آیے مستقبل تلاشیں ۔

نور وجدان

لائبریرین
اس راہ کے مسافر وں کو منزل مقصود تو دور دور تک نظر نہیں آتی۔ البتہ سنگ میل ضرور ملتے ہیں جن میں سے ایک مشاہد ہونا بھی ہے۔۔۔ اب بعض تو سنگ میل کو منزل سمجھ کر وہیں پڑاؤ ڈال لیتے ہیں۔ بعض وہاں سستا کر آگے کی اڑان بھرتے ہیں اور بعض کا شوق انہیں سستانے کی مہلت بھی نہیں دیتا۔اور وہ سنگ میل در سنگ میل عبور کرتے منزل مقصود کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔۔۔شائد کچھ محفلینز آپ کو ان مقامات و منازل کی خبر دے سکیں۔ ہم تو نہ تین میں نہ تیرہ میں۔۔۔ نہ میں موسیٰ نہ فرعون۔ بلھا کیہ جاناں میں کون۔۔۔

یہ جو تین و تیرہ کا فلسفہ ہے وہ آپ کی آگاہی کی خبر تو آپ کو دیے رکھتا ہے ۔ آپ ہی وہ مقامات اور منازل بتادیں کہ ہم تو ابھی اس سیڑھی سے بہت پرے کھڑے آپ کو زینہ بہ زینہ چڑھتے دیکھ رہے ہیں کہ آپ راہی بن جائیں ۔ ہم تو ہیں ادھر نئے یعنی کہ ایسے محفلینز نظر سے گزرے نہیں یا ان کو جانتے نہیں کہ ازارہِ کرم ان کو ٹیگ کردیں تاکہ ہم بھی کچھ پا سکیں۔

قدرت اللہ شہاب کا حج بھی بڑا پیارا تھا یا کہیں مسافر کی مسافت کی ظاہری تشبیہ ۔۔ ننگے پاؤں جوتے اتار کے سفر کرنا ، گرد وغبار آلود سے آنکھوں سے کا سوج جانا ، پاؤں پر آبلے پڑ جانا ۔۔۔۔۔ ارے وہ عاشق کہلائے جانے کے سچے حقدار تھے مگر ان کو خواب میں اجمیر کے بادشاہ کی زیارت ہوئی تو وہ دودھ کا پیالہ پی نہیں سکے کہ شاید دین و دینا کو ساتھ لیے چلنا ان کا مقصود تھا ۔ سوچا جائے تو شہاب صاحب نے مشکل راستے کا اختیار کیوں کیا ؟ اس لیے کہ آسانیاں انسان کے سفر کو روک دیتیں ہیں اور مشکلیں بعد میں آسانیاں پیدا کرتی ہیں ۔ کوئی صاحب ان کو چوری چھپے خطوط دیا کرتے تھے ۔ اللہ جانے کیا راز تھا ان خطوط میں اور کیا راز تھا کہ پیدائشی ولی تھے جناب ۔۔۔جو دل سے کلام کو ذکر کرتے ہیں وہ بدروحوں و چڑیلوں کو بھی دیکھ کر نہیں ڈرتے یہی حال شہاب صاحب کے ساتھ بھی ہوا ۔ کیسے کیسے لوگ اس دنیا میں آتے ہیں اور ہم بے خبر ہی رہتے ہیں

آوازِ دوست کچھ قدرت اللہ شہاب کی ذات کے بارے میں بتایئے کہ آپ کے نزدیک یہ بہت اہم ہے ،ہمیں بھی کچھ معلومات مل جائیں گی ، ہمیں تو اتنا پتا کہ وہ کشمیر سے تھے ۔ ایک اور بات سارے ولی حضرات سرحدی علاقوں سے ہوتے ہیں جیسے واصف علی واصف جیسے آیت اللہ خمینی، جیسے محمود احمد غزنوی ۔۔۔ذات کی طرح جگہ و مقام بھی اثر انداز ہوتا ہے ۔ آپ کیا کہتے ہیں ِ
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
ںماشائ اللہ ۔ ہمیشہ کی طرح امید و حیات سے مزین ایک خوبصورت تحریر
جسے پڑھنے کے بعد بے شمار خیالاتجنم لیتے ہی

