بہت شکریہ ٹیگ کرنے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ میری پہلی کوشش ہے ۔۔ اس کو دیکھئے اگر درست ہوا تو اور لکھوں گی ان شاء اللہ
میں جوگن سرکار کی،نیچی میری ذات
وصف ان کا کیسےہوبیاں،میری کیا اوقات
نور
ایک اور کاوش نظر فرمائیں ۔۔۔
احمد فلک کا نور ہیں ، چاند سبھی تاروں کے
تقسیم رحمت ہوتی ہے ان کے اشاروں سے
قبلہ عبید صاحب۔ میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں کہ دوہا کیلئے تیرہ+ گیارہ کا کلاسیکل وزن اور فعلن کی بحر سب مسائل ہائے فیثا غورثان کا بہترین حل ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ جن صاحبوں کو فعلن کی بظاہر آسان دکھنے والی اصل میں اوکھی بحر پر ہاتھ صاف ہو جائے ان کیلیے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن اس بحر کا پورا ادراک نہ رکھنے والے اٹکم اٹکی کا شکار رہتے ہیں۔فعل فعولن اور فعلن فعلن کو اکثر ادل کر دیا جاتا ہے۔ فراز حامدی کا دوہا فعلن فعلن میں بھی تقطیع ہوتا ہے۔
تیرہ۔۔ گیارہ۔۔ ماترا
فعلن فعلن فاعلن
بیچ ۔۔۔ بیچ وش۔۔ رام
فعل فعولن فاع
اس سے بہتر ہے کہ اعشاری نظام میں تقطیع کی جائے۔
قبلہ ظہیر صاحب ۔ آپ نے مجھ کم علم کی مشکل آسان کر دی ہے آپ نے ہمزہ والی ی اور ے گرانے کی جو مثالیں دی ہیں یہی بات میں بار بار عرض کر رہا ہوں کہ "ئے" ، ئی ، "ئیں" کو بحر میں لفظ کے مقامی دستیاب وزن کے مطابق ایسے ہی گرایا بھی جا سکتا ہے۔ ( یعنی آئے، جائے، جائیں، جالی، تالے کو اگر 2۔2 دستیاب ہو تو اس میں اور اگر 2۔1 دستیاب ہو تو اس میں باندھا جا سکتا ہے۔سلمان دانش بھائی دوہے کے اوزان پر اس گفتگو میں آپ کے محولہ بالا جملوں نے مجھے یہ اس دخل درمعقولات پر مجبور کردیا ۔
بھائی یہ بات تو درست ہے کہ جو مصرع ئے ، ئی یا ؤ پر ختم ہوتا ہے اس میں ہمزہ کی حرکت کو حسبِ ضرورت گرانا اساتذہ نے روا رکھا ہے لیکن یہ بات درست نہیں کہ مصرع کے آخر سےایسی ی یا ے بھی گرائی جاسکتی ہے جو کسی لفظ کا آخری حرف ہو ۔ توضیح اس کی یہ ہے کہ ہمزہ (ء) دراصل کوئی حرف نہیں ہے ۔ نہ تو یہ اردو حروفِ تہجی کا باقاعدہ حصہ ہے اور نہ ہی اس سے کوئی لفظ شروع ہوتا ہے ۔ یہ دراصل ایک علامت ہے جو واؤ ،ے اور ی سے قبل آکران حروف کی آواز کو لمبا کردیتی ہے ۔ مثلا آؤ ، لاؤ ، آئی ، لائی، آئے، لائے وغیرہ ۔ ( ان الفاظ کی مغنونہ صورتوں یعنی آؤں ، لاؤں ، آئیں ، لائیں وغیرہ کو بھی اسی پر قیاس کیا جاتا ہے۔)۔ یعنی ہمزہ ان حروف پر دراصل زیر زبر پیش کی حرکت کا قائمقام ہوتا ہے ۔ اس لئے آئے جائےکھائے (یا آئیں ، جائیں ، کھائیں ) وغیرہ کی تقطیع کرتے وقت ہمزہ کو گرا کر ی یا ے کو ساکن کے طور پر برقرار رکھا جاتا ہے ۔ چنانچہ "جائے" کی تقطیع جاے اور آئی کی تقطیع آی بروزن فاع حسبِ ضرورت جائز ہے ۔ (ایک حرفِ ساکن مصرع کے آخر میں زیادہ کرنا تقریبا ہر بحر میں جائز اور عام مستعمل ہے ۔) ہمزہ گرانے کی کچھ مثالیں یہ ہیں۔
