جاسمن
لائبریرین
’اصلی ہیرو فلسطینی ہیں‘
قندیل شام
جمعرات 7 اگست 2014 ,
غزہ پر اسرائیلی حملوں کے دوران وہاں کام کرنے والے ایک طبی ماہر کے مطابق ماضی کے برعکس اس بار اسرائیلی فوج نے منظم طریقے سے حملے کیے ہیں جس میں انھوں نے عام شہریوں کے مکانات کو ہدف بنایا ہے۔
ڈاکٹر میڈز گلبرٹ سے غزہ کی وزارتِ صحت نے درخواست کی تھی کہ وہ حالیہ بحران کے دوران غزہ کے الشفا ہسپتال آئیں۔
ڈاکٹر گلبرٹ کے مطابق یوں وہ ایک ڈاکٹر نہ کہ کارکن کی حیثیت سے غزہ گئے اور الشفا ہسپتال میں 15 روز تک کام کرنے کے بعد حال ہی میں ناروے واپس لوٹے ہیں۔
غزہ سے انھوں نے ایک خط لکھا جو مڈل ایسٹ مانیٹر یا ’میمو‘ کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔
اس خط میں ڈاکٹر گلبرٹ نے امریکی صدر براک اوباما کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’مسٹر اوباما کیا آپ کا دل ہے؟ میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ ایک رات، بس صرف ایک رات، ہمارے ساتھ الشفا میں گزاریں۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ اس سے تاریخ تبدیل ہو جائےگی۔‘
یہ خط سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔ میں نے میڈز گلبرٹ سے پوچھا کہ جو رات ان کے خیال میں اوباما کا دل اور اس کے نتیجے میں تاریخ تبدیل کر سکتی ہے وہ رات کیسی ہے؟
ڈاکٹر میڈز گلبرٹ ناروے کی یونیورسٹی آف تھرمسو میں پروفیسر ہیں اور یونیورسٹی ہاسپٹل آف نارتھ ناروے کے ایمرجنسی میڈیسن کے صدر بھی ہیں
اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’اس رات ایک بہت بڑی تعداد میں زخمی ہونے والے عام شہری ہسپتال لائے گئے جن میں کئی بچے تھے اور شفا ہسپتال ایک جنگ زدہ علاقہ لگ رہا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہر جگہ مرنے والے یا مرے ہوئے لوگ نظر آ رہے تھے۔ کبھی کبھی آپ خود کو انتہائی بے بس محسوس کرتے ہیں۔ کام نہایت سخت ہے۔ ہسپتال میں جگہ جگہ گوشت کے ٹکڑے اور خون نظر آ رہا تھا۔‘
اس سوال پر کہ کیا ہر روز شفا ہسپتال میں ایسا ہی منظر پایا جاتا ہے، ڈاکٹر میڈز کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہیں کہ اسرائیل کی طرف سے حملے کب ہوں گے اور ان کی شدت کیا ہوگی۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس بار غزہ میں کسی ایک دن دس سے لے کر چار سو تک زخمی لوگ ہسپتال میں آتے ہیں اور شفا ہسپتال کے لیے سب سے بڑی مشک یہی ہے کہ وہ اتنی تعداد میں لوگوں کا کیسے علاج کریں گے۔‘
میڈز گلبرٹ کے لیے فلسطین کوئی نا آشنا جگہ نہیں ہے۔ وہ پہلی انتفاضہ (1993-1987) کے وقت سے غزہ کے صحت کے نظام سے وابستہ ہیں۔ میڈز کہتے ہیں کہ طبی خدمت فراہم کرنے کے علاوہ وہ فلسطین میں ’گواہ کی حیثیت‘ سے بھی جاتے رہے ہیں تا کہ وہ صورت حال کی تفتیش اور اس کے بارے میں حالات قلم بند کر سکیں۔ ڈاکٹر گلبرٹ اپنے اس کام کو ’سولیڈیرٹی میڈیسن‘ یا ’اتحاد میڈیسن‘ کہتے ہیں، جس کے تحت ’جن لوگوں کو شدید ضرورت ہے ان کی مدد کی جائے۔‘
غزہ کے الشفا ہسپتال میں کام کرنا نہایت مشکل ہے۔ ہوا پاؤڈر، جلے ہوئےگوشت سے بھری ہوئی ہے: ڈاکٹر میڈز گلبرٹ
