ابولکلام آزاد کی نظر میں مسٹرجناح بحیثیت ایک فرقہ پرست

جاسم محمد

محفلین
سن 2020 میں انڈیا کا جی ڈی پی 3 اشاریہ 5 ٹریلین تھا جو پاکستان سے دس گنا زیادہ ہے۔ انڈین روپیہ 83 روپے فی ڈالر جبکہ پاکستانی روپیہ 260 روپے فی ڈالر ہے۔

لیکن میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ انڈیا میں بھی لوگ پاکستان کی طرح غربت اور بیماری میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ دونوں ممالک فوج پر کثیر سرمایہ اور وقت خرچ کر رہے ہیں۔ اس کو رکنا چاہیے۔
بھارت اور بنگلہ دیش کی معیشت کم از کم پاکستان اور سری لنکا کی طرح دیوالیہ نہیں ہے۔ غربت ہر ملک میں ہوتی ہے۔ اہم چیز یہ ہے کہ ملک اتنا غریب نہ ہو جائے کہ دیوالیہ قرار دینا پڑے۔
 

سید رافع

محفلین
اس میں جناح کا نہیں پاکستان پر ۷۵ سال سے قابض فوج اور سویلین اشرافیہ کا قصور ہے۔
ڈاکٹر اشتیاق احمد صاحب نے اسکی وجہ جناح اور لیاقت علی کا انتقال کر جانا قرار دیا ہے۔ جب سیاسی قیادت بچی ہی نہیں تو فوج اور بیوروکریسی جو تقسیم کے بعد پاکستان کے حصے میں آئی تھی وہ نہیں تو اور کون حکومت کرتا؟
 

سید رافع

محفلین
ایک گھنٹے اور دسویں منٹ پر ڈاکٹر اشتیاق صاحب واضح کرتے ہیں کہ مسلم لیگ ایک ایلیٹ پارٹی تھی جس کے محض ١۵٠٠ ممبر تھے۔ سن ١٩۴٠ تک یہی صورتحال رہی۔ اب آپ غور کریں کہ تقسیم سے سات سال قبل بھی مسلم لیگ امراء کی پارٹی تھی۔ جو عوام سات سال بعد مری اس سے اس پارٹی کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
 

سید رافع

محفلین
بھارت اور بنگلہ دیش کی معیشت کم از کم پاکستان اور سری لنکا کی طرح دیوالیہ نہیں ہے۔ غربت ہر ملک میں ہوتی ہے۔ اہم چیز یہ ہے کہ ملک اتنا غریب نہ ہو جائے کہ دیوالیہ قرار دینا پڑے۔
دیوالیہ ہونے کے قریب ہونے کی وجہ پاکستان کا جاگیردارنہ نظام ہے۔ مسلم لیگ میں دیگر پارٹیوں سے بھاگ کر لینڈ لارڈ اس لیے بھی آئے کیونکہ کانگریس نے جاگیردارانہ نظام ختم کرنے کی تقسیم ہند سے قبل بات کر دی تھی اور بعد میں ختم بھی کر دیا۔ جب پاکستان میں جاگیرداروں کی حکومت ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
عمران اور جناح کی لیڈری میں انگریز کی سرپرستی ایک مشترک قدر ہے۔
اسے سرپرستی نہیں متاثر ہونا کہتے ہیں۔ عمران اور جناح دونوں نے اعلی تعلیم برطانیہ میں حاصل کی تھی۔ پاکستان کا موجودہ سیاسی نظام بھی برطانوی پارلیمانی نظام سے متاثر ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ڈاکٹر اشتیاق احمد صاحب نے اسکی وجہ جناح اور لیاقت علی کا انتقال کر جانا قرار دیا ہے۔
کیا تحریک پاکستان میں صرف یہی دو لیڈر تھے؟ باقی کے سیاسی لیڈر کدھر گئے؟ مسلم لیگ جس نے پاکستان بنایا۔ اس کا پارٹی ڈھانچہ پاکستان کے قیام کے بعد بکھر کیسے گیا؟ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج اور سول اشرافیہ کو سیاسی نظام میں نقب لگانے کا موقع ملا؟
 

