اردو بحور کی 122 یعنی ہجائے بلند اور کوتاہ کا نظام کس نے ایجاد کیا؟

آصف اثر

معطل
اردو بحور کے لیے جو ریاضیاتی ماڈل مستعمل ہے اس کی تاریخ کے متعلق معلومات درکار ہے۔ میں اس نظام سے کافی متاثر ہوں کہ اتنا انقلابی اور حیرت انگیز نظام کس نے وضع کیا ہوگا۔ میں اس عظیم شخصیت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اس حوالے سے آپ حضرات سے استفسار ہے۔

محمد وارث صاحب الف عین صاحب محمد تابش صدیقی مزمل شیخ بسمل محمد اسامہ سَرسَری اور دیگر احباب۔
 

محمد وارث

لائبریرین
حسبِ سابق، اس طرح کا کام کسی انگریز ماہر عروض نے ہی کیا ہوگا۔ بابائے اردو برطانیہ رالف رسل نے رباعی کے اوزان سمجھنے کے لیے اس طرح کا کلیہ اختراع کیا تھا۔ پھر کولمبیا یونیورسٹی کی پروفیسر محترمہ فرانسس پرچیٹ نے اردو عروض پر اپنی کتاب، جو شاید 1980ء کی دہائی میں شائع ہوئی تھی اس طرح کا ایک علامتی نظام دیا تھا۔ ایران میں بھی پروفیسر پرویز ناتل خانلزی نے کم وبیش نصف صدی پہلے اپنی عروض کی کتابوں پر اسی طرح کا ایک علامتی نظام دیا تھا۔ ان سب میں فرق صرف اتنا ہے کہ علامتیں بدلتی رہتی ہیں کسی نے - اور = کو لے لیا، کسی نے 1 اور 2 کو، کسی نے 0 اور 1 کو اور کسی نے اور کسی علامت کو۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
اس حوالے سے ایک کتاب دیکھیے۔ وارث بھیا نے شاید اسی کتاب کا حوالہ دیا ہے۔
جی اسی کتاب کا حوالہ دیا تھا۔

مزے کی بات یہ کہ اردو عروض پر جو ہماری روایتی کتب ہیں وہ میں کئی کئی مہینوں تک چاٹتا رہا لیکن عروض کا یہ جن ایسا تھا کہ قابو ہی میں نہ آتا تھا، پھر یہ کتاب میرے ہاتھ لگ گئی، تھوڑے سے غور و فکر کے بعد عروض کی کلید میرے ہاتھ میں تھی۔ پھر میں نے پروفیسر صاحبہ سے ای میل پر کچھ خط و کتابت بھی کی، ان کی اس عظیم کاوش پر ان کو ہدیۂ تبریک پیش کیا اور ان کو اپنی کہانی بھی سنائی، بہت خوش ہوئیں اور پھر مجھے اپنی ویب سائٹ بنانے اور اس موضوع پر لکھنے کا مشورہ بھی دیا۔ ویب سائٹ تو نہ بنا پایا لیکن اپنے بلاگ پر کچھ تحاریر ضرور لکھیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک اور بات، جس سے پروفیسر صاحبہ کی عظمت میرے دل میں اور بڑھ گئی۔ چونکہ میں نے کتاب کا بالاستعیاب مطالعہ کیا تھا اور حرف حرف پر غور کیا تھا تو مجھے کچھ اشعار کی تقطیع میں ٹائپنگ کی کچھ معمولی غلطیاں نظر آئیں یعنی کچھ علامتیں آگے پیچھے تھیں، وہ میں نے ان کے گوش گزار کئیں تو انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر انہیں درست کر دیا اور مجھے کہا کہ وارث، تعریف تو بہت لوگوں نے کی تھی لیکن اس طرح مطالعہ شاید کچھ نے ہی کیا ہو، اگر چاہو تو میں اس نشاندہی کے لیے ویب سائٹ پر تمھارا ذکر بھی کر دیتی ہوں۔ میں نے آبِ ندامت میں غرق تو ہونا ہی تھا، ہاتھ جوڑ کر کہا کہ محترمہ آپ کی عظمت کو سلام! :)
 
