نور وجدان
لائبریرین
انسان اس دنیا میں تین قسم کے ہیں : ایک وہ جو مستقبل بنانے کا inborn,innate ٹیلنٹ رکھتے ہوئے کم سنی میں ہی اپنا نام تاریخ کے صفحات پر روشن الفاظ میں لکھ جاتے ہیں ، دوسری قسم کے انسان ساری زندگی ناکام رہتے ہیں ۔ تیسری قسم کے لوگ اپنی ناکامیوں سے منزل تراش لیتے ہیں ۔ میرے سامنے اس کی مثال Steve jobs or Bill gates کی طرح ہے ۔ سٹیو جب 27 سال کا تھا وہ اپنی کمپنی سے نکال دیا گیا اور bankrupt ہوگیا۔ ناجانے وہ کیسے کامیاب ہوگیا ۔ Arfa Kareem کی مثال میرے سامنے ہے ۔ اس قسم کے لوگ جو کم عمری میں ہی اپنی خواہش کی تعبیر پالیتے ہیں ۔ یہ باتیں میں نے ایک ڈاکومینٹری Secret دیکھتے ہوئے محسوس کیں ۔ اس ڈاکومینٹری میں فزکس کے دو قوانین : law of conversation and law of gravitational attraction کو انسان کی خواہشات کی تعبیر کا ذریعہ بتایا گیا ہے ۔ ہماری سوچ اور ارادے potential رکھتے ہیں ۔ اس سوچ کو kinetic کس طرح بنایا جائے کہ سوچ و ارادے بذات خود energy ہیں ۔ ہماری مخفی قوت کی بیداری کا انحصار کسی طاقت کے حصول ہر مبنی نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار Quantum theory of photons پر ہے ۔ آئن سٹائن نے مخفی سوچ کو تحریک تصور یا visualize کرکے دی ۔ اس کے تخییل نے وجدان یعنی intuition کو بیدار کردیا ۔ اپنے وجدان پر کام کرتے ہوئے دنیا بنانے والے لوگ بہت کم ہوتے ہیں ۔ دنیا میں کامیابی کی اساس وجدانی صلاحیت ہے جو انسان میں ecstasy یعنی وجدانی سرور پیدا ہونے کے بعد ایک اشارہ دیتی ہے ۔ دنیا میں سب مخفی چیزوں کی دریافت اس وجدان یا لا شعور کی طاقت پر مبنی ہے ۔ اصل مسئلہ خود کی خواہشات کی پہچان ہے ۔ جو انسان کم عمری میں اپنی خواہشات کی پہچان کرلیتے ہیں وہ اپنی خوشی پالیتے ہیں ۔ کچھ لوگ ٹھوکر کھا کر پہچان لیتے ہیں اور بعض تا عمر نہیں پہچان سکتے ۔
زندگی میں ہمارا مقصد ایک نہیں ہوتا ہے ۔ ہم زندگی کے ہر انچ کی خوشی کو سموچنا چاہتے ہیں ۔ یعنی کہ ہم خوش رہنا چاہتے ہیں ۔ یا ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں ۔ ہمارا مقصد کتنا سچا ہوتا ہے اس کا انحصار ہماری کامیابی پر ہوتا ہے ۔ ایک زخموں سے چور اور معذور انسان جو صرف دیکھنے کی حس رکھتا تھا اس نے اپنی ایک اس حس کے ذریعے دماغ کو سگنل بھیجے اور دماغ نے یہی اشارے دعا کی صورت اللہ کودیے ۔ اور بار بار فضاء میں سوچ کی انرجی سے ارتعاش پیدا ہو تو بہت سے ذرات متحرک ہو کر ایک قوت بن جاتے ہیں ۔ یہ قوت انسان کو تحریک دیتی ہے اور وہ ٹھیک ہوجاتا ہے ۔ انسان پیسے کمانا چاہتا ہے ، طاقت کا حصول چاہتا ہے یا کچھ بھی وہ اپنے من میں جھانک کر حاصل کرسکتا ہے ۔ اپنی خوشی کو انسان جب تک محسوس نہیں کرسکتا ہے تب تک وہ خوشی حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے اور یوں منزل اس سے دور رہتی ہے ۔ ایک سرمایہ کار سوچتا ہے کہ وہ سال میں 50 ملین کماناچاہتا ہے ، وہ نہیں جانتا اس کو کیسے کمانا ہے ، اور اس کے خواب دیکھتے دیکھتے اس کو ایک اشارہ مل جاتا ہے یا قسمت اس کے دروازے پر کھٹکھٹاتی ہے ۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ سیڑھی کے پہلے قدمچے پر قدم رکھتا ہے اور کامیاب ہوجانے کے بعد سوچتا ہے کہ اس کا نصب العین کس حد تک تکمیل پاگیا ہے ۔
اس کی مثال مجھے کیٹس کی شاعری میں ملتی ہے ۔ کیٹس رومانوی دور کی پیداوار ہوتے ہوئے بھی کلاسیکل شعراء میں شمار کیا جاتا ہے ۔ کیٹس نے اپنی پانچ حسیات کو اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہوئے اپنے وجدان کو اٹھان دے کر خوشی حاصل کی ۔ لکھاری ، شاعر ، مصور ، سنگ تراش عام انسانوں کی نسبت بہت خوش رہتے ہیں یا اپنے غم غلط کرسکتے ہیں کیونکہ وہ انتقال کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ سوچ کا انتقال دراصل ایک کشش پیدا کرتا ہے ۔ ایک مثال سگریٹ نوشی کے اشتہار کی دوں کہ ان کو پینے پر خبردار کیا جاتا ہے ۔ لوگ اس کو دیکھیں گے اور اس کی طرف زیادہ مائل ہوں گے ۔ انسانی سائیکالوجی ان پیغامات کو قبول کرتی ہے اور کشش کرتی ہے بالکل اسی طرح اینٹی -تحریکیں معاشرتی برائیوں کی طرف زیادہ مائل کرتی ہے اس کے بجائے اگر امن کی تحریک چلائی جائے یا صحت بڑھانے کے اصول پر روشنی ڈالی جائی تو معاشرے وہ منفی مخفی صلاحیتیں تحریک میں نہیں آئیں گی بلکہ اس کے بجائے مثبت قوت کی تحریک زیادہ ہوجائے گی ۔
اس ڈاکومینٹری پر روشنی ڈال کر میں خودکو میں نے دیکھا اور پرکھا ہے . سوچتی ہوں میں نے اپنی زندگی کے بہت سے مقصد رکھے مگر میں کسی ایک پر قائم نہیں رہی یا میں قائم رہتے ہوئے کامیاب نہیں ہوئی . اس کی وجہ یہ کہ میں نے کبھی اپنے دل کی آواز سنی ہی نہیں . میں نے وہ کیا جو مجھے معاشرے نے کرنے کو کہا . میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی مگر میں نے انجیرنگ کی فیلڈ اپنائی . وقت نے میرا ارادہ ڈھیر کردیا . اور میری زندگی میں طویل کڑی دھوپ نے میرے پاؤں میں آبلے ڈال دیے . میں پھر بھی حرکت کرتی رہی کہ حرکت میں برکت ہے . یہ نہیں سوچا کہ اگر اس حرکت کے ساتھ اپنے اندر کی مرضی کو شامل کرتی تو کبھی ناخوش نہیں ہوتی . بالکل اسی طرح اس مووی میں ایک سائکاٹرسٹ نے مصور سے پوچھا تم نے پینٹنگز میں خواتین کے پوز اس طرح بنائے ہیں جیسے وہ تم سے کشش نہیں رکھتی . کیا تم عورتوں میں کشش نہیں رکھتے ہو ؟. اس نے کہا ایسا نہیں ہے . اس مصور نے اپنے اندر کی سوچ سے اپنی مصوری کے رخ کو بدلا اور وہ پینٹ کیا جو اس کے من کی خواہش تھی . اس کی خواہش کی تکمیل ہوگئی .