سید رافع

محفلین
اسے سرپرستی نہیں متاثر ہونا کہتے ہیں۔ عمران اور جناح دونوں نے اعلی تعلیم برطانیہ میں حاصل کی تھی۔ پاکستان کا موجودہ سیاسی نظام بھی برطانوی پارلیمانی نظام سے متاثر ہے۔
کانگریس چھوڑنے کے بعد تین سال مسٹر جناح لندن میں رہے وہاں وہ کس کی ایما پر ہندوستان واپس آئے یہ ایک راز ہے۔ وہاں وہ کن لوگوں سے ملتے رہے یہ ایک راز ہے۔ انکی مسلم انتہا پسندی کی سیاست کس کا پڑھایا ہوا سبق ہے یہ ایک راز ہے۔ عمران کی یہودی لابی کی سرپرستی کچھ راز نہیں۔ چنانچہ اسکو تعلیم کا اثر سمجھنا انتہاٸ بھول پن ہو گا۔
 

سید رافع

محفلین
کیا تحریک پاکستان میں صرف یہی دو لیڈر تھے؟ باقی کے سیاسی لیڈر کدھر گئے؟ مسلم لیگ جس نے پاکستان بنایا۔ اس کا پارٹی ڈھانچہ پاکستان کے قیام کے بعد بکھر کیسے گیا؟ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج اور سول اشرافیہ کو سیاسی نظام میں نقب لگانے کا موقع ملا؟
باقی سے مراد خواجہ ناظم الدین۔

مسلم لیگ میں جناح کے علاوہ کوٸ قومی سطح کا لیڈر نہ تھا۔ مسلم لیگ میں قحط الرجال کا یہ عالم تھا کہ ایک کمزور بنگالی لیڈر خواجہ ناظم الدین نہ صرف ١٩٥١ میں ملک کے وزیراعظم تھے بلکہ مسلم لیگ کے صدر بھی تھے۔ اگلے ہی سال مسلم لیگ دو حصوں میں ٹوٹ گٸ۔ دونوں حصے علاقاٸ لیڈروں پر مشتمل تھے اور ان میں قومی سطح کا ایک لیڈر نہ تھا۔
 
ایک بڑا مسئلہ جس کا سامنا کم و بیش ہر بحث میں ہوتا ہے کہ ہم ایک رائے بنا لیتے ہیں ۔ سرخ ۔ سبز ۔ سفید یا کسی بھی رنگ کی اور اس رائے کو حرف آخر سمجھ کر دوسروں پر اسے مسلط کرنے کی کوشش میں جت جاتے ہیں ۔ یا دوسرے الفاظ میں دوسروں کو اپنے مطابق ہم خیال بنانے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں ۔ یہ طرز عمل تحقیق اور علم کی چاہ رکھنے والے طالب علم کا نہیں ہو سکتا ۔ اب جیسے مندرجہ بالا عنوان ہی دیکھ لیجئے ۔ جناح صاحب کو فرقہ پرست بتاتے ہوئے ایک ہم عصر مولوی صاحب کا نقطہ نظر بیان کیا جا رہا ہے ۔ اور اس کے بعد تمام تر گفتگو اس بات پر ہو رہی ہے کہ وہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اگر اپنے ہم مذہبوں کے حقوق کے تحفظ یا آئندہ آنے والے وقت کے خطرات سے انہیں محفوظ رکھنے کی کوششوں میں مشغول تھے تو اس میں کوئی فرقہ پرستی کا عنصر تو نہیں بنتا البتہ مذھب پسند ہونا یا مذھب کے لئے اٹھتے ہوئے خطرات کو سمجھ کر ان کے سدباب کی کوشش کرنا تو شاید ہندوستان میں دینی بنیاد پر تفرتیں برائے فروخت نہ ہوتیں تو اس میں کوئی حرج نہیں تھا ۔اسلام ایک مکمل دین ہے ۔ جس کا اپنا ایک نظام ہے اور اس میں مسلمان اور غیر مسلمان کی بنیاد پر الگ ملت کا تعین ہے ۔ اس میں فرقہ کہاں سے آگیا کیا مسلمان ہونا ایک فرقہ ہے؟ اگر اسلام ایک فرقہ ہے تو شیعہ سنی ، کیتھولک ، پروٹسٹنٹ ، برہمن ، کھشتری، ویش ، شودر کیا ہیں ۔ ؟
معذرت خواہ ہوں میں اس تمام گفتگو اور اس کے مقصد کو بالکل ابتداء سے سمجھنا چاہتا ہوں کیونکہ عامۃالناس تو فرقہ کو کسی ایک مذہبی گروہ کا حصہ ہونے کا دعویٰ کرنے والوں میں ذیلی عقائد کی بنیاد یا فہم پر اختلاف رائے رکھنے والوں کو سمجھتے ہیں ۔ جبکہ کسی دین سے مکمل یا اساسی عقائد کے انکاریوں کو اس مذہب کا حصہ نہ کہا جاتا ہے نہ بنایا جاتا ہے ایسے نہ ماننے والوں کو الگ دین کے پیرو کہا جائے گا / جیسے شیعہ ، سنی فرقے ہیں جبکہ مرزائی کئی بنیادی عقیدوں کے معاملے میں رائے ، تفسیر اور عمل میں باقی تمام تر فرقوں کے اجتماعی عقیدے اور دلائل سے بہت زیادہ فرق رکھنے کی وجہ سے الگ دین ہیں ۔ براہ کرم میرے شعور کو روشن فرمائیے اور بتائیے کہ اس عنوان کو جیسے باندھا گیا ہے اس کے مطابق فرقہ کی تعریف کیا ہے؟؟ تاکہ اس تعریف کو سامنے رکھتے ہوئے جناح صاحب (جنہیں پاکستانی عوام بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ سمجھتے ہیں) پر فرقہ پرستی کے اس الزام کا دفاع کیا جائے۔
-----------------
دیگر معاملات پر گفتگو ابھی باقی ہے کیونکہ اب جس قدر بحث ہو چکی ہے وہ جھاڑی کے اردگرد دھپا دھپ ہو رہی ہے اصل موضوع پر شاید گفتگو ہوئی ہی نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
اس میں فرقہ کہاں سے آگیا کیا مسلمان ہونا ایک فرقہ ہے؟ اگر اسلام ایک فرقہ ہے تو شیعہ سنی ، کیتھولک ، پروٹسٹنٹ ، برہمن ، کھشتری، ویش ، شودر کیا ہیں ۔ ؟

