آپ حال کی سرحدوں کو اپنے لمحہء موجود تک محدود کر لیں تو اِس کے جواب میں حسرتوں کا دائرہ بڑھتا چلا جائے گا۔ اپنے حال کو اپنی سوچ کے پھیلاؤ کا ساتھ دینے دیں تو حسرتوں کے ساتھ حاصلات بھی نظر آنے لگیں گے۔ پھر آپ دیکھ لیں کہ حاصل و حسرت کا انجام الگ سہی مگر مقام ایک ہی ہے اور انجام کیا خوب کہ حسرت تو زندہ رہے اور حاصل بے توقیر ہو جائے۔ جسے بہت چاہیں اُسے اپنی حسرتوں میں سمو لیں وہ امر ہو جائے گا۔
زندگی ڈومین اور رینج کے دائرے میں محدود ایک بند گلی ہے۔ اس میں جینا آدم کی بندگی ہے یا نظریاتی وابستگی کہ زندگی میں ہم ویری ایبلز کے بغیر چل نہیں سکتے ہیں ۔ کانسٹنٹ ہر انسان کے اندر موجود ہے ۔ یہ کانسٹنٹ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ اور اس ڈومین سے کئی سیٹ کی رینجز بن جاتی ہے یا کہیں کہ لامحدود رینجز ہیں ۔ یہ تو انسان کی باطنی صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ اس سے ایک دائرے میں موجود رینج سے کام لیتا ہے ۔ یا کئی دائروں پر مشتمل رینج سے کام لیتا ہے ۔ آپ کہتے ہیں اس کی رینج صفر کرکے دو عددی سیٹ بنادو۔ اپنا دائرہ خود محدود کرلو۔ یعنی جو صلاحیت و اختیار کی عطاء ہے اس کو خود محدود کرلیا جائے تاکہ یاس سے بھرپور خاکے ، ناکامی کے صدمے دنیا سن کر یہ سوچ لے کہ بادشاہِ وقت کی تمام رینجز بےکار ہوگئیں اس لیے ہم بھی ناکام بھلے
لگتا نہیں ہے جی مِرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائدار میں
بُلبُل کو باغباں سے نہ صَیَّاد سے گلہ
قسمت میں قید لکّھی تھی فصلِ بہار میں
کہہ دو اِن حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں
ایک شاخ گل پہ بیٹھ کے بلبل ہے شادمان
کانٹے بچھا دیے ہیں دل لالہ زار میں
عُمْرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
دِن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی
پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کُنجِ مزار میں
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
کیا پتا یہ زیادہ اپیل کرلے ۔
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گُل کریں تو ہم جانیں
(فیض)
اس وقت تو یُوں لگتا ہے
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اک بَیر، نہ اک مہر، نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے
یا
کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم
ساحر لدھیانوی
برتر از اندیشہء سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں،پیہم دواں’ ہر دم جواں ہے زندگی
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدام ہے ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی
ان میں امید کے چراغ اور یقین کی روشنی حسرت کا نشان ختم نہیں کر رہی؟ ایک دل میں یا تو حسرت رہتی ہے یا امید ۔۔ حسرت اور امید یکجاں ہو سکتے ہیں؟