آپ کی تہِ دل سے شُکر گزار ہوں کہ جب بھی آتے ہیں حوصلہ بڑھا کے جاتے ہیں ۔ ابھی آپ کی تحریر پڑھ رہی تھی یہی سوچ رہی تھی لکھاری بھی ، کتنے حساس ہوتے ہیں ۔۔
 
آپ کی تہِ دل سے شُکر گزار ہوں کہ جب بھی آتے ہیں حوصلہ بڑھا کے جاتے ہیں ۔ ابھی آپ کی تحریر پڑھ رہی تھی یہی سوچ رہی تھی لکھاری بھی ، کتنے حساس ہوتے ہیں ۔۔
نور لکھاری کے لئے حساس دل ہونا ضروری ہے ۔ یہی حساسیت تو اسے لکھنے پر مجبور کرتی ہے ۔ کہیں آپ نے حساس سے عاری انسان کو لکھتے دیکھا ہے یا سنا ہے ہم نے تو آج تک نہ دیکھا اور نہ سنا۔:)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
فوکسڈ رہیں تو ہی کامیابی قدم چومتی ہے
آہو جی۔۔۔۔۔ کسی سیانے نے بھی یہی کہا تھا۔۔۔۔ :p

آپ نیرنگ سے روشنی ڈلوا لیں۔ مجھ سے خود پوچھ لیتے
میری ٹارچ دھند میں بھی کام کرتی ہے نا۔۔۔۔ :D

مجھے پہلے ہی پتا ہے ۔
حکومت آپا ہوگئے آپ بھی۔۔۔ :p

انہیں بھی اور ضروریات کو بھی ۔
عمر بھائی بھی اندر اندر اسی مقولے کے پرستار ہیں۔۔۔ "بوہتے پانی دا ایکو حل ۔۔۔ نواب ٹیوب ویل نواب ٹیوب ویل"
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
استغفراللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہاں ہے نظر نہیں ٰآیا ۔ لگتا ہے ان کے نئے مفاہیم ایجاد ہوئے ہیں ۔ ان کی افادیت بھی بتادیں ۔ تاکہ ہم بھی ان کا ورد کرسکیں
وہ تبصرہ جات کے لیے بچا رکھا تھا۔۔۔۔ :)

بلا مبالغہ کہا تھا ۔ یعنی کہ بغیر کسی تصنع و جھوٹ کے۔۔۔۔
درست۔۔۔۔ میری حس مزاح پر عرصہ سے اسکرات طاری ہے۔۔۔ افاقہ ہوتے ہی واپس آؤں گا۔ :)
 

آوازِ دوست

محفلین
کڑیوں کا فلسفہ کیا ہے ..؟ روشنی کریں. تین حروف سے کیا مُراد ہے آپ کی؟
کڑیاں اصل میں وہ ساری داخلی واردات ہیں جسے کمال خوبی سے ہر چند کہ ہےمگر نہیں ہے کا پیرہن پہنا دیا جاتا ہے۔ تین کاعدد ایک خاص تاثیر رکھتا ہے یہ وحدت سے کثرت میں تبدیلی کی علامت ہے۔ ایک تو بے سوال و بے جواب سی شئے ہے۔ دو جدائی ہے اور تین کثرت ہے ۔
 

