آیے مستقبل تلاشیں ۔

نور وجدان

لائبریرین
اس خنجر تسلیم سے یہ جان حزیں بھی
ہر لحظہ شہادت کے مزے لوٹ رہی ہے
واہ واہ۔۔۔آپ نے تو پوری محفل لوٹ لی ہے ۔ شاہد ہونا بھی تو منزل ہے ۔ تو گویا آپ منزل کی طرف رواں دواں ہیں یا منزل کو پار کرکے اگلی منزل کی جانب کوچ کر رہے ہیں ؟
 

نور وجدان

لائبریرین
اَب کیا کہوں کہ میں آپ کو قائل کر سکتا ہوں شائد اِس معاملے پر ساری دُنیا کو بھی قائل کر لوں مگر ابھی تسخیرِذات سے محروم ہوں یقین نہ آئے تو نایاب جی سے پوچھ لیں ۔ ویسے وہ بھی یہ ساری کتھا پڑھ کے ہنستے ہوں گے۔لیکن یہ میرے لیے بھی ڈسکوری ہی ہے جیسے آپ میرے پیغام کو پڑھتی ہیں ایسے ہی اپنی سوچ لکھنے کے بعد میں بھی اپنی تحریر کو کسی اجنبی کی طرح ہی پڑھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ یہ بات مجھے معلوم تھی پر مجھے معلوم نہ تھا :)
آپ کی معلومات کافی وسیع ہیں اس میں بلا مبالغہ کوئی شک نہیں ہے ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
مجاز جب تک تمنا کا غلام نہ ہو عبادت جیسا ہی ہےاِس سے آگے پھر راستے جُدا ہو جاتے ہیں۔ مجاز کو تخیل نہیں تخلیق چاہیے ہوتی ہے ۔ حقیقت کو پانے کے لیے خود کو آئینہ بنانے کی بات یوں سمجھیں کہ ہم مجاز میں مطلوب کی اِک جھلک پانے کو بے قرار رہتے ہیں اگر قسمت یاوری کرے تو ہم اُس کے روبرو بیٹھیں اور اُسے اپنا آئینہ بنا لیں اور اُس آئینے میں اُس حُسن کا نظارہ کریں جو دیکھنے والے کی نظر میں ہوتا ہے ۔ دیکھیں کیسے جمال جمال کو سامنے لاتا ہے۔ اَب کیا رہ گیا سب پا لیا وقت ٹہرے یا گزر جائے، زندگی کا اضافی وزن شانے پہ رہے یا سہل ہو مکاں ہو کہ لا مکانی اَب کسی اور بات کا کسے یارا۔ ہم نے خود کو پہچانا کہ بھُلا دیا کُچھ خبر نہیں مگر ہاں یہی کامیابی تھی یہی کامیابی ہے اور یہی کامیابی ہو گی۔

اگر مجاز تخیل پر مبنی نہیں ہوتا تو یہ شاعری و ناول تخلیق نہیں ہوتے ۔ کیا یہ تخلیقات نہیں ہے ؟ ایجادات نہیں ہوتیں اور دریافت بھی ۔ ہم تو کنویں کے مینڈک ہوتے ۔ میں نے یہی کہا تھا کہ ڈومین ایک ہے اس سے جتنی رینجز بنالیں ۔ یہ منحصر ہم پر ہے ۔ جیسے قدرت اللہ شہاب کی ڈومین تو ایک ہی تھی مگر ان کی رینج دین و دنیا دونوں تھیں ۔ باقی آپ کی خوبصورت بات پر یہ کلام یاد آگیا ہے ۔ پڑھیں اور لطف لیں

یارب ہے بخش دینا بندے کو کام تیرا
محروم رہ نہ جائے کل یہ غلام تیرا

جب تک ہے دل بغل میں ہر دم ہو یاد تیری
جب تک زباں ہے منہ میں جاری ہو نام تیرا

ایمان کی کہیں گے ایمان ہے ہمارا
احمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول تیرا مصحف کلام تیرا

