arifkarim
معطل
بس اتنی سی جان ہے تمہارے فلسفے میں کہ دو سوال کیا کیے تم نے چلانا شروع کر دیا ہے کہ تنقیدی سوچ کو برداشت نہیں کیا جا رہا؟
میں نے یہ بحث پوری نہیں دیکھی ہے، میں تو صرف اپنی معلومات کے لیے جاننا چاہ رہا ہوں کہ سیارہ زہرہ کے خیالی آئیڈیل نظام کے اصل خدوخال کیا ہیں؟ اور اس کے پیچھے اصل ذہن کس کا ہے؟ میں نے ابھی وینس پراجیکٹ کی ویب سائٹ پر سرسری نظر ڈالی ہے اور مجھے فی الحال اس کا کوئی سر پیر نظر نہیں آیا ہے۔ شاید تفصیل سے دیکھنے سے کچھ بہتر پتا چلے گا۔ لیکن مجھے اس سائٹ پر کم از کم مذہب سے متعلقہ کوئی بات نظر نہیں آئی۔ مذہب پر بحث کیسے شروع ہوئی ہے؟
تم سے پبلک فورم پر رائے ظاہر کرنے کا حق کوئی نہیں چھین رہا ہے لیکن کچھ پوسٹ کرتے وقت یہ بھی سوچا کرو کہ تمہیں اپنے نکتہ نظر کی وضاحت بھی کرنی پڑے گی۔
اگر اسلام کے مکمل ہونے میں کچھ کسر ہے تو یہ آخر کیسے پوری ہوگی؟ کیا اسے مکمل کرنے کے لیے کسی نبی کا آنا باقی ہے؟
شور اسلئے مچایا ہے کہ عموماً ’’انقلابی ‘‘دھاگوں پر تنقید کے بعد بات سیدھا ذاتیات اور فرقہ واریت پر اتر جاتی ہے، جسکے بعد منتظمین اُس دھاگے کو مقفل یا حذف کرکے چلتے بنتے ہیں اور ساری ڈسکشن کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد اس قسم کے موضوع پر پھر وہی حرکتیں شروع ہو جاتی ہیں۔
میں یہ بات واضح کر دوں کہ اس دھاگے کا تعلق The Venus Project سے قطعی نہیں ہے۔ وہ تو محض ایک نئے ٹیکنالوجی بیسڈ معاشرتی نظام کا خواب ہے، جسپر عمل کرنے کیلئے پوری دنیا کی سوچ بدلنی پڑے گی اور روحانیت کو لوگوں کے دلوں سے غائب کرنا ہوگا۔ جو کہ ناممکن ہے۔اور ضروی نہیں کہ آپThe Venus Project پر ضرور ۱۰۰ فیصد چلیں۔ البتہ ہم ہرنظریے میں سے اچھی چیز لے سکتے ہیں اور بری چیز رد کر سکتے ہیں ۔ نیز چونکہ یہ نظام پہلے کبھی آزمایا نہیں گیا اسلئے محمد صابر صاحب نے یہ آئیڈیا دیا کہ جو نظام مکمل و جامع ہے اور آزمودہ ہے، اسکے موجودہ دور میں نفاز سے متعلق کوئی لاحۂ عمل تخلیق دینا چاہیے۔ سو اس دھاگہ کو ’’زہرہ پراجیکٹ‘‘ سے نہ ملائیں۔۔۔۔
اس میں کیا شک ہے کہ دین اسلام قیامت تک کیلئے ظابطۂ حیات ہے۔ لیکن کیا صرف اسلامی تعلیمات کا اقرار کرنا یا چند رسومات پر عمل کرنا ہمیں خودکار طور پر حقیقی مسلمان بنا دے گا ؟ اور اعمال صالحہ کی دنیا سے کیا کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے؟
ایمان کا سارا وزن ہی اعمال صالحہ سے ناپا جاتا ہے۔ جو ہم میں سے اکثر کرتے نہیں۔ اب اعمال سے عام تاثر یہ ہے کہ سارا زور نماز و روزہ پر دیا جاتا ہے۔ بھئی یہ تو ذاتی اعمال ہیں ! معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے ہم کیا کر رہے ہیں ؟ اسکی طرف کسی کا دھیان نہیںجاتا۔ حقوق العباد پہلے ہے۔ حقوق اللہ بعد میں۔ مسلمان بھوکے مر رہے ہیں اور عربی حج کر رہے ہیں (سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی)۔ یہ کیسا ایمان ہے اس قدر ناقص حالت کے باوجود موجودہ دور کے مسلمان ، اسلام پر بکلی طور پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اسلئے مجھے اعتراض اسلامی تعلیمات پر نہیں، انکا Practical Life میں غلط نفاذ پرہے! یہ ایک چھوٹا سا نکتہ ہےجسکی طرف توجہ دلانا چاہ رہاہوں لیکن کسی کو سمجھ ہی نہیں آرہی
نیز کیا ابھی کسی نبی، امام مہدی، نزول عیسیٰ، مصلح، کا آنا باقی ہے یا نہیں۔ اس موضوع پر ہمارے پاس اتنا علم نہیں ہے جتنا اس پر پچھلے ۱۴۰۰ برسوں میں بے کار بحث و مباحثہ ہو چکا ہے۔! ہر فرقہ اسلام کےاس ’’نزول‘‘پر اپنے اپنے عقائد ہیں ۔ کچھ کے نزدیک ابھی آنا ہے۔ باقیوں کے نزدیک وہ تو آکر بھی چلا گیا۔ بعض کے نزدیک ان کے درمیان’’خفیہ امام‘‘ کی صورت میں موجود ہے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی جتنے منہ اتنی باتیں
اگر بالفرض ایسا کوئی شخص آبھی گیا اور دعویٰ بھی کرلیا تو کون مانے گا اسے؟ اگر سنی مانےتو شیعا انکاری۔ اگر شیعا مانے تو سنی انکاری۔ اگر غیریقینی طور پر سب مسلمان بھی اس کو تسلیم کر لیں کہ وہ واقعی خدا کی طرف سے آیا ہے تو ظاہر ہے یہودی و نصاریٰ برادری انکار کرے گی۔ کیونکہ انکے مطابق ہمارا خدا اور انکا خدا مختلف ہے۔ ایسے میں خود سوچیں وہ آنے والا زیادہ پریشان ہوگا یا اسکو بھیجنے والا۔
اب جب تک وہ نہیں آتا، ہم مسلمانوں کا کیا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ظلم برداشت کرتے رہیں۔ دشمن ہمارے وسائل پر قبضہ جماکر بیٹھ جائے اور ہم ہاتھ ملتے اس آنے والے کی راہیں دیکھتے رہیں کہ وہ ہمیں آکر بچائے گا اور مسلمانوں کو بیدار کرے گا! کیسی عجیب و غریب سوچ میں مبتلا ہے امت مسلمہ۔۔۔۔
اپڈیٹ: اگر آپ صرف زہرہ پراجیکٹ کے متعلق مزید جاننا چاہتے ہیں تو فارغ وقت میں یہ دو مشہور فری ڈاکومنٹریز دیکھ لیں:
http://www.zeitgeistmovie.com/