زونی
محفلین
بھائی میرا خیال تھا کہ آپ امریکہ میں رہنے کی وجہ سے کھلے دماغ کے مالک ہیں۔ لیکن یہاں آپنے بھی لکیر کی فقیری سے کام چلایا ہے۔ میرے دستخط میںجو جمہوریت سے بیزاری کا اعلان ہے، اس سے مراد موجودہ دور کی کرپٹ قسم کی جمہوریت ہے۔ آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ میں کس طرح الیکشن کیمپینز چلائی جاتی ہیں اور پارٹی لیڈرز کو بڑی بڑی کورپریشنز اپنے مقاصد کیلئے ہائر کرتی ہیں۔ بش کی انتظامیہ سارا وقت چند یہودی بینکرز کی انگلیوں پر ناچتی رہی جبکہ پوری امریکی قوم کے ساتھ فریب کیا گیا۔
اسکے برعکس جب میں ابتدائی اسلامی نظام والی جمہوریت کی بات کرتا ہوں تو وہ بالکل اور چیز ہے۔ اُس وقت خلفاءِ راشدین کو منتخب کرنے کیلئے ہر مسلمان نے ووٹ نہیں ڈالا تھا، کوئی پارٹی نہیں بنائی تھی، بلکہ ہر بار ایک کمیٹی یا اصحاب کا گروہ متفقہ طور پر کسی کو خلیفہ چنتا تھا۔ یہ جمہوریت ہر قسم کی سیاست سے عاری تھی اور یہی ہماری رول ماڈل بھی ہونی چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلےخلیفہ کے چناؤ کےوقت حضرت علیؓ سے زبردستی بیعت لی گئی، حالانکہ مسلمانوں کی اکثریت پہلے ہی حضرت ابو بکرؓ کیساتھ تھی اور حضرت علیؓ کا بیعت نہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔
ابتدائی اسلامی نظام سے میری مراد نظام خلافت ہے جو کہ نظام عدل پر قائم ہوتا ہے اور ہر قسم کی پارٹی بازی یا کسی خاص انٹرسٹ سے آزاد ہے۔ یہ ایک فلاحی نظام ہے جسمیں اکثریت و اقلیت دونوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ اُمید ہے میں نے اپنا مؤقف ظاہر کر دیا۔ آپ اس پر اپنا استدلال پیش کر سکتے ہیں کہ یہ اس دور میں کس حد تک اور کیسے ممکن ہے؟
ووٹ ڈالنا اس دور میں رائج نہیں تھا لیکن خلفائے راشدین کے دور میں قبیلہءقریش کو عرب میں اکثریت کا اعتماد حاصل تھا جیسا کہ اسلام سے قبل تھا اسلیئے خلافت کا حق بھی انکا ہی بنتا تھا اور بعد میں جب شوری کی بنیاد رکھی گئی تو اس میں تمام قبائل اور اکثریتی گروہوں کے اکابرین بھی شامل تھے اور سب کی باہمی رائے سے خلیفہ کو منتخب کیا جاتا تھا اسکے علاوہ تمام گروہوں کے اکابرین کو شامل کرنے کا ایک مقصد بڑے اکثریتی گروہ پہ نظرثانی کا حق محفوظ رکھنا بھی تھا جیسا کہ آجکل اپوزیشن کو حآصل ہوتا ھے ۔