سید عمران

محفلین
جی آپا آپ نے درست کہا
مفتی مفت میں بدنام تھوڑی ہیں
آپ نے تو مفت میں ہی کیا ہے!!!
لائیں پھر اس ماہ کی سیلری!!!

آپ کو بس موقع چاہیے لوٹ مار کا
سیلری دی نہیں، بس مفت کی بدنامی دی!!!
 

سیما علی

لائبریرین

سیما علی

لائبریرین
یہ مفت والی آپ رکھ لیں۔۔۔
اور سیلری ہمارے پاس رکھوادیں!!!
ہمارے صاحب کہتے یہ تو پالگل بھی اپنے پاس رکھتا ہے ۔۔جب بھی ہم کہتے ہیں کسی کے بارے وہ تو ایسے پالگل ہے ! تو فوراً کہیں گے ہم جب مانیں گے جب اس مہینے کی سیلیری ہمارے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردے 🤣🤣
 

سید عمران

محفلین
ہمارے صاحب کہتے یہ تو پالگل بھی اپنے پاس رکھتا ہے ۔۔جب بھی ہم کہتے ہیں کسی کے بارے وہ تو ایسے پالگل ہے ! تو فوراً کہیں گے ہم جب مانیں گے جب اس مہینے کی سیلیری ہمارے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردے 🤣🤣
جو ہم کہنا نہیں چاہ رہے تھے وہ آپ نے کہہ دیا۔۔۔
آپ کا شکریہ!!!
 

علی وقار

محفلین
وہ اسکول وین سے اتری اور ہمیشہ کی طرح اس نے کام سے واپسی پر سبزی اور گوشت کی خریداری کی۔ پیاز، آلو، مٹر، ٹماٹر اور ہرا مسالہ ساتھ ہی قیمہ اور کباب کے لیے چھوٹی بوٹیاں۔ یہ بھاری تھیلا اٹھا کر وہ دو طویل گلیاں پار کر کے گھر کے دروازے پر پہنچی اور ہانپتے ہوئے گھر کی بیل بجائی۔ دورازہ گھر کی مستقل ملازمہ کے بجائے اس کی شادی شدہ نند نے کھولا۔ اس نے مسکرا کر سلام کیا تو اس کی نند نے حسب معمول بیزاری سے جواب دیا اور بجائے تھیلا اٹھانے یا کم از کم پوچھنے کے دروازہ کھول کر یہ جا وہ جا۔ سارہ نے ٹھنڈی آہ بھری اور اندر آ کے ساس کو سلام کیا جو سامنے آرام کرسی پر ہی بیٹھی تھیں ماسی رحمتے ان کے پاؤں میں مالش کر رہی تھی۔ سارہ کی ساس تو گویا اس کے انتظار میں ہی تھیں فورا بولیں، " بھئی کم از کم جلدی سے قیمہ چڑھا کر ساتھ ساتھ مٹر پلاؤ بنا لو ساتھ سویاں یا حلوہ، مونا کو آئے دو گھنٹے ہو چکے ہیں بس رحمتے چائے وغیرہ ہی بنا سکی ہے کہ میرے پیروں کی تکلیف آج کچھ بڑھ گئی ہے۔ فٹافٹ کھانا بنا لو بے چاری بھوکی ہو گی۔ اللہ جانے سسرال والوں نے کچھ کھانے دیا بھی یا نہیں۔ اب ہر ایک کی قسمت تو تم جیسی نہیں ہوتی کہ گھر بھر ہم نے تم پر چھوڑ رکھا ہے، سیاہ کرو یا سفید ۔۔ "
ماشاء اللہ، افسانہ عمدہ ہے اور آغاز بھی شاندار، تاہم، چونکہ آپ نے خود ہی تنقید و اصلاح کا دروازہ کھول دیا ہے سو پہلے پیراگراف میں بعض تبدیلیاں کرنے کی جسارت کی ہے۔ شاید آپ کو پسند آئیں۔ میری نظر میں بعض الفاظ اضافی ہیں اور افسانہ کی روانی میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں، اس لیے انہیں دور کرنے اور املا کی غلطیوں سے حتی المقدور گریز کر کے اس افسانے کو مزید نکھارا جا سکتا ہے۔
///
وہ اسکول وین سے اتری اور واپسی پر سبزی اور گوشت کی خریداری کی۔ پیاز، آلو، مٹر، ٹماٹر، ہرا مسالہ اور ساتھ ہی قیمہ اور کباب کے لیے چھوٹی بوٹیاں۔ یہ بھاری تھیلا اٹھا کر وہ دو طویل گلیاں پار کر کے گھر تک پہنچی اور ہانپتے ہوئے ڈور بیل بجائی۔ دروازہ مستقل ملازمہ کے بجائے اس کی شادی شدہ نند نے کھولا۔ اس نے مسکرا کر سلام کیا تو نند نے معمول کے مطابق بیزاری سے جواب دیا اور بجائے تھیلا اٹھانے یا رسمی سلام دعا کے دروازہ کھول کر یہ جا وہ جا۔ سارہ نے ٹھنڈی آہ بھری اور اندر آ کے ساس کو سلام کیا جو آرام کرسی پر براجمان تھیں۔ ماسی رحمتے ان کے پاؤں کی مالش کر رہی تھی۔ سارہ کی ساس گویا اسی کے انتظار میں تھیں، فورا بولیں، " بھئی جلدی سے قیمہ چڑھا کر مٹر پلاؤ بنا لو اور سویاں یا حلوہ بھی بنانا، مونا کو آئے دو گھنٹے ہو چکے ہیں، یہ رحمتے چائے وغیرہ ہی بنا سکی ہے ۔ میرے تو پیروں کی تکلیف آج کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے۔ فٹافٹ کھانا بنا لو ،بے چاری بھوکی ہو گی۔ اللہ جانے سسرال والوں نے کچھ کھانے کو دیا بھی یا نہیں۔ اب ہر ایک کی قسمت تو تم جیسی ہوتی نہیں کہ گھر بھر ہم نے تم پر چھوڑ رکھا ہے، سیاہ کرو یا سفید ۔۔ "
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
ماشاء اللہ، افسانہ عمدہ ہے اور آغاز بھی شاندار، تاہم، چونکہ آپ نے خود ہی تنقید و اصلاح کا دروازہ کھول دیا ہے سو پہلے پیراگراف میں بعض تبدیلیاں کرنے کی جسارت کی ہے۔ شاید آپ کو پسند آئیں۔ میری نظر میں بعض الفاظ اضافی ہیں اور افسانہ کی روانی میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں، اس لیے انہیں دور کرنے اور املا کی غلطیوں سے حتی المقدور گریز کر کے اس افسانے کو مزید نکھارا جا سکتا ہے۔
