قائد اعظم کے بارہ میں اس وقت کے علما کرام کے چند القابات جو پاکستان بننے کے بعد ملک و قوم کے خودساختہ ٹھیکے دار بن گئے:
تحریک پاکستان کے دنوں کی بات ہے، لاہور کا علاقہ پیسہ اخبار مذہبی تنظیموں کے اجتماع کا گڑھ ہوا کرتا تھا، ان دنوں جمعیت علمائے اسلام کے مولانا غوث ہزاروی کی زیرصدارت ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں سٹیج پر موجودہ ڈیزل یعنی فضل الرحمان کے والد مولانا مفتی محمود سمیت بڑے بڑے علما موجود تھے۔
اس جلسے میں مجلس احرار کے مولوی مظہر علی اظہر بھی موجود تھے جو اِدھر علی اُدھر کے نام سے مشہور تھے۔ جب خطاب کرنے کی باری آئی تو اس ملا نے اپنی تقریر کا آغاز اس شعر سے کیا:
اک کافر کے واسطے اسلام کو چھوڑا
یہ کافر اعظم ہے کہ قائد اعظم
جب مولوی نے قائد اعظم کو کافراعظم کہا تو سٹیج پر بیٹھے تمام ملا بشمول مفتی محمود کے چہروں پر بے ساختہ مسکراہٹ آگئی اور انہوں نے بے اختیار سبحان اللہ، کیا کہنے، کیا کہنے ۔ ۔ ۔ کا ورد الاپنا شروع کردیا۔
یہ وہ پہلا موقع تھا جب ملاؤں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو کافر اعظم کا خطاب دیا اور پھر بعد میں اس پر جم گئے۔ قائد اعظم کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ مسلمانوں کو انگریزوں کے ساتھ ساتھ کانگریس اور ہندوؤں کی غلامی سے نجات دلانا چاہتے تھے اور انہیں وہ سب حقوق دلانا چاہتے تھے جن سے انہیں محروم رکھا گیا۔
دوسری طرف ملا یہ چاہتے تھے کہ انگریز کے جانے کے بعد کانگریس کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خود ساختہ ٹھیکیدار بن کر اقتدار کے حصے دار بن جائیں، پھر متحدہ ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کی تقدیر کا فیصلہ ان ملاؤں کے ہاتھ میں رہے اور تمام خزانوں کی چابیاں بھی ان کے نیفے سے ٹنگی رہیں۔
تحریک پاکستان کے دنوں میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولوی مرغوب الحسن نے ممبئی کے اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا:
" جناح نماز نہیں پڑھتے، شراب پیتے ہیں، میں انہیں مسلمان نہیں سمجھتا "
اسی طرح مودودی نے ایک مرتبہ اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا:
" اگر میں اس بات پر خوش ہوں کہ یہاں رام داس کی بجائے عبداللہ نامی شخص خدائی کے منصب پر موجود ہے تو یہ نیشنلزم ہوگا، اور یہ بھی اتنا ہی ملعون ہے جتنا کہ متحدہ ہندوستان میں رام داس کی حکومت "
یعنی قائداعظم کی شکل میں گورنرجنرل کی حکومت بھی ملعونیت کے اسی درجے پر فائز تھی جس پر نہرو یا گاندھی جیسے کانگرسی لیڈرز کی بھارت میں حکومت۔ تاہم مودودی بھی مفتی محمود اور دوسرے علما کی طرح کانگریسی ہندو رہنماؤں کی حکمرانی کے نیچے کام کرنے کو ہمہ وقت تیار تھے۔
مقصد کہنے کا یہ ہے کہ اگر آج ایک مرتبہ پھر یہ سب منافق مذہبی ملا عمران خان کے خلاف کفر کے فتوے ہاتھوں میں لے کر بھاؤں بھاؤں کرتے سڑکوں اور سوشل میڈیا پر نکل آئے ہیں تو اس کی وجہ بھی وہی ہے جو آج سے 80 برس پہلے تھی۔
اس وقت قائداعظم کی شکل میں ایک ایماندار اور سچا لیڈر تھا، آج اس کی جگہ عمران خان نے لے لی،
اس وقت تحریک پاکستان کا مقدس مرحلہ تھا، آج تکمیل و ترقی پاکستان کا مشن۔
صرف چہرے بدلے ہیں، کردار نہیں۔ آج بھی منافقین اسی طرح اپنی سی کوششوں میں لگے ہیں،
لیکن جس طرح یہ پہلے ذلیل و خوار ہوئے، اسی طرح آج بھی ہو کر رہیں گے، انشا اللہ !!!
(منقول) باباکوڈا