اصل میں ہم نے کُچھ ٹیکنیکل ٹرمز کو ڈیفائن کیے بنا ہی اپنے اپنے دلائل پیش کرنا شروع کر دیے ہیں تو کہیں کہیں یہ چیز کنفیوژن کا باعث ہو سکتی ہے خیرآپ غور کریں عشقِ مجازی کے ترجمان شاعرحُسنِ مخلوق کے ادنیٰ درجے کو کمال پر پہنچانے کے لیے اِسے جمالِ خالق کے درجوں میں پہنچا دیتے ہیں اورعشقِ حقیقی کے داعی صوفی اپنے کلام کا سبز چولا کسی خوش نما بُت کے گلے میں ڈال کر عام عوام کے ذوق کواُمیدوار کرنے اورایک بھر پور انگڑائی سے بیدارکرنے کی سعی کرتے ہیں۔ مجازمیں آپ ایسی کسی چیز کا تخیل نہیں رکھ سکتے جو آپ کی سوچ میں نہ سما سکے اصول بظاہر حقیقی کے لیے بھی یہی ہے مگر عملی طور پر یوں مختلف ہو جاتا ہے کہ یہاں تخیل جب سوچ سے آگے نکل جاتا ہے تو سوچ بھی ترقی پا جاتی ہے اور شائد یہی وہ کیفیت ہے جسے حالتِ جذب یا وجدان کا نام دیا جاتا ہے۔ شاعر اور ناول نگار وغیرہ اپنے تخیل کو محض اپنی سوچ کے دائرے میں ہی بھگا سکتے ہیں۔
آپ کی کئی باتیں اتنی زبردست ہوتی ہیں کہ دلیل ہوتے ہوئے ان کو زبردست ریٹ کردیتی ہوں ۔ یہ لکھتے ہوئے شبنم نے گھاس پر گرنا شُروع کیا ہے ۔ سبزہ بھی اس شبنم کے گرنے کو نہیں بچا سکتا ہے ۔ شبنم کے لیے بہترین جگہ تو گُلاب کو پھول ہے ۔ واصف علی واصف کا کلام ہے ، میں نعرہء مستانہ ۔۔۔۔ بہت سے ایسے کلام ہیں جو انسانی سوچ کی پیداوار نہیں ہے ۔ سوچ تو مظاہر کی تابع ہوتی ہے ، سوچ کو ترقی تب ہی ملتی ہے جب وہ کسی اور جہاں کی سیر کرچکی ہوتی ہے اور یہ وجدانی صلاحیتیں تب ہی بیدار ہوتی ہیں اور انسان یک دم ، یک سکت لکھتا چلا جاتا ہے جیسا کہ اقبال کا قلم لکھا کرتا تھا ۔ ہم سے سب اپنے دائروں میں مقید ایسی ہی جنت کے متلاشی ہیں جس کو آپ حسرت کا نام دیتے ہیں اور میں اس چراغ کا نام دیتی ہوں کہ لاکھ آندھیاں اور طوفان بھی نہیں بجھاسکتے ہیں جو شمع اندر ہوتی ہے وہ کہاں بُجھتی ہے ۔ وہی بات کہ جب میں باہر تمھیں دیکھوں تو سب مظاہر میں تم نظر آتے ہو اور جب میں اندر دیکھوں تو مجھے اندر بھی گہرائیوں میں تمھاری دید ہوجاتی ہے میں اس گہرائی میں کھو کر سب کچھ بھلادوں ۔ یہ کچھ بابا بلھے شاہ کے کلام میں بات پائی جاتی ہے ۔
کچھ اپنا لکھا ہوا شریک کررہی ہوں ۔۔
میرے خواب کی حقیقت کیا تم جان پاؤ گے . میں کبھی جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتی ہوں اور کبھی بند آنکھیں نیند کی وادیوں میں گھسیٹ کر مجھے وہ صورت مجسم کردیتی ہے جس کی جستجو ہوتی ہے . میری زندگی کی حقیقت میں سراب بھی حقیقت ہے اور حقیقت بھی سراب ہے . تم ان کہے گئے لفظوں سے دھوکا مت کھانا . مجھے اپنے مجاز کے سراب میں حقیقت دکھتی ہے اپنی حقیقت جان کر مجھے دنیا سراب لگتی ہے . مجھے یہاں رہنا ہے مگر میرا ٹھکانہ تو کہیں اور ہے . میری روح کسی اور جہاں کی اسیر ہے . اسے سر سبز وادیاں ، آبشاریں اور جھرنے اس لیے عزیز ہیں کہ یہ حقیقت میں جنت کی تمثیل ہے . تم پھر دھوکے میں کھو جاؤ گے کہ مجھ میں جنت کی خواہش حرص بن رہی ہے . میں اس دنیا میں ان نظاروں کو اس کی حقیقت کا آئنہ سمجھتی ہوں . میرے سارے دکھ ان نظاروں میں کھو کر بے مایا ہوجاتے ہیں . مجھے سرسبز کوہساروں میں درخت پر بہتی شبنم صبح نو کی نوید دیتی ہے تو وہیں مجھے صبح کی نوخیزی جگنو بنادیتی ہے میں گلاب کا طواف کرنا چاہتی ہوں جس میں پسینہِ اطہر کی خُوشبو ہے . یہ پاک خوشبو مجھے معطر معجل مطاہر کردیتی ہے . اندر کی دنیا کے باسی کو محبوب کا پسینہ بہت محبوب اور پسند ہے . جب وہ خوش ہوتا ہے تو روح کی سرشاری مجھے مست و بے خود کردیتی ہوں . لوگو ! میں ہی حقیقت ہو کہ میرا وجود مجھ سے بڑی حقیقت لیے ہوئے ہے . اس کو سلام کرنا میرا فرض ہے . اس سوچ میں رہتے ہوئے مجھے بندگلیاں اور تنگ راستے بھی کشادہ راہیں مل جاتی ہیں اور مشکلوں میں آسانیاں مجھے مل جاتی ہیں .
ہر قدم میرا قید ہے مگر میں اس قید میں بہت خوش ہوجاتی ہوں مگر کبھی کبھی لطافت مجھے لحجاتی ہے . میں کبھی باہر کی دنیا کی سیر کرتی ہوں اور جہاں جہاں جاتی ہوں کھو سی جاتی ہوں اور اندر کی دنیا کیسی ہوگی . یہ دنیا شریانوں میں محسوس ہوتی شہ رگ میں مقید ہوجاتی ہے . اس مقید شے میں عکس نظر آتا ہے . اس عکس میں مجھے کون محسوس ہوتا ہے . وہ جو میری جاں سے قریں ہے ، وہ جو میری جبل الورید سے قریب ہے . اس کا ذکر میرے خون میں چلنے والی سانسیں کرتی ہیں . مگر میں اپنے خرابات میں کھوجاتی ہوں . مجھے سمجھ نہیں آتی کیا درود بھی پھولوں کا دستہ ہے جس کا ہر پھول ایک گل دستہ ہے . میں نے جب اس دردو سے اپنے تن میں خوشبو لگائی تو میرے اندر کی جمالیت نے مجھے حسن عطا کردیا ہے . مجھے خود کو حسین ترین کرنے کی طمع ہونے لگی ہے .