احمدی جواب دیتے ہیں

جاسم محمد

محفلین
احمدی جواب دیتے ہیں
24/07/2019 ارمغان احمد داؤد


شکور بھائی چشمے والے، دنیا کے انیس ممالک سے آئے تقریباً تیس کے قریب اپنے اپنے ملک میں مذہبی منافرت کا شکار لوگوں کے ہمراہ، ٹرمپ سے کیا ملے کہ ارضِ پاک میں طوفانِ بدتمیزی مچا ہے۔ جس کے منہ میں جو آ رہا ہے شیرِ مادر کی طرح حلال سمجھ کر بولی جا رہا ہے۔ اعتراضات کے نہ سر ہیں نہ پیر۔ گمراہی کے فتووں سے ان کی باتیں شروع ہوتی ہیں اور کفر کے پُر پیچ راہوں سے ہوتے یہ غیرتمندانِ ملت جوازِ قتل بھی ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ایک غدر مچا ہے جو بپھرے ہوئے جلوس کی مانند معصوموں کی املاک توڑتا جلاتا چلا جا رہا ہے اور کوئی نہیں جو ان ڈنڈا برادروں کو کچھ کہہ سکے۔

مذہبی، سیاسی، سماجی اور قانونی نوعیت کے جھوٹے الزامات و لایعنی اعتراضات کا اک طومار ہے، مشتے از خروارے کچھ پر نظر ڈالتے ہیں۔ مذہبی بحث کو ہم تختہ مشق نہیں بنائیں گے کہ نہ موقع ہے اور نہ محل۔

یار لوگ فرماتے ہیں کہ احمدی آئین نہیں مانتے اس لئے پاکستان کے غدار ہیں۔ پہلے ہم الزامی جواب دے لیتے ہیں۔ آپ کے پسندیدہ مجاہدین تحریک طالبان پاکستان اور صوفی محمد وغیرہم بھی آئین نہیں مانتے تھے، تو کیا وہ بھی غدار تھے؟ جنرل ضیاءالحق نے بھی پورے کا پورا آئین معطل کر کے طاق پر رکھ دیا تھا۔ ایک شق کیا وہ تو پورا آئین ہی محض کاغذ کے ٹکڑے مانتے تھے۔ تو آپ کی نظر میں وہ پاکستان کے غدار تھے؟ اب اصل جواب کی طرف آتے ہیں۔

احمدی پورا آئین اسی طرح مانتے اور احترام کرتے ہیں جس طرح کسی بھی مہذب معاشرے کے پروقار اور باشعور شہری کو اپنے ملک کے آئین کو ماننا اور احترام کرنا چاہیے سوائے اس شق کے جس میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہوا ہے۔ اس شق سے احمدیوں کو اختلاف ہے کہ وہ اسے وائیڈ ایب اینیشیو (void ab initio) سمجھتے ہیں۔ احمدیوں کے نزدیک کسی ریاست، کسی اسمبلی یا کسی عدالت کو اپنے کسی بھی شہری کے مذہب کے تعیین کا قطعاً بھی کوئی اختیار نہیں ہے۔

اب آئین میں ایسی کسی شق کو احمدی کیسے مان سکتے ہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ایک شق کیا، کئی شقوں سے اختلاف رکھنے سے بھی کوئی شہری آئین کا غدار نہیں ہو جاتا، یہی تو جمہوریت کا حسن ہے کہ اختلافات پر مذاکر ات چلتے رہتے ہیں۔ آئین کی بعض شقوں سے اختلافات کا معاملہ اتنا سامنے کا آئینی حق ہے کہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ آئین پاکستان کی شق 5 پڑھ لیجئے۔ جس میں ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ ریاست کا وفادار ہو اور آئین کی اطاعت کرے۔ ریاست سے ہم سب کی وفاداری واضح ہے۔ آئین کی اطاعت کا اقرار کرتے ہوئے آئین کے کسی حصے سے اختلاف اور اس ضمن میں سیاسی طریقہ کار اپنانا ہر شہری کا حق ہے۔ اسی لئے آئین کی شق 239 میں آئینی ترمیم کا حق دیا گیا ہے اور طریقہ کار بیان کیا گیا ہے۔ 2010ء میں ارکان پارلیمنٹ نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے دستور کی 100 سے زائد شقیں تبدیل کر ڈالیں۔ انہیں آئین کے مخلتف حصوں سے اختلاف تھا تو ان تبدیلیوں پر آمادہ ہوئے۔ آئین کے کسی حصے کے بارے میں قانونی اور جمہوری رائے رکھنا کوئی جرم نہیں۔