میرے ذہن میں ایک مثال آئی کہ مصطفی زیدی کو بھی کسی سے محبت تھی اور کہا جاتا ہے اس نے اس کی محبت میں خود کشی کی تھی . مصطفی زیدی کی شاعری میں مجھے کہیں بھی امید نظر نہیں آئی ہے . اس میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں .
آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوے دل
راکھ ہو جائیں ،کوئ اور تمنا نہ کریں
چاکِ وعدہ نہ سلے،زخمِ تمنا نہ کھلے
سانس ہموار رہے ،شمع کی لو تک نہ ہلے
اگر مصطفی اس یاس میں امید کے دیے روشن کرتا تو اس امید کے بل پر وہ اپنے محبوب کو پالیتا مگر وہ اپنے محبت کی جستجو میں مخالف سمت میں سفر کرتے ہوئے اتنی دور نکل آیا کہ مایوس ہو کے خود کشی کردی . انسان جو جو خواہش کرتا ہے ، اس کا تصور اس کا ذہن بناتا رہتا ہے . اور جب تصویر مکمل ہوکر ایک فلم کی صورت اختیار کرلے تب انسان کا شعور و لاشعور مل جاتا ہے اور یہی سے ایک صدا اور آواز بلند ہوتی ہے . جو کبھی فطرت بن کے انسان کا موقع دیتی ہے . اور جس کو وجدان کہا جاتا ہے .اس لڑی کا مقصد صرف اور صرف اتنا ہے کہ ہم سب اپنا خوش کن مستقبل لکھیں . وہ اپنے من کی خواہشیں لکھیں . جن کو لکھ کر ہم اپنی سمت کو متعین کرتے ہوئے منزل پالیں .اس ضمن میں میں کچھ مقصد لکھتے ہوئے آپ سے بھی درخواست کروں گی کہ اپنی زندگی کے کچھ واقعات بھی بتائیں جن سے باقی سب امید لے سکیں . اور وہ خواب جو آپ سوچتے ہیں . جب خواب وجدان بن کر یقین کی صورت اختیار کرلیتا ہے تو کامیابی یقینی ہوجاتی ہے .
میں سوچتی ہوں کہ میں اسپیشل بچوں کے لیے اسکول بناؤں . میں نے سوچ رکھا ہے کہ اس اسکول کے ذریعے میں نے امید کی شمع کو روشن کروں . میرا مقصد سرمایہ کاری نہیں ہوگا . میں نے سوچ رکھا ہے کہ مجھے اب وہ سب کچھ لکھنا ہے جس کو لکھتے ہوئے میں قلم روک لیتی ہوں اور سچ کو اس طرح چھپاتی ہوں جیسا کہ وہ جھوٹ ہے . میں نے خوشیاں لوگوں میں بانٹنی ہے . مجھے سفر کرنا بہت پسند ہے . مگر ابھی تک کسی بھی باہر کے ملک نہیں جاسکی . میں نے سوچا ہے کہ میں اب ہر اس ملک جاؤں گی جہاں جانے کی خواہش رکھتی ہوں . اب میں ان خواہشات کو اس طرح تخیل میں لایا کروں گی کہ جس طرح کہ یہ میں حقیقی طور پر یہ کام کر رہی ہوں . کسی دن کوئی نہ کوئی راستہ اور دروازہ میرا راہوں کو ہموار کرتا مجھے خوشی سے ہمکنار کردے گا
نوٹ: لڑی پڑھنے والے تمام لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے تبصرہ رسید کریں .
