متفق البتہ قادیانی لیڈران کو زور زبردستی پکڑ کر مناظرے کیلئے پارلیمان نہیں لے جایا گیا تھا۔ وہ خود ہی اپنی خوشی سے وہاں پیش ہو تے رہے تھے۔دراصل، پارلیمان میں مقدمہ یک دم نہیں چلا گیا تھا۔ پہلے بہت خون خرابا ہو چکا تھا۔ آپ ذرا تاریخ کا مطالعہ تو کریں۔ عدالتوں میں بھی مقدمات چلتے رہے۔ پارلیمان نے جمہور کی آواز کو باریک بینی سے سنا اور فتنہ فساد کو فرو کرنے کے لیے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ اب یہ بات ہمیں اچھی لگے یا بری لگے، تاہم، حقیقت یہی ہے۔ وگرنہ، بھٹو جیسی شخصیت سے آپ ایسی توقع کم کم رکھ سکتے تھے کہ وہ اس بابت آئین میں ترمیم کے حق میں ہوتے۔ معاملات بہت زیادہ بگڑ چکے تھے اور عدالتیں بھی اپنے تئیں ہاتھ کھڑے کر چکی تھیں۔
یہ طے شدہ حقیقت تو آپ کے ہر ایک مراسلے سے ٹپک ٹپک پڑتی ہے۔ہم آپ کے درد دل سے اتنے متاثر ہوئے ہیں باوجود نظریاتی مخالفت کے ہم قادیانی کمیونٹی سے یہ گزراش کرتے ہیں کہ وہ آپ کو اپنا قانونی مشاجر چنیں۔یہ تو طے ہے کہ قادیانی لیڈرشپ میں بصیرت کی شدید کمی ہے۔
دیکھیے، وہ عدالتوں میں بھی پیش ہوئے اور پارلیمان میں بھی۔ انہوں نے اپنا مقدمہ ہر فورم پر لڑا۔ اب ہم سے یہ نہ کہلوائیں کہ ان کے مقدمہ میں دراصل جان ہی نہ تھی۔متفق البتہ قادیانی لیڈران کو زور زبردستی پکڑ کر مناظرے کیلئے پارلیمان نہیں لے جایا گیا تھا۔ وہ خود ہی اپنی خوشی سے وہاں پیش ہو تے رہے تھے۔
اگر ان کو وہاں سے انصاف ملنے کی امید نہیں تھی تو پیش کیوں ہوئے؟ میری دانست میں یہ ان کی غلطی تھی کہ پہلے خود کو پارلیمانی فیصلے کیلئے پیش کیا اور جب فیصلہ اپنی منشا کے خلاف آیا تو اسے ماننے سے انکار کر دیا۔
یہ جیالا اور پٹواری روندو پالیسی ہے اور ہم اس کے حق میں نہیں ہیں۔
صدقے جاواں کیا خوبصورت بات کی۔لیکن اب جاسم صاحب کو یہ بات کیسے سمجھائیں الّا کہ وہ خود ہی خود کو سمجھا بجھا لیں۔کیس پہلے چاہے عدالت میں جائے یا پارلیمنٹ میں یہاں اصل نکتہ "جمہوریت" کی ورژن ہے۔ ہر ملک کے اپنے ریجنل مسائل ہیں اس لیے A کا B سے موازنہ ممکن ہی نہیں۔ A کا موازنہ a سے تو ہو سکتا ہے اور B کا b سے لیکن یورپ کا ایشیا سے موازنہ درست نہیں۔ چائنا میں دیکھا جائے تو وہاں 6 فیصد لوگ ووٹنگ کی اہلیت رکھتے ہیں، بچے پیدا کرنے پر وہاں پابندی ہے۔ اگر ہم ایک قوم کا مقابلہ دوسری قوم سے کریں گے تو یہ ممکن نہیں کیونکہ ہر قوم کی اپنی طبیعت، اپنی اقدار ہوتی ہیں جنہیں صرف وقت کے ساتھ دوسری اقوام کے اثرات ہی بدل سکتے ہیں۔