اس کے مطابق فرقہ کی تعریف کیا ہے؟

اس کا جواب اسی لڑی میں موجود ہے۔

احمد صاحب، عام طور پر "فرقے" سے ہمارے ذہن میں مسلمانوں کے فرقے ہی آتے ہیں لیکن اس زمانے میں کانگریسی اور نیشلنسٹ مسلمانوں کے نزدیک فرقوں سے مراد ہندوستان میں پائے جانے والے مختلف مذاہب تھے۔ جناح علیہ الرحمہ مسلمانوں کی بات کرتے تھے سو وہ ان کی نظر میں فرقہ (مسلمان)پرست تھے۔ کانگریسی خود کو سیکولرکہتے اور سمجھتے تھے اور مسلم لیگ کو اپنے ہم پلہ سمجھنے کی بجائے ہندو مہا سبھا اور سکھوں کی اکالی دَل کے لیول کی جماعت سمجھتے تھے ۔ یہ عنوان اسی تناظر میں ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت بہت اہم ہے، وہ امام الہند بھی کہلاتے تھے اور اپنے عہد کے نابغہ تھے۔ ان کی مذہبی، علمی اور ادبی حیثیت مسلم ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے لیکن یہی بات ان کی سیاست اور سیاسی حیثیت کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ ان کی سیاست مخصوص حوالے سے تھی اور ہر سیاسی شخصیت کی طرح ان کے حامی بھی تھے اور مخالف بھی۔ اس لیے ان کی ہر سیاسی رائے پر نہ ہر کوئی یقین کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے درست سمجھ سکتا ہے۔