ہمارے احباب احمدیوں پر احسانِ عظیم کرتے ہوئے مشورہ دیتے ہیں کہ آئین کے تحت اپنے آپ کو غیر مسلم مان لو تو پھر ہم تمہیں سارے حقوق دیں گے، نہیں مانو گے تو حقوق بھی بھول جاؤ۔
یعنی ہمارے دوستوں کا کہنا ہے کہ ابھی تو صرف عبادت گاہیں جلائی اور گرائی جاتی ہیں، ٹارگٹیڈ کلنگ ہوتی ہے مگر بعد میں جوزف کالونی اور گوجرہ کے عیسائیوں کی طرح بستیوں کی بستیاں جلائی جائیں گی یا جیسے ہندو لڑکیوں کوزبردستی مسلمان بنا کر ریپ کیا جاتا ہے یا جیسے انہیں مجبور کر دیا جاتا ہے کہ وہ بھارت چلے جائیں اسی طرح احمدیوں کے ساتھ بھی کیا جائے گا۔ اور ہاں یاد آیا، ہزارہ شیعہ تو مسلمان ہی ہیں، ان کو تو سارے حقوق حاصل ہوں گے، پھر ان کے قبرستان جوان کٹی پھٹی لاشوں سے کیوں بھرے پڑے ہیں؟ شیعہ بھی مسلمان ہی ہیں، تو پھر آئے دن ان کے ڈاکٹرز، وکیل، پروفیسرز کیوں گولیوں کا نشانہ بنے پھرتے ہیں؟ کن حقوق کی بات کرتے ہو بھیا؟


سوچنے کی بات ہے کہ جو احمدیوں کو غیرمسلم سمجھنا چاہتے ہیں تو بصد شوق سمجھیں مگر وہ احمدیوں سے اس بات کا تقاضا کس منطق کے تحت کر سکتے ہیں کہ احمدی بھی اپنے آپ کو غیرمسلم سمجھیں جبکہ قانوں کے مسلمہ اصولوں کے مطابق ریاست کا یہ کام ہی نہیں ہے۔ اب ریاست جبراً جب ہم سے یہ بات منوانا چاہتی اور نہ ماننے کی صورت میں جیلوں میں ڈالتی ہے تو ہر مظلوم کی طرح احمدیوں کا بھی حق ہے کہ وہ آہ و بکا کریں اور اپنا کرب لوگوں تک پہنچائیں تاکہ بنیادی انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کے بارے میں لوگوں کو آگاہی حاصل ہو۔ اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ آپ احمدیوں پر ظلم بھی کریں اور پھر آپ چاہیں کہ احمدی اب اس ظلم پر خاموش بھی رہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
مسئلہ بالکل صاف اور واضح ہے۔پاکستان میں بسنے والی مسلم اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اسلام کے نام پر کسی اور مذہب کا پرچار کیا جا رہا ہے اس لیے مسلم اور قادیانی کے مابین فرق موجود رہنا چاہیے۔ دیگر مذاہب کے معاملے میں ایسا ایشو موجود نہیں ہے۔ قادیانی خود کو مسلم تصور کرتے ہیں جب کہ مسلم اکثریت انہیں اسلام سے خارج سمجھتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مسئلہ بالکل صاف اور واضح ہے۔پاکستان میں بسنے والی مسلم اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اسلام کے نام پر کسی اور مذہب کا پرچار کیا جا رہا ہے اس لیے مسلم اور قادیانی کے مابین فرق موجود رہنا چاہیے۔ دیگر مذاہب کے معاملے میں ایسا ایشو موجود نہیں ہے۔ قادیانی خود کو مسلم تصور کرتے ہیں جب کہ مسلم اکثریت انہیں اسلام سے خارج سمجھتی ہے۔
یہاں تک سب متفق ہیں۔ البتہ کیا اس کی آڑ میں یہ رویہ درست ہے؟
ہمارے احباب احمدیوں پر احسانِ عظیم کرتے ہوئے مشورہ دیتے ہیں کہ آئین کے تحت اپنے آپ کو غیر مسلم مان لو تو پھر ہم تمہیں سارے حقوق دیں گے، نہیں مانو گے تو حقوق بھی بھول جاؤ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہمارے احباب احمدیوں پر احسانِ عظیم کرتے ہوئے مشورہ دیتے ہیں کہ آئین کے تحت اپنے آپ کو غیر مسلم مان لو تو پھر ہم تمہیں سارے حقوق دیں گے، نہیں مانو گے تو حقوق بھی بھول جاؤ۔

کون سے حقوق نہیں مل رہے اُنہیں؟
 

فرقان احمد

محفلین
یہاں تک سب متفق ہیں۔ البتہ کیا اس کی آڑ میں یہ رویہ درست ہے؟
غیر مسلموں کو جو حقوق حاصل ہیں، وہ قادیانیوں کو ملنے ضروری ہیں اور اگر انہیں یہ حقوق نہ دیے جائیں تو ہمیں اُن کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے۔ :)
 

آصف اثر

معطل
رائٹر احمدی ہیں یا اُن کے ترجمان ہیں؟
جو احمدیوں قادیانیوں کا ترجمان بن گیا اس کے غیرمسلم ہونے میں بھی کوئی شک نہیں۔ ختم نبوت اسلامی عقائد کی بنیادوں میں سے ہے۔ اس میں کسی قسم کی بھی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
غیر مسلموں کو جو حقوق حاصل ہیں، وہ قادیانیوں کو ملنے ضروری ہیں اور اگر انہیں یہ حقوق نہ دیے جائیں تو ہمیں اُن کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے۔ :)

متفق !

