اور یہی ایک اچھے مسلمان کی پہچان ہے اس کا "کردار "
اور یہی ایک اچھے مسلمان کی پہچان ہے اس کا "کردار "
محترم نایاب بھائی صاحب، بے شک ان اندرونی جھگڑوں کے باب میں بہت المناک واقعات ہیں اور ان پر مختلف دھاگوں میں بات ہوتی رہتی ہے،لیکن اس دھاگے میں زیربحث موضوع فلسطین ،غزہ اور اسرائیل کے مظالم ہیںمحترم ناصر مرزا بھائی ۔۔ کیا آپ کے پاس یہ معلومات ہیں کہ ان " اندرونی جھگڑوں " نے کتنے انسانوں کی ناحق جان لی ہے ۔
اور جان لینے والوں نے ان " اندرونی جھگڑوں " کے بل پہ جنت میں اپنی جگہ الاٹ کروائی ۔۔۔۔۔؟
کتنے معصوم بچے ان " اندرونی جھگڑوں " کی بھینٹ چڑھے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
مسجدوں کو ویران کرنے میں " اندرونی جھگڑوں " کا کیا کردار رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
بہت دعائیں
میری بات کا جواب خوبصورت انداز میں دینے کا شکریہ، آپ نے براہ راست میرے الزام کا جواب دینے کی بجائے بالکل اس انداز میں بات کا رخ موڑنے کی ناکام کوشش کی ہے لیکن ثابت ہوگیا کہ میری بات غلط نہیں ہےاللہ کی شان ہے کہ ایک اعلانیہ فرقہ پرست امت مسلمہ کے بارے غم سے گھلا جا رہا ہے
بے شک دوہرا معیار نہیں ہونا چاہیے آپ کے اصول کے مطابق جب بھی پاکستان میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو تو اس کی مذمت کے ساتھ ساتھ کشمیر،عراق، شام، اور فلسطین کے المیوں پر بات ضرور ہونی چاہیے تا کہ دوہرا معیار نہ ہو!!!!!!!، کیا واقعتا ایسا ہی ایسا ہے کہ جب آپ یا میں طالبان کی مذمت کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں ہونے والے سب المیوں اور واقعات کی مذمت بھی کرتے ہیں؟؟؟؟؟مسائل تو مسلمانوں کے ہی ہیں نا ؟ تو پھر مسلمانوں کے مسائل پر دوہرے میعار کیوں ؟ امت مسلمہ پاکستان میں نہیں ہے کیا ؟
کیسے انگلی اٹھائیں گے اسرائیل پر جب وہی انگلیاں انسانیت کے خون سے رنگی ہوں ؟
محترم، یہ بات کو پھیرنے کی کوشش نہیں ہے۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ اکثر احباب اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ آج ہمارے سامنے کیا مسئلہ ہے۔ میری عادت ہے کہ میں آج کی نہیں بلکہ مسئلے کی ابتداء پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ آپ میری پوسٹس دیکھ لیجئے کہ اسی دھاگے پر میں نے انہی وجوہات پر بات کرنے کی کوشش کی ہے کہ فرقہ پرستی، تعلیم سے دوری، بحیثیت قوم ہماری پستی (کردار کے حوالے سے میں نے پاکستان میں موجود ہلاکتوں اور فلسطین میں موجود ہلاکتوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے)، اور ہمارے اندر موجود عمومی برائیاں کس طرح ہمیں موجودہ مقام پر ہمیں لے آئی ہیں۔ آپ اس نکتہ نظر سے دیکھئے کہ میں نے بے شک سخت الفاظ استعمال کئے ہیں لیکن میری بات سے انکار شاید آپ کے لئے بھی ممکن نہ ہومحترم نایاب بھائی صاحب، بے شک ان اندرونی جھگڑوں کے باب میں بہت المناک واقعات ہیں اور ان پر مختلف دھاگوں میں بات ہوتی رہتی ہے،لیکن اس دھاگے میں زیربحث موضوع فلسطین ،غزہ اور اسرائیل کے مظالم ہیں
