فرقان احمد
محفلین
قادیانیت کا مسئلہ 1974ء میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ یہ تصادم کی صورت حال بہت پہلے سے موجود تھی۔ کیا آپ وہ فسادات بھول گئے جو انیس سو پچاس کی دہائی میں ہوئے تھے۔ مسلمانوں کی اکثریت یہ سمجھتی تھی کہ قادیانی غیر مسلم ہیں اور یوں ہر گلی بازار میں فتنہ فساد کا بازار گرم تھا۔ مناظرے بازی عام تھی۔ ایک دوسرے پر حملے ہوا کرتے تھے۔ خون بھی بہا۔ معاملات عدالتوں میں گئے۔ آخر، ریاست کو ہوش آیا اور 1974ء میں اس مسئلے کو کافی حد تک حل کر لیا گیا۔ اب جب کہ آئینی اور قانونی طور پر، قادیانی گروہ کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا ہے تو وہ آئین میں رد و بدل یا اس کو ہی مکمل طور پر ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ عام طور پر، ان کا یہ خیال ہے کہ کوئی ایسا آرمی چیف آ جائے جو قادیانیت نواز ہو کیونکہ ان کے نزدیک جمہوریے مکمل طور پر آئین کا ساتھ ہی دیں گے۔ یوں، آئین کی معطلی سے ان کے لیے ایک راہ کھل سکتی ہے۔ یا پھر، وہ چاہتے ہیں کہ کوئی بڑی سیاسی جماعت ان کی ہم نوا ہو جائے۔ یہ سینہ بہ سینہ خبریں ہیں جناب! پاکستان پر عالمی دباؤ تو وہ بڑھانا ہی چاہتے ہیں؛ یہ بات تو خیر سامنے کی ہے۔کیونکہ قادیانیت کو ایک سیاسی مسئلہ ان علما کرام نے خود بنایا ہے۔ پہلے آئین میں ترمیم کے ذریعہ۔ پھر صدارتی آرڈیننس میں ان پر مذہبی پابندیاں لگا کر۔
اصل میں علما کرام چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ ہمیشہ اسی طرح قائم و دائم رہے تاکہ ان کی سیاسی دکانیں چلتی رہیں۔
یہ پہلے خود ہی ایک مذہبی مسئلہ کو سیاسی بناتے ہیں۔ اور جب ان کو عوام کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے تو پھر جس کو چاہے قادیانی یا قادیانی نواز ڈکلیئر کرکے سیاست چمکاتے ہیں۔ وہ بیچارہ مسلمان اپنی صفائی میں عمرہ اور حج کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