آوازِ دوست

محفلین
آوازِ دوست کچھ قدرت اللہ شہاب کی ذات کے بارے میں بتایئے کہ آپ کے نزدیک یہ بہت اہم ہے ،ہمیں بھی کچھ معلومات مل جائیں گی ، ہمیں تو اتنا پتا کہ وہ کشمیر سے تھے ۔ ایک اور بات سارے ولی حضرات سرحدی علاقوں سے ہوتے ہیں جیسے واصف علی واصف جیسے آیت اللہ خمینی، جیسے محمود احمد غزنوی ۔۔۔ذات کی طرح جگہ و مقام بھی اثر انداز ہوتا ہے ۔ آپ کیا کہتے ہیں ِ
میری شہاب صاحب سے انسپائریشن اس وجہ سے ہے کہ وہ ایک پہلو سے ہماری طرح ہی گلے گلے تک دنیاداری کی دلدل میں دھنسے رہے لیکن ہوشیار بھی رہے کہ ایک کمزوری کو گلے لگایا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر راہ چلتی خرابی آسان ہدف سمجھ لے۔ جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم جیسا معاملہ تھا ایک ڈکٹیٹر (ایوب خان) کو انہوں نے عاشق صادق بن کر سپورٹ کیا تو دوسرے ( یحییٰ خان) کے ساتھ اُن کی کبھی نہیں بنی حالانکہ وہ اولالذکر کا چہیتا اور منہ بولا بیٹا تھا ایسا بیٹا جو اپنی عمر باپ سے چھ ماہ زیادہ بتا کرفخر کر سکتا ہو۔
علاقے اور کردار میں تعلق ہے. اقبال مردِ کوہستانی کی توصیف میں قلم کو گواہ کر چکے ہیں.مجھے اس معاملے کی اتنی ہی سمجھ آئی ہے کہ خدا سادگی کے قریب تر ہے۔ خاک سے قرب سادگی کی علامت ہے. کچے گھروں میں رہنے والے کچے برتنوں میں کھانے والے ہم جیسوں کے مقابلے میں خدا کی قربت کا بہتر ماحول رکھتے ہیں۔ خاک کے بعد پتھر یعنی حجر فطرت کے اٹل اور جفاکش رویوں کےامین ہیں اور ایسے ہی ان علاقوں کے باسی پھر شجر اور پھر بشر میں گھرے لوگوں کی باری آتی ہے۔ یہ فطری ماحول جز ہے کل بہرحال نہیں ہے۔ سب سے پیچیدہ مخلوق انسان ہےاور ہم انسانوں میں گھرے،انسانوں میں اُلجھے اور انسانوں کے بارے میں سوچتے لوگ اُس حصّے سے محروم رہتے ہیں جو سادہ لوح سادہ مزاج اور سادہ زندگی گزارنے والے لوگوں کوبلا ارادہ میسر ہوتا ہے۔پھٹے میلے کپڑوں اور جھریوں بھرے چہروں میں لپٹے بے نیاز لوگ بہت سے مقابلے بلامقابلہ جیت جاتے ہیں۔
یہ معلومات نہیں یہ محض خیالات ہیں جو سوچ کی ترقی یا تنزلی سے بدل سکتے ہیں. ہاں ان میں کوئی بہتری لائی جائے تو یہ قابل واپسی ہیں۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
خاک سے قرب سادگی کی علامت ہے. کچے گھروں میں رہنے والے کچے برتنوں میں کھانے والے ہم جیسوں کے مقابلے میں خدا کی قربت کا بہتر ماحول رکھتے ہیں۔ خاک کے بعد پتھر یعنی حجر فطرت کے اٹل اور جفاکش رویوں کےامین ہیں اور ایسے ہی ان علاقوں کے باسی پھر شجر اور پھر بشر میں گھرے لوگوں کی باری آتی ہے۔ یہ فطری ماحول جز ہے کل بہرحال نہیں ہے۔ سب سے پیچیدہ مخلوق انسان ہےاور ہم انسانوں میں گھرے،انسانوں میں اُلجھے اور انسانوں کے بارے میں سوچتے لوگ اُس حصّے سے محروم رہتے ہیں جو سادہ لوح سادہ مزاج اور سادہ زندگی گزارنے والے لوگوں کوبلا ارادہ میسر ہوتا ہے۔پھٹے میلے کپڑوں اور جھریوں بھرے چہروں میں لپٹے بے نیاز لوگ بہت سے مقابلے بلامقابلہ جیت جاتے ہیں۔
خدا کا وجود مکان کا محتاج نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لامکاں سے مکان تک ہر جگہ اس کا جلوہ بکھرا نظر آتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا تو بندوں میں ملتا ہے ۔۔۔۔ خدا کو پانے والے کسی علاقے کی میراث سے نہیں بلکہ خدا کو اپنے ہی وجود سے پہچانتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر گوتم بدھ کو خدا سے ملنے کا رستہ پہلے معلوم ہوجاتا تو وہ کبھی ویرانے میں نہیں جاتا مگر جب اس نے خدا کو پایا تو وہ موت کے قریب تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مضطرب دل ، بے چین روح ، طوفانی عزم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسے لوگ جہاں کہیں بھی پائیں جائیں وہ خدا کو پاسکتے ہیں
 

