شاکرالقادری

لائبریرین
اوشو بھائی ٹیگ کرنے کا شکریہ.
شاکربھائی پہلا دوہا لکھا ہے دیکھیں ٹھیک ہے؟

حق ہے تیرا راستہ . حق تیرا پیغام
سردار_ دو جہان تو ،اونچا تیرا نام
در اصل دوہے کا عروضی ڈائجسٹک سسٹم اضافت والی تراکیب کو بہت جلد ہضم نہیں کرتا یا یوں کہہ لیں کہ مرکبات اور اضافتین دوہے کے مزاج کے ساتھ ہم آہنگ نہیں اس سلسلہ میں بہت مہارت کی ضرورت ہوگی
دوسرے مصرع میں سردارِ دوجہان تو ۔۔۔۔ کو با آسانی === دو جگ کا سردار تو=== سے بدل کر دوہے کو موزوں کیا جا سکتا ہے
 

شاکرالقادری

لائبریرین
کاشف اختر بھائی شکریہ باقی اساتذہ بھی دیکھ پھر کچھ کرتا ہوں. :)

ایک سوال شاکر القادری بھائی الف عین سر کیا دوہے کے دونوں مصرعوں میں ایک ہی وزن رکھا جاتا ہے. یا 54 اوزان میں کسی بھی دو اوزان کو ایک دوہے میں باندھا جاسکتا ہے؟ جیسے رباعی کے چوبیس اوزان؟
ایک مصرع کے دو اجزا ہیں ۔۔۔ ماہرین نے یہ تو وضاحت کر دی ہے کہ تمام اوزان کے جزو اول کے ساھ کسی بھی جزو ثانی کو استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن جو سوال آپ نے کیا ہے اس کی وضاحت مجھے معلوم نہ وہ سکی لیکن بھائی یہ تو ایک سیدھی سادھی بات ہے کہ دوہی تو مصرعے ہیں اور اگر کوئی شاعر دو مصرعوں میں ایک جیسے اوزان کو استعمال پر قادر نہیں تو وہ دوہا کہنے کی مشقت کیوں کرے :)
 

فرحان عباس

محفلین
جس سے اعلی ہوجائے
آپکی تجویز وزن میں نہیں :) ویسے دوہا کے بارے معلومات دینے شکریہ. انشاءاللہ اس پر مشق کرونگا :)
 