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے ۔ مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے - کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے (غالب)
یاقوت کوئی اِن کو کہے ہے ، کوئی گلبرگ ۔ ٹک ہونٹ ہلا تو بھی کہ اک بات ٹھہر جائے
مت بیٹھ بہت عشق کے آزردہ دلوں میں ۔ نالہ کسو مظلوم کا تاثیر نہ کرجائے (میر)
لذتِ عشق الٰہی مٹ جائے - درد ارمان ہوا جاتا ہے (داغ)
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائےئے ۔ ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائےئے (اقبال)
لیکن انہی اساتذہ نے مصرع کے آخر میں حسبِ مرضی ہمزہ کو برقرار بھی رکھا ہے ۔ مثالیں دیکھئے۔
لطفِ نظّارہء قاتل دمِ بسمل آئے - جان جائے تو بلاسے، پہ کہیں دل آئے (غالب)
زخموں پہ زخم جھیلے ، داغوں پہ داغ کھائے ۔ یک قطرہ خونِ دل نے کیا کیا ستم اٹھائے (میر تقی میر)
داغ سے کہہ دو اب نہ گھبرائے - کام اپنا بنا ہوا جانے
بہا اے چشمِ تر ایسا بھی اک آنسو ندامت کا - جسے دامن میں لینے رحمتِ پروردگار آئے (داغ)
چنانچہ ہمزہ کو حسبِ مرضِی رکھا یا گرایا جاسکتا ہے ۔ لیکن ایسا ممکن نہیں کہ مصرع کے آخر میں بغیر ہمزہ کے آنے والی ی یا ے کو حسبِ ضرورت گرادیا جائے ۔ مثلا سوالی، عالی، سواری ، یاری ، ہمارے ، کنارے ، حوالے کے الفاظ اگر مصرع کے آخر میں آئیں تو ان کی یائے معروف یا یائے مجہول ہمیشہ تقطیع میں آئے گی ۔ گرائی نہیں جاسکتی ۔ مجھے دوہے کے اوزان کا کچھ زیادہ علم نہیں لیکن آپ کا یہ سوال کہ " ی اور ے کو دیگر اصنافِ سخن میں گرایا جاسکتا ہے تو دوہے میں کیوں نہیں " غلط فہمی پر مبنی معلوم ہوتا ہے ۔ میرے ناقص علم کے مطابق دیگر اصنافِ سخن میں ایسا نہیں ہوتا ۔ آپ کا دعوی ہے کہ ایسی ہزاروں مثالیں آپ کی نظر سے گزری ہیں ۔ لیکن اتفاق سے میرا مطالعہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔ آج تک ایسی کوئی نظیر میری نظر سے نہیں گزری ۔ سلمان بھائی ، براہِ کرم اس سلسلے میں چند معتبر مثالیں اگر دکھا سکیں تو میں اپنی کم علمی دور کرنے پر آپ کا ممنون رہوں گا ۔
زیدی صاحب یہ لائینز آپ نے اپنے مطابق کس وزن پر باندھی ہیں؟ایک کوشش ....توجہ کا طالب الف عین شاکرالقادری سلمان دانش جی صاحبان
فخر بنی جو رب کا وہ نبی کی ذات
ہیں جانشین جنکے مولائے کائنات
- - - - - - - - - - - - - - - -
ہے رب ذوالجلال تیرا ثنا خوان
نعتیں ہیں آیتیں گواہ ہے یہ قران
بخدا ...نہیں معلوم ...( بس عقیدتی وژن سمجھ لیں ) . . . تھوڑی رہنمائی کیجیےزیدی صاحب یہ لائینز آپ نے اپنے مطابق کس وزن پر باندھی ہیں؟
شاکرالقادری ، الف عین محترم ان کو دیکھ لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں لکھنا چاہتی ہوں اگر مناسب لگے تو بتایے تاکہ میں اور لکھوں ۔
