ابتدائی اسلامی نظام 21ویں صدی میں کیسے رائج ہوگا؟!

زونی

محفلین
:cool:

بھائی میرا خیال تھا کہ آپ امریکہ میں رہنے کی وجہ سے کھلے دماغ کے مالک ہیں۔ لیکن یہاں آپنے بھی لکیر کی فقیری سے کام چلایا ہے۔ میرے دستخط میں‌جو جمہوریت سے بیزاری کا اعلان ہے، اس سے مراد موجودہ دور کی کرپٹ قسم کی جمہوریت ہے۔ آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ میں کس طرح الیکشن کیمپینز چلائی جاتی ہیں اور پارٹی لیڈرز کو بڑی بڑی کورپریشنز اپنے مقاصد کیلئے ہائر کرتی ہیں۔ بش کی انتظامیہ سارا وقت چند یہودی بینکرز کی انگلیوں پر ناچتی رہی جبکہ پوری امریکی قوم کے ساتھ فریب کیا گیا۔ :(
اسکے برعکس جب میں ابتدائی اسلامی نظام والی جمہوریت کی بات کرتا ہوں تو وہ بالکل اور چیز ہے۔ اُس وقت خلفاءِ راشدین کو منتخب کرنے کیلئے ہر مسلمان نے ووٹ نہیں ڈالا تھا، کوئی پارٹی نہیں بنائی تھی، بلکہ ہر بار ایک کمیٹی یا اصحاب کا گروہ متفقہ طور پر کسی کو خلیفہ چنتا تھا۔ یہ جمہوریت ہر قسم کی سیاست سے عاری تھی اور یہی ہماری رول ماڈل بھی ہونی چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلےخلیفہ کے چناؤ کےوقت حضرت علیؓ سے زبردستی بیعت لی گئی، حالانکہ مسلمانوں کی اکثریت پہلے ہی حضرت ابو بکرؓ کیساتھ تھی اور حضرت علیؓ کا بیعت نہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔
ابتدائی اسلامی نظام سے میری مراد نظام خلافت ہے جو کہ نظام عدل پر قائم ہوتا ہے اور ہر قسم کی پارٹی بازی یا کسی خاص انٹرسٹ سے آزاد ہے۔ یہ ایک فلاحی نظام ہے جسمیں اکثریت و اقلیت دونوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ اُمید ہے میں نے اپنا مؤقف ظاہر کر دیا۔ آپ اس پر اپنا استدلال پیش کر سکتے ہیں کہ یہ اس دور میں کس حد تک اور کیسے ممکن ہے؟




ووٹ ‌ڈالنا اس دور میں رائج نہیں تھا لیکن خلفائے راشدین کے دور میں قبیلہء‌قریش کو عرب میں اکثریت کا اعتماد حاصل تھا جیسا کہ اسلام سے قبل تھا اسلیئے خلافت کا حق بھی انکا ہی بنتا تھا اور بعد میں جب شوری کی بنیاد رکھی گئی تو اس میں تمام قبائل اور اکثریتی گروہوں کے اکابرین بھی شامل تھے اور سب کی باہمی رائے سے خلیفہ کو منتخب کیا جاتا تھا اسکے علاوہ تمام گروہوں کے اکابرین کو شامل کرنے کا ایک مقصد بڑے اکثریتی گروہ پہ نظرثانی کا حق محفوظ رکھنا بھی تھا جیسا کہ آجکل اپوزیشن کو حآصل ہوتا ھے ۔
 

زونی

محفلین
بھائی صاحب !!
اوپر جو تعریف آپ نے بیان کی ہے ، وہ درحقیقت "خلافت" کی تعریف ہے اور خلافت کسی بھی معنوں میں "جمہوریت" کے مترادف یا مماثل نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ دونوں میں "عوام" اور "اہل الرائے" کا واضح فرق ہے۔