میری بات کا جواب خوبصورت انداز میں دینے کا شکریہ، آپ نے براہ راست میرے الزام کا جواب دینے کی بجائے بالکل اس انداز میں بات کا رخ موڑنے کی ناکام کوشش کی ہے لیکن ثابت ہوگیا کہ میری بات غلط نہیں ہے
بے شک دوہرا معیار نہیں ہونا چاہیے آپ کے اصول کے مطابق جب بھی پاکستان میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو تو اس کی مذمت کے ساتھ ساتھ کشمیر،عراق، شام، اور فلسطین کے المیوں پر بات ضرور ہونی چاہیے تا کہ دوہرا معیار نہ ہو!!!!!!!، کیا واقعتا ایسا ہی ایسا ہے کہ جب آپ یا میں طالبان کی مذمت کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں ہونے والے سب المیوں اور واقعات کی مذمت بھی کرتے ہیں؟؟؟؟؟
دوہرا معیار تو تب ہوتا جب اس مراسلے میں یا میں نے یا کسی دوسرے صاحب نے اسرائیل کے مظالم کی مذمت کے ساتھ ، دوسرے کسی بھی ظالمانہ واقعے کی حمایت کی ہوتی۔
آپ کے بیان کردہ اصول کے مطابق ، ہم پاکستانیوں کو کوئی حق نہیں کہ اسرائیل کی مذمت کریں جبکہ ہمارے اپنے ہاتھ خون سے رنگے ہیں، پھر آپ نےمراسلے میں اسرائیل کے مظالم کی مذمت کرکے اپنے ہی اصول کو توڑا ہے
کسی بھی ظلم پر خاموشی ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے آپ اگر ظلم کے خلاف ہیں تو سب سے پہلے آپ کو احمدیوں پر کئے گئے ظلم پر دھاگہ کھولنا چاہیے تھا مگر آپ نے خاموش رہنا پسند کیا تو آپ ہی کہیئے کیا فرق ہے ایک پاکستانی احمدی بچے اور ایک فلسطینی بچے میں ؟ کیوں احمدی بچوں اور عورتوں کو زندہ جلا دینے کا افسوسناک المیہ آپ کے دھاگے کی توجہ نہیں پا سکا یا تو ہر ظلم پر آواز اٹھائیے یا پھر دوہرے میعار پر ادھورے جواز مت پیش کیجیےمحترم نایاب بھائی صاحب، بے شک ان اندرونی جھگڑوں کے باب میں بہت المناک واقعات ہیں اور ان پر مختلف دھاگوں میں بات ہوتی رہتی ہے،لیکن اس دھاگے میں زیربحث موضوع فلسطین ،غزہ اور اسرائیل کے مظالم ہیں
میری بات کا جواب خوبصورت انداز میں دینے کا شکریہ، آپ نے براہ راست میرے الزام کا جواب دینے کی بجائے بالکل اس انداز میں بات کا رخ موڑنے کی ناکام کوشش کی ہے لیکن ثابت ہوگیا کہ میری بات غلط نہیں ہے
بے شک دوہرا معیار نہیں ہونا چاہیے آپ کے اصول کے مطابق جب بھی پاکستان میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو تو اس کی مذمت کے ساتھ ساتھ کشمیر،عراق، شام، اور فلسطین کے المیوں پر بات ضرور ہونی چاہیے تا کہ دوہرا معیار نہ ہو!!!!!!!، کیا واقعتا ایسا ہی ایسا ہے کہ جب آپ یا میں طالبان کی مذمت کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں ہونے والے سب المیوں اور واقعات کی مذمت بھی کرتے ہیں؟؟؟؟؟