اردو بحور کے لیے جو ریاضیاتی ماڈل مستعمل ہے اس کی تاریخ کے متعلق معلومات درکار ہے۔ میں اس نظام سے کافی متاثر ہوں کہ اتنا انقلابی اور حیرت انگیز نظام کس نے وضع کیا ہوگا۔ میں اس عظیم شخصیت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اس حوالے سے آپ حضرات سے استفسار ہے۔

محمد وارث صاحب الف عین صاحب محمد تابش صدیقی مزمل شیخ بسمل محمد اسامہ سَرسَری اور دیگر احباب۔

آپ کے اس سوال کو پڑھتے ہی ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ یہی تو وہ نظام ہے جسے ہم سمجھنا چاہتے ہیں،
مزید یہ کہ آصف اثر بھائی تو اس سے متاثر بھی ہولیے جبکہ ہم تو اسے سمجھ ہی نہیں پائے۔

لہٰذا فوراً یو ٹیوب میں غوطہ لگایا اور پروفیسر مقبول فاروقی (سابق صدر شعبۂ اردو آندھرا یونیورسٹی) کے لیکچر سے استفادہ کیا۔

ذیل میں اس سے ایک ٹکڑہ درج ہے جس کی تشریح و تفصیل محمد وارث صاحب و دیگر اساتذہ ہی دے پائیں گے ۔

“ ہندی میں دو قسم کی بحریں ہوتی ہیں۔
۱: ماترک چھند
۲: ورنک چھند

ماترک چھندوں کی بنیاد ماتراؤں پر ہوتی ہے۔ ماترا آواز کے ایک چھوٹے سے وقفے کو کہتے ہیں۔ یہ ماترا دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک چھوٹی اور ایک بڑی۔ چھوٹی ماترا کو لگھو ماترا کہتے ہیں اور اسے ایک کھڑی لکیر سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس کی قیمت ایک ہے۔

“آ” بڑی ماترا ہے جس کو گُرو ماترا کہتے ہیں۔ اس کی علامت ایک کھڑی دوہری لکیر ہے۔ اس کی عددی قیمے دو ہے۔

اگر ہم ایک لفظ “ آدمی” لے لیں تو اس کی عددی قیمت پانچ ہوتی ہے۔

آ : گُرو ماترا عددی قیمت ۲
د : لگھو ماترا عددی قیمت ۱
می : گُرو ماترا عددی قیمت ۲

ہندی کے ماترک چھندوں میں ایک ایک ماترا کے فرق سے بحر بدل جاتی ہے۔ اس لیے ماتراؤں کی تعداد اور لکھو گُرو کی ترتیب کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مثلاً

۲۴ ماتراؤں کا چھند ہے دوہا۔

ادھر ورنک چھندوں میں بحروں کی تشکیل چند صوتی ساانچوں کی مدد سے ہوتی ہے جن کو ورن یا گُن کہا جاتا ہے۔ ورن ماتراؤں کے مقابلے میں کچھ بڑے ہوتے ہیں، اس لیے کہ ایک ایک ورن یا گُن میں تین تین چھوٹی ماترائیں ہوتی ہیں نیز ہر ورن میں لگھو اور گُرو ماتراؤں کی خاص ترتیب ہوتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ کے اس سوال کو پڑھتے ہی ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ یہی تو وہ نظام ہے جسے ہم سمجھنا چاہتے ہیں،
مزید یہ کہ آصف اثر بھائی تو اس سے متاثر بھی ہولیے جبکہ ہم تو اسے سمجھ ہی نہیں پائے۔

لہٰذا فوراً یو ٹیوب میں غوطہ لگایا اور پروفیسر مقبول فاروقی (سابق صدر شعبۂ اردو آندھرا یونیورسٹی) کے لیکچر سے استفادہ کیا۔