برادران مکرم یہاں بار بار جمیل الدین عالی کو کوٹ کیا جا رہا ہے میں پہلے ہی یہ کہہ جکا ہوں کہ جمیل الدین عالی نے دوہے کی اوزان میں موجود بسرام کو ختم کر کے رواں بہر میں دوہے لکھے تو پورے ہندوستان میں اور پاکستان میں بھی دوہے کی صنف پر نظر رکھنے والے ماہرین فن نے عالی کے دوہوں کو دوہا تسلیم کرنے سے انکار کیا کیونکہ وہ دوہا کی روایئتی بحر کے مطابق نہ تھے یہ الگ بات کہ جمیل کے دوہے کی پیروی میں دوہا کہنا نسبتا آسان اور زیادہ رواں تھا پاکستان میں تو جمیل عالی کو کچھ ہم نوا ملے اور انہوں نے ان کی پیروی میں دوہے لکھے بالآخر پاکستان کی حد تک جمیل کے دوہوں کو دوہا مان لیا گیا ۔۔ لیکن ہندوستان میں دوہے کی معروف بحر وہی ہے جس کو یوں بیاں کیا گیا ہے
تیرہ گیارہ ماترا بیچ بیچ وشرام
دو مصرعوں کی شاعری دوہا جس کا نام
میں نے جو اوزان دیئے ہیں وہ ڈاکٹر گیان چند جین نے مرتب کیئے ہیں اور ڈاکٹر گیان چند جین کے مطابق اس کے آخر میں (فاع) کا آنا ضروری ہے
ہندوستان میں عمومی طور پر اس وزن کی پابندی کی جاتی ہے پاکستان میں بھی دوہے کےسینئر شعرا خواجہ دل محمد اور ڈاکٹرالیاس عشقی اور چند دیگر نے اس کی پابندی کی ہے اس کے علاوہ نئے لکھنے والوں میں ڈاکٹر طاہر سعید ہارون اور تاج قائم خانی نے بھی اسی وزن میں دوہے لکھے اور مجموعے شایع کرائے اٹک کے خاور چودھری نے بھی مکمل طور پر اسی وزن کو برتا ہے
مشتاق عاجز کے دوہے جمیل الدین عالی کے تتبع میں لکھے گئے ہیں
قبلہ شاکر القادری صاحب۔ میں آپ کی خدمت میں کئی پارٹیشن سے قبل کے کلاسیکل دور میں لکھنے والے ہندو اور مسلم شعرا کے بیسیوں ایسے حوالے پیش کر سکتا ہوں جس میں آپ کے ارشاد کے مطابق آخری رکن فاع اور فعول کی پابندی تو کی گئی ہے لیکن ان لوگوں نے دوہوں میں بھی فاع اور فعول کی آخری ی ، یے وغیرہ بالکل ایسے ہی گرائی جیسے عمومی طور پر غزل اور نظم کے سخن اصول عروض کے تحت کیا جاتا ہے۔ میرے استاد گرامی فرماتے ہیں کہ غزل، رباعی اور دوسری اصناف سخن کی نسبت دوہا نویسی میں لچک اور تنوع ہے لہذا کلاسیکل ینڈین شعرا کے ہاں عام دوہوں اور بھجنوں میں بھی بحور کی کافی ورائٹی اور لچک نظر آتی ہے۔ آپ میرے دادا استاد ہیں تو میرا آپ سے بھی یہی سوال ہے کہ دوہوں میں فاع اور فعول کے وزن کے تحت عالی۔ گالی، سالی اور سوالی، موالی، خیالی وغیرہ کیوں نہیں باندھا جا سکتا، جبکہ ایس کی مثالیں صرف جمیل الدین عالی مرحوم کے ہی نہیں کلاسیکل ہندوستانی شعرا میں بھی عام ملتی ہیں۔ میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ رباعی کی طرح دوہے کی بھی مخصوص بحریں ہیں ( گو کہ مجھے کلاسیکل اور موجودہ شعرا میں فعلن کی سالم | بحر ہندی میں بھی ایسے دوہے ملے ہیں، جن میں آخری فعلن میں تسبیغ کر کے ساکت حرف پر اختتام ہے ) لیکن اردو سخن کا کوئی بھی قاری یا مجھ سا بچونگڑا مبتدی اس بات کو ماننے کیلیے تیار نہیں کہ دوہے میں عروض کے عمومی اصولوں کے مطابق اختتامی حروف کو گرانے کی اجازت نہیں ہے۔ میرے اس موقف کی بنیاد دوہوں کی کلاسیکل رینج سے لیکر موجودہ دور تک کے صرف پاکستانی ہی نہیں بھارتی شعرا کے حوالہ جات ہیں۔ اپنے دلائل میں یہ حوالہ جات میں اسی لڑی میں پیش کر چکا ہوں۔
 
میں نے جو اوزان دیئے ہیں وہ ڈاکٹر گیان چند جین نے مرتب کیئے ہیں اور ڈاکٹر گیان چند جین کے مطابق اس کے آخر میں (فاع) کا آنا ضروری ہے
قبلہ شاکر صاحب مجھے یا کسی کو اس بات سے انکار نہیں ہو سکتا کہ دوہاے کے آخیر میں فاع کا آنا ضروری ہے۔ لیکن جالی، کالی، سالی، حالی، آلے، جالے، سالے، آئے، آئی وغیرہ کو غزل ، رباعی میں تو نہیں لیکن دوہے میں فاع میں باندھنا کیونکر غلط ہے؟
ریختہ کی اس سائٹ پر کلاسیکل شعرا سے لیکر آج تک کئی شعرا کے ہزاروں دوہے موجود ہیں۔ جو میرے اس عروضی موقف کی تائید کرتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
شاکر بھائی نے بالکل درست بات کہی ہے۔ جمیل عالی مرحوم کی ہی یہ بدعت تھی جسے پاکستان میں دوہا مان لیا گیا، اور میں اسے اب بھی نہیں مانتا۔ شاکر صاحب کا مضمون میں نے مکمل نہیں پڑھا تھا، اس لئے یہ صرف نظر ہو گیا کہ انہوں نے اردو افاعیل کی بھی بات کی ہے۔
ہندی میں جو دوہے ہمیشہ سسے کہے گئے ہیں، اس کے وہی ارکان ہیں، جیسے
کبرا کھڑا بجار (بازار) میں، مانگے سب کی کھیر (خیر)
نا کاہو سے دوستی نا کاہو سے بیر
ہندی کی لگھو اور دیگھر ماترا کے حساب سے دوہے کی بحر ہوتی ہے
ऽऽऽऽऽऽ।
ऽऽऽऽ।
انگریزی ایس کی شکل کی علامت دیگھر ماترا کی ہے جسے اعشاری نظام میں 2 کہا جا سکتا ہے۔
الف کی شکل کی علامت لگھو ماترا کی ہے۔اس لحاظ سے اس کی درست بحر صرف اور صرف
2، 2، 2، 2، 2، 2، 1۔۔۔۔ تیرہ ماترا
2، 2، 2، 2، 1 گیارہ ماترا
لیکن کیونکہ عالی جی نے میر کی بحر میں دوہے کہنا شروع کئے اور وہ چل نکلے پاکستان میں، تو مجھے بھی سلمان دانش کے دوہے کے آخر میں سوالی‘ بر وزن فعولن سمجھا۔ ’ی‘ گرابا یقینإ جائز ہے، لیکن یہ مجھے کب معلوم تھا کہ اسے بطور ’سوال‘ باندھا گیا ہے!! سوالی لفظ کی تو ی کہیں بھی حذف کی جائے، مجھے تو کبھی پسند نہیں آئے گی، کہ روانی بے طرح متاتر ہوتی ہے۔
معذرت کہ میری ہی الگ قسم کی رائے کی وجہ سے اس لڑی میں کچھ تلخیاں در آئیں۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر اپنی معذوری کی وجہ سے ٹائپ نہیں کر سکتا
میں معذرت خواہ ہوں اگر میں یہاں نعتیہ دوہے لکھوانے کی بجائے کسی تلخی کا باعث بنوں
 
میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر اپنی معذوری کی وجہ سے ٹائپ نہیں کر سکتا
میں معذرت خواہ ہوں اگر میں یہاں نعتیہ دوہے لکھوانے کی بجائے کسی تلخی کا باعث بنوں
قبلہ شاکر صاحب! میری طرف سے سوالات اور علمی حجت کو بے ادبی سمجھا گیا ہے تو بہت افسوس ہے۔ میں اپنے سینئرز کا بیحد فرمانبردار اور باادب شخص ہوں۔ میرے لئے عبید صاحب، وارث صاحب، آسی صاحب اور آپ میرے والد بزرگوار جیسے ہی محترم اساتذہ ہیں۔ اور جبکہ میرے کسی بھی مراسلے میں تلخی پیدا کرنے والی تو کوئی بات ہے ہی نہیں تو صاحب آپ کو ایسا گمان کیوںکر ہوا۔ بوجہ ء خصوصی استاد گرامی میرے دل میں آپ کا پیروں جیسا بیحد عزت و احترام ہے ۔ پھر بھی کوئی غلطی گستاخی ہو تو معذرت چاہتا ہوں
 

شاکرالقادری

لائبریرین
نہیں ایسی کوئی بات نہیں آپ کی کسی بات کا میں نے کوئی برا نہیں مانامعذرت خواہی کی
ضرورت نہیں اللہ آپ کو خوش رکھے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جبکہ میرے استاد گرامی کہتے ہیں کہ دوہے میں بھی دوسر اصناف سخن کی طرح آخری رکن میں "ی" یا "ئیں" جیسے الفاظ کو گرانے کی منانعت نہیں ہے۔

اگر میں غزل میں نظم میں یا نعت میں سوالی کو فعول میں باندھ سکتا ہوں تو میرے صاحب ! دوہے میں کیوں نہیں ؟۔

جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دوہا میں بھی غزل اور نظم کی طرح آخری " ی، ے، ئ " گرانے کی اجازت ہے۔ گو رباعی اور دوہا کی اپنی مخصوص بحریں ہیں ۔ لیکن عروض کے بنیادی تمام اصنافِ سخن کیلیے ایک جیسے ہیں۔ بس اس کے ساتھ ہی اپنا مقدمہ ختم۔

