سید رافع
محفلین
مسٹر جناح اور ہم اور آپ میں فرق ہے۔یعنی قائدِ اعظم کو فرقہ پرست کہنے سے کسی کی دل آزاری نہیں ہوتی۔
مسٹر جناح اور ہم اور آپ میں فرق ہے۔یعنی قائدِ اعظم کو فرقہ پرست کہنے سے کسی کی دل آزاری نہیں ہوتی۔
یہ وہی طریقہ استدلال ہے جو آپ کے ایک ممدوح اپنے مخالفین کو گالیاں دینے کے جواز میں قرآنی الفاظ "زنیم" اور قادیانی، بخاری شریف کی ایک روایت کے الفاظ "امصص بظر اللات" سے کرتے ہیں!محفل جائے علم ہے یا جائے داد و تحسین؟ اللہ تو حیض کا ذکر پاک کلام میں فرماتا ہے۔
یہ وہی طریقہ استدلال ہے جو آپ کے ایک ممدوح اپنے مخالفین کو گالیاں دینے کے جواز میں قرآنی الفاظ "زنیم" اور قادیانی، بخاری شریف کی ایک روایت کے الفاظ "امصص بظر اللات" سے کرتے ہیں!
میرے خیال میں قائداعظم کے پاس اور کوئی چوائس نہیں رہی تھی۔ مزید بدقسمتی یہ ہوئی کہ اس ملک کو تجربہ گاہ بنا دیا گیا۔ نئی ریاست کو چلانے کے لیے مناسب ہوم ورک نہیں کیاگیا تھا اور ریاست کے خدوخال ، آئینی ڈھانچہ وغیرہ بھی واضح نہ تھے، سو ہم آج تک بھٹکتے پھرتے ہیں۔دراصل سارا مسئلہ یہ ہے کہ قائد اعظم تو مسلمانوں کو آئین ہند میں حقوق دلانے کے لیے کوشش کر رہے تھے لیکن بلاآخر یہ ممکن نہ ہوا تو ملک بنا دیا۔
قائد اعظم مسلمانوں کے مخصوص طبقے کے لیڈر بنے، جس کی وجہ سے چوائس تو ختم ہونی ہی تھی۔ آج بھی دیکھ لیں کہ تحریک طالبان پاکستان اور تحریک لبیک پاکستان کے پاس چوائس نہیں بچی، تو وہ خون خرابے پر اتر آئے۔ سو اس سے فرق پڑتا ہے کہ آپ کس کے لیڈر ہیں۔ جس قوم کے قائد اعظم لیڈر تھے، اس کی آبیاری انتہا پسند نظریات نے کی تھی جن کا میں کئی بار ذکر کر چکا ہوں۔ سارے ہند کے مسلمان قائد اعظم کے ساتھ نہیں تھے۔میرے خیال میں قائداعظم کے پاس اور کوئی چوائس نہیں رہی تھی۔
مجھے علی وقار اور رافع صاحب کی باتوں سے یہی سمجھ آیا کہ پاکستان کی ترقی اور فلاح کا واحد حل "ٹائم مشین" ہے جس سے ہم ماضی کی طرف سفر کر سکیں اور جہاں جہاں ہمارے بڑوں سے غلطیاں ہوئیں اسے جا کر ٹھیک کر سکیں۔
نہیں محترم، ایسا نہیں ہے۔ اگر بڑوں سے غلطیاں ہوئی ہیں یا ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں تو ان سے سبق سیکھنا ضروری ہے۔ ان بڑوں نے ایک غلطی کی ہو گی تو سو نیکی کے کام بھی کیے ہوں گے اور ان کی ستائش بھی از بس لازم ہے۔مجھے علی وقار اور رافع صاحب کی باتوں سے یہی سمجھ آیا کہ پاکستان کی ترقی اور فلاح کا واحد حل "ٹائم مشین" ہے جس سے ہم ماضی کی طرف سفر کر سکیں اور جہاں جہاں ہمارے بڑوں سے غلطیاں ہوئیں اسے جا کر ٹھیک کر سکیں۔