ماضی کے تجربات کے مقابلے میں میڈز گلبرٹ کہتے ہیں کہ ’2009 اور 2012 کے حملوں کے مقابلے میں یہ اسرائیل کی جانب سے سب سے شدید حملہ ہے جس میں ایک بڑی تعداد میں لوگ مارے اور زخمی ہوئے ہیں جن میں سینکڑوں بچے بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر کے مطابق ’اس بار اسرائیلی فوج نے منظم طریقے سے حملے کیے ہیں جس میں انھوں نے عام شہریوں کے مکانات کو ہدف بنایا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’بڑی تعداد میں ایک ہی خاندان کے لوگ ہسپتال آتے تھے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حملوں میں شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔‘
اقوام متحدہ کے مطابق اس بحران میں ہلاک ہونے والے 85 فیصد فلسطینی عام شہری تھے جبکہ چار فیصد اسرائیلی عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ یو این کے مطابق 16 ہزار تک گھر مکمل یا جزوی طور پر تباہ کیے گیے ہیں۔
ڈاکٹر میڈز کے مطابق یہ ایک شدید انسانی بحران ہے جو کہ اب تک جاری ہے کیوں کہ اس وقت غزہ میں 485 ہزار فلسطینی بے گھر ہیں جن میں سے کئی لوگ شفا ہسپتال علاج کے لیے آئے تھے اور ’ان کے پاس واپس جانے کے لیے اب کوئی گھر نہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ مزید 9,300 زخمی لوگوں کو علاج کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر میڈز کی نظر میں اسرائیل کا حملہ حماس کے خلاف نہیں بلکہ ’فلسطینی لوگوں کے خلاف‘ تھا۔
حالیہ بحران ماضی کے حملوں سے کیسے مختلف؟
"بڑی تعداد میں ایک ہی خاندان کے لوگ ہسپتال آتے تھے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حملوں میں شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔"
جاری جنگ بندی کے حوالے سے ڈاکٹر میڈز گلبرٹ کا کہنا ہے کہ فلسطینی ’ماضی کی طرح محض جنگ بندی نہیں چاہتے، بلکہ اپنا حق مانگتے ہیں۔ وہ غلاموں کی زندگی نہیں گزارنا چاہتے اور اس جنگ بندی کے دوران ان کے مطالبوں کو سنا جانا چاہیے۔‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ ڈاکٹر ہونے کے ناطے وہ بالخصوص کن چیزوں کی توقع کرتے ہیں تو گلبرٹ نے جواب دیا: ’بم دھماکے فوری طور پر روکے جانے چاہییں، محاصرہ ختم کر دیا جائے، سرحدوں کو کھول جائے تا کہ زخمی لوگوں کو غزہ سے باہر اچھا علاج مہیا کیا جا سکے اور ادویات کو غزہ میں آنے کی اجازت دی جائیں۔‘
ڈاکٹر میڈز پر اکثر تنقید کی گئی ہے کہ وہ اپنے پیشے کے ساتھ ساتھ سیاسی رائے رکھتے ہیں اور اسرائیل کے خلاف پروپگینڈا کرنے میں ملوث ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اصل ’میڈز گلبرٹ‘ کون ہیں، تو انھوں نے کہا کہ ’میں ایک انسان ہوں اور جہاں بھی کسی کو مدد چاہیے ہو گی، چاہے وہ ناروے کے کسی گاؤں میں ہو یا غزہ میں تو میں اسی کی طرف داری کروں گا۔ ایک عام آدمی کی حیثیت میں میں جتنی بھی سیاسی رائے رکھتا ہوں، میں بس انصاف چاہتا ہوں۔‘
ناروے اور دنیا بھر میں کئی لوگ ڈاکٹر میڈز گلبرٹ کو ہیرو سمجھتے ہوں گے لیکن ان کہنا ہے کہ ’فلسطینی لوگ اور فلسطینی ڈاکٹر اصلی ہیرو ہیں۔ وہ اپنے وقار سے ہمیں انسان ہونا اور انسانیت کا مطلب سکھا رہے ہیں
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/08/140806_mads_gilbert_interview_qs.shtml