دوہرا معیار تو تب ہوتا جب اس مراسلے میں یا میں نے یا کسی دوسرے صاحب نے اسرائیل کے مظالم کی مذمت کے ساتھ ، دوسرے کسی بھی ظالمانہ واقعے کی حمایت کی ہوتی۔
آپ کے بیان کردہ اصول کے مطابق ، ہم پاکستانیوں کو کوئی حق نہیں کہ اسرائیل کی مذمت کریں جبکہ ہمارے اپنے ہاتھ خون سے رنگے ہیں، پھر آپ نےمراسلے میں اسرائیل کے مظالم کی مذمت کرکے اپنے ہی اصول کو توڑا ہے
میرے بھائی ، ہم اسی صورت کسی دوسرے کے ظلم و زیادتی کے خلاف بات کر سکتے ہیں ۔ جب ہم نے اپنے گھر کو اپنوں کے ہاتھوں ہونے والے ظلم و زیادتی کا سد باب کر لیا ہو ۔۔۔۔ جب ہمارے گھر میں ہی آگ لگی ہے تو کس صورت ہم اس آگ سے منہ موڑ پرائی آگ میں کودنے کی ہمت کریں ۔۔۔۔۔۔۔؟محترم نایاب بھائی صاحب، بے شک ان اندرونی جھگڑوں کے باب میں بہت المناک واقعات ہیں اور ان پر مختلف دھاگوں میں بات ہوتی رہتی ہے،لیکن اس دھاگے میں زیربحث موضوع فلسطین ،غزہ اور اسرائیل کے مظالم ہیں
پاکستان میں لوگ عیسائی کو اچھوت سمجھتے ہیں۔ احمدی کو واجب القتل۔ ہندو جبری اغوا اور مظالم سے تنگ آکر ہجرت پر مجبور۔ اہل تشیع اور ہزارویوں کو بسوں سے اتار کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔]
لیکن عمومی طور پہ ہمارے معاشرے میں اقلیتوں سے بہت برا سلوک روا نہیں رکھا جاتا ۔۔۔۔۔
محترم چوہدری صاحب یہ جنہیں آپ " چند " لوگ قرار دیتے ان کے جانب سے ہونے والے معصوم انسانوں پہ ظلم و تشدد کو " فرقہ ورانہ " تشدد قرار دے رہے ہیں ۔ کیا یہ " چند " لوگوں پہ مشتمل تمام " فرقہ ورانہ تنظیمیں " بیرونی ریاستوں کی فنڈنگ پر نہیں چلتی ہیں ۔؟ اور جو بھی بیرونی ریاست ان کی فنڈنگ کرتی ہے ۔ وہ براہ راست اس تشدد میں شریک ہوتی ہے ۔اور یہ بیرونی ریاستوں کی ہمارے ملک میں چھیڑی جنگ ہے ۔۔جو ریاست جو معاشرہ جو حکومت اپنے شہریوں کے بلا تفریق مذہب و جنس تحفظ میں ناکام رہے ۔اس ریاست ا س معاشرے اس حکومت کی کسی دوسری ریاست میں ہوئے تشدد کے خلاف اٹھائی آواز کتنی حقیقی کتنی با اثر ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟پاکستان میں کوئی باہرکی ریاست آ کر قتل و غارت گری نہیں کر رہی۔ریاست پاکستان کے عوام میں موجود چند گمراہ لوگ اپنے جیسی دوسری عوام کو عقیدے کے فرق کی وجہ سے قتل کر رہی ہے۔ ان ہلاکتوں میں ریاست کا براہ راست کوئی دخل نہیں۔ اسے آپ ریاست میں موجود حکومت کی نا اہلی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ریاست کے مختلف العقیدہ افراد کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی۔
جبکہ
اسرائیل بطور ریاست، انسانوں کو قتل کر رہا ہے نا کہ اسرائیل کے یہودی شہری دوسرے ملک کے مسلمان شہریوں کو مار رہے ہیں۔ اگر شہری ایک دوسرے کو مارتے تو فرقہ وارانہ فسادات کہلاتے جنگ نہیں۔