نور وجدان

لائبریرین
پرسکون دل، مطمئن روح اور ٹھہرے عزم والے لوگ۔۔۔ آخر یہ خدا کو کیوں نہین پا سکتے نور۔۔۔۔ :)
ایک ترجیح کی بات کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی بات سے اختلاف نہیں مگر مثال لیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی کا محبت میں دل ٹوٹا ہو تو اس کا رجوع کس کے پاس ہوتا ہے ؟ اللہ کے پاس ۔۔۔۔۔۔۔ مطمئن روح تب ہوتی ہے جب نفس مطمئن ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارادہ رک جائے تو ہم نماز ، قران یا نیک کام کیسے کریں گے ؟
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ایک ترجیح کی بات کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی بات سے اختلاف نہیں مگر مثال لیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی کا محبت میں دل ٹوٹا ہو تو اس کا رجوع کس کے پاس ہوتا ہے ؟ اللہ کے پاس ۔۔۔۔۔۔۔ مطمئن روح تب ہوتی ہے جب نفس مطمئن ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارادہ رک جائے تو ہم نماز ، قران یا نیک کام کیسے کریں گے ؟
دو چیزیں ہیں۔۔۔ بات تصوف کی نہیں۔۔۔ جس کا دل ٹوٹا ہوتا ہے۔ وہ دل جڑوانے کسی اور کو تلاش کر لیتا ہے۔ فی زمانہ بہت کم لوگ ہیں جو اللہ کی طرف پلٹتے ہیں۔ محبت کے معانی اور معیار بہت بدل گئے ہیں۔ وصال محبت کی معراج ٹھہرا ہے۔ سو ایسے میں دل ٹوٹنا ایک بہت عدیم المثال قسم کی چیز بن گیا ہے۔ باقی رہی بات نفس مطمئن ہونے کی۔ تو اللہ کی یاد ہی میں تو اطمئنان و سکون ہے۔ نفس مطمئن ہوگا تو نیکی کے معیار پر بات ہوگی۔ بےچین اور بھٹکی ہوئی روحوں سے بھلا کس معیار کی بات کرنا۔
 
انسان اس دنیا میں تین قسم کے ہیں : ایک وہ جو مستقبل بنانے کا inborn,innate ٹیلنٹ رکھتے ہوئے کم سنی میں ہی اپنا نام تاریخ کے صفحات پر روشن الفاظ میں لکھ جاتے ہیں ، دوسری قسم کے انسان ساری زندگی ناکام رہتے ہیں ۔ تیسری قسم کے لوگ اپنی ناکامیوں سے منزل تراش لیتے ہیں ۔ میرے سامنے اس کی مثال Steve jobs or Bill gates کی طرح ہے ۔ سٹیو جب 27 سال کا تھا وہ اپنی کمپنی سے نکال دیا گیا اور bankrupt ہوگیا۔ ناجانے وہ کیسے کامیاب ہوگیا ۔ Arfa Kareem کی مثال میرے سامنے ہے ۔ اس قسم کے لوگ جو کم عمری میں ہی اپنی خواہش کی تعبیر پالیتے ہیں ۔ یہ باتیں میں نے ایک ڈاکومینٹری Secret دیکھتے ہوئے محسوس کیں ۔ اس ڈاکومینٹری میں فزکس کے دو قوانین : law of conversation and law of gravitational attraction کو انسان کی خواہشات کی تعبیر کا ذریعہ بتایا گیا ہے ۔ ہماری سوچ اور ارادے potential رکھتے ہیں ۔ اس سوچ کو kinetic کس طرح بنایا جائے کہ سوچ و ارادے بذات خود energy ہیں ۔ ہماری مخفی قوت کی بیداری کا انحصار کسی طاقت کے حصول ہر مبنی نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار Quantum theory of photons پر ہے ۔ آئن سٹائن نے مخفی سوچ کو تحریک تصور یا visualize کرکے دی ۔ اس کے تخییل نے وجدان یعنی intuition کو بیدار کردیا ۔ اپنے وجدان پر کام کرتے ہوئے دنیا بنانے والے لوگ بہت کم ہوتے ہیں ۔ دنیا میں کامیابی کی اساس وجدانی صلاحیت ہے جو انسان میں ecstasy یعنی وجدانی سرور پیدا ہونے کے بعد ایک اشارہ دیتی ہے ۔ دنیا میں سب مخفی چیزوں کی دریافت اس وجدان یا لا شعور کی طاقت پر مبنی ہے ۔ اصل مسئلہ خود کی خواہشات کی پہچان ہے ۔ جو انسان کم عمری میں اپنی خواہشات کی پہچان کرلیتے ہیں وہ اپنی خوشی پالیتے ہیں ۔ کچھ لوگ ٹھوکر کھا کر پہچان لیتے ہیں اور بعض تا عمر نہیں پہچان سکتے ۔