قندیل شام
جمعرات 7 اگست 2014 ,
غزہ پر اسرائیلی حملوں کے دوران وہاں کام کرنے والے ایک طبی ماہر کے مطابق ماضی کے برعکس اس بار اسرائیلی فوج نے منظم طریقے سے حملے کیے ہیں جس میں انھوں نے عام شہریوں کے مکانات کو ہدف بنایا ہے۔
ڈاکٹر میڈز گلبرٹ سے غزہ کی وزارتِ صحت نے درخواست کی تھی کہ وہ حالیہ بحران کے دوران غزہ کے الشفا ہسپتال آئیں۔
ڈاکٹر گلبرٹ کے مطابق یوں وہ ایک ڈاکٹر نہ کہ کارکن کی حیثیت سے غزہ گئے اور الشفا ہسپتال میں 15 روز تک کام کرنے کے بعد حال ہی میں ناروے واپس لوٹے ہیں۔
غزہ سے انھوں نے ایک خط لکھا جو مڈل ایسٹ مانیٹر یا ’میمو‘ کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔
اس خط میں ڈاکٹر گلبرٹ نے امریکی صدر براک اوباما کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’مسٹر اوباما کیا آپ کا دل ہے؟ میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ ایک رات، بس صرف ایک رات، ہمارے ساتھ الشفا میں گزاریں۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ اس سے تاریخ تبدیل ہو جائےگی۔‘
یہ خط سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔ میں نے میڈز گلبرٹ سے پوچھا کہ جو رات ان کے خیال میں اوباما کا دل اور اس کے نتیجے میں تاریخ تبدیل کر سکتی ہے وہ رات کیسی ہے؟
ڈاکٹر میڈز گلبرٹ ناروے کی یونیورسٹی آف تھرمسو میں پروفیسر ہیں اور یونیورسٹی ہاسپٹل آف نارتھ ناروے کے ایمرجنسی میڈیسن کے صدر بھی ہیں
اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’اس رات ایک بہت بڑی تعداد میں زخمی ہونے والے عام شہری ہسپتال لائے گئے جن میں کئی بچے تھے اور شفا ہسپتال ایک جنگ زدہ علاقہ لگ رہا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہر جگہ مرنے والے یا مرے ہوئے لوگ نظر آ رہے تھے۔ کبھی کبھی آپ خود کو انتہائی بے بس محسوس کرتے ہیں۔ کام نہایت سخت ہے۔ ہسپتال میں جگہ جگہ گوشت کے ٹکڑے اور خون نظر آ رہا تھا۔‘
اس سوال پر کہ کیا ہر روز شفا ہسپتال میں ایسا ہی منظر پایا جاتا ہے، ڈاکٹر میڈز کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہیں کہ اسرائیل کی طرف سے حملے کب ہوں گے اور ان کی شدت کیا ہوگی۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس بار غزہ میں کسی ایک دن دس سے لے کر چار سو تک زخمی لوگ ہسپتال میں آتے ہیں اور شفا ہسپتال کے لیے سب سے بڑی مشک یہی ہے کہ وہ اتنی تعداد میں لوگوں کا کیسے علاج کریں گے۔‘
میڈز گلبرٹ کے لیے فلسطین کوئی نا آشنا جگہ نہیں ہے۔ وہ پہلی انتفاضہ (1993-1987) کے وقت سے غزہ کے صحت کے نظام سے وابستہ ہیں۔ میڈز کہتے ہیں کہ طبی خدمت فراہم کرنے کے علاوہ وہ فلسطین میں ’گواہ کی حیثیت‘ سے بھی جاتے رہے ہیں تا کہ وہ صورت حال کی تفتیش اور اس کے بارے میں حالات قلم بند کر سکیں۔ ڈاکٹر گلبرٹ اپنے اس کام کو ’سولیڈیرٹی میڈیسن‘ یا ’اتحاد میڈیسن‘ کہتے ہیں، جس کے تحت ’جن لوگوں کو شدید ضرورت ہے ان کی مدد کی جائے۔‘
غزہ کے الشفا ہسپتال میں کام کرنا نہایت مشکل ہے۔ ہوا پاؤڈر، جلے ہوئےگوشت سے بھری ہوئی ہے: ڈاکٹر میڈز گلبرٹ
