جاسم محمد
محفلین
نہیں یہ کٹر انصافین ہے۔ اور سخت اینٹی قادیانی بھی۔بابا کوڈا؟ یہ بھی قادیانی پروپگنڈا سیل سے منسلک ہے؟
نہیں یہ کٹر انصافین ہے۔ اور سخت اینٹی قادیانی بھی۔بابا کوڈا؟ یہ بھی قادیانی پروپگنڈا سیل سے منسلک ہے؟
یعنی قائداعظم کی شکل میں گورنرجنرل کی حکومت بھی ملعونیت کے اسی درجے پر فائز تھی جس پر نہرو یا گاندھی جیسے کانگرسی لیڈرز کی بھارت میں حکومت۔ تاہم مودودی بھی مفتی محمود اور دوسرے علما کی طرح کانگریسی ہندو رہنماؤں کی حکمرانی کے نیچے کام کرنے کو ہمہ وقت تیار تھے۔
جی یہ کچھ زیادہ ہو گیا۔ البتہ یہ تاریخ کا اٹل حصہ ہے کہ علما کرام نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو اپنے جلسوں میں "کافر اعظم" کہا تھا۔نرا جھوٹ۔
ھذا بھتان عظیم
آپ کے پاس کوئی ثبوت /حوالہ بھی ہے اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے؟جی یہ کچھ زیادہ ہو گیا۔ البتہ یہ تاریخ کا اٹل حصہ ہے کہ علما کرام نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو اپنے جلسوں میں "کافر اعظم" کہا تھا۔
کافر اعظم والا لقب مولانا مظہر علی اظہر کے اس شعر سے منسوب ہے:آپ کے پاس کوئی ثبوت /حوالہ بھی ہے اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے؟
مجلس احرار کی قومی خدماتآپ کے پاس کوئی ثبوت /حوالہ بھی ہے اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے؟
ہم اپنی معلومات کے لیے جاننا چاہتے ہیں کہ یہ فقرہ قائد کی کس تقریر سے لیا گیا ہے!
یہ جناح نے واٹس ایپ پر کہا تھا
یہ منھ مسور کی دال ۔ آئینہ میں اپنی شکل دیکھی ہے ۔ دل کو بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہےمرزائی فرقہ کے لوگ اپنی تنظیم اور دشمنان اسلام کی ظاہری اور مخفی امداد کے بھروسے پر پاکستان کے اندر مرزائیوں کی حکومت قائم کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور اپنا یہ مقصد حاصل کرنے کی خاطر طرح طرح کی سازشیں اور ریشہ دوانیوں کا بہت بڑا جال پھیلا رہے ہیں جو آگے چل کر مسلمانان پاکستان کے لئے بدرجہ اتم تکلیف دہ ثابت ہوگا
( کیا پاکستان میں مرزائیوں کی حکومت قائم ہوگی از مرتضی احمد خان میکش درانی)
سید مودودی علیہ الرحمتہ پر جو آپ نے جھوٹ باندھا ہے اس کا ثبوت چائیے۔ آپ کیا کم تھے جو آپ دوسرے افتراء پردازوں کا سہارا لے رہے ہو؟مجلس احرار کی قومی خدمات
نصیر احمد
پاکستان کے قیام کے بعد جن مذہبی جماعتوں نے ڈٹ کر تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی آہستہ آہستہ وہ اپنے آپ کو پاکستان کا حامی ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوگئیں۔ اس میں سرفہرست جماعت اسلامی ہے جس نے مولانا مودودی کو تحریک پاکستان کےہراول دستے کی قیادت کرنےکا پراپیگنڈا شروع کر دیا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ساٹھ ستر سال بعد بھی وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکی۔جبکہ کچھ مذہبی جماعتیں اپنے موقف پر قائم رہیں۔جمعیت علما اسلام کے رہنما مولانا مفتی نے تو ایک دفعہ کہا تھا کہ وہ تو پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔
حال ہی میں اردو میڈیا میں سرظفراللہ خان کی تحریک پاکستان میں خدمات کی تعریف و تحسین کی اور مجلس احرارپر پاکستان مخالف ہونے کا طعنہ دیا تو مجلس احرار بھی بغض معاویہ میں اپنے آپ کو تحریک پاکستان کے حامی کے طور پر پیش کرنے لگی ہے۔