مسلمانوں کے، یا مسلمانوں کے مخصوص طبقے کے؟ ویسے، کانگریسی رہنماؤں کی غلطیوں اور دیگر عوامل کے باعث اُنیس سو چالیس کے بعد تو قائداعظم صحیح معنوں میں عوامی رہنما کا روپ اختیار کر چکے تھے۔ مسلم لیگ میں اصل روح تو مسٹر جناح نے ہی پھونکی تھی۔ مجھے محمد علی جناح سے کوئی زیادہ بڑا ایشو نہیں، مجھے ہندوستان کی عجلت میں تقسیم کے باعث انسانی جانوں کے ضیاع کا شدید دکھ اور صدمہ ہے۔ جب اس قدر بڑے پیمانے پر لہو بہہ جائے تو ان واقعات کو سنجیدگی سے نہ لینا اور غیر جانب داری سے تاریخ کا مطالعہ نہ کرنا زیادتی ہے۔قائد اعظم مسلمانوں کے مخصوص طبقے کے لیڈر بنے، جس کی وجہ سے چوائس تو ختم ہونی ہی تھی۔
اب بزرگوں کو نہ ہماری تنقید سے نقصان ہونے والا اور نہ ستائش سے فائدہ۔نہیں محترم، ایسا نہیں ہے۔ اگر بڑوں سے غلطیاں ہوئی ہیں یا ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں تو ان سے سبق سیکھنا ضروری ہے۔ ان بڑوں نے ایک غلطی کی ہو گی تو سو نیکی کے کام بھی کیے ہوں گے اور ان کی ستائش بھی از بس لازم ہے۔
مجھے آپ کی رائے کا احترام ہے مگر جو وطن عزیز میں موجود ہیں، اگر وہ تاریخ سے نا بلد ہیں تو وہ یوں ہی بھٹکتے رہیں گے۔ حرکت تو ان کی بھی تیز تر ہے، مگر ان کی سمت ملاحظہ کیجیے۔ دائروں کا سفر درپیش ہے اور کیونکر نہ ہو۔ آوراہء منزل ہونے کی کوئی تو وجوہات ہوں گی جن کا جائزہ لینا ضروری ہے، یعنی عمل کے میدان میں اترنا ہی کافی نہیں، درست سمت کا تعین بھی ضروری ہے۔ تاریخ کے غیر جانب دارانہ مطالعے کے بغیر سمت کا درست تعین ممکن نہیں۔ اور، میری عادت تو یوں بھی کسی کو کوسنے کی نہیں ہے، میں تو دل و جان سے محمد علی جناح اور دیگر اکابرین کا احترام کرتا ہوں چاہے وہ قیام پاکستان کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں۔ تاہم، اگر کوئی غلطی نظر آئے تو اس کی طرف اشارہ کر دینا ضروری ہے۔ شاید اسی بہانے اپنی اصلاح ہو جائے۔اب بزرگوں کو نہ ہماری تنقید سے نقصان ہونے والا اور نہ ستائش سے فائدہ۔
اب مکمل طور پر معاملہ اُن کا ہے جو اس وطنِ عزیز میں موجود ہیں۔ عمل کی جانب جائیں گے تو راستہ بھی ملے اور منزل بھی اور اگر صرف زبان کے چسکوں تک ہی محدود رہے تو وہی زبان کے چسکے ہی ملیں گے بس۔
ایک مدت سے پاکستانی قوم وادیِ تیہ میں گول گول گھوم رہی ہے انہیں یہاں اُس وقت تک بھٹکنا پڑے گا جب تک یہ میدانِ عمل میں نہیں اترتے۔
درست سمت کا اندازہ لگانے کے لیے پہلوں کی غلطیوں کو کریدنے سے کیا حاصل ہونے والا ہے۔بجائے اس کے کہ اِس وقت کی دنیا کے طور طریقوں پر غور کیا جائے آپ لوگ تو پہلوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کو زیادہ ضروری سمجھ رہے ہیں۔مجھے آپ کی رائے کا احترام ہے مگر جو وطن عزیز میں موجود ہیں، اگر وہ تاریخ سے نا بلد ہیں تو وہ یوں ہی بھٹکتے رہیں گے۔ حرکت تو ان کی بھی تیز تر ہے، مگر ان کی سمت ملاحظہ کیجیے۔ دائروں کا سفر درپیش ہے اور کیونکر نہ ہو۔ آوراہء منزل ہونے کی کوئی تو وجوہات ہوں گی جن کا جائزہ لینا ضروری ہے، یعنی عمل کے میدان میں اترنا ہی کافی نہیں، درست سمت کا تعین بھی ضروری ہے۔