ہے تو ہی دینے والا پستی سے دے بلندی
اسفل مقام میرا اعلٰی مقام تیرا

محروم کیوں رہوں میں جی بھر کے کیوں نہ لوں میں
دیتا ہے رزق سب کو ہے فیض عام تیرا

یہ داغ بھی نہ ہو گا تیرے سوا کسی کا
کونین میں ہے جو کچھ وہ ہے تمام تیرا
 

نور وجدان

لائبریرین
کافی لمبا مضمون ہے۔ ذرا فرصت ملے تو پڑھتا ہوں۔ فی الحال تو عنوان پڑھ کر اسی پر تبصرہ کر رہا ہوں۔۔۔

تین الفاظ کے اس عنوان میں دو الفاظ غلط ہیں۔
  1. "آیے" نہیں بلکہ "آئیے"
  2. "تلاشیں" اردو زبان کا تو کوئی لفظ نہیں ، ہاں "تلاش کریں" ضرور اردو ہے۔ :)
باقی مضمون پڑھنے کے بعد

بہت شکریہ معلومات دینے کا ۔ اردو زبان میں بات بمشکل کرنا سیکھی ہے اس کو اور بہتر کرنے کی کوشش جاری رہے گی ۔ نوازش جناب! آپ نے صرف عنوان پر توجہ دی ہے ۔ آپ کی تحریر پر توجہ سے میری معلومات میں اضافہ ہوگا یقینا۔۔۔ انتظار رہے گا۔
 

فاتح

لائبریرین
بہت شکریہ معلومات دینے کا ۔ اردو زبان میں بات بمشکل کرنا سیکھی ہے اس کو اور بہتر کرنے کی کوشش جاری رہے گی ۔ نوازش جناب! آپ نے صرف عنوان پر توجہ دی ہے ۔ آپ کی تحریر پر توجہ سے میری معلومات میں اضافہ ہوگا یقینا۔۔۔ انتظار رہے گا۔
اردو نئیں تے کیا تساں سرائیکی گلھیندے او؟
 

آوازِ دوست

محفلین
اگر مجاز تخیل پر مبنی نہیں ہوتا تو یہ شاعری و ناول تخلیق نہیں ہوتے ۔
اصل میں ہم نے کُچھ ٹیکنیکل ٹرمز کو ڈیفائن کیے بنا ہی اپنے اپنے دلائل پیش کرنا شروع کر دیے ہیں تو کہیں کہیں یہ چیز کنفیوژن کا باعث ہو سکتی ہے خیرآپ غور کریں عشقِ مجازی کے ترجمان شاعرحُسنِ مخلوق کے ادنیٰ درجے کو کمال پر پہنچانے کے لیے اِسے جمالِ خالق کے درجوں میں پہنچا دیتے ہیں اورعشقِ حقیقی کے داعی صوفی اپنے کلام کا سبز چولا کسی خوش نما بُت کے گلے میں ڈال کر عام عوام کے ذوق کواُمیدوار کرنے اورایک بھر پور انگڑائی سے بیدارکرنے کی سعی کرتے ہیں۔ مجازمیں آپ ایسی کسی چیز کا تخیل نہیں رکھ سکتے جو آپ کی سوچ میں نہ سما سکے اصول بظاہر حقیقی کے لیے بھی یہی ہے مگر عملی طور پر یوں مختلف ہو جاتا ہے کہ یہاں تخیل جب سوچ سے آگے نکل جاتا ہے تو سوچ بھی ترقی پا جاتی ہے اور شائد یہی وہ کیفیت ہے جسے حالتِ جذب یا وجدان کا نام دیا جاتا ہے۔ شاعر اور ناول نگار وغیرہ اپنے تخیل کو محض اپنی سوچ کے دائرے میں ہی بھگا سکتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
اصل میں ہم نے کُچھ ٹیکنیکل ٹرمز کو ڈیفائن کیے بنا ہی اپنے اپنے دلائل پیش کرنا شروع کر دیے ہیں تو کہیں کہیں یہ چیز کنفیوژن کا باعث ہو سکتی ہے خیرآپ غور کریں عشقِ مجازی کے ترجمان شاعرحُسنِ مخلوق کے ادنیٰ درجے کو کمال پر پہنچانے کے لیے اِسے جمالِ خالق کے درجوں میں پہنچا دیتے ہیں اورعشقِ حقیقی کے داعی صوفی اپنے کلام کا سبز چولا کسی خوش نما بُت کے گلے میں ڈال کر عام عوام کے ذوق کواُمیدوار کرنے اورایک بھر پور انگڑائی سے بیدارکرنے کی سعی کرتے ہیں۔ مجازمیں آپ ایسی کسی چیز کا تخیل نہیں رکھ سکتے جو آپ کی سوچ میں نہ سما سکے اصول بظاہر حقیقی کے لیے بھی یہی ہے مگر عملی طور پر یوں مختلف ہو جاتا ہے کہ یہاں تخیل جب سوچ سے آگے نکل جاتا ہے تو سوچ بھی ترقی پا جاتی ہے اور شائد یہی وہ کیفیت ہے جسے حالتِ جذب یا وجدان کا نام دیا جاتا ہے۔ شاعر اور ناول نگار وغیرہ اپنے تخیل کو محض اپنی سوچ کے دائرے میں ہی بھگا سکتے ہیں۔