خلافت جمہوریت سے کس طرح‌ مختلف ھے ؟
 

ظفری

لائبریرین
شکریہ محسن اور ظفری آپ دونوں کا۔
ظفری بھائی موجودہ جمہوریت کےہی ارتقا کے خواہاں ہیں جبکہ محسن بھائی مغربی طرز معاشرت کو ہی اسلام سمجھتے ہیں، ان مقامات کے علاوہ جہاں تصادم ہو سکتا ہے۔
مزید اراکین کی رائے کا انتظار رہے گا :)

صاحبوں ۔۔۔۔۔ یہ بندہ نہ اپنی بات سمجھا سکتا ہے اور نہ ہی دوسروں کی بات سمجھ سکتا ہے ۔ :idontknow:
 

arifkarim

معطل
صاحبوں ۔۔۔۔۔ یہ بندہ نہ اپنی بات سمجھا سکتا ہے اور نہ ہی دوسروں کی بات سمجھ سکتا ہے ۔ :idontknow:

کیا ہو گیا ظفری بھائی، اپنی ہی پوسٹ پر بیوقوفی کا مظاہرہ؟
یہ لیں آپکی ہی پوسٹ یہاں کوٹ کرتا ہوں :
انسان وقت اور حالات کیساتھ تبدیلیوں‌ کا سامنا کرتے ہوئے بہت سے نظام کا خالق بنا ہے ۔ ضروری نہیں ہے کہ آج انسان کی ضروریات اور حالات کے تحت دنیا کی اکثریت جہموریت کو اچھا نظام قرار دیتی ہے تو آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔ کوئی بعید نہیں‌ کہ آنے والے وقت میں انسان کی ضروریات ، حالات اور ترجیحات میں‌تبدیلیوں کے لحاظ سے جہموریت سے اچھا کوئی اور نظام متعارف ہوجائے ۔

جسکے جواب میں میں نے لکھا:
ظفری بھائی موجودہ جمہوریت کےہی ارتقا کے خواہاں ہیں

اب بتائیں میں نے کیا غلط کہا؟
 

زونی

محفلین
عارف آپ کسی ایک نکتے پہ ٹک بھی جایا کریں ، آپ کو خود بھی پتہ نہیں چلتا کہ آپکا موقف کیا ھے تو دوسروں کو کیا پتہ چلے گا ۔ :rolleyes:
 

arifkarim

معطل
عارف آپ کسی ایک نکتے پہ ٹک بھی جایا کریں ، آپ کو خود بھی پتہ نہیں چلتا کہ آپکا موقف کیا ھے تو دوسروں کو کیا پتہ چلے گا ۔ :rolleyes:

اپنا مؤقف تو میں بیان کر چکا ہوں یہاں پر:
http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=474250&postcount=31
ہاں یہ الگ بات ہے کہ ٹاپک پوسٹر کی ذاتیات پر حملے کرکے موضوع کا رخ موڑا جا رہا ہے ;)
 

arifkarim

معطل
عارف صاحب کسی ایک نکتے پر اگر ٹک جائیں تو پھر انکے پیغامات کی تعداد کیسے بڑھے گی :laughing:

میں اتنا ڈھیٹ نہیں ہوں کہ نظریات کی تبدیلی کے بعد بھی ایک جگہ اڑیل گدھے کی طرح ٹکا رہوں۔۔۔
نیز پیغامات بڑھانے کا سب سے مؤثر طریقہ گپ شپ والے زمرے ہیں جنمیں میری اکا دکا پوسٹس ہی ہوں گی۔:)
 

زونی

محفلین
اپنا مؤقف تو میں بیان کر چکا ہوں یہاں پر:
http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=474250&postcount=31
ہاں یہ الگ بات ہے کہ ٹاپک پوسٹر کی ذاتیات پر حملے کرکے موضوع کا رخ موڑا جا رہا ہے ;)





