ناصر علی مرزا
معطل
2نومبر1917ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمس بالفور نے اعلان کردیا تھا کہ برطانیہ فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کے حق میں ہے۔ حالانکہ بہت سے بااثر یہودی اس کے مخالف تھے۔ بین الاقوامی قانون (انٹرنیشنل لا) کے سامنے ہنوز یہ سوال لاینحل ہے کہ کیا برطانیہ قانونی طور پر کسی ایسے ملک میں نئی ریاست قائم کرنے کا مجاز تھا جو نہ تو اس کی ملکیت تھی نہ ہی اس کے زیراقتدار تھی؟ کسی ملک پر تصرف کا حق صرف اسی حاکم کو ہوتا ہے جس کی حاکمیت اور فرمانروائی (Sovereignty) اس ملک پر مسلّم اور محقق ہو۔ بالفور منشور کا اعلان اُس وقت ہوگیا جب فلسطین خلافتِ عثمانیہ کا ایک صوبہ تھا اور جس پر ترکی کی فرمانروائی مسلّم تھی۔ نیز جہاں یہودی آبادی سات یا آٹھ فیصد سے زائد نہ تھی۔ جہاں ہزارہا سالوں سے آباد عربوں کی آبادی 90 فیصد تھی اور جہاں وہ 97.5 فیصد زمین کے مالک اور مختار کل تھے۔ عربوں نے جب اس پر احتجاج کیا تو برطانوی کمانڈر ہوگا رتھ نے شریف ِ مکہ کو یقین دلایا کہ فلسطین میں اسی حد تک یہودی بسائے جائیں گے جس سے مقامی آبادی کی معاشیات اور سیاسی آزادی متاثر نہ ہو۔ 11 اگست 1919ء کو بالفور نے حکومت کے میمورنڈم میں (جو برطانوی خارجہ پالیسی کے وثائق فرسٹ سیریز جلد 4‘ 1919-39ء میں محفوظ ہے) اپنے صلیبی ذہن کو اس طرح آشکار کیا:
’’ہمیں فلسطین کی مقامی آبادی سے مشورے کی ضرورت نہیں۔ چار بڑی طاقتیں صہیونی قوت سے وعدہ کرچکی ہیں۔ رہی صہیونیت‘ تو یہ غلط ہو یا صحیح‘ اچھی ہو یا بری‘ اس کی جڑیں قدیم روایات میں سرایت کرچکی ہیں جو گہری ہیں۔ دور حاضر کے تقاضے ہوں یا مستقبل کی امیدیں‘ ان کے اثرات سات لاکھ عربوں سے جو فی الحال اس قدیم سرزمین پر آباد ہیں، کہیں زیادہ عمیق اور اثرانگیز ہیں۔‘‘
آج جو کچھ ہورہا ہے وہ اسی بالفور منشور کا کرشمہ ہے۔ بعض منصف انگریز مصنفوں نے بالفور منشور کو نہ صرف عظیم فریب قرار دیا ہے بلکہ عدل پسند انگریزوں کو مشورہ بھی دیا ہے کہ شرق اوسط کے حالیہ المیہ کا مطالعہ کرتے وقت انہیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ فلسطین کا المیہ بالفور منشور کا پروردہ ہے۔ ترکی کی ریاست یا صوبے میں ایک بیرونی حکومت کو اسرائیلی یا غیر اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے؟
اگر کوئی مشرقی ملک ایسی حرکت کرتا یعنی دوسرے کے علاقوں میں نئی ریاست کا اعلان کرتا تو دانشورانِ مغرب اسے سفاکیت، ذہنی نااہلیت، سیاسی پسماندگی اور افلاسِ شعور کی علامتیں قرار دیتے۔ لیکن چونکہ مغرب کی ایک قوت‘ جو فی الحال زوال یافتہ سہی، کبھی کشورکشا بھی تھی، نے کہا لہٰذا وہ تہذیب نوی‘ فلسفہ قوت کے اظہار‘ جدید عمرانی ارتقاء کی علامات تصور کی جاتی ہیں۔ بہت کم عدل پسند ایسے نظر آئیں گے جو اس حرکت کو سفاکیت سے تعبیر کریں۔
[’’فلسطین اور بین الاقوامی سیاسیات‘‘ از پروفیسر سید حبیب الحق ندوی]
’’ہمیں فلسطین کی مقامی آبادی سے مشورے کی ضرورت نہیں۔ چار بڑی طاقتیں صہیونی قوت سے وعدہ کرچکی ہیں۔ رہی صہیونیت‘ تو یہ غلط ہو یا صحیح‘ اچھی ہو یا بری‘ اس کی جڑیں قدیم روایات میں سرایت کرچکی ہیں جو گہری ہیں۔ دور حاضر کے تقاضے ہوں یا مستقبل کی امیدیں‘ ان کے اثرات سات لاکھ عربوں سے جو فی الحال اس قدیم سرزمین پر آباد ہیں، کہیں زیادہ عمیق اور اثرانگیز ہیں۔‘‘
آج جو کچھ ہورہا ہے وہ اسی بالفور منشور کا کرشمہ ہے۔ بعض منصف انگریز مصنفوں نے بالفور منشور کو نہ صرف عظیم فریب قرار دیا ہے بلکہ عدل پسند انگریزوں کو مشورہ بھی دیا ہے کہ شرق اوسط کے حالیہ المیہ کا مطالعہ کرتے وقت انہیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ فلسطین کا المیہ بالفور منشور کا پروردہ ہے۔ ترکی کی ریاست یا صوبے میں ایک بیرونی حکومت کو اسرائیلی یا غیر اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے؟
اگر کوئی مشرقی ملک ایسی حرکت کرتا یعنی دوسرے کے علاقوں میں نئی ریاست کا اعلان کرتا تو دانشورانِ مغرب اسے سفاکیت، ذہنی نااہلیت، سیاسی پسماندگی اور افلاسِ شعور کی علامتیں قرار دیتے۔ لیکن چونکہ مغرب کی ایک قوت‘ جو فی الحال زوال یافتہ سہی، کبھی کشورکشا بھی تھی، نے کہا لہٰذا وہ تہذیب نوی‘ فلسفہ قوت کے اظہار‘ جدید عمرانی ارتقاء کی علامات تصور کی جاتی ہیں۔ بہت کم عدل پسند ایسے نظر آئیں گے جو اس حرکت کو سفاکیت سے تعبیر کریں۔
[’’فلسطین اور بین الاقوامی سیاسیات‘‘ از پروفیسر سید حبیب الحق ندوی]