سلمان دانش بھائی دوہے کے اوزان پر اس گفتگو میں آپ کے محولہ بالا جملوں نے مجھے یہ اس دخل درمعقولات پر مجبور کردیا ۔ :)
بھائی یہ بات تو درست ہے کہ جو مصرع ئے ، ئی یا ؤ پر ختم ہوتا ہے اس میں ہمزہ کی حرکت کو حسبِ ضرورت گرانا اساتذہ نے روا رکھا ہے لیکن یہ بات درست نہیں کہ مصرع کے آخر سےایسی ی یا ے بھی گرائی جاسکتی ہے جو کسی لفظ کا آخری حرف ہو ۔ توضیح اس کی یہ ہے کہ ہمزہ (ء) دراصل کوئی حرف نہیں ہے ۔ نہ تو یہ اردو حروفِ تہجی کا باقاعدہ حصہ ہے اور نہ ہی اس سے کوئی لفظ شروع ہوتا ہے ۔ یہ دراصل ایک علامت ہے جو واؤ ،ے اور ی سے قبل آکران حروف کی آواز کو لمبا کردیتی ہے ۔ مثلا آؤ ، لاؤ ، آئی ، لائی، آئے، لائے وغیرہ ۔ ( ان الفاظ کی مغنونہ صورتوں یعنی آؤں ، لاؤں ، آئیں ، لائیں وغیرہ کو بھی اسی پر قیاس کیا جاتا ہے۔)۔ یعنی ہمزہ ان حروف پر دراصل زیر زبر پیش کی حرکت کا قائمقام ہوتا ہے ۔ اس لئے آئے جائےکھائے (یا آئیں ، جائیں ، کھائیں ) وغیرہ کی تقطیع کرتے وقت ہمزہ کو گرا کر ی یا ے کو ساکن کے طور پر برقرار رکھا جاتا ہے ۔ چنانچہ "جائے" کی تقطیع جاے اور آئی کی تقطیع آی بروزن فاع حسبِ ضرورت جائز ہے ۔ (ایک حرفِ ساکن مصرع کے آخر میں زیادہ کرنا تقریبا ہر بحر میں جائز اور عام مستعمل ہے ۔) ہمزہ گرانے کی کچھ مثالیں یہ ہیں۔
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے ۔ مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے - کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے (غالب)
یاقوت کوئی اِن کو کہے ہے ، کوئی گلبرگ ۔ ٹک ہونٹ ہلا تو بھی کہ اک بات ٹھہر جائے
مت بیٹھ بہت عشق کے آزردہ دلوں میں ۔ نالہ کسو مظلوم کا تاثیر نہ کرجائے (میر)
لذتِ عشق الٰہی مٹ جائے - درد ارمان ہوا جاتا ہے (داغ)
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائےئے ۔ ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائےئے (اقبال)

لیکن انہی اساتذہ نے مصرع کے آخر میں حسبِ مرضی ہمزہ کو برقرار بھی رکھا ہے ۔ مثالیں دیکھئے۔

لطفِ نظّارہء قاتل دمِ بسمل آئے - جان جائے تو بلاسے، پہ کہیں دل آئے (غالب)
زخموں پہ زخم جھیلے ، داغوں پہ داغ کھائے ۔ یک قطرہ خونِ دل نے کیا کیا ستم اٹھائے (میر تقی میر)
داغ سے کہہ دو اب نہ گھبرائے - کام اپنا بنا ہوا جانے
بہا اے چشمِ تر ایسا بھی اک آنسو ندامت کا - جسے دامن میں لینے رحمتِ پروردگار آئے (داغ)

چنانچہ ہمزہ کو حسبِ مرضِی رکھا یا گرایا جاسکتا ہے ۔ لیکن ایسا ممکن نہیں کہ مصرع کے آخر میں بغیر ہمزہ کے آنے والی ی یا ے کو حسبِ ضرورت گرادیا جائے ۔ مثلا سوالی، عالی، سواری ، یاری ، ہمارے ، کنارے ، حوالے کے الفاظ اگر مصرع کے آخر میں آئیں تو ان کی یائے معروف یا یائے مجہول ہمیشہ تقطیع میں آئے گی ۔ گرائی نہیں جاسکتی ۔ مجھے دوہے کے اوزان کا کچھ زیادہ علم نہیں لیکن آپ کا یہ سوال کہ " ی اور ے کو دیگر اصنافِ سخن میں گرایا جاسکتا ہے تو دوہے میں کیوں نہیں " غلط فہمی پر مبنی معلوم ہوتا ہے ۔ میرے ناقص علم کے مطابق دیگر اصنافِ سخن میں ایسا نہیں ہوتا ۔ آپ کا دعوی ہے کہ ایسی ہزاروں مثالیں آپ کی نظر سے گزری ہیں ۔ لیکن اتفاق سے میرا مطالعہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔ آج تک ایسی کوئی نظیر میری نظر سے نہیں گزری ۔ سلمان بھائی ، براہِ کرم اس سلسلے میں چند معتبر مثالیں اگر دکھا سکیں تو میں اپنی کم علمی دور کرنے پر آپ کا ممنون رہوں گا ۔ :):):)
 
آخری تدوین:

فرحان عباس

محفلین
میرے خیال میں شاید دوہے کے 54 اوزان جو @شاکرالقادی بھائی نے دیئے ہیں انکو مکس کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس مثال میں یہی کیا گیا ہے.
ﺗﯿﺮﮦ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﻣﺎﺗﺮﺍ، ﺑﯿﭻ ﺑﯿﭻ ﻭﺷﺮﺍﻡ
فعل فعولن فاعلن، فعل فاعلن فاع
ﺩﻭ ﻣﺼﺮﻋﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ، ﺩﻭﮬﺎ جسکا نام
فعلن فعلن فاعلن، فعلن فعلن فاع
ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ
 
Top