زندگی میں ہمارا مقصد ایک نہیں ہوتا ہے ۔ ہم زندگی کے ہر انچ کی خوشی کو سموچنا چاہتے ہیں ۔ یعنی کہ ہم خوش رہنا چاہتے ہیں ۔ یا ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں ۔ ہمارا مقصد کتنا سچا ہوتا ہے اس کا انحصار ہماری کامیابی پر ہوتا ہے ۔ ایک زخموں سے چور اور معذور انسان جو صرف دیکھنے کی حس رکھتا تھا اس نے اپنی ایک اس حس کے ذریعے دماغ کو سگنل بھیجے اور دماغ نے یہی اشارے دعا کی صورت اللہ کودیے ۔ اور بار بار فضاء میں سوچ کی انرجی سے ارتعاش پیدا ہو تو بہت سے ذرات متحرک ہو کر ایک قوت بن جاتے ہیں ۔ یہ قوت انسان کو تحریک دیتی ہے اور وہ ٹھیک ہوجاتا ہے ۔ انسان پیسے کمانا چاہتا ہے ، طاقت کا حصول چاہتا ہے یا کچھ بھی وہ اپنے من میں جھانک کر حاصل کرسکتا ہے ۔ اپنی خوشی کو انسان جب تک محسوس نہیں کرسکتا ہے تب تک وہ خوشی حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے اور یوں منزل اس سے دور رہتی ہے ۔ ایک سرمایہ کار سوچتا ہے کہ وہ سال میں 50 ملین کماناچاہتا ہے ، وہ نہیں جانتا اس کو کیسے کمانا ہے ، اور اس کے خواب دیکھتے دیکھتے اس کو ایک اشارہ مل جاتا ہے یا قسمت اس کے دروازے پر کھٹکھٹاتی ہے ۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ سیڑھی کے پہلے قدمچے پر قدم رکھتا ہے اور کامیاب ہوجانے کے بعد سوچتا ہے کہ اس کا نصب العین کس حد تک تکمیل پاگیا ہے ۔

اس کی مثال مجھے کیٹس کی شاعری میں ملتی ہے ۔ کیٹس رومانوی دور کی پیداوار ہوتے ہوئے بھی کلاسیکل شعراء میں شمار کیا جاتا ہے ۔ کیٹس نے اپنی پانچ حسیات کو اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہوئے اپنے وجدان کو اٹھان دے کر خوشی حاصل کی ۔ لکھاری ، شاعر ، مصور ، سنگ تراش عام انسانوں کی نسبت بہت خوش رہتے ہیں یا اپنے غم غلط کرسکتے ہیں کیونکہ وہ انتقال کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ سوچ کا انتقال دراصل ایک کشش پیدا کرتا ہے ۔ ایک مثال سگریٹ نوشی کے اشتہار کی دوں کہ ان کو پینے پر خبردار کیا جاتا ہے ۔ لوگ اس کو دیکھیں گے اور اس کی طرف زیادہ مائل ہوں گے ۔ انسانی سائیکالوجی ان پیغامات کو قبول کرتی ہے اور کشش کرتی ہے بالکل اسی طرح اینٹی -تحریکیں معاشرتی برائیوں کی طرف زیادہ مائل کرتی ہے اس کے بجائے اگر امن کی تحریک چلائی جائے یا صحت بڑھانے کے اصول پر روشنی ڈالی جائی تو معاشرے وہ منفی مخفی صلاحیتیں تحریک میں نہیں آئیں گی بلکہ اس کے بجائے مثبت قوت کی تحریک زیادہ ہوجائے گی ۔