آپ درست فرما رہے ہیں تاہم ہماری دانست میں، کسی مملکت میں جو بھی نظام قائم ہو، دراصل عملی طور پر، وہ مجموعی قومی مزاج کے مطابق ہی تشکیل پاتا ہے اور اس نظام میں، لا محالا، ریاست میں بسنے والے افراد کے تصورات و خیالات کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ جمہوریت کے ورژن اسی لیے مختلف ہیں کیونکہ ۔۔۔! یعنی، کہ پھر وہی بات دہرانا پڑے گی ہمیں، جو پہلے ہی ایک دو بار کر چکے ہیں!کیس پہلے چاہے عدالت میں جائے یا پارلیمنٹ میں یہاں اصل نکتہ "جمہوریت" کی ورژن ہے۔ ہر ملک کے اپنے ریجنل مسائل ہیں اس لیے A کا B سے موازنہ ممکن ہی نہیں۔ A کا موازنہ a سے تو ہو سکتا ہے اور B کا b سے لیکن یورپ کا ایشیا سے موازنہ درست نہیں۔ چائنا میں دیکھا جائے تو وہاں 6 فیصد لوگ ووٹنگ کی اہلیت رکھتے ہیں، بچے پیدا کرنے پر وہاں پابندی ہے۔ اگر ہم ایک قوم کا مقابلہ دوسری قوم سے کریں گے تو یہ ممکن نہیں کیونکہ ہر قوم کی اپنی طبیعت، اپنی اقدار ہوتی ہیں جنہیں صرف وقت کے ساتھ دوسری اقوام کے اثرات ہی بدل سکتے ہیں۔
وہ کٹر مسلمان بھی قادیانیوں کی طرح کاغذی ہیر پھیر ہی کرتے ہیں۔ یعنی پناہ کی درخواست میں خود کو قادیانی ظاہر کر دیا۔ اور اگر پناہ مل گئی تو پھر کس نے پوچھنا ہے کہ ملک میں مذہبی آزادی ہے۔
کافی زبردست قسم کا مراسلہ ہے ویسے! الگ سے داد بنتی ہے!کیس پہلے چاہے عدالت میں جائے یا پارلیمنٹ میں یہاں اصل نکتہ "جمہوریت" کی ورژن ہے۔ ہر ملک کے اپنے ریجنل مسائل ہیں اس لیے A کا B سے موازنہ ممکن ہی نہیں۔ A کا موازنہ a سے تو ہو سکتا ہے اور B کا b سے لیکن یورپ کا ایشیا سے موازنہ درست نہیں۔ چائنا میں دیکھا جائے تو وہاں 6 فیصد لوگ ووٹنگ کی اہلیت رکھتے ہیں، بچے پیدا کرنے پر وہاں پابندی ہے۔ اگر ہم ایک قوم کا مقابلہ دوسری قوم سے کریں گے تو یہ ممکن نہیں کیونکہ ہر قوم کی اپنی طبیعت، اپنی اقدار ہوتی ہیں جنہیں صرف وقت کے ساتھ دوسری اقوام کے اثرات ہی بدل سکتے ہیں۔
دراصل قادیانیوں کو پارلیمان کی دو تہائی اکثریت نے غیر مسلم اقلیت ڈکلیئر کیا ہے۔ اس لئے یہاں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستانیوں کی اکثریت ان کو کیا سمجھتی ہے۔آپ درست فرما رہے ہیں تاہم ہماری دانست میں، کسی مملکت میں جو بھی نظام قائم ہو، دراصل عملی طور پر، وہ مجموعی قومی مزاج کے مطابق ہی تشکیل پاتا ہے اور اس نظام میں، لا محالا، ریاست میں بسنے والے افراد کے تصورات و خیالات کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
جب تک قادیانیوں کا خود کو مسلمان کہلوانے میں اور مذہبی جماعتوں کا قادیانی مخالف منجن بکتا رہے گا۔ دونوں اطراف سے کسی بہتری کی امید نہ رکھیں
دراصل سارے فساد اور تنازعات کی جڑ انفرادیت ہے ۔جب آئین پاکستان کے مطابق مذہب قادیانیت کو اقلیت کا درجہ دے دیا گیا تو قادیانی اس قانون کو کیوں تسلیم نہیں کرتے ،کبھی ان وجوہات پر بھی روشنی ڈالیں۔مغربی ممالک میں قادیانیوں کو وہ انفرادی آزادیاں حاصل ہیں جو پاکستان میں نہیں ہیں۔ اس امتیازی سلوک کو بنیاد بنا کر پناہ کی درخواست دی جا سکتی ہے۔ بلکہ کئی کٹر مسلمان بھی خود کو قادیانی ظاہر کر کے پناہ حاصل چکے ہیں۔