آپ کی کئی باتیں اتنی زبردست ہوتی ہیں کہ دلیل ہوتے ہوئے ان کو زبردست ریٹ کردیتی ہوں ۔ یہ لکھتے ہوئے شبنم نے گھاس پر گرنا شُروع کیا ہے ۔ سبزہ بھی اس شبنم کے گرنے کو نہیں بچا سکتا ہے ۔ شبنم کے لیے بہترین جگہ تو گُلاب کو پھول ہے ۔ واصف علی واصف کا کلام ہے ، میں نعرہء مستانہ ۔۔۔۔ بہت سے ایسے کلام ہیں جو انسانی سوچ کی پیداوار نہیں ہے ۔ سوچ تو مظاہر کی تابع ہوتی ہے ، سوچ کو ترقی تب ہی ملتی ہے جب وہ کسی اور جہاں کی سیر کرچکی ہوتی ہے اور یہ وجدانی صلاحیتیں تب ہی بیدار ہوتی ہیں اور انسان یک دم ، یک سکت لکھتا چلا جاتا ہے جیسا کہ اقبال کا قلم لکھا کرتا تھا ۔ ہم سے سب اپنے دائروں میں مقید ایسی ہی جنت کے متلاشی ہیں جس کو آپ حسرت کا نام دیتے ہیں اور میں اس چراغ کا نام دیتی ہوں کہ لاکھ آندھیاں اور طوفان بھی نہیں بجھاسکتے ہیں جو شمع اندر ہوتی ہے وہ کہاں بُجھتی ہے ۔ وہی بات کہ جب میں باہر تمھیں دیکھوں تو سب مظاہر میں تم نظر آتے ہو اور جب میں اندر دیکھوں تو مجھے اندر بھی گہرائیوں میں تمھاری دید ہوجاتی ہے میں اس گہرائی میں کھو کر سب کچھ بھلادوں ۔ یہ کچھ بابا بلھے شاہ کے کلام میں بات پائی جاتی ہے ۔