اس ڈاکومینٹری پر روشنی ڈال کر میں خودکو میں نے دیکھا اور پرکھا ہے . سوچتی ہوں میں نے اپنی زندگی کے بہت سے مقصد رکھے مگر میں کسی ایک پر قائم نہیں رہی یا میں قائم رہتے ہوئے کامیاب نہیں ہوئی . اس کی وجہ یہ کہ میں نے کبھی اپنے دل کی آواز سنی ہی نہیں . میں نے وہ کیا جو مجھے معاشرے نے کرنے کو کہا . میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی مگر میں نے انجیرنگ کی فیلڈ اپنائی . وقت نے میرا ارادہ ڈھیر کردیا . اور میری زندگی میں طویل کڑی دھوپ نے میرے پاؤں میں آبلے ڈال دیے . میں پھر بھی حرکت کرتی رہی کہ حرکت میں برکت ہے . یہ نہیں سوچا کہ اگر اس حرکت کے ساتھ اپنے اندر کی مرضی کو شامل کرتی تو کبھی ناخوش نہیں ہوتی . بالکل اسی طرح اس مووی میں ایک سائکاٹرسٹ نے مصور سے پوچھا تم نے پینٹنگز میں خواتین کے پوز اس طرح بنائے ہیں جیسے وہ تم سے کشش نہیں رکھتی . کیا تم عورتوں میں کشش نہیں رکھتے ہو ؟. اس نے کہا ایسا نہیں ہے . اس مصور نے اپنے اندر کی سوچ سے اپنی مصوری کے رخ کو بدلا اور وہ پینٹ کیا جو اس کے من کی خواہش تھی . اس کی خواہش کی تکمیل ہوگئی .


میرے ذہن میں ایک مثال آئی کہ مصطفی زیدی کو بھی کسی سے محبت تھی اور کہا جاتا ہے اس نے اس کی محبت میں خود کشی کی تھی . مصطفی زیدی کی شاعری میں مجھے کہیں بھی امید نظر نہیں آئی ہے . اس میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں .
آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوے دل
راکھ ہو جائیں ،کوئ اور تمنا نہ کریں
چاکِ وعدہ نہ سلے،زخمِ تمنا نہ کھلے
سانس ہموار رہے ،شمع کی لو تک نہ ہلے

اگر مصطفی اس یاس میں امید کے دیے روشن کرتا تو اس امید کے بل پر وہ اپنے محبوب کو پالیتا مگر وہ اپنے محبت کی جستجو میں مخالف سمت میں سفر کرتے ہوئے اتنی دور نکل آیا کہ مایوس ہو کے خود کشی کردی . انسان جو جو خواہش کرتا ہے ، اس کا تصور اس کا ذہن بناتا رہتا ہے . اور جب تصویر مکمل ہوکر ایک فلم کی صورت اختیار کرلے تب انسان کا شعور و لاشعور مل جاتا ہے اور یہی سے ایک صدا اور آواز بلند ہوتی ہے . جو کبھی فطرت بن کے انسان کا موقع دیتی ہے . اور جس کو وجدان کہا جاتا ہے .اس لڑی کا مقصد صرف اور صرف اتنا ہے کہ ہم سب اپنا خوش کن مستقبل لکھیں . وہ اپنے من کی خواہشیں لکھیں . جن کو لکھ کر ہم اپنی سمت کو متعین کرتے ہوئے منزل پالیں .اس ضمن میں میں کچھ مقصد لکھتے ہوئے آپ سے بھی درخواست کروں گی کہ اپنی زندگی کے کچھ واقعات بھی بتائیں جن سے باقی سب امید لے سکیں . اور وہ خواب جو آپ سوچتے ہیں . جب خواب وجدان بن کر یقین کی صورت اختیار کرلیتا ہے تو کامیابی یقینی ہوجاتی ہے .