ذیل میں اس سے ایک ٹکڑہ درج ہے جس کی تشریح و تفصیل محمد وارث صاحب و دیگر اساتذہ ہی دے پائیں گے ۔

“ ہندی میں دو قسم کی بحریں ہوتی ہیں۔
۱: ماترک چھند
۲: ورنک چھند

ماترک چھندوں کی بنیاد ماتراؤں پر ہوتی ہے۔ ماترا آواز کے ایک چھوٹے سے وقفے کو کہتے ہیں۔ یہ ماترا دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک چھوٹی اور ایک بڑی۔ چھوٹی ماترا کو لگھو ماترا کہتے ہیں اور اسے ایک کھڑی لکیر سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس کی قیمت ایک ہے۔

“آ” بڑی ماترا ہے جس کو گُرو ماترا کہتے ہیں۔ اس کی علامت ایک کھڑی دوہری لکیر ہے۔ اس کی عددی قیمے دو ہے۔

اگر ہم ایک لفظ “ آدمی” لے لیں تو اس کی عددی قیمت پانچ ہوتی ہے۔

آ : گُرو ماترا عددی قیمت ۲
د : لگھو ماترا عددی قیمت ۱
می : گُرو ماترا عددی قیمت ۲

ہندی کے ماترک چھندوں میں ایک ایک ماترا کے فرق سے بحر بدل جاتی ہے۔ اس لیے ماتراؤں کی تعداد اور لکھو گُرو کی ترتیب کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مثلاً

۲۴ ماتراؤں کا چھند ہے دوہا۔

ادھر ورنک چھندوں میں بحروں کی تشکیل چند صوتی ساانچوں کی مدد سے ہوتی ہے جن کو ورن یا گُن کہا جاتا ہے۔ ورن ماتراؤں کے مقابلے میں کچھ بڑے ہوتے ہیں، اس لیے کہ ایک ایک ورن یا گُن میں تین تین چھوٹی ماترائیں ہوتی ہیں نیز ہر ورن میں لگھو اور گُرو ماتراؤں کی خاص ترتیب ہوتی ہے۔
یہ لیکچر پنگل کی طرف نکل گیا، جو ہندی اور دیگر مقامی زبانوں کا عروض ہے۔ لیکن یہ بھی ہجائی نظام ہی ہے، مثال وہی لیتے ہیں جو اوپر ہے، اور ہم ماتروں کی بجائے ہجوں سے ان کو سمجھتے ہیں۔

آدمی اس کا وزن فاعلن ہے۔ اور اس میں تین ہجے (یا پانچ الفاظ) ہیں:

آ ۔ فا (دو حرف سو 2)
د - ع (ایک حرف سو ا)
می - لُن (دو حرف سو 2)

یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہجائے بلند (جس میں دو حرف کسی حرکت سے آپس میں جڑے ہوئے ہیں) کو 2 کہہ لیں اور ہجائے کوتاہ (جو یک حرفی ہے چاہے ساکن ہے یا متحرک) اس کو 1۔

آدمی - فاعلن - 2 1 2

اس طرح
قیامت - فعولن ( ق یا مت، ف عُو لُن 1 2 2)

اسی طرح

فعولن فعولن فعولن فعولن
221 221 221 221

اسی طرح

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ستارو - فعولن - 221
س آ گے - فعولن 221
جہا او - فعولن - 221
ر بی ہیں - فعولن - 221