لیکن شاید وہ خود کو مسلمان کہلانے پر مُصر ہیں۔
 

آصف اثر

معطل
غیر مسلموں کو جو حقوق حاصل ہیں، وہ قادیانیوں کو ملنے ضروری ہیں اور اگر انہیں یہ حقوق نہ دیے جائیں تو ہمیں اُن کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے۔ :)
یہ تب ممکن ہے جب قادیانی اپنا کفر تسلیم کرے۔ وگرنہ اسرائیل سے بہتر آپشن نہیں ان کے لیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
رائٹر احمدی ہیں یا اُن کے ترجمان ہیں؟
جی مجھے بھی یہی لگتا ہے۔

شکور بھائی چشمے والے، ٹرمپ اور قادیانی کارڈ
21/07/2019 ارمغان احمد داؤد



کچھ مہینے گزرتے ہیں اور ہمارے پاکستانی ہم وطنوں کو پھر سے اپنے اجماعی و متفقہ عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کے لئے فیس بک کی راہوں پر لٹھ لے کر بھاگنا دوڑنا پڑتا ہے۔

کہانی کچھ یوں ہوئی کہ کچھ سال پہلے پنجاب پولیس نے ربوہ شہر میں اسی سالہ شکور بھائی چشمے والے کی دکان پر ریڈ کر کے “ممنوعہ لٹریچر” رکھنے کے الزام میں انہیں گرفتار کر کے تعزیراتِ پاکستان کے دفعہ دو سو اٹھانوے سی کے تحت مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے، احمدیت کی تبلیغ کرنے اور نیپ کے تحت دہشت گردی کی دفعہ گیارہ ڈبلیو میں ممنوعہ لٹریچر کو چھاپنے اور بیچنے کا مقدمہ دائر کر دیا۔ ریڈ کے وقت علامہ طاہر اشرفی کے بھائی (غالباً حسن معاویہ نام ہے) بھی پولیس کے ساتھ موجود تھے جو کہ احمدیوں پر اس طرح کے مقدمات کروانے کے لئے شہرت رکھتے ہیں۔ شکور بھائی پر مقدمہ چلا اور انہیں ان دفعات کے تحت تین اور پانچ سال کی سزا سنا دی گئی۔

جس ممنوعہ لٹریچر پر سزا سنائی گئی اس کی لسٹ ہائی کورٹ اپیل کے فیصلے سے ملاحظہ ہو:

1- تفسیرِ صغیر (اردو ترجمہ قران از مرزا بشیر الدین محمود احمدصاحب، جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ)

2- اردو ترجمہ قران از مرزا طاہر احمد صاحب (جماعت احمدیہ کے چوتھے خلیفہ)

3- اردو لفظی ترجمہ قران از میر محمد اسحاق صاحب

4- کشتی نوح از مرزا غلام احمد صاحب (بانی جماعت احمدیہ)

5- تذکرۃ المہدی

6- روزنامہ الفضل

7- ماہنامہ مصباح

دو ہزار دس کے جس نوٹیفیکیشن کا حوالہ دیا گیا کہ یہ لٹریچر اس کے تحت ممنوعہ ہے، اس نوٹیفیکیشن میں سوائے الفضل اور مصباح کے ان میں سے کسی اور کتاب یا ترجمہ قران کا نام نہیں۔ روزنامہ اور ماہنامہ جو کہ ویسے ہی حکومت کی اجازت سے نکلتے ہیں، اس کے کسی خاص ایشو کو بین کرنے کی بجائے پچھلی اگلی سب اشاعتوں کو بین کر دینے میں جتنی عقلمندی ہے وہ اظہرمن الشمس ہے۔ جب نوٹیفیکشن میں نام نہ ہونا ہائی کورٹ میں زیر بحث آیا تو فیصلے کا لب لباب یہ ہے کہ تو کیا فرق پڑتا ہے، کچھ کتابیں تو ہیں نا جو برآمد ہوئیں ہیں جن کے نام نوٹیفیکیشن میں ہیں۔ بس رہے نام اللہ کا۔