زندگی میں ہمارا مقصد ایک نہیں ہوتا ہے ۔ ہم زندگی کے ہر انچ کی خوشی کو سموچنا چاہتے ہیں ۔ یعنی کہ ہم خوش رہنا چاہتے ہیں ۔ یا ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں ۔ ہمارا مقصد کتنا سچا ہوتا ہے اس کا انحصار ہماری کامیابی پر ہوتا ہے ۔ ایک زخموں سے چور اور معذور انسان جو صرف دیکھنے کی حس رکھتا تھا اس نے اپنی ایک اس حس کے ذریعے دماغ کو سگنل بھیجے اور دماغ نے یہی اشارے دعا کی صورت اللہ کودیے ۔ اور بار بار فضاء میں سوچ کی انرجی سے ارتعاش پیدا ہو تو بہت سے ذرات متحرک ہو کر ایک قوت بن جاتے ہیں ۔ یہ قوت انسان کو تحریک دیتی ہے اور وہ ٹھیک ہوجاتا ہے ۔ انسان پیسے کمانا چاہتا ہے ، طاقت کا حصول چاہتا ہے یا کچھ بھی وہ اپنے من میں جھانک کر حاصل کرسکتا ہے ۔ اپنی خوشی کو انسان جب تک محسوس نہیں کرسکتا ہے تب تک وہ خوشی حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے اور یوں منزل اس سے دور رہتی ہے ۔ ایک سرمایہ کار سوچتا ہے کہ وہ سال میں 50 ملین کماناچاہتا ہے ، وہ نہیں جانتا اس کو کیسے کمانا ہے ، اور اس کے خواب دیکھتے دیکھتے اس کو ایک اشارہ مل جاتا ہے یا قسمت اس کے دروازے پر کھٹکھٹاتی ہے ۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ سیڑھی کے پہلے قدمچے پر قدم رکھتا ہے اور کامیاب ہوجانے کے بعد سوچتا ہے کہ اس کا نصب العین کس حد تک تکمیل پاگیا ہے ۔
اس کی مثال مجھے کیٹس کی شاعری میں ملتی ہے ۔ کیٹس رومانوی دور کی پیداوار ہوتے ہوئے بھی کلاسیکل شعراء میں شمار کیا جاتا ہے ۔ کیٹس نے اپنی پانچ حسیات کو اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہوئے اپنے وجدان کو اٹھان دے کر خوشی حاصل کی ۔ لکھاری ، شاعر ، مصور ، سنگ تراش عام انسانوں کی نسبت بہت خوش رہتے ہیں یا اپنے غم غلط کرسکتے ہیں کیونکہ وہ انتقال کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ سوچ کا انتقال دراصل ایک کشش پیدا کرتا ہے ۔ ایک مثال سگریٹ نوشی کے اشتہار کی دوں کہ ان کو پینے پر خبردار کیا جاتا ہے ۔ لوگ اس کو دیکھیں گے اور اس کی طرف زیادہ مائل ہوں گے ۔ انسانی سائیکالوجی ان پیغامات کو قبول کرتی ہے اور کشش کرتی ہے بالکل اسی طرح اینٹی -تحریکیں معاشرتی برائیوں کی طرف زیادہ مائل کرتی ہے اس کے بجائے اگر امن کی تحریک چلائی جائے یا صحت بڑھانے کے اصول پر روشنی ڈالی جائی تو معاشرے وہ منفی مخفی صلاحیتیں تحریک میں نہیں آئیں گی بلکہ اس کے بجائے مثبت قوت کی تحریک زیادہ ہوجائے گی ۔
اس ڈاکومینٹری پر روشنی ڈال کر میں خودکو میں نے دیکھا اور پرکھا ہے . سوچتی ہوں میں نے اپنی زندگی کے بہت سے مقصد رکھے مگر میں کسی ایک پر قائم نہیں رہی یا میں قائم رہتے ہوئے کامیاب نہیں ہوئی . اس کی وجہ یہ کہ میں نے کبھی اپنے دل کی آواز سنی ہی نہیں . میں نے وہ کیا جو مجھے معاشرے نے کرنے کو کہا . میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی مگر میں نے انجیرنگ کی فیلڈ اپنائی . وقت نے میرا ارادہ ڈھیر کردیا . اور میری زندگی میں طویل کڑی دھوپ نے میرے پاؤں میں آبلے ڈال دیے . میں پھر بھی حرکت کرتی رہی کہ حرکت میں برکت ہے . یہ نہیں سوچا کہ اگر اس حرکت کے ساتھ اپنے اندر کی مرضی کو شامل کرتی تو کبھی ناخوش نہیں ہوتی . بالکل اسی طرح اس مووی میں ایک سائکاٹرسٹ نے مصور سے پوچھا تم نے پینٹنگز میں خواتین کے پوز اس طرح بنائے ہیں جیسے وہ تم سے کشش نہیں رکھتی . کیا تم عورتوں میں کشش نہیں رکھتے ہو ؟. اس نے کہا ایسا نہیں ہے . اس مصور نے اپنے اندر کی سوچ سے اپنی مصوری کے رخ کو بدلا اور وہ پینٹ کیا جو اس کے من کی خواہش تھی . اس کی خواہش کی تکمیل ہوگئی .