یہ تو آپ کی رائے ہے نا جو کہ غلط بھی ہو سکتی ہے روفی بھائی۔ میری رائے بھی غلط ہو سکتی ہے مگر میں اسے درست سمجھتا ہوں۔ آپ کے سمجھانے کے باوجود۔درست سمت کا اندازہ لگانے کے لیے پہلوں کی غلطیوں کو کریدنے سے کیا حاصل ہونے والا ہے۔بجائے اس کے کہ اس وقت کی دنیا کے طور طریقوں پر غور کیا جائے آپ لوگ تو پہلوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کو زیادہ ضروری سمجھ رہے ہیں۔
یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ایک بیٹے کو اس کا باپ کوئی بزنس (چاہے کیسا ہی لولا لنگڑا ہی سہی) دے کر مرا اور بیٹا مدتوں بعد بھی اپنے والد کو کوس رہا ہو کہ ابا نے یہ غلطی کی تھی اسی لیے میرا بزنس چل نہ سکا۔یہ تو آپ کی رائے ہے نا جو کہ غلط بھی ہو سکتی ہے روفی بھائی۔ میری رائے بھی غلط ہو سکتی ہے مگر میں اسے درست سمجھتا ہوں۔ آپ کے سمجھانے کے باوجود۔
شاید آپ بھول گئے ہیں حضرت کہ یہ بزنس نہیں ہے، یہ جو تقسیم ہوئی ہے، اس کو بغور مطالعہ کریں، لاکھوں افراد جان سے گئے۔ میں اس بحث کو محض معصومانہ بحث سمجھتا ہوں وگرنہ جو کچھ انیس سو سینتالیس میں سرحد کے دونوں اطراف ہوا، یہ المیہ ایسا نہیں ہے کہ اس کا غم کبھی مٹ سکے۔ میں نے سرحد کے دونوں اطراف بسنے والوں کے انٹرویوز دیکھے ہیں، ان کے ساتھ جو بیتا ہے، وہ سن کر، پڑھ کر، آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، اور ایک ہم ہیں کہ اس معصومانہ بحث کو بھی وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ سر، ایسا تو نہ کریں۔یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ایک بیٹے کو اس کا باپ کوئی بزنس (چاہے کیسا ہی لولا لنگڑا ہی سہی) دے کر مرا اور بیٹا مدتوں بعد بھی اپنے والد کو کوس رہا ہو کہ ابا نے یہ غلطی کی تھی اسی لیے میرا بزنس چل نہ سکا۔
اور یہاں پر پچھتر سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور ہم بیٹھے اسی بات کا ماتم کرتے کہ پاکستان بنانے والوں نے "یہ" غلطی کر دی ورنہ ہم نے امریکہ کو پچھاڑ دینا تھا
صرف آنکھیں نم نہ کیجیے۔ اپنی حالت پر ترس کھائیے۔ دنیا کے تقاضے دیکھیے۔شاید آپ بھول گئے ہیں حضرت کہ یہ بزنس نہیں ہے، یہ جو تقسیم ہوئی ہے، اس کو بغور مطالعہ کریں، لاکھوں افراد جان سے گئے۔ میں اس بحث کو محض معصومانہ بحث سمجھتا ہوں وگرنہ جو کچھ انیس سو سینتالیس میں سرحد کے دونوں اطراف ہوا، یہ المیہ ایسا نہیں ہے کہ اس کا غم کبھی مٹ سکے۔ میں نے سرحد کے دونوں اطراف بسنے والوں کے انٹرویوز دیکھے ہیں، ان کے ساتھ جو بیتا ہے، وہ سن کر، پڑھ کر، آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، اور ایک ہم ہیں کہ اس معصومانہ بحث کو بھی وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ سر، ایسا تو نہ کریں۔