شمشاد
لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۲، فائینل ۱
صفحہ ۲۳۸
بابل کے لوگ ایک تجارت پیشہ قوم تھے۔ اس لیے ادب اور فنون لطیفہ کی نسبت انھیں سائنس سے زیادہ لگاؤ تھا۔ تجارت کے ساتھ ساتھ وہ ریاضی کی طرف آئے اور مذہب کے ساتھ اس کا رشتہ جوڑنے کے دوران فلکیات سے بھی ان کو دلچسپی پیدا ہوئی۔ انھوں نے ایک دائرے کو ۳۶۰ درجوں میں تقسیم کرنے اور سال کو ۳۶۰ دن میں بانٹنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ اس کی بنیاد پر انھوں نے ریاضیات کی بنیاد رکھی۔
بابل والوں کی خاص سائنس فلکیات تھی اور اس کے لیے وہ عہد قدیم میں مشہور تھے۔ وہ ستاروں کی حرکت کا مطالعہ صرف جہازوں یا قافلوں کے راستے متعین کرنے کے لیے ہی نہیں بلکہ قسمت کا پتہ چلانے کے لیے بھی کرتے تھے۔ فلکیات سے زیادہ انھیں علم نجوم اور جیوتش سے دلچسپی تھی۔ ان کے لحاظ سے ہر سیارہ ایک دیوتا تھا اور انسانوں کے چند خاص معاملات سے اس کا تعلق تھا۔
عراق میں کھدائی سے جو تختیاں ملی ہیں ان میں آٹھ ((۸)) سو ادویہ اور علاج کے بارے میں ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس فن میں بھی وہ ترقی کر چکے تھے۔
بابل – مذہب و اخلاق : بابل ((Babylon)) قدیم میسوپوتامیہ ((موجودہ عراق)) کی ایک عظیم سلطنت کی راجدھانی تھا اور آج سے تقریباً تین ہزار سال ق۔م۔ میں وہ ایک ترقی یافتہ ملک اور تہذیبی مرکز تھا اور اس دور کی دوسری سلطنتوں کی طرح یہاں مذہب اور مذہبی ادارے کافی منظم اور طاقتور تھے۔ بادشاہوں کے اقتدار پر نہ صرف قانونی پابندیاں تھیں بلکہ کاہنوں اور پروہتوں کا بھی زور تھا۔ بادشاہ دیوتاؤں کا نائب سمجھا جاتا تھا۔ ٹیکس اور محصول دیوتاؤں کی طرف سے وصول کیے جاتے اور معبد کے خزانے میں جمع کیے جاتے تھے۔ عوام بادشاہ کو اس وقت تک بادشاہ نہ مانتے جب تک پروہت انھیں بادشاہت کا اقتدار نہ سونپتے۔ چنانچہ اکثر بادشاہ ہی
صفحہ ۲۳۸
بابل کے لوگ ایک تجارت پیشہ قوم تھے۔ اس لیے ادب اور فنون لطیفہ کی نسبت انھیں سائنس سے زیادہ لگاؤ تھا۔ تجارت کے ساتھ ساتھ وہ ریاضی کی طرف آئے اور مذہب کے ساتھ اس کا رشتہ جوڑنے کے دوران فلکیات سے بھی ان کو دلچسپی پیدا ہوئی۔ انھوں نے ایک دائرے کو ۳۶۰ درجوں میں تقسیم کرنے اور سال کو ۳۶۰ دن میں بانٹنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ اس کی بنیاد پر انھوں نے ریاضیات کی بنیاد رکھی۔
بابل والوں کی خاص سائنس فلکیات تھی اور اس کے لیے وہ عہد قدیم میں مشہور تھے۔ وہ ستاروں کی حرکت کا مطالعہ صرف جہازوں یا قافلوں کے راستے متعین کرنے کے لیے ہی نہیں بلکہ قسمت کا پتہ چلانے کے لیے بھی کرتے تھے۔ فلکیات سے زیادہ انھیں علم نجوم اور جیوتش سے دلچسپی تھی۔ ان کے لحاظ سے ہر سیارہ ایک دیوتا تھا اور انسانوں کے چند خاص معاملات سے اس کا تعلق تھا۔
عراق میں کھدائی سے جو تختیاں ملی ہیں ان میں آٹھ ((۸)) سو ادویہ اور علاج کے بارے میں ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس فن میں بھی وہ ترقی کر چکے تھے۔
بابل – مذہب و اخلاق : بابل ((Babylon)) قدیم میسوپوتامیہ ((موجودہ عراق)) کی ایک عظیم سلطنت کی راجدھانی تھا اور آج سے تقریباً تین ہزار سال ق۔م۔ میں وہ ایک ترقی یافتہ ملک اور تہذیبی مرکز تھا اور اس دور کی دوسری سلطنتوں کی طرح یہاں مذہب اور مذہبی ادارے کافی منظم اور طاقتور تھے۔ بادشاہوں کے اقتدار پر نہ صرف قانونی پابندیاں تھیں بلکہ کاہنوں اور پروہتوں کا بھی زور تھا۔ بادشاہ دیوتاؤں کا نائب سمجھا جاتا تھا۔ ٹیکس اور محصول دیوتاؤں کی طرف سے وصول کیے جاتے اور معبد کے خزانے میں جمع کیے جاتے تھے۔ عوام بادشاہ کو اس وقت تک بادشاہ نہ مانتے جب تک پروہت انھیں بادشاہت کا اقتدار نہ سونپتے۔ چنانچہ اکثر بادشاہ ہی