معرفت علم ہے اور علم خواہش نہیں ہے۔ خواہشیں اولاد کی طرح ہیں ہم انہیں پال سکتے ہیں یہ جائز ہوں تو کوئی معیوب بات نہیں ہے لیکن میدانِ حشر کی طرح جہاں اِن کی ضرورت ہی نہیں وہاں یہ آپ کا سہارا کیا بنیں گی۔
علم ایک جُستجو ہے ۔ جستجو کا تعلق نیت سے ہے ۔ تحقیق کے بغیر انسان کو کُچھ حاصل نہیں ہوتا ہے ۔ علم چاہے نیکی کا ہو یا بدی کا ، اس کی جُستجو کی جاتی ہے ۔ اخلاص دونوں میں یکساں ہوتا ہے ۔ انسان کامیاب ہوجائے جادوئی علم حاصل کرنے میں تو سمجھ لیں اس کے دل پر مہر ثبت کردی گئی ہے ۔ اور وہ اس میں ناکام رہے تو سمجھے اس کی روح کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہے ۔ اس کی طرف کیسے جانا ہے ، کس طرح پہنچنا ہے ، اس بات کا انحصار نیت و اخلاص پر ہے ۔ ارادے کے بغیر معرفت ممکن ہی نہیں ہے ۔
میرا خیال ہے ، خواہش ہوتی ہے تو انسان دُعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے ۔ جو سمجھتا ہے کہ اس میں خواہش نہیں ہے وہ یا تو خود مختار یعنی خُدا ہے یا وہ بہت مایوس ہے ۔ خواہش کی بنا پر حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم دُعا مانگا کرتے تھے، جس کو شاعر نے یوں بیان کیا ہے
پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے
آپ روتے جائیں گے، ہم کو ہنساتے جائیں گی ۔
یا
پینے کو تو پی لوں گا پر بات ذرا سی ہے
اجمیر کا ساقی ہو ، بغداد کا میخانہ
بے خود کیے دیتے ہیں انداز حجابانہ
آ دل میں تجھے رکھ لوں ، اے جلوہ جاناں
یہ خواہش ہی تو ہے ۔۔۔
حضور (صلی علیہ والہ وسلم ) ایسا کوئی انتظام ہوجائے
سلام کے لیے حاضر غلام ہوجائے ۔
یہ بھی خواہش ہے
جاؤ گی بن کے جوگن سرکار کی گلی میں
واروں گی اپنا تن من سرکار کی گلی میں
یہ بھی خواہش ہے ۔۔۔
یاالہی ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو
جب پڑے مشکل ، مشکل کُشا کا ساتھ ہو
یاالٰہی رنگ لائیں جب مری بے باکیاں
ان تبسم ریز ہونٹوں کی دعا کاساتھ ہو
یہ بھی امام زین العابدین کی خواہش ہے
ان الدیارَ الصباء
۔۔۔۔۔
بلغ السلام روضہ تر
فی النبیﷺ المحترم
میرا خیال ہے میدان حشر میں ہماری خواہشات بصورت نامہء اعمال ساتھ ہُوں گی ۔ خواہش و جستجو انسان کی ضرورت ہے جس کی تعبیر ہر انسان کرتا ہے ۔ اس کے بغیر اس کا جینا محال ہے ۔ مسافر اس دنیا میں اور کرنے کیا آیا ہے ؟ مسافر جستجو چھوڑ کے اگر ادھر ادھر کی رونقیں تلاش کرتا رنگینیوں میں کھو جائے اور ان سے استفادہ حاصل نہیں کرپائے تو اس کو ہم تسکین کہیں گے ۔