براہ کرم بحث کرتے ہوئے اس نقطے کو ملحوظ رکھا کریں۔
البتہ دونوں جگہ صرف ایک قدر مشترک ہے کہ انسان قتل ہو رہے ہیں۔
نایاب بھائی، میری بات کا تناظر یہ نہیں تھا۔محترم چوہدری صاحب یہ جنہیں آپ " چند " لوگ قرار دیتے ان کے جانب سے ہونے والے معصوم انسانوں پہ ظلم و تشدد کو " فرقہ ورانہ " تشدد قرار دے رہے ہیں ۔ کیا یہ " چند " لوگوں پہ مشتمل تمام " فرقہ ورانہ تنظیمیں " بیرونی ریاستوں کی فنڈنگ پر نہیں چلتی ہیں ۔؟ اور جو بھی بیرونی ریاست ان کی فنڈنگ کرتی ہے ۔ وہ براہ راست اس تشدد میں شریک ہوتی ہے ۔اور یہ بیرونی ریاستوں کی ہمارے ملک میں چھیڑی جنگ ہے ۔۔جو ریاست جو معاشرہ جو حکومت اپنے شہریوں کے بلا تفریق مذہب و جنس تحفظ میں ناکام رہے ۔اس ریاست ا س معاشرے اس حکومت کی کسی دوسری ریاست میں ہوئے تشدد کے خلاف اٹھائی آواز کتنی حقیقی کتنی با اثر ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اسرائیل کی موجودہ غزہ میں چھیڑی جنگ بھی " فرقہ ورانہ " بنیادوں پر اپنی پوری شدت سے جاری ہے ۔ اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر ہی وہ تمام مسلم ممالک اس جنگ سے آنکھ بند کیئے ہوئے ہیں ۔ جو کہ فلسطین کی آزادی کی تحریک میں شامل تمام جماعتوں کو اپنے اپنے " فرقوں " کی بنیاد پر " فنڈنگ " سے نوازتے رہے ہیں ۔۔۔۔
یہ " فرقہ واریت " کا زہر ہی جو کہ امت مسلمہ کو پوری طرح مفلوج کیئے ہوئے ہے ۔۔
شام ہو عراق ہو یہاں بھی فرقہ وراریت کا ہی راج ہے ۔ اور مر رہے ہیں ہر جگہ معصوم عوام ۔۔ مسلمان ہیں جو ۔۔ اور فرقے ان کی شناخت ۔۔۔۔ اس سلامتی کے دین سے نکالے فرقے جو کہ انسانوں لیئے سراپا رحمت اور مسلمانوں کو جسد واحد میں پرو رکھنے والا دین ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
محترم بھائی اس خبر میں چھپی حقیقت کیا ہے ذرا غور کیجئے گا ۔۔۔۔۔نایاب بھائی، میری بات کا تناظر یہ نہیں تھا۔
کچھ دوست اس بات کا موازنہ یا شکوہ کر رہے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف تو پاکستان میں بہت آواز اٹھائی جاتی ہے، جبکہ پاکستان میں اقلیتوں پر ہونے والےظلم اور زیادتی پر کیوں نہیں بولا جاتا، میری بات صرف اس رویے کی وضاحت کے لیے تھی، کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
باقی جہاں تک رہی یہاں یا وہاں کی فرقہ واریت تو اس پر ہر بندے کا اپنے عقیدے کے مطابق اپنا نظریہ ہے۔
نوازش
یہ خبر میں پڑھ چکا ہوں۔ اور یہ حقیقت بھی خوب سمجھتا ہوں۔محترم بھائی اس خبر میں چھپی حقیقت کیا ہے ذرا غور کیجئے گا ۔۔۔۔۔
زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزہ پر پراسرار خاموشی دنیا کی بدلتی ہوئی روش کا عکاس ہے۔