میں سوچتی ہوں کہ میں اسپیشل بچوں کے لیے اسکول بناؤں . میں نے سوچ رکھا ہے کہ اس اسکول کے ذریعے میں نے امید کی شمع کو روشن کروں . میرا مقصد سرمایہ کاری نہیں ہوگا . میں نے سوچ رکھا ہے کہ مجھے اب وہ سب کچھ لکھنا ہے جس کو لکھتے ہوئے میں قلم روک لیتی ہوں اور سچ کو اس طرح چھپاتی ہوں جیسا کہ وہ جھوٹ ہے . میں نے خوشیاں لوگوں میں بانٹنی ہے . مجھے سفر کرنا بہت پسند ہے . مگر ابھی تک کسی بھی باہر کے ملک نہیں جاسکی . میں نے سوچا ہے کہ میں اب ہر اس ملک جاؤں گی جہاں جانے کی خواہش رکھتی ہوں . اب میں ان خواہشات کو اس طرح تخیل میں لایا کروں گی کہ جس طرح کہ یہ میں حقیقی طور پر یہ کام کر رہی ہوں . کسی دن کوئی نہ کوئی راستہ اور دروازہ میرا راہوں کو ہموار کرتا مجھے خوشی سے ہمکنار کردے گا

نوٹ: لڑی پڑھنے والے تمام لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے تبصرہ رسید کریں .

اچھی تحریر ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
دو چیزیں ہیں۔۔۔ بات تصوف کی نہیں۔۔۔ جس کا دل ٹوٹا ہوتا ہے۔ وہ دل جڑوانے کسی اور کو تلاش کر لیتا ہے۔ فی زمانہ بہت کم لوگ ہیں جو اللہ کی طرف پلٹتے ہیں۔ محبت کے معانی اور معیار بہت بدل گئے ہیں۔ وصال محبت کی معراج ٹھہرا ہے۔ سو ایسے میں دل ٹوٹنا ایک بہت عدیم المثال قسم کی چیز بن گیا ہے۔ باقی رہی بات نفس مطمئن ہونے کی۔ تو اللہ کی یاد ہی میں تو اطمئنان و سکون ہے۔ نفس مطمئن ہوگا تو نیکی کے معیار پر بات ہوگی۔ بےچین اور بھٹکی ہوئی روحوں سے بھلا کس معیار کی بات کرنا۔
اپنا اپنا نظریہ ہے ۔۔۔۔۔۔ آپ کی بات بھی زمانے سے کافی مطابقت رکھتی ہے میری بات بھی ۔زندگی سائنس کی کتاب تو ہے نہیں اس میں ہم ناپ تول کر ، فارمولاز اپلائی کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بے چین اور بھٹکی ہوئی روحیں ایک دوسرے سے کافی متضاد چیزیں ہیں ۔۔۔۔۔ بے چینی یا پارہ صفت ہونا کسی کامیاب انسان کے لیے اچھا ہے کہ کچھ نہ کچھ کرنے کی خواہش یا لگن یا جستجو کسی بھی بے چین روح کی مثال ہے ۔۔۔۔۔۔اگر آپ گھر کے لیے بہت سنجیدہ ہیں تو آپ گھر والوں کے اچھا کرنے کی تگ دو میں کوئی کمی نہیں لانے دیں گے بلکہ یہی سوچیں گے کہ میری '' یہ '' کوشش کم ہے مجھے تو اس سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے ۔۔۔ یہ کوشش کا مادہ دراصل آپ کے اندر کی خواہش ہے ۔۔۔۔۔۔خواہش نہیں ہو تو اضطراب پیدا نہیں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھٹکی ہوئی روح آپ کا اپنا ماخوذ معانی ہے ۔۔۔۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نفس مطمئن کب ہوتا ہے ؟ انسانی نفس ایک ہی صورت میں مطمئن ہو سکتا ہے جب اس کی رضا اور اللہ کی رضا یکساں ہوجاتی ہے اور وہ اللہ کی خاطر ، اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق کے بارے میں اضطراب اور درد دل رکھتا ہے کہ میں کوئی ایسا کام کر جاؤں جس سے مخلوق کا راضی کر سکوں تاکہ اللہ راضی ہوجائے
 
Top