اور اسی طرح دیگر تمام بحریں اور ان کی تقطیع۔
 

آصف اثر

معطل
آصف اثر بھائی تو اس سے متاثر بھی ہولیے جبکہ ہم تو اسے سمجھ ہی نہیں پائے۔
جواب کے لیے ممنون ہوں۔ آپ نے اس جملے سے مجھے ڈرا دیا کہ آیا میں کسی خوش فہمی میں مبتلا تو نہیں؟
پہلے پہل اس قاعدے کے متعلق جناب محمد اسامہ سَرسَری صاحب کے شاعری کے اسباق میں پڑھا تھا جو انہوں نے اتنے آسان پیرائے میں بیان کیے ہیں کہ فوراً سمجھ آجاتے ہیں۔ پھر مختلف مضامین کا مطالعہ کیا۔ مجھے تو کافی آسان لگا۔ یہ ضرور ہے کہ شاعری کرنا میرے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ میں صرف قاعدہ سمجھنے کی حد تک بات کرررہاہوں۔ اس طرف دھیان کل رات کے وقت گیا جب ہمارے ایاز صاحب نے اپنے ایک طبع زاد ”شعر“ کے متعلق استفسار کیا کہ ”اگر“ کوئی غلطی ہو تو بتادیجیے۔ میں نے ”شعر“ دیکھا تو بمشکل ہنسی ضبط کرسکا۔ بتایا کہ بھائی ایک تو مصرعوں کی ساخت میں فرق ہے اور دوسری بات یہ کہ یہ تو بحر ہی میں نہیں ہے یعنی یہ شعر ہی نہیں۔ پھر اسے بحر کے متعلق مذکورہ قاعدہ سمجھایا اور کچھ ابتدائی آسان بحور لکھوائی کہ ان پر مشق کرلو۔ قاعدہ سمجھ تو گیا لیکن غالبا ”شعر“ بنانے سے اب توبہ تائب ہوگیا ہے!:)
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
جہا او - فعولن - 221
ر بی ہیں - فعولن - 221
یہاں پر مجھے مشکل ہوتی ہےکہ ”اور“ کے ”ر“ پر جزم ہے لیکن اسے متحرک یعنی 1 تصور کیوں کر کیا جاسکتاہے؟ اسی طرح ایک فقرہ ”نشیب و فراز“ کی تقطیع کچھ یوں ہے: نشیب=221، فراز=121۔ یعنی یہ معلوم کس طرح ہوگا کہ ”ز“ کو 1 لکھنا ہے یا 2؟
 

محمد وارث

لائبریرین
یہاں پر مجھے مشکل ہوتی ہےکہ ”اور“ کے ”ر“ پر جزم ہے لیکن اسے متحرک یعنی 1 تصور کیوں کر کیا جاسکتاہے؟ اسی طرح ایک فقرہ ”نشیب و فراز“ کی تقطیع کچھ یوں ہے: نشیب=221، فراز=121۔ یعنی یہ معلوم کس طرح ہوگا کہ ”ز“ کو 1 لکھنا ہے یا 2؟
آپ متحرک ساکن کو فی الحال بھول جائیں، یہ عروض کا سقم ہے، کیونکہ عروض عربی ہے اور عربی میں آخری حرف متحرک ہو سکتا ہے لیکن اردو فارسی میں آخری حرف ہمیشہ ساکن ہی ہوتا ہے، اور اسی سقم کو دور کرنے کے لیے یہ علامتی نظام وضع کیا گیا ہے۔

اس کا ایک سادہ سا اصول ہے

کسی بھی لفظ کو ہجوں میں توڑیں، جو دو حرف کسی حرکت سے آپس میں جڑے ہوئے ہوں وہ بلند یا 2 ہے اور جو حرف اکیلا ہو چاہے ساکن ہو یا متحرک وہ کوتاہ ہے اور 1 ہے۔ مثال کے طور پر

اور یعنی او،ر یعنی 2 1 (اب یہ ر بحر کے 1 پر آنا چاہیے چاہے وہ متحرک ہو یا ساکن اور علامہ کے شعر میں اور کا ر فعولن کے ف پر آ رہا ہے۔ رے ساکن ہے فعولن کا ف متحرک ہے لیکن ر بھی 1 ہے اور ف بھی 1 ہے، سو ساکن متحرک کو چھوڑیں صرف ہجے پر نظر رکھیں)

اسی طرح

نشیب - ن شے ب - فعول - ف عو ل -1 2 1
فراز - ف را ز - فعول - ف عو ل - 1 2 1

اب اگر ان کی ترکیب بنائیں

نشیب و فراز تو

ن شے بو - ف عو لن - 1 2 2
فراز - 1 2 1

یعنی نشیب و فراز - 1 2 2 ۔ 1 2 1
 

آصف اثر

معطل
کسی بھی لفظ کو ہجوں میں توڑیں، جو دو حرف کسی حرکت سے آپس میں جڑے ہوئے ہوں وہ بلند یا 2 ہے اور جو حرف اکیلا ہو چاہے ساکن ہو یا متحرک وہ کوتاہ ہے اور 1 ہے۔
یہ طریقہ پہلے سے موجود شعراء کے کلام کے لیے تو مستعمل ہے لیکن اگر طبع زاد شعر ہو اور کوئی لفظ اضافی ہو تو اضافی لفظ کو کس طرح معلوم کیا جائے گا؟ یا اس بات کا تعلق زبان دانی سے ہے، 1،2 کے نظام سے نہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ طریقہ پہلے سے موجود شعراء کے کلام کے لیے تو مستعمل ہے لیکن اگر طبع زاد شعر ہو اور کوئی لفظ اضافی ہو تو اضافی لفظ کو کس طرح معلوم کیا جائے گا؟ یا اس بات کا تعلق زبان دانی سے ہے، 1،2 کے نظام سے نہیں۔
اس کے لیے بنیادی بحروں کے سانچے کا علم ہونا ضروری ہے، یعنی وہ چند معروف بحریں جو عام طور پر استعمال ہوتی ہیں ان کا علم ہونا چاہیے، اس کے بعد اپنے کہے شعر یا کلام میں کانٹ چھانٹ یا الفاظ کی ترتیب میں آسانی ہو جاتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مزمل شیخ بسمل کا مرتب کردہ بحور کا بحرِ بیکراں دیکھ کر تو ہم راہ فرار اختیار کرگئے تھے لیکن اگر ”چند معروف“ بحریں کام آسکتی ہیں تو انہیں یہاں دیجیے۔ نوازش ہوگی۔ بہت شکریہ۔
ابھی ایک دو لکھ دیتا ہوں
1- فعولن فعولن فعولن فعولن (ایک مصرعے میں چار بار فعولن)
فعولن کا علامتی نشان 1 2 2 ہے سو 1 2 2 ایک مصرعے میں چار بار۔
اس بحر میں ایک دو مشہور غزلیں
-جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں (غالب)
-ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں (اقبال)
-وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ (صوفی تبسم)
 

محمد وارث

لائبریرین
2- مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن (ایک مصرعے میں چار مفاعیلن)
مفاعیلن کا علامتی نظام 1 2 2 2 ہے (فعولن پر ایک 2 بڑھا دیں تو مفاعیلن بن جاتا ہے)
غزلیں
-ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے (غالب)
-حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجے (قتیل)
-نمی دانم چہ منزل بُود شب جائے کہ من بُودم (خسرو)
 

محمد وارث

لائبریرین
3 - مفاعیلن مفاعیلن فعولن
(2221 2221 221)
علامہ اقبال کے اکثر قطعے اس بحر میں ہیں:
-یقیں مثلِ خلیل آتش نشینی
-جمالِ عشق و مستی نے نوازی
-وہ میرا رونقِ محفل کہاں ہے
وغیرہ
 

محمد وارث

لائبریرین
4- فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن (یہ بحر فارسی اردو میں سب سے زیادہ استعمال ہوتی رہی ہے)
فاعلاتن کا علامتی نظام - فا ع لا تن 2 1 2 2
فاعلاتن سے آخری 2 ہٹا دیں تو فاعلن 2 1 2
یعنی
2 1 2 2 ۔ 2 1 2 2 ۔ 2 1 2 2 ۔ 2 1 2
-نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا (غالب)
- کافرِ عشقم، مسلمانی مرا درکار نیست (خسرو)
-آسمانوں پر نظر کر، انجم و مہتاب دیکھ (افتخار عارف)
-مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار، میں روزے سے ہوں (ضمیر جعفری)
 