ایک سیاسی لیڈر کے اپنےمخالف سیاسی لیڈر کےبارے میں خیالات ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کانگریس چھوڑنے کے بعد تین سال مسٹر جناح لندن میں رہے وہاں وہ کس کی ایما پر ہندوستان واپس آئے یہ ایک راز ہے۔ وہاں وہ کن لوگوں سے ملتے رہے یہ ایک راز ہے۔ انکی مسلم انتہا پسندی کی سیاست کس کا پڑھایا ہوا سبق ہے یہ ایک راز ہے۔ عمران کی یہودی لابی کی سرپرستی کچھ راز نہیں۔ چنانچہ اسکو تعلیم کا اثر سمجھنا انتہاٸ بھول پن ہو گا۔
اس میں راز والی کیا بات ہے؟ تاریخ کے ہر طالب علم کو معلوم ہے کہ کانگریس سے مایوس ہو کر قائد اعظم واپس برطانیہ چلے گئے تھے۔ پھر ان کو برطانیہ کی احمدی برادری نے واپسی کیلئے قائل کیا تھا۔ قرار داد پاکستان ۱۹۴۰ بھی پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ محمد ظفراللہ خان کا شاہکار ہے۔ جو کہ ایک معروف زمانہ احمدی تھے۔
پاکستان بنانے والے احمدیوں کو آئین پاکستان میں کافر قرار دیکر اینٹی جناح و اینٹی پاکستان مولانا حضرات نے سارا بدلہ لے لیا۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
ایک سوال یہ ہے کہ کیا یہ مال لوٹا کر اور چوری کی سزا پوری کر کے باہر آئے ؟
اتنے کچے بھی نہیں آپ کے عدالت والے (اور انہیں چلانے والے) کے بڑے بڑے کیسوں میں سزا دے دیں۔

چھوٹے چھوٹے بے ضرر کیسز میں سزا دیتے ہیں تاکہ وقتی طور پر بندہ سیاست سے کٹ جائے، اور پھر بعد میں ڈیل کرکے اُسے واپس لے آئیں۔
 

سید رافع

محفلین
١٨٩٥ میں جناح کے نوجوانی کے شوق کا تذکرہ اسٹینلے والپرٹ اپنی کتاب جناح آف پاکستان کے صفحہ ١٤ پر کرتے ہیں:

نوجوان جناح لندن میں تھیٹر کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا۔ جناح نے اپنی مخفی خواہش کا اعتراف کیا کہ وہ اولڈ واس میں رومیو کا کردار ادا کرنا چاہتا تھا۔ جناح بتاتے ہیں کہ انکے کچھ دوست انکو ایک تھیٹر کمپنی میں لے گئے جس کے مینیجر اور اسکی بیوی نے مجھے اسٹیج پر شیکسپیئر کا لکھا پڑھنے کو کہا۔ میں نے پڑھ دیا۔ وہ اور اسکی بیوی میرے کام سے بہت خوش ہوئے اور مجھے فورا ملازمت دے دی۔ جب میں نے اسکا تذکرہ ایک خط میں اپنے والد سے کیا تو وہ سخت برھم ہوئے اور ایک خط تحریر کیا۔ خط کے جس فقرے نے مجھے اپنا ذہن تبدیل کرنے پرآمادہ کیا وہ یہ تھا کہ اگر تم نے ایسا کیا توتم نے خاندان سے غداری کی۔ میں نے اس بات کی اطلاع جب تھیٹر کمپنی کے مینیجر کو کی تو وہ بہت حیران ہوا۔ کنٹریکٹ کے حساب سے مجھے تین ماہ کا نوٹس دینا تھا لیکن وہ انگلش مین تھے تو انہوں نے کہا جب تمھیں دلچسپی ہی نہیں رہی تو ہم تمھاری خواہش کے برخلاف کیا کرسکتے ہیں۔

والپرٹ لکھتے ہیں کہ دستخط شدہ کنٹریکٹ جناح کی لندن اسٹیج اور ایکٹنگ سے سنجیدگی ظاہر کرتا ہے۔ یہ اسکی پہلی محبت تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس کا کوئی حوالہ، جاسم صاحب؟
جاسم خود حوالہ ہے۔ یہ اس وقت کسی اور نام سے وہیں پایا جاتا ہو گا۔
To symbolize Jinnah’s return to politics, Dard arranged for a lecture on the future of India at the “London Mosque” in Putney London in April 1933 where Jinnah acknowledged the Imam’s role in his decision to return to political life, saying:
“The eloquent persuasion of the Imam left me no escape.” The Sunday Times, London, 9th April 1933.
Jinnah returned to India in 1934 and became Governor General of Pakistan when it became an independent state on August 14, 1947.​
 

علی وقار

محفلین
جناح کیوں واپس آئے، اس حوالے سے مارکیٹ میں بہت سی کہانیاں گردش میں ہیں۔ یہ بھی اُن میں سے ایک کہانی ہے۔
 
Top