لٹریچر تو خیر بہانہ تھا، بدنیتی اس بات سے ہی ظاہر ہے کہ تین ساڑھے تین سال کے اس عرصے میں لاتعداد تاریخیں دے کر اس کیس کو دانستہ طور پر التوا میں رکھا گیا۔ احمدیوں کے اکثریتی شہر میں احمدیوں کو قران اور کتابیں بیچنے سے عامۃ المسلمین کے جذبات کیسے مجروح ہو جاتے ہیں یہ راز ابھی تک طشت از بام نہیں ہوا۔ اگر یہی کرنا ہے تو مسلمانوں کے جذبات تو احمدیوں کے سانس لینے سے بھی مجروح ہو جاتے ہیں، اب کیا احمدی سانس لینا بھی چھوڑ دیں؟ یا سب احمدیوں کو جیل میں ڈال دیا جائے؟ خیر، ہائی کورٹ نے شکور بھائی کی اپیل خارج کر دی مگر ساتھ ہی سزا پوری ہونے کا عندیہ دے دیا جس کی وجہ سے شکور بھائی رہا ہوگئے۔

ظلم کی بات یہ کہ شکور بھائی کےایک ملازم، جو کہ شیعہ ہیں، بھی ساتھ ہی گرفتار کئے گئے ان کو بھی پانچ سال کی قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

امریکا کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مذہبی آزادی کو فروغ دینے اور مذہبی ایذارسانی کی سچی کہانیاں دنیا کے ساتھ شئیر کرنے کیلئے انیس ملکوں سے تیس لوگوں کو دعوت دی گئی۔ اس میں مختلف ملکوں سے تیرہ عیسائی، چین اور برما سے مسلمان، بنگلہ دیش سے ہندو، افغانستان سے ہزارہ شیعہ، عراق سے یزیدی، ایران سے یہودی اور بہائی، پاکستان سے عبدالشکور احمدی اور شان تاثیر (سلمان تاثیر کے بیٹے) اور باقی ملکوں سے کچھ لوگ اور شامل تھے۔ ان کی امریکا کے صدر ٹرمپ سے بھی ملاقات کرائی گئی اور شکور بھائی نے ٹرمپ کو صرف وہی بتایا جو ان کے ساتھ ہوا۔ بس۔ مگر یہاں پاکستان وہ طوفان بدتمیزی برپا ہوا کہ الامان الحفیظ۔

اگر تو شکور بھائی نے ٹرمپ کے سامنے جھوٹ بولا تو وہ جھوٹ واضح کیا جائے، اور اگر شکور بھائی نے سچ بولا جس سے آپ کے نزدیک پاکستان کی بدنامی ہوئی، تو پاکستان کے شکور و تاثیر کی زبانوں کو تالے لگانے کی بجائے ایسے قوانین ختم کریں جس سے پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر بدنامی ہوتی ہے۔ آپ کا دل ہے کہ آپ مذہبی شدت پسندی اور ظلم بھی کرتے رہیں اور مظلوم آہ بھی نہ نکالے۔ ایسے نہیں ہو سکتا۔

جس ملک میں انتہا پسند نظریات رکھنے والے، تفرقہ پھیلانے والے کھلے پھرتے ہوں۔ بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد کہلانے والے دھوپ چھاؤں کی طرح ادھر ڈوبے، ادھر نکلے کی تصویر پیش کرتے ہوں، وہاں عبد الشکور جیسے قران بیچنے والے ہی مجرم قرار پائیں گے۔

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

بول زباں اب تک تیری ہے

تیرا ستواں جسم ہے تیرا

بول کہ جاں اب تک تیری ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
جو احمدیوں قادیانیوں کا ترجمان بن گیا اس کے غیرمسلم ہونے میں بھی کوئی شک نہیں۔ ختم نبوت اسلامی عقائد کی بنیادوں میں سے ہے۔ اس میں کسی قسم کی بھی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے۔

اپنا عقیدہ تبدیل کیے بغیر کسی طبقے کو مظلوم سمجھتے ہوئے اس کے لئے آواز بلند کرنے میں حرج نہیں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
شکور صاحب پاکستان کا قانون نہیں جانتے تھے کیا؟
انسان جس ملک بھی رہے وہ اُس ملک کے دستور کا پابند ہوتاہے۔
شکور بھائی نے قانون توڑا۔ ان کو سزا مل گئی۔ بات ختم ہو گئی۔
پھر وہ ٹرمپ سے ملے اور اپنی داستان بیان کی۔ تو اسلام کو خطرہ لاحق ہو گیا۔
کئی کئی دن تک قادیانیوں کے خلاف ٹرینڈز چلتے رہے، پراپگنڈہ ہوتا رہا ہے۔
جب قانون موجود ہے اور اس پر عمل بھی ہو رہا ہے تو پھر اتنا خوف کیوں؟
 
Top