صاحب میں آپ کے حکم پر اس کی ممکنہ صورتیں بنانے کی کاوش کرتا ہوںبخدا ...نہیں معلوم ...( بس عقیدتی وژن سمجھ لیں ) . . . تھوڑی رہنمائی کیجیے
قبلہ ظہیر صاحب ۔ آپ نے مجھ کم علم کی مشکل آسان کر دی ہے آپ نے ہمزہ والی ی اور ے گرانے کی جو مثالیں دی ہیں یہی بات میں بار بار عرض کر رہا ہوں کہ "ئے" ، ئی ، "ئیں" کو بحر میں لفظ کے مقامی دستیاب وزن کے مطابق ایسے ہی گرایا بھی جا سکتا ہے۔ ( یعنی آئے، جائے، جائیں، جالی، تالے کو اگر 2۔2 دستیاب ہو تو اس میں اور اگر 2۔1 دستیاب ہو تو اس میں باندھا جا سکتا ہے۔
میرے موقف کی بہترین مثال آپ کے مراسلے میں دیا گیا غالب کا یہ شعر ہے جس میں ایک ہائے ۔2۔1 اور دوسرا 2۔2 میں باندھا گیا ہے۔
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے (2۔1) ہائے (1۔2)
جو میرا موقف ہے اس کی بہترین دلیل آپ کی ہی دی ہوئی خدائے سخن میر تقی کا مصرع ہے
نالہ کسو مظلوم کا تاثیر نہ کرجائے ( یہاں ئے کی ے گرائی گئی ہے۔ یعنی آخری دو حرفی ئے کو ے گرا کر یک حرفی باندھا گیا ہے) ۔ میرا موقف ہے کہ غزل میں برتا گیا بعین یہی اصول دوہا میں بھی درست ہو گا
دوسری علامہ صاحب کی مثال میں آخری لفظ جائے کی حتی کہ تسبیغ سے حاصل کردہ ئے کا "ے" بھی گرایا گیا ہے۔
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے ( یہی اور ایسے ہی آخری حرف گرایا جانا ہی میرا موقف ہے جسے آپ علمی سکالرز حضرات نہیں سمجھ پا رہے)
میں نہیں جانتا کہ اس اسے گرانا کہتے ہیں یا ساقط کرنا کہتے ہیں کیونکہ میں عروض دان نہیں لہذا آپ جیسے سخنی سکالرز حضرات جن اصلاحات کی زبان میں بات کرتے ہیں وہ نہیں جانتا۔
میں سمجھ نہیں پایا۔پھر بھی آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ
"لیکن یہ بات درست نہیں کہ مصرع کے آخر سےایسی ی یا ے بھی گرائی جاسکتی ہے جو کسی لفظ کا آخری حرف ہو"
ظہیر صاحب آپ گوگل پر دوہا سرچ کریں کلاسیکل انڈین سے لیکر جدید دور تک ہزاروں دوہے سامنے آئیں گے جن میں سینکڑوں ایسے نظر آئیں گے جن میں اقبال کی اس مثال کی طرح ئے ، ئی یک حرفی بندھا ملے گا یعنی اس کی ی یا ے گرائی گئی ہو گی۔
اس سے جڑا میرا موقف یہ بھی ہے کہ ضروری نہیں دوہا کا آخری لفظ بشکل مال، سال، آپ، دھوپ جیسا آخری ساکت حرف سے ہو، بلکہ وہ آخری لفظ آئی، جائے، مالی، سوالی، جالی کی شکل میں ایسے ئی ، ئے، ئیں اور لی یا سی پر بھی ختم ہو سکتا ہے جس کے آخری لی، ئے، ئی کو 1 کے وزن پر باندھا گیا ہو۔ ( بالکل ایسے ہی جیسے میر اور اقبال کے مصرعوں میں)