ماضی کے تجربات کے مقابلے میں میڈز گلبرٹ کہتے ہیں کہ ’2009 اور 2012 کے حملوں کے مقابلے میں یہ اسرائیل کی جانب سے سب سے شدید حملہ ہے جس میں ایک بڑی تعداد میں لوگ مارے اور زخمی ہوئے ہیں جن میں سینکڑوں بچے بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر کے مطابق ’اس بار اسرائیلی فوج نے منظم طریقے سے حملے کیے ہیں جس میں انھوں نے عام شہریوں کے مکانات کو ہدف بنایا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’بڑی تعداد میں ایک ہی خاندان کے لوگ ہسپتال آتے تھے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حملوں میں شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔‘
اقوام متحدہ کے مطابق اس بحران میں ہلاک ہونے والے 85 فیصد فلسطینی عام شہری تھے جبکہ چار فیصد اسرائیلی عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ یو این کے مطابق 16 ہزار تک گھر مکمل یا جزوی طور پر تباہ کیے گیے ہیں۔
ڈاکٹر میڈز کے مطابق یہ ایک شدید انسانی بحران ہے جو کہ اب تک جاری ہے کیوں کہ اس وقت غزہ میں 485 ہزار فلسطینی بے گھر ہیں جن میں سے کئی لوگ شفا ہسپتال علاج کے لیے آئے تھے اور ’ان کے پاس واپس جانے کے لیے اب کوئی گھر نہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ مزید 9,300 زخمی لوگوں کو علاج کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر میڈز کی نظر میں اسرائیل کا حملہ حماس کے خلاف نہیں بلکہ ’فلسطینی لوگوں کے خلاف‘ تھا۔
حالیہ بحران ماضی کے حملوں سے کیسے مختلف؟
"بڑی تعداد میں ایک ہی خاندان کے لوگ ہسپتال آتے تھے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حملوں میں شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔"
جاری جنگ بندی کے حوالے سے ڈاکٹر میڈز گلبرٹ کا کہنا ہے کہ فلسطینی ’ماضی کی طرح محض جنگ بندی نہیں چاہتے، بلکہ اپنا حق مانگتے ہیں۔ وہ غلاموں کی زندگی نہیں گزارنا چاہتے اور اس جنگ بندی کے دوران ان کے مطالبوں کو سنا جانا چاہیے۔‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ ڈاکٹر ہونے کے ناطے وہ بالخصوص کن چیزوں کی توقع کرتے ہیں تو گلبرٹ نے جواب دیا: ’بم دھماکے فوری طور پر روکے جانے چاہییں، محاصرہ ختم کر دیا جائے، سرحدوں کو کھول جائے تا کہ زخمی لوگوں کو غزہ سے باہر اچھا علاج مہیا کیا جا سکے اور ادویات کو غزہ میں آنے کی اجازت دی جائیں۔‘
ڈاکٹر میڈز پر اکثر تنقید کی گئی ہے کہ وہ اپنے پیشے کے ساتھ ساتھ سیاسی رائے رکھتے ہیں اور اسرائیل کے خلاف پروپگینڈا کرنے میں ملوث ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اصل ’میڈز گلبرٹ‘ کون ہیں، تو انھوں نے کہا کہ ’میں ایک انسان ہوں اور جہاں بھی کسی کو مدد چاہیے ہو گی، چاہے وہ ناروے کے کسی گاؤں میں ہو یا غزہ میں تو میں اسی کی طرف داری کروں گا۔ ایک عام آدمی کی حیثیت میں میں جتنی بھی سیاسی رائے رکھتا ہوں، میں بس انصاف چاہتا ہوں۔‘
ناروے اور دنیا بھر میں کئی لوگ ڈاکٹر میڈز گلبرٹ کو ہیرو سمجھتے ہوں گے لیکن ان کہنا ہے کہ ’فلسطینی لوگ اور فلسطینی ڈاکٹر اصلی ہیرو ہیں۔ وہ اپنے وقار سے ہمیں انسان ہونا اور انسانیت کا مطلب سکھا رہے ہیں
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/08/140806_mads_gilbert_interview_qs.shtml