میرے ذہن میں ایک مثال آئی کہ مصطفی زیدی کو بھی کسی سے محبت تھی اور کہا جاتا ہے اس نے اس کی محبت میں خود کشی کی تھی . مصطفی زیدی کی شاعری میں مجھے کہیں بھی امید نظر نہیں آئی ہے . اس میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں .
آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوے دل
راکھ ہو جائیں ،کوئ اور تمنا نہ کریں
چاکِ وعدہ نہ سلے،زخمِ تمنا نہ کھلے
سانس ہموار رہے ،شمع کی لو تک نہ ہلے
اگر مصطفی اس یاس میں امید کے دیے روشن کرتا تو اس امید کے بل پر وہ اپنے محبوب کو پالیتا مگر وہ اپنے محبت کی جستجو میں مخالف سمت میں سفر کرتے ہوئے اتنی دور نکل آیا کہ مایوس ہو کے خود کشی کردی . انسان جو جو خواہش کرتا ہے ، اس کا تصور اس کا ذہن بناتا رہتا ہے . اور جب تصویر مکمل ہوکر ایک فلم کی صورت اختیار کرلے تب انسان کا شعور و لاشعور مل جاتا ہے اور یہی سے ایک صدا اور آواز بلند ہوتی ہے . جو کبھی فطرت بن کے انسان کا موقع دیتی ہے . اور جس کو وجدان کہا جاتا ہے .اس لڑی کا مقصد صرف اور صرف اتنا ہے کہ ہم سب اپنا خوش کن مستقبل لکھیں . وہ اپنے من کی خواہشیں لکھیں . جن کو لکھ کر ہم اپنی سمت کو متعین کرتے ہوئے منزل پالیں .اس ضمن میں میں کچھ مقصد لکھتے ہوئے آپ سے بھی درخواست کروں گی کہ اپنی زندگی کے کچھ واقعات بھی بتائیں جن سے باقی سب امید لے سکیں . اور وہ خواب جو آپ سوچتے ہیں . جب خواب وجدان بن کر یقین کی صورت اختیار کرلیتا ہے تو کامیابی یقینی ہوجاتی ہے .
میں سوچتی ہوں کہ میں اسپیشل بچوں کے لیے اسکول بناؤں . میں نے سوچ رکھا ہے کہ اس اسکول کے ذریعے میں نے امید کی شمع کو روشن کروں . میرا مقصد سرمایہ کاری نہیں ہوگا . میں نے سوچ رکھا ہے کہ مجھے اب وہ سب کچھ لکھنا ہے جس کو لکھتے ہوئے میں قلم روک لیتی ہوں اور سچ کو اس طرح چھپاتی ہوں جیسا کہ وہ جھوٹ ہے . میں نے خوشیاں لوگوں میں بانٹنی ہے . مجھے سفر کرنا بہت پسند ہے . مگر ابھی تک کسی بھی باہر کے ملک نہیں جاسکی . میں نے سوچا ہے کہ میں اب ہر اس ملک جاؤں گی جہاں جانے کی خواہش رکھتی ہوں . اب میں ان خواہشات کو اس طرح تخیل میں لایا کروں گی کہ جس طرح کہ یہ میں حقیقی طور پر یہ کام کر رہی ہوں . کسی دن کوئی نہ کوئی راستہ اور دروازہ میرا راہوں کو ہموار کرتا مجھے خوشی سے ہمکنار کردے گا
نوٹ: لڑی پڑھنے والے تمام لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے تبصرہ رسید کریں .
آخری تدوین: