جان
محفلین
Sexual harassment: How it stands around the globeآپ نے عالم میں اور کہاں کہاں یہ دیکھا؟
Sexual harassment: How it stands around the globeآپ نے عالم میں اور کہاں کہاں یہ دیکھا؟
یہ لنک نہیں کھل رہا یاز بھیا
ہمارے پاس تو کھل رہا ہے۔ تاہم خبر کا متن نیچے چسپاں کر رہا ہوں۔یہ لنک نہیں کھل رہا یاز بھیا
میرے خیال سے کچھ بھی نہیں صرف علی ظفر کو پریشرائز کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ہمارے پاس تو کھل رہا ہے۔ تاہم خبر کا متن نیچے چسپاں کر رہا ہوں۔
میشا شفیع سمیت کئی دیگر خواتین کے جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کے الزامات کے بعد پچھلے 3 روز سے مسلسل نئے نئے نام سامنے آرہے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب معروف گلوکارہ مومنہ مستحسن کا نام بھی سامنے آگیا ہے۔
مومنہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پراپنے بیان میں کہا ہے کہ مجھے بھی جنسی طور پر ہراساں کیا جا چکا ہے اور جنسی ہراساں ہونے کا یہ معاملہ صرف علی ظفر تک محدود نہیں، یہ معاملہ مجموعی طور پر مردوں سے منسلک ہے جو عورتوں کے ساتھ تعلق میں اعتماد کو اہمیت نہیں دیتے۔
مومنہ نےمطالبہ کیا کہ اس معاملے میں ملوث ہر اس مرد کو کھلم کھلا معافی مانگنی چاہیے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والی خواتین کے ساتھ کھڑی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستانی خواتین اپنے ساتھ ہونےوالے ظلم اور زیادتی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں۔
مومنہ نے علی ظفر سمیت تمام مردوں سے سوال پوچھاکہ اگر آپ نے کبھی جانتے بوجھتے یاانجانے میں کسی خاتون کے ساتھ کوئی غلط حرکت کی ہوتو میری آپ سے درخواست ہے کہ اپنی غلطی تسلیم کریں، معافی مانگیں اور اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے بہتر انسان بنیں۔
لیکن اس کو پریشرائز کر کے کیا مقصد حاصل ہو سکتا ہے؟میرے خیال سے کچھ بھی نہیں صرف علی ظفر کو پریشرائز کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
مقصد پس پردہ بھی کچھ ہو سکتا ہے مالی نوعیت کا یا کسی خاص کام کو کرنے یا چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالنا لیکن ایک تو واضح ہے کہ ہماری سوسائٹی میں اپنے سے عہدے یا مقام میں کسی بڑے کو برا بھلا کہہ کر یا کوئی اس طرح کا الزام لگا کر با آسانی ہیرو بنا جا سکتا ہے۔لیکن اس کو پریشرائز کر کے کیا مقصد حاصل ہو سکتا ہے؟
یہی عین اسلام ہے
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کچھ دنوں کے وقفہ سے پھر وہی اسلام کے بارے میں طنزیہ جملہ کہہ دینا اور آگے چل پڑنا۔اس دعویٰ کو ثابت کیجے۔
اہم نکات بیان کئے ہیں، یاسر نے، مگر عدالت کے روبرو جذبات کی اپیل پہ نہیں، حقائق کی بنیاد پہ فیصلہ ہو تو معاشرہ کیلئے بہتر ہوتا ہے۔ ہمارا بھائی اگر ہم سے کہے کہ اسے فلاں نے مارا ہے تو بھی ہمارے لیے ثبوت بے معنی ہو گا، لیکن اگر عدالت سے اس کی سزا دلوانے ہو تو کم از کم قرائنی شہادت کی ضرورت ہو گی۔میرا خیال یہ یاسر نے اچھا لکھا ہے
ایک لمحہ کے لیے تصور کریں کہ میشا آپکی بہن یا بیٹی یا بیوی ہے اور وہ یہ شکایت آپ سے کرے تو ثبوت کا مہییا کرنا بے معنی ہوگا۔ علی کو اپنی صفائی عدالت میں پیش کرنی چاہیے یا میشا سے معافی مانگ کر تاوان ادا کرنا چاہیے
میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ اسی مسئلے کو ہی دیکھ لیجیے۔ ابھی تک آپ نے سوشل میڈیا اور میڈیا پہ علی ظفر پہ انگلی اٹھاتے یا اس کی بھد اڑاتے کتنے لوگ دیکھے اور میشا شفیع پہ کتنے؟عورت کوئی اسپیشل کیس نہیں مرد کے کیس میں بھی اہسا ہی ہوتا ہے ہمارے معاشرے اسے رواج کی حیثیت حاصل ہے۔