آپکا موقف تو میں نے پہلے ہی پڑھ لیا تھا اور جواب بھی دیا ھے جس کا آپ نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ مسئلہ تو یہ ھے کہ آپکا موقف ہر دو منٹ ‌بعد بدل جاتا ھے یعنی جب تک کوئی آپکی بات کا جواب دیتا ھے اسوقت تک آپکا موقف موقف نہیں رہتا :confused:
 

arifkarim

معطل
ووٹ ‌ڈالنا اس دور میں رائج نہیں تھا لیکن خلفائے راشدین کے دور میں قبیلہء‌قریش کو عرب میں اکثریت کا اعتماد حاصل تھا جیسا کہ اسلام سے قبل تھا اسلیئے خلافت کا حق بھی انکا ہی بنتا تھا اور بعد میں جب شوری کی بنیاد رکھی گئی تو اس میں تمام قبائل اور اکثریتی گروہوں کے اکابرین بھی شامل تھے اور سب کی باہمی رائے سے خلیفہ کو منتخب کیا جاتا تھا اسکے علاوہ تمام گروہوں کے اکابرین کو شامل کرنے کا ایک مقصد بڑے اکثریتی گروہ پہ نظرثانی کا حق محفوظ رکھنا بھی تھا جیسا کہ آجکل اپوزیشن کو حآصل ہوتا ھے ۔

دیر سے جواب دینے پر معذرت، آپکا پیغام چھوٹے سائز کی وجہ سے اوجھل ہو گیا تھا ۔۔۔۔
آپ نے بجا فرمایا کہ اُس دور میں ہر فرد کے ووٹ ڈالنے کا رواج نہیں تھا، کیونکہ کاغذ ابھی ایجاد نہیں ہوا تھا :)
لیکن موجودہ دور کی پارٹی باز جمہوریت کے بارے میں کیا کہیں گے، جو عوام کو الو بنا کر انسے ووٹ خریدتی ہیں اور بعد میں انکے لئے کچھ کرتی بھی نہیں؟ نیز آپوزیشن کا جو رول ہے کہ ہر نئے قانون و بل میں ٹانگ اڑانا اور اسکو منظور نہ ہونا دینے۔ اسکی وجہ سے عوام کے حقوق حذف کر دئے جاتے ہیں :(
موجودہ جمہوریت کا نظام سطحی طور پر بہت عمدہ لگتا ہے، لیکن جب اسکا عملی مظاہرہ کیا جائے تو نتائج علاقائی اور تہذیبی بنیادوں پر مختلف ہوتے ہیں۔
 

زونی

محفلین
میں اتنا ڈھیٹ نہیں ہوں کہ نظریات کی تبدیلی کے بعد بھی ایک جگہ اڑیل گدھے کی طرح ٹکا رہوں۔۔۔
نیز پیغامات بڑھانے کا سب سے مؤثر طریقہ گپ شپ والے زمرے ہیں جنمیں میری اکا دکا پوسٹس ہی ہوں گی۔:)





نظریات اتنی جلدی نہ تبدیل ہوتے ہیں اور نہ بنتے ہیں ، مجھے تو لگتا ھے آپ نے مختلف نظریات پڑھ کے نظریات کا ایک ملغوبہ سا بنا رکھا ھے جس کا کوئی سر پیر ہی نہیں :idontknow:
 

arifkarim

معطل
نظریات اتنی جلدی نہ تبدیل ہوتے ہیں اور نہ بنتے ہیں ، مجھے تو لگتا ھے آپ نے مختلف نظریات پڑھ کے نظریات کا ایک ملغوبہ سا بنا رکھا ھے جس کا کوئی سر پیر ہی نہیں :idontknow:

میرے نظریات کا تعلق اسلام کے علاوہ بہت سے مذاہب و فکر کے افراد سے وابستہ ہے۔ جو نظریات سمجھ میں نہ آئیں انکا سر پیر بھی نظر نہیں آتا۔ یہی حال میرے ساتھ اسلام کے بعض منفرد نظریات کا ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات مغربی نظریات کیساتھ بھی۔;)
 

زونی

محفلین
دیر سے جواب دینے پر معذرت، آپکا پیغام چھوٹے سائز کی وجہ سے اوجھل ہو گیا تھا ۔۔۔۔
آپ نے بجا فرمایا کہ اُس دور میں ہر فرد کے ووٹ ڈالنے کا رواج نہیں تھا، کیونکہ کاغذ ابھی ایجاد نہیں ہوا تھا :)
لیکن موجودہ دور کی پارٹی باز جمہوریت کے بارے میں کیا کہیں گے، جو عوام کو الو بنا کر انسے ووٹ خریدتی ہیں اور بعد میں انکے لئے کچھ کرتی بھی نہیں؟ نیز آپوزیشن کا جو رول ہے کہ ہر نئے قانون و بل میں ٹانگ اڑانا اور اسکو منظور نہ ہونا دینے۔ اسکی وجہ سے عوام کے حقوق حذف کر دئے جاتے ہیں :(
موجودہ جمہوریت کا نظام سطحی طور پر بہت عمدہ لگتا ہے، لیکن جب اسکا عملی مظاہرہ کیا جائے تو نتائج علاقائی اور تہذیبی بنیادوں پر مختلف ہوتے ہیں۔




جمہوریت کا مقصد یہی ھے کہ ہر طبقہ ، ہر مکتبہء‌فکر کو اپنی رائے دینے کی آزادی حاصل ہو ، اب عوام سے ووٹ‌خریدنا ایک الگ مسئلہ ھے ، اسکا جمہوری سیاسی نظام سے تو کوئی تعلق نہیں ھے ، بلکہ اسکا حل تو عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں ھے اور اس کی ذمہ داری عوام میں سے پڑھے لکھے اور دانشور طبقے پہ عائد ہوتی ھے کہ وہ لوگوں کو سیدھی سمت میں ڈالیں تاکہ وہ اپنے ووٹ‌کا صحیح ‌استعمال کر سکیں ویسے بھی اگر آپ پاکستان کی تاریخ ‌دیکھیں تو یہاں جمہوریت کو پنپنے کا موقع ہی کب دیا گیا ھے ، موجودہ حالات میں وکلاء‌تحریک نے ایک موثر جمہوری کردار ادا کیا ھے ، سیاسی جماعتوں کا اس میں کردار اور مفادات کو ایک سائڈ‌پہ رکھیں لیکن کیا ایسی تبدیلی شخصی نظام حکومت میں ممکن تھی ؟ بات یہ ھے کہ جمہوری نظام کو پنپنے میں وقت لگتا ھے ، میں یہ نہیں کہہ رہی کہ سیاستدان کوئی فرشتے ہیں لیکن اس کے علاوہ آپ کے پاس کوئی آپشن نہیں ھے ، اب آگے عوام کا فرض‌بنتا ھے کہ وہ صحیح‌لیڈرشپ کو چنیں اور کھرے اور کھوٹے کی پہچان کریں ۔
 

زونی

محفلین
میرے نظریات کا تعلق اسلام کے علاوہ بہت سے مذاہب و فکر کے افراد سے وابستہ ہے۔ جو نظریات سمجھ میں نہ آئیں انکا سر پیر بھی نظر نہیں آتا۔ یہی حال میرے ساتھ اسلام کے بعض منفرد نظریات کا ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات مغربی نظریات کیساتھ بھی۔;)




جی اس کا اندازہ تو آپ کے پیغامات پڑھ کے ہو جاتا ھے ، اسی لیے تو میں نے ملغوبہ کی اصطلاح استعمال کی ھے :biggrin:
 