قبلہ ظہیر صاحب میرا خیال ہے کہ جو بات میں کہہ رہا ہوں وہی آپ کا بھی موقف ہے، شاید میرا طریقہء استفسار آپ اساتذہ کی عروضی ٹرمینالوجی سے نابلد ہے۔ اور دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں ایک چوبیس سالہ بچونگڑا مگر بہر حال میں با ادب اور با تمیز ہوں، سینیئر اساتذہ کا باپ کی طرح احترام کرنا ہی میری تربیت اور لہو میں ہے، علم کا پیاسا اور جستجوئے سخن رکھتا ہوں، لہذا میرے کسی علمی استفسار اور حجت کو بے ادبی نہ سمجھا جائے۔ مجھے بیحد دکھ ہوا کہ کچھ بیحد معزز سینئر حضرات کے الفاظ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ میری علمی استفساروں سے کوئی بدمزگی یا تلخی پیدا ہو رہی ہے۔ میرے بارے ایسا سوچنا بڑی تکلیف دہ بدگمانی ہے۔
ہسدے وسدے روو۔ شکریہ
قبلہ ظہیر صاحب۔سلمان دانش بھائی ، یا تو آپ نے میرا مراسلہ پورا نہیں پڑھا یا پھر آپ اسے سمجھ نہیں سکے ، یا پھر میرے سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے ۔ بھائی میں آپ کے موقف کی تائید کہاں کر رہا ہوں ۔ میں تو آپ کے موقف کی تردید کررہا ہوں۔ میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ عالی اور سوالی کے آخر سے ی گرانا قطعی طور پر غلط ہے ۔ ایسا آج تک کسی نے نہیں کیا ۔
آئے ، جائے ، لائے وغیرہ کو مصرع کے آخر میں فاع کے وزن پر باندھنا تو عروضی طور پر مسلم ہے اور اسی کی وضاحت اور مثالیں میں نے اپنے مراسلے میں پیش کی تھیں ۔ اس بات پر تو ہم سب متفق ہیں ۔ لیکن میرا سوال تو یہ ہے کہ عالی اور سوالی کی ی کس اصول کے تحت گرارہے ہیں آپ؟؟؟؟؟؟ آپ جائے ، لائے ، کھائی وغیرہ کو عالی ، سوالی، ہمارے، کنارے وغیرہ سے خلط ملط نہ کریں ۔ جیسا کہ میں نے وضاحت سے عرض کیا یہ دو بالکل مختلف باتین ہیں ۔ مصرع کے آخر میں جائے ، لائے کو تو آپ فاع تقطیع کرسکتے ہیں لیکن عالی اور مالی کو فاع تقطیع ہرگز نہیں کرسکتے ۔
میں نے اپنے مراسلے میں آپ کے تین اقتباسات شامل کئے تھے ۔ میرا تمام مراسلہ آپ کے انہی دعاوی کے رد میں ہے ۔ آپ کہتے ہیں کہ تمام اصنافِ سخن میں ی اور ے کو گرایا جاتا ہے اور ایسا ہوتا آیا ہے ۔ چنانچہ اسی اصول کے تحت آپ اپنے دوہے میں سوالی اور عالی کی ی گرارہے ہیں ۔ جبکہ میں کہہ رہا ہوں کہ ایسا ممکن ہی نہیں ۔ ایسا کوئی عروضی اصول سرے سے موجود ہی نہیں ۔ دانش بھائی ، میرے پچھلے مراسلے کا آخری پیراگراف پھر پڑھ لیجیئے۔
میرے بھائی ، میری گزارش آپ سے صرف اتنی ہے کہ ی اور ے گرانے کی چند مثالیں عطا فرمائیں ۔ مجھے یقین ہے کہ ایسی کوئی مثال آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔
عزت مآب فرحان عباس صاحب !!!!!!!!!!! حضور عالیٰ پہلے خود سے چھوٹوں سے گفتگو کے آداب سیکھ کر آئیں۔ یہ عجیب بندے کیا طرزِ کلام ہے؟ کیا میں کبھی کسی بڑے چھوٹے سے ایسے مخاطب ہوا ہوں؟ صاحب یہ دنیائے ادب ہے گندم اور چنے کی غلہ منڈی نہیں ۔ یہ ادب کی دنیا ، بے ادب لوگوں کیلئے نہیں ہے۔@ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺩﺍﻧﺶ ﺟﯽ بھائی آپ عجیب بندے ہیں آپ سے چند مثالیں مانگیں ہیں کہ جس میں مصرعے کے آخر سوالی،جالی، پیالی وغیرہ کی ی گرائی ہو ئے، ئی کے سوا. آپ بجائے دو مثالیں دینے کے.سوال چنا جواب گندم.