مجھے اس سے غرض نہیں کہ سرظفر اللہ کی تحریک پاکستان میں کیا خدمات تھیں ۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد مجھے سر ظفراللہ کی اس ‘خدمت ‘ کا پتہ ہے جس کا خمیازہ پاکستانی قوم آج بھی بھگت رہی ہے اور وہ خدمت ہے اسمبلی میں قرارداد مقاصد کی ڈٹ کر حمایت کرنا۔ اقلیتی ارکان اسمبلی جوگندر ناتھ منڈل اور چٹو پادھیائے کی آہ و بکا بھی سر ظفر اللہ کے قدم میں لغزش پیدا نہ کر سکی۔پاکستان میں اگر مذہبی انتہاپسندی کا عفریت ہمیں نگل رہا ہے تو اس میں سرظفر اللہ کا بھی کردار ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ان کی جماعت خود بھی اسی قرارداد کا شکار ہوگئی اور آج قادیانیوں کی ایک بڑی تعداد دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہے۔
مجلس احرار کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل عمرفاروق لکھتے ہیں” قادیانی جماعت جسے میرے فاضل دوست نے محب وطن اور تحریک پاکستان کی حامی جماعت ثابت کرنا چاہتے ہیں مگر تاریخی حقائق اس کے برعکس ہیں”۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ مجلس احرار ایک محب وطن اور تحریک پاکستان کی حامی جماعت تھی۔ ایسا جھوٹ تو ایک مذہبی جماعت ہی بول سکتی ہے اور تاریخ کو اپنے حق میں توڑنا موڑنا تو کوئی ان مذہبی جماعتوں سے سیکھے۔
ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے ایڈیٹر مولانا ابو عمار زاہد الرشدی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ “اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی انکار کی ضرورت ہے کہ جمیتہ علما ہند اور مجلس احرار اسلام دونوں قیام پاکستان کے خلاف تھیں اور انہوں نے اس کی مخالفت میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں کی”۔
مولانا مزید لکھتے ہیں کہ” ان جماعتوں کا موقف یہ تھا کہ “ مسلم لیگی قیادت نفاذ اسلام میں سنجیدہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی اہلیت رکھتی ہے دوم قیام پاکستان سے برصغیر کے مسلمان تقسیم ہوجائیں گے اور ایک دوسرے کے کسی کام نہیں آ سکیں گے،سوم مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھارت میں ہندووں کے رحم وکرم پر رہ جائے گی”۔
مولانا زاہد الرشدی مزید لکھتے ہیں کہ “تحریک پاکستان کی مخالفت میں علما کرام میں سے سے نمایاں تین نام ہیں ۔۔۔ مولانا سید حسین احمد مدنی، امیر شریعت سید عطااللہ شاہ بخاری اورمولانا ابوالکلام آزاد”۔
امیر شریعت جناب عطا اللہ بخاری اپنی تقاریر میں پاکستان کو کافرستان،پلیدستان اور خاکستان وغیرہ کے خطاب دیتے تھے۔مجلس احرار کے ایک اہم رہنما مولانا مظہر علی اظہر جو کہ انتہائی متشدد فرقہ پرست تھے کا کہنا تھا کہ انہوں نے مسلم لیگ کی مخالفت اس لیے کی مسلم لیگ میں شیعوں اور احمدیوں کی اکثریت ہے۔ ا نہی مولانا کا قائداعظم کے متعلق ایک مشہور شعر ہے کہ ‘اک کافرہ کے پیچھے اسلام کو چھوڑا، یہ قائداعظم ہے کہ کافراعظم‘۔ اس شعر سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کے اندر پاکستان اور قائداعظم کے خلاف کتنی نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
مولانا مظہر علی اظہر انتہائی متشدد فرقہ پرست مولوی تھے جن کا کام ہی نفرت پھیلاناتھا۔1946 کے انتخابات میں جب مسلم لیگی امیدوار نے احراری امیدوارکو ہرایا تو مظہر علی اظہر کا کہنا تھا کہ “میرے صحابہ” لیگ کے خلاف ہتھیار ثابت ہوں گے ۔یادرہے کہ قائد اعظم شیعہ تھے اور “میرے صحابہ‘” ان کے ساتھی تھے ۔ دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان، اسی نفرت کا تسلسل ہے جو آج بھی ملک میں قتل و غارت میں مصروف ہے۔
مذہبی و دینی جماعتوں کے اس کردار کو دیکھتے ہوئے غیر مسلموں کا یہ دعویٰ درست نظر آتا ہے کہ اسلام امن و آشتی کا نہیں دہشت گردی کا مذہب ہے۔ اور جب بھی مسلمانوں کو اقتدار ملا ہے انہوں نے ایک دوسرے کی گردنیں ہی کاٹی ہیں ۔امیر شریعت عطا اللہ شاہ بخاری کی کچھ تقاریر انٹر نیٹ پر دستیا ب ہیں اور کچھ شائع بھی ہو چکی ہیں انہیں پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ” امیر شریعت” مخالفین کے خلاف کیسی نفرت انگیز زبان استعمال کرتے تھے۔
ان کی تقاریر میں علمیت تو دور دور تک نظر نہیں آتی ہاں نفرت انگیز پراپیگنڈہ، دوسروں کا مضحکہ اڑانا یا مسخرہ بازی کرنا ہی نظر آتا ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران وہ اکثر اپنے سننے والوں سے کہا کرتے تھے مجھے پتہ ہے کہ تقریر تم میری سنتے ہو مگر ووٹ تم مسلم لیگ کو دیتے ہو۔ یعنی “عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر”ان کی تقریر محض تفریح و طبع کے لیے سنتا تھا، جہاں تک سنجیدگی کا تعلق ہے توا س نے اپنا ووٹ مسلم لیگ کو دیا اور احراری امیدوار ہار گیا۔آج بھی اگر ان کے لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے تو وہ نفرت انگیز پراپیگنڈے کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ لوگ اپنے مخالف کو کافر سے کم کچھ قرار دینے پر راضی ہی نہیں۔
کیا واقعی اسی کو ثبوت مانا جاتا ہے؟؟؟کافر اعظم والا لقب مولانا مظہر علی اظہر کے اس شعر سے منسوب ہے:
'اک کافرہ کے پیچھے اسلام کو چھوڑا، یہ قائداعظم ہے کہ کافراعظم'
جبکہ مولانا مودودی کے پاکستان بننے سے قبل قائد اعظم کے بارہ میں تاثرات بحوالہیہاں پڑھے جا سکتے ہیں۔
بات قادیانیت کی تھی رفتہ رفتہ اس کاسرا بانئ پاکستان تک پہنچ رہا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ:’ ہر پاکستانی کے نزدیک بانئ پاکستان کی عزت اور عظمت ہے۔
سید مودودی علیہ الرحمتہ پر جو آپ نے جھوٹ باندھا ہے اس کا ثبوت چائیے۔ آپ کیا کم تھے جو آپ دوسرے افتراء پردازوں کا سہارا لے رہے ہو؟
قائد اعظم تو اس لڑی کا موضوع ہی نہیں تھے۔ ان سے متعلق ایک منگھڑت اور جھوٹا فقرہ منسوب کرکے قادیانی مخالف پراپگنڈہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اور جب اس کا جواب اس وقت کے علما کرام سے قائد کے متعلق ارشادات سے دیا گیا تو بجائے شرمندہ ہونے کے الٹا یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ ثبوت نہیں دیے۔ کیا آپ نے قائد اعظم سے متعلق اس جھوٹے بیان لگانے پر کوئی ثبوت مانگا؟
ثبوت کیوں مانگتے؟اگر جناح نے قادیانیوں کے متعلق کچھ ایسا ویسا کہا ہے، تو اس کا ثبوت بھی سامنے لانا چاہیے؛ ویسے کبھی پڑھا نہیں ہے کہ جناح نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہو۔