علما کرام نے فتنہ قادیانیت کے خلاف بھرپور جہاد کرکے پوری امت میں اس مسئلہ پر اتفاق پیدا کیا۔ اس کا جتنا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔ اب جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکے ہیں تو اس مسئلہ پر مزید سیاست کرنے کی کیا ضرورت ہے؟علماء سے بغض للّٰہی
علما کرام نے فتنہ قادیانیت کے خلاف بھرپور جہاد کرکے پوری امت میں اس مسئلہ پر اتفاق پیدا کیا۔ اس کا جتنا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔ اب جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکے ہیں تو اس مسئلہ پر مزید سیاست کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
پچھلے سال آسیہ مسیح کے عدالتی فیصلے کے خلاف ایک مذہبی جماعت سڑکوں پر نکلی۔ اور آرمی چیف کو سر عام قادیانی قرار دے کر فوج میں بغاوت پر اکسایا۔ اگر ریاست اس پر بروقت ایکشن نہ لیتی تو بات بہت بگڑ جاتی۔
اسی طرح کچھ عرصہ قبل ایک اور مذہبی جماعت نے تحریک انصاف کے حامی بزنس مین انیل مسرت پر قادیانی ہونے کا الزام لگایا۔
یہی نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمان نے حال ہی میں ایک خطاب میں کہا کہ عمران خان کے واشنگٹن جلسے میں جو تارکین وطن آئے تھے ان میں سے۶۰ فیصد قادیانی تھے۔
اسی طرح عمران خان کے امریکہ دورہ سے قبل ایک قادیانی کا ٹرمپ سے ملنا سنگین سازش قرار دیا گیا۔ حالانکہ پورے دورہ میں اس بارہ میں کوئی بات نہیں ہوئی۔
میرا مقدمہ قادیانی کارڈ استعمال کرکے سیاست کرنے والے علما کرام کے خلاف ہے۔ باقیوں سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
اس لڑی کا خوبصورت ترین مراسلہ۔بصد معذرت ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں لیکن جب بحث ہو رہی ہو تو میری کم عقلی کا یہ ماننا ہے کہ ذاتی حملے سے گریز کرنا چاہیے۔
باقی دلائل سے دندان شکن جواب دیں بلکہ لوہے کے چنے چبوائیں۔
شکریہ بزرگوار۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت بہت شکریہ حوصلہ افزائی کا۔اس لڑی کا خوبصورت ترین مراسلہ۔
کیونکہ قادیانیت کو ایک سیاسی مسئلہ ان علما کرام نے خود بنایا ہے۔ پہلے آئین میں ترمیم کے ذریعہ۔ پھر صدارتی آرڈیننس میں ان پر مذہبی پابندیاں لگا کر۔دوسری بات یہی علماء ہندو ،سکھ اور دیگر حضرات کے خلاف کیوں میدان میں نہیں آتے جب کہ وہ فوج میں موجود بھی ہیں۔
کیونکہ قادیانیت کو ایک سیاسی مسئلہ ان علما کرام نے خود بنایا ہے۔ پہلے آئین میں ترمیم کے ذریعہ۔ پھر صدارتی آرڈیننس میں ان پر مذہبی پابندیاں لگا کر۔
اصل میں علما کرام چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ ہمیشہ اسی طرح قائم و دائم رہے تاکہ ان کی سیاسی دکانیں چلتی رہیں۔
یہ پہلے خود ہی ایک مذہبی مسئلہ کو سیاسی بناتے ہیں۔ اور جب ان کو عوام کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے تو پھر جس کو چاہے قادیانی یا قادیانی نواز ڈکلیئر کرکے سیاست چمکاتے ہیں۔ وہ بیچارہ مسلمان اپنی صفائی میں عمرہ اور حج کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