///
وہ اسکول وین سے اتری اور واپسی پر سبزی اور گوشت کی خریداری کی۔ پیاز، آلو، مٹر، ٹماٹر، ہرا مسالہ اور ساتھ ہی قیمہ اور کباب کے لیے چھوٹی بوٹیاں۔ یہ بھاری تھیلا اٹھا کر وہ دو طویل گلیاں پار کر کے گھر تک پہنچی اور ہانپتے ہوئے ڈور بیل بجائی۔ دروازہ مستقل ملازمہ کے بجائے اس کی شادی شدہ نند نے کھولا۔ اس نے مسکرا کر سلام کیا تو نند نے معمول کے مطابق بیزاری سے جواب دیا اور بجائے تھیلا اٹھانے یا رسمی سلام دعا کے دروازہ کھول کر یہ جا وہ جا۔ سارہ نے ٹھنڈی آہ بھری اور اندر آ کے ساس کو سلام کیا جو آرام کرسی پر براجمان تھیں۔ ماسی رحمتے ان کے پاؤں کی مالش کر رہی تھی۔ سارہ کی ساس گویا اسی کے انتظار میں تھیں، فورا بولیں، " بھئی جلدی سے قیمہ چڑھا کر مٹر پلاؤ بنا لو اور سویاں یا حلوہ بھی بنانا، مونا کو آئے دو گھنٹے ہو چکے ہیں، یہ رحمتے چائے وغیرہ ہی بنا سکی ہے ۔ میرے تو پیروں کی تکلیف آج کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے۔ فٹافٹ کھانا بنا لو ،بے چاری بھوکی ہو گی۔ اللہ جانے سسرال والوں نے کچھ کھانے کو دیا بھی یا نہیں۔ اب ہر ایک کی قسمت تو تم جیسی ہوتی نہیں کہ گھر بھر ہم نے تم پر چھوڑ رکھا ہے، سیاہ کرو یا سفید ۔۔ "
آپ کی بے حد شکر گذار ہوں علی وقار بھائی کہ آپ نے ایسی باریکیوں کی نشان دہی کی۔ اس افسانے کو آپ سب کی اصلاح کی روشنی میں دوبارہ لکھتی ہوں اور آپ کا یہ اصلاح شدہ پیراگراف بھی شامل کرتی ہوں۔ سلامت رہیں۔۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
بٹیا درست کہا آپ نے پر ہر گھر کی کہانی الگ ہے کہیں بہو مظلوم ہے تو اُس میں ساس کا تو قصور ہے ہی مگر پر بیٹوں کا بھی اُتنا ہی !!!کیونکہ پھر وہی بات آجاتی ہے کہ اپنی بہن گھر آئے تو سو بسمہ اللہ اور بیوی میکہ جانے کا کہے تو فوراً اُسکو ذمہ داریاں یاد دلائی جائیں 🥲تو بس یہ ذہنی اذیت
بیحد تکلیف دہ ہیں بچیوں کے لئے ۔۔۔نام نہاد معاشرے ترقی یافتہ معاشرے کی بھی سناؤں گی کسی دن ۔۔۔ڈومیسٹک وائلنس جو ہم نے بریڈ فورڈ میں سنا!!!جسے دیکھا تو نہیں نہ دیکھنے کی ہمت ہمارے اندر تھی !!!!رضا اُس زمانے میں CA articleship کر رہے تھے تو تھک ہار کے رات کو دیر تک آتے اور سو تے تو پھر کو ئی خبر نہ رہتی
پھر ہم نے ان کو بتایا کہ اس کمرے میں ہم نہیں سو سکتے پھر اُِنھوں نے شکایت کی تو۔ کچھ سکون ہوا ۔۔۔یہ سب نام نہاد مہذب معاشرے ہیں بٹیا ۔۔۔۔یہاں سے اپنے ماں باپ کی خدمت کرنے لے جاتے ہیں ولایت ۔۔۔۔۔اُن ماں باپ کی جنکی کبھی خود خدمت نہ کی ۔۔یہ تو کہانی ہے BBCD بچوں کی ۔۔۔۔ باقی ۔۔یہ کہانی پھر سہی!!!!!
بجا فرمایا آپ نے۔ بظاہر ترقی یافتہ مگر کتنے مسائل کا شکار۔ ۔ کبھی شراکت کیجیے گا آپا۔ ۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
جی ہاں اسی لیے تو ہم بھی تھوڑی تھوڑی آگ لگا رہے ہیں۔ اور گُلِ یاسمیں سے بھی کہنا چاہیں گے کہ سارے کنستر چھپا کے رکھیں۔
متحدہ عرب امارات میں بھی بہت مہنگا ہو گیا ہے
جی بھائی۔۔۔ رکھے تو چھپا کر ہی ہیں۔ مگر انھیں باہر نکالنے کا موقع تو فراہم کیجئیے ذرا۔ بہت دن ہو گئے تیل چھڑکے۔
 
Top