر موجودہ دور تک کے صرف پاکستانی ہی نہیں بھارتی شعرا کے حوالہ جات ہیں۔ اپنے دلائل میں یہ حوالہ جات میں اسی لڑی میں پیش کر چکا ہوں۔تیرہ گیارہ ماترا بیچ بیچ وشرام
دو مصرعوں کی شاعری دوہا جس کا نام
میں نے جو اوزان دیئے ہیں وہ ڈاکٹر گیان چند جین نے مرتب کیئے ہیں اور ڈاکٹر گیان چند جین کے مطابق اس کے آخر میں (فاع) کا آنا ضروری ہے
ہندوستان میں عمومی طور پر اس وزن کی پابندی کی جاتی ہے پاکستان میں بھی دوہے کےسینئر شعرا خواجہ دل محمد اور ڈاکٹرالیاس عشقی اور چند دیگر نے اس کی پابندی کی ہے اس کے علاوہ نئے لکھنے والوں میں ڈاکٹر طاہر سعید ہارون اور تاج قائم خانی نے بھی اسی وزن میں دوہے لکھے اور مجموعے شایع کرائے اٹک کے خاور چودھری نے بھی مکمل طور پر اسی وزن کو برتا ہے
مشتاق عاجز کے دوہے جمیل الدین عالی کے تتبع میں لکھے گئے ہیں
قبلہ شاکر صاحب مجھے یا کسی کو اس بات سے انکار نہیں ہو سکتا کہ دوہاے کے آخیر میں فاع کا آنا ضروری ہے۔ لیکن جالی، کالی، سالی، حالی، آلے، جالے، سالے، آئے، آئی وغیرہ کو غزل ، رباعی میں تو نہیں لیکن دوہے میں فاع میں باندھنا کیونکر غلط ہے؟میں نے جو اوزان دیئے ہیں وہ ڈاکٹر گیان چند جین نے مرتب کیئے ہیں اور ڈاکٹر گیان چند جین کے مطابق اس کے آخر میں (فاع) کا آنا ضروری ہے
قبلہ شاکر صاحب! میری طرف سے سوالات اور علمی حجت کو بے ادبی سمجھا گیا ہے تو بہت افسوس ہے۔ میں اپنے سینئرز کا بیحد فرمانبردار اور باادب شخص ہوں۔ میرے لئے عبید صاحب، وارث صاحب، آسی صاحب اور آپ میرے والد بزرگوار جیسے ہی محترم اساتذہ ہیں۔ اور جبکہ میرے کسی بھی مراسلے میں تلخی پیدا کرنے والی تو کوئی بات ہے ہی نہیں تو صاحب آپ کو ایسا گمان کیوںکر ہوا۔ بوجہ ء خصوصی استاد گرامی میرے دل میں آپ کا پیروں جیسا بیحد عزت و احترام ہے ۔ پھر بھی کوئی غلطی گستاخی ہو تو معذرت چاہتا ہوںمیں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر اپنی معذوری کی وجہ سے ٹائپ نہیں کر سکتا
میں معذرت خواہ ہوں اگر میں یہاں نعتیہ دوہے لکھوانے کی بجائے کسی تلخی کا باعث بنوں
بہت عمدہ جزاک اللہدل کے اندر میل ہے، کیسے لکھوں نعت
دو مصرعے بھی محال ہیں، اتنی ہے اوقات
محبت ہے آپ کی محترم.بہت عمدہ جزاک اللہ
میں نے آپ کا یہ دوہا یہااااااں پوسٹ کیاہے کیا آپپ سوش میڈیا پر موجود ہیںمحبت ہے آپ کی محترم.
پیج اوپن نہیں ہو رہا.میں نے آپ کا یہ دوہا یہااااااں پوسٹ کیاہے کیا آپپ سوش میڈیا پر موجود ہیں
جبکہ میرے استاد گرامی کہتے ہیں کہ دوہے میں بھی دوسر اصناف سخن کی طرح آخری رکن میں "ی" یا "ئیں" جیسے الفاظ کو گرانے کی منانعت نہیں ہے۔
اگر میں غزل میں نظم میں یا نعت میں سوالی کو فعول میں باندھ سکتا ہوں تو میرے صاحب ! دوہے میں کیوں نہیں ؟۔
جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دوہا میں بھی غزل اور نظم کی طرح آخری " ی، ے، ئ " گرانے کی اجازت ہے۔ گو رباعی اور دوہا کی اپنی مخصوص بحریں ہیں ۔ لیکن عروض کے بنیادی تمام اصنافِ سخن کیلیے ایک جیسے ہیں۔ بس اس کے ساتھ ہی اپنا مقدمہ ختم۔