رسول اللہ نے اپنی زندگی میں مجوسیوں، یہودیوں، مسیحیوں، کفار مکہ سے مذہبی مناظرے کئے ہیں۔ ان میں سے بعض آپ صلی اللہ علیہ و سکم کے جانی دشمن تھے۔ لیکن کیا کبھی ان مناظروں کے دوران اعلی اخلاق کا دامن ہاتھ سے جانے دیا؟
مذہبی معاملات میں جذباتیات، جنونیت اور شدت پسندی درست رویہ نہیں۔ اور نہ ہی اس کی تعلیم اسلام نے دی ہے۔
أن عقائد المخالفين لا تخلو من حق فيها، وإلا ما ظهرت أصلا. وهذا المعنى من باب قيومية الحق في الأشياء. ولهذا، كان الكافر كافرا وحسب؛ نعني أنه يستر الحق الذي معه، لا أنه فاقد للحق بالكلية. ولو علم الكفار أو من يُتهمون بالكفر ظلما حقيقة الكفر، ما غضبوا من نعتهم به، ما دام يُثبت لهم وجها من الحق. وهذا من عدل الله الساري في كل العباد. بل لو حققنا معنى الكفر، لوجدنا المؤمنين كافرين أيضا بوجه من وجوه الحق؛ وهو ما سماه بعض الصوفية الحجب النورانية، في مقابل الحجب الظلمانية التي للكافرين. والحقيقة أن الحجب كلها ظلمانية، وإنما سميت تلك المختصة بالمؤمنين نورانية، لمراعاة أصلها عند وضع الشارع لها فحسب.
۔۔۔۔۔۔۔۔الشیخ الصوفی السید عبدالغنی العمری حفظہ اللہ۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ : " اختلاف رکھنے والوں کے عقائد بھی حق سے مکمل طور پر محروم نہیں ہوتے، اگر ایسا نہ ہو تا تو یہ عقائد کبھی اپنا وجود برقرار نہ رکھ پاتے۔ اور اس بات کا تعلق اشیاؑ میں حق تعالیٰ کی قیومیت سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کافر کو کافر یعنی چھپانے والا کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ اس نے اس حق پر پردہ ڈال دیا جو اسکے ساتھ تھا۔ یہ نہیں کہ وہ کلیتاؑ حق سے محروم ہوتا ہے۔ اور اگر کفار یا جن لوگوں کو ناحق کافر کہا جاتا ہے، کفر کی حقیقت کو سمجھ لیں تو کبھی اس بات پر غصے کا اظہار نہیں کریں گے جب انہیں کافر کہا جائے کیونکہ لفظ کافر اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ان میں حق کا ایک چہرہ یعنی ایک پہلو موجود ہے ۔ اور یہ باد عدلِ الٰہی سے جو اسکے بندوں میں جاری و ساری ہے۔ بلکہ اگر ہم کفر کے معنی کی حقیقت دیکھ پائیں تو دیکھیں گے کہ مومنین بھی اپنے اندر کسی نہ کسی حق کے پہلو سے حجاب میں رہنے کی بناء پر کفر کرتے ہیں۔ اور اسی بات کو بعض صوفیہ نے نورانی حجابات کا نام دیا ہے بالمقابل ظلمانی حجابات کے جو کافرین کیلئے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تمام حجابات ظلمانی ہیں اور امومنین کے حجابات کو اگر نورانی کہا گیا تو یہ شریعت میں انکی اصل کی رعایت کرتے ہوئے کہا گیا ہے ۔"