ثبوت تب طلب کیا جاتا ہے جب اس حوالے سے دلیل کے طور پر اہم شخصیت کا قول پیش کیا جائے۔ وگرنہ، یہاں جناح سے ثبوت طلب کرنے کا بھلا کیا محل تھا! یہ تو ہمیں بھی معلوم ہے کہ قادیانی غیر مسلم ہیں تاہم اس سے یہ معنی نکالنا غلط ہے کہ جناح نے اس حوالے سے کوئی بیان بھی دیا تھا۔ یہ تو تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ آپ ایک نظر لڑی کے مختلف مراسلات دیکھیے۔ جناح کی بابت یہ بیان منسوب کیا گیا ہے کہ انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔ یہ واقعہ کب پیش آیا؟ کیا جناح ایک اہم شخصیت نہ ہیں؟ثبوت کیوں مانگتے؟
جب کسی شخص یا قول کا کسی موضوع کے حوالے سے اہمیت ہی نہ ہو تو اس کو نظر انداز کیا جاتاہے۔ کیا آپ کے خیال میں قائداعظم کا قول اس ضمن میں اہمیت رکھتا ہے؟
اگر ایسا ہی ہوتا تو 7 ستمبر 1974 کا دِن ہی امر نہ ہوتا۔ علمی موضوعات میں ہمیشہ متعلقہ اہلِ علم کو بطورِ ثبوت رکھا جاتاہے۔ قائداعظم کا کردار پاکستان کے قیام میں ایک وکیل سے زیادہ کا نہیں۔
علما کرام قائد اعظم کے نماز نہ پڑھنے، شراب پینے، اور ان کی بہن فاطمہ جناح کے اسلامی پردہ نہ کرنے پر اعتراض کیا کرتے تھے۔ اس لئے قیام پاکستان میں علما کرام کا کردار ایک رکاوٹ سے زیادہ نہیں تھا۔قائداعظم کا کردار پاکستان کے قیام میں ایک وکیل سے زیادہ کا نہیں۔
1۔ موضوع کی رو سے قائداعظم جیسے کم علم شخص کو بطورِ دلیل پیش کرنا غلط ہے۔ثبوت تب طلب کیا جاتا ہے جب اس حوالے سے دلیل کے طور پر اہم شخصیت کا قول پیش کیا جائے۔ وگرنہ، یہاں جناح سے ثبوت طلب کرنے کا بھلا کیا محل تھا! آپ ایک نظر لڑی کے مختلف مراسلات دیکھیے۔ جناح کی بابت یہ بیان منسوب کیا گیا ہے کہ انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔ یہ واقعہ کب پیش آیا؟ کیا جناح ایک اہم شخصیت نہ ہیں؟
چلیے، نظامی صاحب کا انتظار کر لیتے ہیں۔ ویسے قبلہ نظامی صاحب خلیل بھیا کے مراسلے کو پسندیدہ کی درجہ بندی عنایت فرما چکے ہیں۔ تاہم، ہم اسے کوئی مطلب اخذ نہ کریں گے۔ وہ تشریف لائیں گے تو خود ہی وضاحت پیش کر دیں گے۔ صاحبِ علم ہستی ہیں؛ اُن سے توقع نہیں رکھی جاتی ہے کہ خواہ مخواہ ہی ایک بیان کو قائداعظم محمد علی جناح سے جوڑ دیں گے۔سنجیدہ اہلِ علم اس کو نظرانداز کردیتے۔ البتہ محترم خلیل الرحمٰن صاحب نے جب ثبوت مانگا تو پھر اس کو لے کر نہیں بیٹھنا چاہیے تھا۔ نظامی صاحب خود ہی اُن کو جواب دے دیتے تو سب کو علم ہوجاتا۔
یار پھر وہی پرانی باتیں دہرانا شروع ہوگئے۔ نماز نہ پڑھنا، شراب پینا اور فاطمہ جناح کے اسلامی پردہ نہ کرنے پر اعتراضات سے پاکستان کا قیام رکنے والا نہیں تھا، بشرط یہ کہ آپ کو دوسری جنگ عظیم کی ہلاکت خیزیوں، یورپ پر اس کے اثرات، برطانوی سرکار کے سیاستدانوں، وائسرائے اور ہندوستانی گماشتوں کے مابین گفت و شنید کا علم ہو۔علما کرام قائد اعظم کے نماز نہ پڑھنے، شراب پینے، اور ان کی بہن فاطمہ جناح کے اسلامی پردہ نہ کرنے پر اعتراض کیا کرتے تھے۔ اس لئے قیام پاکستان میں علما کرام کا کردار ایک رکاوٹ سے زیادہ نہیں تھا۔
قیام پاکستان مسلم لیگ میں شامل قادیانی، ہندو، مسیحی اور دیگر مسلم لیڈران کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ جسے قائد اعظم کی وفات کے چند ماہ بعد قرار داد مقاصد پاس کروا کر علما کرام نے ہائی جیک کر لیا تھا۔