عبدالقدیر 786
محفلین
بہت ہی خوبصورتی اور محنت سے جواب دیا ہے آپ نےدیکھیے بزرگوار، اگر کسی چیز یا شخص میں محض برا ئی ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے تو ایسا کرنا بہت آسان ہے۔ آپ کو برائیاں ہی برائیاں نظر آئیں گی۔ زاویہ نگاہ تبدیل کیجیے تو معاملہ برعکس بھی ہو سکتا ہے۔
مسلمان کا کبھی ایک وطن نہیں ہوتا، ایک امت کے طور پر ساری دنیا ہی اس کا وطن ہے ۔ اگر انڈیا تقسیم نہ ہوتا تو چائنا سے بھی بڑی آبادی ہوتا اور اس کو چلانا بہت مشکل ہوتا اور تب بھی یہ مستقل خطرناک ملک رہتا کہ مسلمان اکثریت میں کبھی نہ ہوتے۔ کشمیر کی حالت دیکھ لیجیے۔ ستر سالوں سے انڈیا کے ساتھ ہے اور مستقل دنگا فساد کی آماجگاہ ہے۔ پاکستان کی اہمیت تو اب مودی کی حکومت کے بعد ان لوگوں کو بھی سمجھ آنے لگی ہے جو پہلے سمجھتے نہیں تھے۔ تو آپ ملک میں سکون سے رہ رہے ہیں۔ آپ پاکستان میں ہر جگہ رہ سکتے ہیں جبکہ انڈیا میں بڑے بڑے اداکار بھی کچھ علاقوں میں گھر خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ معاشرتی رسم و رواج کی گہری چھاپ مذہب پر لگنے کی وجہ سے لوگ مذہب پر عمل پیرا کم ہی ہوتے ہیں۔ اکبر کا دین الہی اس کی مثال ہے۔ مسلمانوں کی ہندؤوں سے شادی تو اب بہت ہی عام سی بات ہے۔ پاکستان میں تو کبھی ایسا نہیں سنا۔ پاکستان بننے میں جو خون ریزی ہوئی ویسی ہی خون ریزی اور ظلم تو 1857 میں بھی ہوا تھا جب فرنگی راج تھا۔ تو کیا قومیں موت کے خوف سےجدوجہد کرنا چھوڑ دیں؟ اسلامی ہسٹری تو ایسی مثالوں سے اٹی پڑی ہے۔ یزیدی قوتوں کے سامنے تو نواسہء رسول رض نے اپنے خاندان تک کی قربانی دے ڈالی۔ اور شہید تو زندہ ہی رہتے ہیں۔ جو بھی راہ حق میں شہید ہوا اس کے درجات کا سوچیے۔
جہاں تک پاکستا ن میں مشکلات کا ذکر ہے تو ایسا ہر ملک میں ہی ہوتا ہے۔ انتہا پسندی چاہے کسی کی جانب سے ہو بھیانک نتائج دیتی ہے۔ تعصب کی آگ سب سے پہلے انسان کو خود جلاتی ہے۔ تو جو لوگ ایسا کرتے ہیں اپنے ساتھ ہی ظلم کرتے ہیں۔
کوٹہ سسٹم اردو اسپیکنک کے ساتھ کم زیادتی اور سندھی اسپیکنک کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔ یہ بات کبھی نہ کبھی ان کو بھی سمجھ آ جائے گی جنہوں نے کوٹہ سسٹم نافذ کیا۔ اردو اسپیکنک اس کی وجہ سے ساری دنیا سے مقابلہ کرتے ہیں۔ ہر ملک میں اچھی پوسٹوں پر نظر آتے ہیں۔ ملک میں پرائیویٹ سیکٹر پر ان کا قبضہ ہے۔ انہیں زیادہ محنت کرنی پڑھتی ہے تو زیادہ آپشنز بھی سامنے ہوتے ہیں۔ اس سسٹم نے تمام ادارے تباہ کر دیے۔ کون ہے جو آج کل سرکاری اسکولوں یا اسپتالوں میں جاتا ہے۔ برائی کا درخت کبھی بھی اپنے لگانے والے کو میٹھا پھل نہیں دیتا۔ سرکاری نوکریوں کو تو اب کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ یہ سسٹم اپنی موت آپ مر جائے گا۔ کب تک آپ سفید ہاتھی پالتے رہیں گے۔ انفردی یا اجتمائی ترقی کے لیے کوٹہ سسٹم ہونا یا نہ ہونا کچھ معنی نہیں رکھتا۔ رزق تو اللہ دیتا ہے۔ یہ جو سرکاری نوکریوں کا چارم ہے تو صرف کرپشن یا نکمے پن کی وجہ سے ہے۔
بادشاہی مسجد سے لیکر فیصل مسجد تک کئی مساجد سرکار نے بنائی ہیں۔ اقلیتوں کا خیال رکھنا تو اچھی بات ہے۔ بھائی چارے کی فضا قائم رکھنے کے لیے ضروری بھی ہے۔ شکر کیجیے کہ اقلیتیں اسی وجہ سے ہمارے ملک میں تعصب کا شکار نہیں ہیں۔
تین سے تو زیادہ ہی باتیں ہو گئیں۔ اس پر تو ابھی معلوم ہوا کہ ہم ناچیز اس موضوع پر ایک عدد کتاب بھی لکھ سکتے ہیں ۔ ۔ہاہاہا
کتاب لکھنے کی فرصت نہیں۔ فی الحال ممتاز مفتی کی کتاب رام دین پڑھ لیجیے گا۔
تو اتنا زیادہ نہ سوچا کریں۔ اب تو ملک بن گیا ہے۔ تو آگے بڑھ جاتے ہیں۔
تو کیا چالاکیاں صرف آپ ہی کر سکتے ہیں۔!!
پاکستان اب بھی بہت اچھا ہے بجائے کشمیر اور ہندوستان میں رہنے سے