آپ شارٹ کٹ دو اشعار لکھیں جس کے آخر میں سوالی کی ی گرائی ہو.
سلمان بھائی ۔ میری گزارش ہے کہ نظر انداز کریں۔ بھائی لوگ آپ کی طرف سے علمی تکرار کو تلخی کا باعث سمجھتے ہیں۔ بحث و مباحثہ سے کنارہ کش لکھنے پر توجہ دیں۔عزت مآب فرحان عباس صاحب !!!!!!!!!!! حضور عالیٰ پہلے خود سے چھوٹوں سے گفتگو کے آداب سیکھ کر آئیں۔ یہ عجیب بندے کیا طرزِ کلام ہے؟ کیا میں کبھی کسی بڑے چھوٹے سے ایسے مخاطب ہوا ہوں؟ صاحب یہ دنیائے ادب ہے گندم اور چنے کی غلہ منڈی نہیں ۔ یہ ادب کی دنیا ، بے ادب لوگوں کیلئے نہیں ہے۔
اگر آپ کو میرے دلائل سمجھ میں نہیں آئے تو بتائیں کہ کیا ء کے ساتھ ی کھوئے والی ملائی والی ہے جو گرائی جا سکتی ہے جو لام کے ساتھ سوکھی روکھی ہے جو نہیں گرائی جا سکتی ہے ؟ جس اصول کے تحت ء کے ساتھ بندھی ی گرائی جا سکتی ہے اسی اصول کے تحت لام قاف میم کے ساتھ جڑی ی بھی گرائی جا سکتی ہے۔ کہاں لکھا ہے کس کتاب میں لکھا ہے کہ ہر حرف کیلئے الگ اصولِ عروض ہیں؟ ی جیسے مصرع کے درمیاں میں گرائی جا سکتی ہے ویسے ہی آخیر میں بھی گرائی جا سکتی ہے۔، سوالی موالی خیالی وغیرہ کو کسی مصرع کے درمیان میں فعولن کی بجائے فعول کے وزن پر باندھا جا سکتا ہے تو مصرع کے آخیر میں اسی فعول میں کیوں نہیں باندھا جا سکتا؟ الفاظ کا وزن تو ہر مقام پر ایک جیسا ہی ہے۔ اس علمی اسفسار کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے؟
فرحان بھائی علمی انداز سے بات کیجے۔ کوئی بڑا ہو یا چھوٹا ، کسی بھی شخص پر پرسنل کوئی اٹیک اچھی بات نہیں ہوتی۔@ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺩﺍﻧﺶ ﺟﯽ آپ کتنے باادب ہو وہ پتا چل ہی رہا ہے. اور آپ مجھ سے چھوٹے کیسے ہوگئے؟
آپ جہاں لاکھوں مثالیں دینے کی بات کررہے تھے.
اب تک آپ ایک صرف ایک مثال بھی نہ دے سکے.
اس سے آپ کے قول فعل کا بخوبی اندازہ ہوگیا.
قبلہ ظہیر صاحب۔
آپ بزرگ ہیں اور میں باادب برخودار ہوں لیکن میں ان ایسے کلمات کو ایک غیر ادبی طنز سمجھتا ہوں جو کم از کم اہلِ علم کا وطیرہ نہیں ہونی چاہئے۔
یا پھر میرے سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے ۔×××× نا صاحب نا یہ غلط بات ہے ، ایسا رویہ کم علم لوگوں کا ہوا کرتا صاحب!!!!