ہمارا بھی یہی کہنا ہے کہ " انسانیت کا قتل " ہو رہا ہےپاکستان میں کوئی باہرکی ریاست آ کر قتل و غارت گری نہیں کر رہی۔ریاست پاکستان کے عوام میں موجود چند گمراہ لوگ اپنے جیسی دوسری عوام کو عقیدے کے فرق کی وجہ سے قتل کر رہی ہے۔ ان ہلاکتوں میں ریاست کا براہ راست کوئی دخل نہیں۔ اسے آپ ریاست میں موجود حکومت کی نا اہلی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ریاست کے مختلف العقیدہ افراد کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی۔
جبکہ
اسرائیل بطور ریاست، انسانوں کو قتل کر رہا ہے نا کہ اسرائیل کے یہودی شہری دوسرے ملک کے مسلمان شہریوں کو مار رہے ہیں۔ اگر شہری ایک دوسرے کو مارتے تو فرقہ وارانہ فسادات کہلاتے جنگ نہیں۔
براہ کرم بحث کرتے ہوئے اس نقطے کو ملحوظ رکھا کریں۔
البتہ دونوں جگہ صرف ایک قدر مشترک ہے کہ انسان قتل ہو رہے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہو کہ یہ مقدمہ سماعت تک پہنچ جائےنہتے شہریوں پر حملہ جنگی جرم ہے: ہیومن رائٹس واچ
ڈان اخبار تاریخ اشاعت 05 اگست, 2014
نیو یارک: انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیلی افواج نے غزہ کے جنوبی قصبے خضاء میں بے گناہ شہریوں پر فائرنگ اور اُن کا قتل عام کر کے 23 سے 25 جولائی کے دوران بے شمار مرتبہ جنگی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ نہتے شہریوں پر حملہ کرنا جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
خضاء سے بچ نکلنے والے سات فلسطینیوں نے ہیومن رائٹس واچ کو ان خطرات کے حوالے سے بتایا جن کا سامنا فلسطینی شہریوں کو اسرائیلی سرحد کے قریب واقع قصبے خان یونس میں پناہ لینے کے لیے کرنا پڑتا ہے۔
ان خطرات میں اسرائیلی فورسز کی جانب سے شہریوں کی املاک پر مسلسل شیلنگ، بنیادی طبی سہولیات تک رسائی میں مشکلات اور نقل مکانی کے دوران اسرائیلی فوج کے حملوں کا ڈر شامل ہے۔
مشرق وسطیٰ کے لیے ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر سارہ لیہہ ودسن کا کہنا ہے کہ خضاء کے بے گناہ شہریوں کو کب انصاف ملے گا، جو کافی عرصے سے اسرائیلی شیلنگ برداشت کر رہے ہیں اور جب انہیں علاقہ چھوڑںے کا حکم دیا جاتا ہے تو پھر اس دوران ان پر اسرائیلی فوج کی جانب سے شدید حملے کیے جاتے ہیں۔
حماس معصوم ہے۔ یہ تو اسرائیلی ہی تھے جو حماس کے بندے لگ رہے تھے۔ دیکھ لیجئے کہ منہ تک انہوں نے نہیں دکھائے، حالانکہ منہ پر ہی تو لکھا ہوتا ہے کہ یہ حماس کے تھے یا اسرائیل کے
درست۔ حماس کی فنڈنگ اور امداد قطر، ایران اور ترکی سے آتی ہے۔ جبکہ مغربی کنارہ میں موجود فلسطینیوں کی قیادت فتح کیلئے امداد سعودیہ، اُردن وغیرہ سے آتی ہے۔ جب فلسطینیوں کی سیاسی و عسکری قیادت ایک قومی ہدف کیلئے متحد ہی نہیں تو ہم یہاں کیا بحث و مباحثہ کر رہے ہیں۔یہ " فرقہ واریت " کا زہر ہی جو کہ امت مسلمہ کو پوری طرح مفلوج کیئے ہوئے ہے ۔۔