کچھ اپنا لکھا ہوا شریک کررہی ہوں ۔۔


میرے خواب کی حقیقت کیا تم جان پاؤ گے . میں کبھی جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتی ہوں اور کبھی بند آنکھیں نیند کی وادیوں میں گھسیٹ کر مجھے وہ صورت مجسم کردیتی ہے جس کی جستجو ہوتی ہے . میری زندگی کی حقیقت میں سراب بھی حقیقت ہے اور حقیقت بھی سراب ہے . تم ان کہے گئے لفظوں سے دھوکا مت کھانا . مجھے اپنے مجاز کے سراب میں حقیقت دکھتی ہے اپنی حقیقت جان کر مجھے دنیا سراب لگتی ہے . مجھے یہاں رہنا ہے مگر میرا ٹھکانہ تو کہیں اور ہے . میری روح کسی اور جہاں کی اسیر ہے . اسے سر سبز وادیاں ، آبشاریں اور جھرنے اس لیے عزیز ہیں کہ یہ حقیقت میں جنت کی تمثیل ہے . تم پھر دھوکے میں کھو جاؤ گے کہ مجھ میں جنت کی خواہش حرص بن رہی ہے . میں اس دنیا میں ان نظاروں کو اس کی حقیقت کا آئنہ سمجھتی ہوں . میرے سارے دکھ ان نظاروں میں کھو کر بے مایا ہوجاتے ہیں . مجھے سرسبز کوہساروں میں درخت پر بہتی شبنم صبح نو کی نوید دیتی ہے تو وہیں مجھے صبح کی نوخیزی جگنو بنادیتی ہے میں گلاب کا طواف کرنا چاہتی ہوں جس میں پسینہِ اطہر کی خُوشبو ہے . یہ پاک خوشبو مجھے معطر معجل مطاہر کردیتی ہے . اندر کی دنیا کے باسی کو محبوب کا پسینہ بہت محبوب اور پسند ہے . جب وہ خوش ہوتا ہے تو روح کی سرشاری مجھے مست و بے خود کردیتی ہوں . لوگو ! میں ہی حقیقت ہو کہ میرا وجود مجھ سے بڑی حقیقت لیے ہوئے ہے . اس کو سلام کرنا میرا فرض ہے . اس سوچ میں رہتے ہوئے مجھے بندگلیاں اور تنگ راستے بھی کشادہ راہیں مل جاتی ہیں اور مشکلوں میں آسانیاں مجھے مل جاتی ہیں .

ہر قدم میرا قید ہے مگر میں اس قید میں بہت خوش ہوجاتی ہوں مگر کبھی کبھی لطافت مجھے لحجاتی ہے . میں کبھی باہر کی دنیا کی سیر کرتی ہوں اور جہاں جہاں جاتی ہوں کھو سی جاتی ہوں اور اندر کی دنیا کیسی ہوگی . یہ دنیا شریانوں میں محسوس ہوتی شہ رگ میں مقید ہوجاتی ہے . اس مقید شے میں عکس نظر آتا ہے . اس عکس میں مجھے کون محسوس ہوتا ہے . وہ جو میری جاں سے قریں ہے ، وہ جو میری جبل الورید سے قریب ہے . اس کا ذکر میرے خون میں چلنے والی سانسیں کرتی ہیں . مگر میں اپنے خرابات میں کھوجاتی ہوں . مجھے سمجھ نہیں آتی کیا درود بھی پھولوں کا دستہ ہے جس کا ہر پھول ایک گل دستہ ہے . میں نے جب اس دردو سے اپنے تن میں خوشبو لگائی تو میرے اندر کی جمالیت نے مجھے حسن عطا کردیا ہے . مجھے خود کو حسین ترین کرنے کی طمع ہونے لگی ہے .
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
انسان اس دنیا میں تین قسم کے ہیں
لاحول ولا قوۃ الا باللہ
ایک وہ جو مستقبل بنانے کا inborn,innate ٹیلنٹ رکھتے ہوئے کم سنی میں ہی اپنا نام تاریخ کے صفحات پر روشن الفاظ میں لکھ جاتے ہیں
ماشاءاللہ
دوسری قسم کے انسان ساری زندگی ناکام رہتے ہیں ۔
سبحان اللہ
تیسری قسم کے لوگ اپنی ناکامیوں سے منزل تراش لیتے ہیں ۔
اللہ اکبر
 
Top