arifkarim

معطل
جمہوریت کا مقصد یہی ھے کہ ہر طبقہ ، ہر مکتبہء‌فکر کو اپنی رائے دینے کی آزادی حاصل ہو ، اب عوام سے ووٹ‌خریدنا ایک الگ مسئلہ ھے ، اسکا جمہوری سیاسی نظام سے تو کوئی تعلق نہیں ھے ، بلکہ اسکا حل تو عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں ھے اور اس کی ذمہ داری عوام میں سے پڑھے لکھے اور دانشور طبقے پہ عائد ہوتی ھے کہ وہ لوگوں کو سیدھی سمت میں ڈالیں تاکہ وہ اپنے ووٹ‌کا صحیح ‌استعمال کر سکیں ویسے بھی اگر آپ پاکستان کی تاریخ ‌دیکھیں تو یہاں جمہوریت کو پنپنے کا موقع ہی کب دیا گیا ھے ، موجودہ حالات میں وکلاء‌تحریک نے ایک موثر جمہوری کردار ادا کیا ھے ، سیاسی جماعتوں کا اس میں کردار اور مفادات کو ایک سائڈ‌پہ رکھیں لیکن کیا ایسی تبدیلی شخصی نظام حکومت میں ممکن تھی ؟ بات یہ ھے کہ جمہوری نظام کو پنپنے میں وقت لگتا ھے ، میں یہ نہیں کہہ رہی کہ سیاستدان کوئی فرشتے ہیں لیکن اس کے علاوہ آپ کے پاس کوئی آپشن نہیں ھے ، اب آگے عوام کا فرض‌بنتا ھے کہ وہ صحیح‌لیڈرشپ کو چنیں اور کھرے اور کھوٹے کی پہچان کریں ۔

خوب، اب آپ بھی ٹریک پر واپس آگئیں :biggrin:
پاکستان کی کہانی کسے سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ شعور کا فقدان اور جدید علوم کی طرف کمر پھیرنا ہمارا قومی ورثہ ہے۔ جہاں تک وکلاء تحریک کا تعلق ہے، اسکے نتائج کچھ عرصہ تک ہی نظر آئیں گےکہ آیا غریب عوام کو انصاف ملا یا وکلاء و ججوں کو جھنڈے والی گاڑی :grin:
البتہ مجھے یہ دوسری آپشن کا سن کا بہت دُکھ ہوتا ہے۔ آخر ہمارے پاس کوئی دوسری آپشن کیوں نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمنے اپنے آپ کو مجبور کر لیا ہے یہ سوچنے پر کہ کوئی دوسری آپشن موجود ہی نہیں۔;)
انسان نے جو موجودہ نظام بنایا ہے، وہ بھی تو کئی بار" ایسا ممکن ہی نہیں" پر سوچ بچار کے بعد وجود ہی میں‌آیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ ممکن ہے، ہمارے پاس تمام آپشنز ہر وقت موجود ہیں، بس انکو عملی زندگی میں لاگو کرنے کیلئے جدوجہد کی ضرورت ہے۔
جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا معاشرتی و سیاسی نظام پچھلے 60 سال سے ناکام ہے، تو ہمیں بہت پہلے ہی اسکو بدل کر ایسے نظام پر جانا چاہیے تھا جو ہماری عوام کی شعور کے عین مطابق ہوتا۔ ہمارے ہاں اکثر اس بات کا رونا ہے کہ مغرب جیسی جمہوریت ہمارے ملک میں کیوں نہیں؟ اور سارا الزام حکمرانوں، غداروں، اور غیر ممالک کے سر ڈالا جاتا ہے۔ جبکہ غلطی ہمارے اندر ہے۔ پہلے یہ سوچیں کہ ہماری کتنی فیصد آبادی میٹرک پاس ہے؟ :laughing:
یہاں میں بجائے دوسرے ممالک میں کودنے کے صرف ناروے کی مثال دوں گا۔ ناروے میں موجودہ پارلیمانی نظام بہت بعد میں آیا، پہلے یہاں تمام بچوں کیلئے میٹرک تک تعلیم مفت دی گئی۔ جب پہلی نسل اور دوسری نسل اس دور سے گزر گئی، اسکے بعد پہلی پارٹی وجود میں آئی۔ یہی وہ پلین ہے جسے ایک کامیاب جمہوریت کہا جا سکتا ہے، یعنی قوم کے ہر فرد کی بنیاد ایک اور یکساں تعلیم پر مبنی ہو۔ ہمارے ہاں کوئی تو مدرسے سے آگے نہیں‌گیا تو کسی کو الف ب بھی نہیں آتی تو کوئی پروفیسر ڈاکٹریٹ ہے۔ مدرسے والوں کو دنیاوی تعلیم سے دلچسپی نہیں اور انگلش اسکول والے مذہبی حلقوں کو گھاس نہیں ڈھالتے ۔اب چونکہ اکثریت ان پڑھ ہے اسلئے پیشترسیاست دان بھی قدرتی طور پر ان پڑھ اور جاہل ہی ہوں گے، بیشک اونچی سطح پر اپنی جعلی بی اے ڈگریوں کا ڈھونگ رچا لیں۔:chatterbox:
اسلئے ہماری قوم کیلئے فی الوقت درست لیڈر شپ چننا اور کھرے کھوٹے کی پہچان کرنا ہی ناممکن ہے کیونکہ ہمیں ہر بار ایک کم "چور" کے حق میں‌ووٹ دالنے کیلئے مجبور ہونا پڑتا ہے:idontknow:
 