چلیں علم الریاضی کی زبان میں بات کر لیتے ہیں۔
ئے = ء + ے ۔۔۔۔ یہاں ے گرائی جا سکتی ہے
ئی = ء + ی ۔۔۔۔ یہاں ی گرائی جا سکتی ہے
لی= ل+ی ۔۔۔ لیکن یہاں اصول کیونکر مختلف ہو گیا؟ یہاں کیوں ی نہیں گرائی جا سکتی ہے۔ ء کے ساتھ ی گرانے کا اصول جائز ہے مگر دوسرے ل ، م اور ج ہو تو یہاں ی سے سوتیلی ماں جیسا سلوک ہو رہا ہے جبکہ ء بھی ایک مکمل حرف تہجی ہے اور ل میم ج بھی حروف تہجی ہیں۔ ء کی موجودگی میں 2+2-1=3 ہو سکتے ہیں مگر ل یا کسی اور حرف تہجی کی صورت میں 2+2-1= 4 ؟
صاحب آپ شاعری کی 4 کتابیں لکھ چکے ہیں علمی بات کریں ۔ علم اور کسی بھی منطق سے دلائل لائیں۔ میں علم کے حصول کیلیے تشنہ لب ہوں اور سخن کی دس کتابیں شائع کرنے کا ارادہ لیکر شاعری کے اس میدان میں اترا ہوں۔مجھے استادوں کی طرح سکھائیں
صرف میں نہیں پوری ادبی دنیا قبلہ عبید صاحب جیسے بزرگ ادبی سکالر کو ایک اتھارٹی مانتی ہے ۔اور انہوں نے بھی اسے غلط قرار نہیں دیا ، ہاں ان کے مطابق ایسا کرنے سے روانی ضرور متاثر ہوتی ہے یا ناگوار گزرتا ہے۔عبید صاحب کی رائے کے بعد صرف استاد آسی صاحب اور وارث صاحب ہی وہ ادبی عالم ہیں جن کی علمی رائے کو مقدم اور قابل قبول سمجھوں گا۔ کیوں کہ یہی وہ علم بانٹنے والے وہ سکالر لوگ ہیں جنہوں نے اردو ادب اور سخن کے علوم میں وہ بے لوث اور انتھک کام کیا ہے جس سے آنے والی کئی نسلیں فیض یاب ہوتی رہیں گی۔ اور علم کی دولت سے صدقہ جاریہ کا سلسلہ شروع کئے ان جیسے لوگوں ہی کے علم سے فیض یاب ہو کر میں بھی کرنل محمد خان، کیپٹن فیض احمد فیض، کرنل ضمیر جعفری اور بریگیڈئر صدیق سالک جیسے ہم ادارہ سخنوروں کو اپنا آئیڈیل بنا کر اس سلمان اکبر دانش تک پہنچنا چاہتا ہوں، جسے دنیا انہیں عظیم سخنوروں کی طرح یاد رکھے۔ مگر آج کے سخن وروں کا احوال دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے۔ حقیقی علم کی تو شدید قلت ہے مگر، علمی تکبر، پسند نا پسند کی گروپنگ، ایک دوجے کی ٹانگیں کھینچا اور انجمن ستائش باہمی کے تحت واہ واہ کے علاوہ اور ککھ نہیں اس سخنور برادری میں۔ میں ان سوال و جواب کی علمی بحثوں کو والسلام کہہ کر صرف لکھنے پر توجہ دوں تو بہتر ہے، ممکن ہے یہ میرا آخری علمی تکراری استفساری نوٹ ہو۔ لہذا یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ اب ادبی اور قلمی دنیا میں سید شاکر القادری جیسے لوگ بھی کم ہی رہ گئے ہیں، جو بھی کر رہے ہیں، نمبر ٹانکنے کیلیے نہیں بلکہ نیک اور اعلی مقاصد کے تحت کر رہے ہیں۔ اللہ انہیں لمبی عمر اور صحت عطا فرماویں
کچھ برا لگا تو معافی صاحب۔
رب راکھا
قرآن شریف میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ دونوں نام (بطور اسمِ عَلَم) آئے ہیں۔ یہاں ترجیح؟ بہرحال، وہ آپ کا مؤقف ہے۔ والسلام ۔اگر کسی بحر میں لفظ "محمد" کیلیے آسانی سے وزن دستیاب ہے تو احمد کی بجائے اسی نام نامی کو پہلی ترجیح دینی چاہیے۔