محمد وارث

لائبریرین
5 - فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
یعنی
2212 - 2212 - 212
یہ مثنوی کی بحر مشہور ہے، غزلیں بھی کہتے ہیں۔
مولانا رومی کی پوری مثنوی اور علامہ اقبال کی جاوید نامہ اسی بحر میں ہیں۔
شاد باش اے عشقِ خوش سودائے ما
اے طبیبِ جملہ علّت ہائے ما
اے دوائے نخوت و ناموسِ ما
اے تو افلاطون و جالینوسِ ما
(مولانا رومی، مثنوی)
 

آصف اثر

معطل
یہ آپ نے کیا ہی بہترین سلسلہ شروع کردیا۔ سونے پہ سہاگہ۔ یعنی ایک تو معروف بحریں اوپر سے شہرۂ آفاق شعراء کرام کا مشہور ومقبول کلام!
متشکرم۔
 
مندرجہ ذیل لنک پر بھی توجہ فرمائیے۔

محمد ریحان قریشی بھائی کی پیش کردہ مانوس بحور کی فہرست ہم مبتدیوں کے لیے ۔

غالب نے جن بحور کا استعمال کیا وہ درج ذیل ہیں:

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن(رمل مثمن محذوف)
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن(مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف)
فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن(ہزج مثمن اشتر)
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن(ہزج مثمن سالم)
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن(ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف)
مفعول مفاعلن فعولن(ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف)
فعولن فعولن فعولن فعولن(متقارب مثمن سالم)
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعِلن(رمل مثمن مخبون محذوف)
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعِلن(مجتث مثمن مخبون محذوف)
فعلات فاعلاتن فعلات فاعلاتن(رمل مثمن مشکول)
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن(مضارع مثمن اخرب)
فاعلاتن مفاعلن فعِلن(خفیف مسدس سالم مخبون محذوف)
فاعلاتن فعِلاتن فعِلن(رمل مسدس سالم مخبون محذوف)
مفتعلن فاعلات مفتعلن فع( منسرح مثمن مطوی منحور)
مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن (رجز مثمن مطوی مخبون)
مفاعیلن مفاعیلن فعولن(ہزج مسدس محذوف)
فاعلاتن فاعلاتن فاعلن(رمل مسدس محذوف)
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن(ہزج مثمن اخرب)
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلاتن (مجتث مثمن مخبون)
انھیں ہی مانوس بحور سمجھیے اور ان میں ہی طبع آزمائی بھی کیجیے۔

غیر مانوس بحور کے اوزان پرکھنا مشکل کام ہے۔

ایک انتخاب ملاحظہ فرمائیں۔ تمام اشعار غالب کے ہیں

نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بتنی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

کیوں ردِ قدح کرے ہے زاہد
مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے

جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں

بوئے گل، نالۂ دل دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا

نظر لگے نہ کہیں اس کے زورِ بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں

کوئی میرے دل سے پوچھے، ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

میں اور بزمِ مے سے، یوں تشنہ کام آؤں
گر میں نے کی تھی توبہ ساقی کو کیا ہوا تھا

جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبت ہی سہی

دیتے ہیں جنت حیاتِ دہر کے بدلے
نشہ بہ اندازۂ خمار نہیں ہے

دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم کوئی ہمیں اٹھائے کیوں

ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

گلشن کو تری صحبت از بسکہ خوش آئی ہے
ہر غنچے کا گل ہونا آغوش کشائی ہے

خدا کے واسطے داد اس جنونِ شوق کی دینا
کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم اگے
 
Top