زونی

محفلین
خوب، اب آپ بھی ٹریک پر واپس آگئیں :biggrin:
پاکستان کی کہانی کسے سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ شعور کا فقدان اور جدید علوم کی طرف کمر پھیرنا ہمارا قومی ورثہ ہے۔ جہاں تک وکلاء تحریک کا تعلق ہے، اسکے نتائج کچھ عرصہ تک ہی نظر آئیں گےکہ آیا غریب عوام کو انصاف ملا یا وکلاء و ججوں کو جھنڈے والی گاڑی :grin:
البتہ مجھے یہ دوسری آپشن کا سن کا بہت دُکھ ہوتا ہے۔ آخر ہمارے پاس کوئی دوسری آپشن کیوں نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمنے اپنے آپ کو مجبور کر لیا ہے یہ سوچنے پر کہ کوئی دوسری آپشن موجود ہی نہیں۔;)
انسان نے جو موجودہ نظام بنایا ہے، وہ بھی تو کئی بار" ایسا ممکن ہی نہیں" پر سوچ بچار کے بعد وجود ہی میں‌آیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ ممکن ہے، ہمارے پاس تمام آپشنز ہر وقت موجود ہیں، بس انکو عملی زندگی میں لاگو کرنے کیلئے جدوجہد کی ضرورت ہے۔
جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا معاشرتی و سیاسی نظام پچھلے 60 سال سے ناکام ہے، تو ہمیں بہت پہلے ہی اسکو بدل کر ایسے نظام پر جانا چاہیے تھا جو ہماری عوام کی شعور کے عین مطابق ہوتا۔ ہمارے ہاں اکثر اس بات کا رونا ہے کہ مغرب جیسی جمہوریت ہمارے ملک میں کیوں نہیں؟ اور سارا الزام حکمرانوں، غداروں، اور غیر ممالک کے سر ڈالا جاتا ہے۔ جبکہ غلطی ہمارے اندر ہے۔ پہلے یہ سوچیں کہ ہماری کتنی فیصد آبادی میٹرک پاس ہے؟ :laughing:
یہاں میں بجائے دوسرے ممالک میں کودنے کے صرف ناروے کی مثال دوں گا۔ ناروے میں موجودہ پارلیمانی نظام بہت بعد میں آیا، پہلے یہاں تمام بچوں کیلئے میٹرک تک تعلیم مفت دی گئی۔ جب پہلی نسل اور دوسری نسل اس دور سے گزر گئی، اسکے بعد پہلی پارٹی وجود میں آئی۔ یہی وہ پلین ہے جسے ایک کامیاب جمہوریت کہا جا سکتا ہے، یعنی قوم کے ہر فرد کی بنیاد ایک اور یکساں تعلیم پر مبنی ہو۔ ہمارے ہاں کوئی تو مدرسے سے آگے نہیں‌گیا تو کسی کو الف ب بھی نہیں آتی تو کوئی پروفیسر ڈاکٹریٹ ہے۔ مدرسے والوں کو دنیاوی تعلیم سے دلچسپی نہیں اور انگلش اسکول والے مذہبی حلقوں کو گھاس نہیں ڈھالتے ۔اب چونکہ اکثریت ان پڑھ ہے اسلئے پیشترسیاست دان بھی قدرتی طور پر ان پڑھ اور جاہل ہی ہوں گے، بیشک اونچی سطح پر اپنی جعلی بی اے ڈگریوں کا ڈھونگ رچا لیں۔:chatterbox:
اسلئے ہماری قوم کیلئے فی الوقت درست لیڈر شپ چننا اور کھرے کھوٹے کی پہچان کرنا ہی ناممکن ہے کیونکہ ہمیں ہر بار ایک کم "چور" کے حق میں‌ووٹ دالنے کیلئے مجبور ہونا پڑتا ہے:idontknow:







عارف مجھے ٹریک پہ لاتے لاتے آپ خود صحیح ‌ٹریک پہ آ گئے ہیں :grin:

یعنی آپ یہ مان رہے ہیں کہ مسئلہ تعلیم اور نظام تعلیم کا ھے نہ کہ سیاسی نظام کا ، یہی بات میں بھی کہہ رہی تھی کہ عوامی شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ھے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہو گا جب تعلیم ہو گی لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ یہ خود بخود کیسے ہو گا ؟ کون لاگو کرے گا نئی آپشن کو ؟ کیا بیٹھے بٹھائے سارا پاکستان تعلیم یافتہ ، باشعور ہو جائیگا ، ظاہر ھے اس کیلئے ایک سسٹم کی ضرورت ہو گی ، اب سیاسی نظام میں یا تو آپ جمہوری نظام بنائیں گے یا پھر شخصی حکومت یا خاندانی بادشاہت یا اشرافیہ کی حکومت ، کوئی ایک سسٹم تو بنائیں گے ناں ریاست کا نظام چلانے کیلئے یا نہیں ؟ اب میں آپ سے یہ سوال کرتی ہوں کہ آپ بتائیے اس وقت ریاست پاکستان کیلئے کونسا نظام قابل عمل ہو گا جو عوام کے مسائل بہتر طور پہ حل کر سکے ؟ آپ جواب دینگے تو آپ کا موقف واضح ہو گا ، آپ سے درخواست ھے کہ جواب ایسا دیجئے گا جو میری چھوٹی سی عقل میں آ جائے ، ملغوبہ ٹائپ پیغامات سے پرہیز کیجئے گا :grin:
 

arifkarim

معطل

عارف مجھے ٹریک پہ لاتے لاتے آپ خود صحیح ‌ٹریک پہ آ گئے ہیں :grin:

یعنی آپ یہ مان رہے ہیں کہ مسئلہ تعلیم اور نظام تعلیم کا ھے نہ کہ سیاسی نظام کا ، یہی بات میں بھی کہہ رہی تھی کہ عوامی شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ھے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہو گا جب تعلیم ہو گی لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ یہ خود بخود کیسے ہو گا ؟ کون لاگو کرے گا نئی آپشن کو ؟ کیا بیٹھے بٹھائے سارا پاکستان تعلیم یافتہ ، باشعور ہو جائیگا ، ظاہر ھے اس کیلئے ایک سسٹم کی ضرورت ہو گی ، اب سیاسی نظام میں یا تو آپ جمہوری نظام بنائیں گے یا پھر شخصی حکومت یا خاندانی بادشاہت یا اشرافیہ کی حکومت ، کوئی ایک سسٹم تو بنائیں گے ناں ریاست کا نظام چلانے کیلئے یا نہیں ؟ اب میں آپ سے یہ سوال کرتی ہوں کہ آپ بتائیے اس وقت ریاست پاکستان کیلئے کونسا نظام قابل عمل ہو گا جو عوام کے مسائل بہتر طور پہ حل کر سکے ؟ آپ جواب دینگے تو آپ کا موقف واضح ہو گا ، آپ سے درخواست ھے کہ جواب ایسا دیجئے گا جو میری چھوٹی سی عقل میں آ جائے ، ملغوبہ ٹائپ پیغامات سے پرہیز کیجئے گا :grin:

:grin:
لگتا ہے یہ دھاگہ صدر صاحب کو دکھانا ہی پڑے گا;)
جی محترمہ، میں بھی اول دن سے قوم میں علمی شعور بیدار کرنے کے حق میں ہوں۔ اب تمام افراد تک یکساں تعلیمی میعار کون مہیا کرے گا؟ اصل سوال یہ ہے۔۔۔۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اسوقت ملک میں ہزاروں سیاسی و مذہبی جماعتیں موجود ہیں۔ ان سب کے انٹرسٹس بھی مختلف اور متصادم ہیں۔ ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ ہم میں شامل ہو جاؤ ، سلامت رہو گے۔ اور یہی گروہ بندی تمام مسائل کی جڑ ہے۔
مسائل کے حل کیلئے ہمیں اپنے قومی انٹرسٹس یکساں کرنے ہوں گے جو اسوقت تک نہیں ہو سکتے جب تک بچپن سے ہی تعلیم یکساں نہ ملی ہو یا تربیت ایک جیسی نہ ہو۔ ہمارے پاس اس وقت گورنمنٹ اسکولز، دینی مدرسوں سے لیکر مغربی طرز کےپرائویٹ انگلش اسکولز موجود ہیں جنمیں پڑھائے جانے والے نصاب میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔!
آپنے یہاں عوام میں علمی شعور بیدار کرنے کیلئے ایک سنٹرل گوورمنٹ یا نظام کی بات کی ہے لیکن اس با ت کو نظر انداز کر دیا کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مفادات میں اسقدر اختلاف ہے کہ ایک کامیاب یکساں انٹرسٹس پر مبنی نظام تشکیل دینا ہی ناممکن ہے۔ اور جیسا کہ پہلے کہا کہ انٹرسٹس کو یکساں کرنے کیلئے تعلیمی نظام کو یکساں کرنے کی ضرورت ہے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے میرا مشورہ یہ ہے کہ سیدھا سیاسی نظام پر بے تکی بحث کی بجائے اگر پہلے تعلیمی نظام اور اسکے نصاب پر نظر ثانی کر لیں تو بعد میں یقینا ً ایک بہتر لائحہ عمل بنانے میں مدد ملی گی۔ ایک لمبی ڈسکشن کے بعد آخر کار ہمیں ابتدائی اسلامی نظام کی واپسی کی پہلی کڑی مل گئی اور وہ ہے’’ یکساں تعلیمی نظام ‘‘جو کہ ہر فرد تک مفت فراہم کیا جائے۔ میری تمام اراکین سے درخواست ہے کہ اسی موضوع میں رہتے ہوئے اب یکساں تعلیمی نظام اور یکساں تعلیمی نصاب سے متعلق اپنی آرا کا اظہار کریں۔ کس قسم کی گورمنٹ یہ کام سر انجام دے گی، اسپر بحث بعد میں کریں گے، شکریہ :hurryup:
 

نبیل

تکنیکی معاون
عارف، مجھے تمہارے خلوص پر شک نہیں ہے۔ لیکن معاشرے میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کا کام صرف فورم پر پوسٹ کرکے نہیں ہو سکتا۔ یہاں اس موضوع پر پہلے ہی کئی طویل تھریڈ موجود ہیں۔ میرا تمہارے لیے مخلصانہ مشورہ ہوگا کہ پہلے تم اپنی شخصیت کی تعمیر پر توجہ دو اور کچھ مطالعہ کرو تاکہ تمہارے نظریات کا تضاد دور ہو۔ اس کے بعد ہی تمہاری بات میں کسی کو وزن نظر آئے گا۔
 
Top