فاتح
لائبریرین
صرف شاعری پر ہی کیا موقوف۔۔۔ تمام شعبہ ہائے زندگی میں مردوں کی تعداد خواتین کی تعداد سے زیادہ ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ازمنہ قدیم سے عورت کی ذمے داریاں مرد کی ذمہ داریوں سے مختلف رہی ہیں۔ انھی ذمہ داریوں کی تقسیم کے باعث ہی عورت کی جسمانی ساخت بھی ارتقا کے دوران مرد کی نسبت کمزور رہی۔
اب چونکہ باہر کی ذمہ داریاں مردوں کی رہی ہیں اور عورت کو عموماً گھر کے اندر ہی رہنا پڑا ہے یا بالفاظ دیگر مردوں کو فوقیت حاصل رہی ہے یا یوں کہہ لیں کہ مردانہ معاشرہ رہا ہے لہٰذا فنون لطیفہ و دیگر علوم و فنون میں بھی اکثریت مردوں ہی کی نظر آئے گی، اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
مردوں کی اکثریت میں عورتوں کے علمی کام کو پذیرائی اور قبول عام حاصل ہونا منطقی طور پر ایک مشکل کام تھا اس لیے مغرب میں تو کئی خواتین مصنفات و شاعرات نے قبول عام حاصل کرنے کے لیے مردانہ قلمی نام اختیار کر رکھے تھے۔
اب آتے ہیں معیار کی جانب تو یہ ڈائریکٹلی پروپورشنل (راست متناسب) ہے تعداد کے ساتھ۔ اگر بلا امتیاز جنس، عمومی طور پر ہر 100 میں سے 1 مصنف اچھا لکھتا ہو اور اب تک ایک لاکھ مرد مصنفین موجود ہیں تو ان میں سے اچھے مصنفین 1000 مل جائیں گے اور چونکہ خواتین مصنفین (یا مصنفات) کی تعداد ویسے ہی کم ہے تو ایک لاکھ کے مقابل ان کی تعداد شاید ایک ہزار ہو اور ان ایک ہزار میں اچھی مصنفات کی تعداد اسی تناسب سے 10 ہو گی۔
یہ ایک انفو گرافک ہے جو کچھ ایسی مشہور خواتین آتھرز کے متعلق بتاتی ہے جنہوں نے مردانہ یا فرضی قلمی نام اختیار کیے تھے:
اب چونکہ باہر کی ذمہ داریاں مردوں کی رہی ہیں اور عورت کو عموماً گھر کے اندر ہی رہنا پڑا ہے یا بالفاظ دیگر مردوں کو فوقیت حاصل رہی ہے یا یوں کہہ لیں کہ مردانہ معاشرہ رہا ہے لہٰذا فنون لطیفہ و دیگر علوم و فنون میں بھی اکثریت مردوں ہی کی نظر آئے گی، اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
مردوں کی اکثریت میں عورتوں کے علمی کام کو پذیرائی اور قبول عام حاصل ہونا منطقی طور پر ایک مشکل کام تھا اس لیے مغرب میں تو کئی خواتین مصنفات و شاعرات نے قبول عام حاصل کرنے کے لیے مردانہ قلمی نام اختیار کر رکھے تھے۔
اب آتے ہیں معیار کی جانب تو یہ ڈائریکٹلی پروپورشنل (راست متناسب) ہے تعداد کے ساتھ۔ اگر بلا امتیاز جنس، عمومی طور پر ہر 100 میں سے 1 مصنف اچھا لکھتا ہو اور اب تک ایک لاکھ مرد مصنفین موجود ہیں تو ان میں سے اچھے مصنفین 1000 مل جائیں گے اور چونکہ خواتین مصنفین (یا مصنفات) کی تعداد ویسے ہی کم ہے تو ایک لاکھ کے مقابل ان کی تعداد شاید ایک ہزار ہو اور ان ایک ہزار میں اچھی مصنفات کی تعداد اسی تناسب سے 10 ہو گی۔
یہ ایک انفو گرافک ہے جو کچھ ایسی مشہور خواتین آتھرز کے متعلق بتاتی ہے جنہوں نے مردانہ یا فرضی قلمی نام اختیار کیے تھے:
آخری تدوین: