اردو بحور کی 122 یعنی ہجائے بلند اور کوتاہ کا نظام کس نے ایجاد کیا؟

سید ذیشان

محفلین
جناب سید ذیشان صاحب۔ آپ کیوں دل میلا کرتے ہیں؟ صرف اپنی بات کرتا ہوں۔ میں نے بلامبالغہ سینکڑوں دوستوں کو عروض ڈاٹ کام کا راستہ دکھایا ہے اور کئی مقامات پر اس کے مختلف فوائد کو بھی ہائی لائٹ کیا ہے۔ دوسرے جانیں اور ان کا طرزِ عمل جانے۔ آپ کو پتہ ہے ہمارے ہاں ویسے بھی مغرب پرستی اور قومی دُون ہمتی کی وہ فضا چھائی ہے کہ یار لوگ اردو غزل پر ڈاکٹر جالبی کی رائے کو وہ اہمیت نہیں دیتے جو کسی "مسٹر ڈیوک یاں پووسکی" کی رائے کو دیتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ یار، اُن کا اردو غزل سے کیا کام!
بہت شکریہ آسی صاحب۔

مجھے معلوم ہے آپ روز اول سے ہی اس سائٹ کے طرفدار رہے ہیں، اور سب سے اچھی بات یہ کہ غلطیوں کی نشاندہی بھی کرتے رہے ہیں اور ساتھ ساتھ بہت سارے مفید مشورے بھی دیتے رہے ہیں۔ :)

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پروفیسر صاحبہ کی کتاب کے بغیر کم از کم میرے لئے تو یہ سائٹ بنانا بہت مشکل ہوتا۔ ظاہری بات ہے کہ مجھ سے زیادہ ذہین لوگ اس کو آسانی سے بنا سکتے تھے۔

یہ بتانا بھی ضروری ہے اس کتاب کے دو مصنفین ہیں۔ دوسرے مصنف، جو ہندوستان لاہور سے ہیں، ان صاحبہ کے استاد تھے۔
 
آخری تدوین:
بہت شکریہ آسی صاحب۔

مجھے معلوم ہے آپ روز اول سے ہی اس سائٹ کے طرفدار رہے ہیں، اور سب سے اچھی بات یہ کہ غلطیوں کی نشاندہی بھی کرتے رہے ہیں اور ساتھ ساتھ بہت سارے مفید مشورے بھی دیتے رہے ہیں۔ :)

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پروفیسر صاحبہ کی کتاب کے بغیر کم از کم میرے لئے تو یہ سائٹ بنانا بہت مشکل ہوتا۔ ظاہری بات ہے کہ مجھ سے زیادہ ذہین لوگ اس کو آسانی سے بنا سکتے تھے۔

یہ بتانا بھی ضروری ہے اس کتاب کے دو مصنفین ہیں۔ دوسرے مصنف، جو ہندوستان لاہور سے ہیں، ان صاحبہ کے استاد تھے۔

ٹیکنیکی معاملات آپ بہتر جانتے ہیں۔ بندہ تو ایک سیدھا سادا کلرک رہا ہے۔ میرے مشورے مفید ثابت ہوئے، میرے لئے یہی بہت کافی ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
پریچٹ صاحبہ کو کل ای میل کی تھی جس میں صاحب دھاگہ کا سوال پوچھا تھا۔ جواب میں انہوں نے یہ کہا:


I don't know whether such a debate can ever be settled, because describing metrical patterns in terms of long and short syllables is so common in metrical discussion in so many languages. So no matter who first used it for Urdu poetry, that person probably didn't 'invent' it, but simply imported it from metrical discussion about some other language. English is of course an obvious candidate, but not by any means the only one.


The really neat thing about syllables, to my mind, is that we can use the distinction between vowels and consonants to help us understand the shaping and reshaping of syllable divisions; while in Arabic no such distinction is made. So using syllables is not only simple and intuitive, but also gives us an extra, and very powerful, analytical tool.
 
چند مزید گزارشات
۔1۔ عروض میں ارکان کو ایسے لکھا جاتا ہے کہ صوت کو بھی حرف کی صورت دے دیتے ہیں۔ صرفی وزن فاعلٌ (لام پر دو پیش) عربی جملے میں لام ساکن ہو کر فاعل (دو سبب خفیف) بن جاتا ہے۔ عروض کا قطعی پیمانہ حرکت (تنوین) اور سکون کو بھی نکھار دیتا ہے۔ اس لئے فاعلٌ کو عروضی پیمانے کے طور پر ”فاعلُن“ لکھا جاتا ہے۔ ایسی ہی معاملہ فِعْلٌ، فاعلاتٌ، مفاعیلٌ، متفاعلٌ وغیرہ کے ساتھ ہے؛ انہی کو عروض کی عبارت میں فِعْلُن، فاعلاتُن، مفاعیلُن، متفاعِلُن لکھتے ہیں۔ یہ بہت آسان اور سادہ سی بات ہے جسے سمجھنے کے لئے کسی دقیق فکر کی ضرورت نہیں۔​
۔2۔ ہجائے بلند اور ہجائے کوتاہ کی تقسیم فطری طور پر اس نظامِ حرکات کا حصہ ہے۔ عربی عروض میں ارکان کو توڑ کر اجزاء بنائے گئے، ان کو یار رکھنے کے لئے یہ جملہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے: لَمْ اَرَ سَمَکَۃً عَلٰی رَاْسِ جَبَل ٍ (اردو ترجمہ: میں نے پہاڑ کی چوٹی پر مچھلی نہیں دیکھی)۔ اس میں سمکۃً کا عروضی وزن فَعِلَتُن ہے اور جبلٌ کا فَعِلُن ہے ۔ ہم نے فَعِلُن کو فُعِلَت لکھنے کی سفارش کی ہے تاکہ فِعْلُنْ اور فَعِلُن کا اِشکال باقی نہ رہے۔ تاہم ہمیں یقین ہے کہ جہاں غضنفر جیسے نابغہ عالم کی بات کو کوئی در خورِ اعتناء نہیں سمجھتا وہاں ہماری کیا حیثیت! کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔ اس کلیدی جملے کے سارے الفاظ اپنی اپنی جگہ پر ایک مکمل جزو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جملے میں آمدہ ترتیب کے مطابق عروضی متون یہ ہیں: لَمْ (فا: سبب خفیف) اَرَ(فَعَ: سبب ثقیل) سَمَکَۃً (فَعِلَتُن: فاصلہ کبرٰی) عَلٰی (فُعُوْ: وتد مجموع)رَاْسِ (فاع: وتد مفروق) جَبَلٍ (فَعِلُن: فاصلہ صغرٰی)۔
۔3۔ واضح رہے کہ سببِ خفیف اور ہجائے بلند ایک ہی چیز ہے؛ سبب ثقیل کی دونوں آزاد حرکتوں کو الگ کر دیا جائے تو دونوں اپنی اپنی جگہ ہجائے کوتاہ ہیں۔ تاہم ان کے ناموں سے مترشح ہے کہ یہ اصطلاحی نام (ہجائے کوتاہ، ہجائے بلند) عربی والوں نے نہیں دیے، فارسی یا اردو والوں نے دئے ہیں (بلند: فارسی، کوتاہ: فارسی، ہجاء: عربی، ترکیب توصیفی کا انداز: فارسی)۔
۔4۔ مرزا غالب کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتطار ہوتا​
جہاں تک مصرعے کی خطی یا علامتی تشکیل کا تعلق ہے، یہ عروضی متن (یِ نَ تی ہَ ما رِ قس مت ۔۔۔) کے بعد کا اقدام ہے۔ طلبائے عروض کو سکھانے کے لئے وضع کیا گیا اردو میں ایک پرانا طریقہ تھا، متحرک کے لئے زبر، اور ساکن کے لئے جزم کی علامت۔ بعد والوں نے ہجائے کوتاہ کو (-) اور ہجائے بلند کو (=) سے ظاہر کیا۔ اس کی خواندگی کو مزید بہتر بنانے کے لئے ہجائے کوتاہ کے لئے 1، ہجائے بلند کے لئے 2، کو علامات بنایا گیا۔ ہم نے اسی کو ثنائی نظام اور کمپیوٹر سے منسلک کرنے کی غرض سے ہجائے کوتاہ کےلئے (۰) اور ہجائے بلند کے لئے (۱) اختیار کیا۔ اب یہ سارے نظام متوازی چل رہے ہیں۔
۔5۔ بابائے عروضِ اردو (یہ نام میں دے رہا ہوں) مولانا نجم الغنی نجمی رحمہ اللہ نے اصطلاحات میں عربی اور فارسی کا بہت سختی سے تتبع کیا ہے، یہاں تک کہ فاصلہ کبرٰی کو بھی قائم رکھا ہے۔ نجمی کے بعد ہمیں غضنفر ہی ایسا شخص ملا ہے جس نے مثبت اور مفید اختراعات کیں۔ کسی نے غضنفرکے جدید نظام کو مانا یا نہیں مانا، اس کی وضع کردہ اصطلاحات سے فائدہ ضرور اٹھایا ہے۔ ہجائے کوتاہ اور ہجائے بلند دونوں ہم نے غضنفر کے ہاں دیکھے ہیں۔ جن بڑی بڑی بدیسی اسناد پر تکیہ کیا جا رہا ہے اُن میں سے ایک کا بیان میرے فاضل دوست نے نقل کر دیا۔ خود ملاحظہ فرما لیجئے۔
۔6۔ محترمی سید ذیشان اصغر کا مراسلہ بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔

پریچٹ صاحبہ کو کل ای میل کی تھی جس میں صاحب دھاگہ کا سوال پوچھا تھا۔ جواب میں انہوں نے یہ کہا:

I don't know whether such a debate can ever be settled, because describing metrical patterns in terms of long and short syllables is so common in metrical discussion in so many languages. So no matter who first used it for Urdu poetry, that person probably didn't 'invent' it, but simply imported it from metrical discussion about some other language. English is of course an obvious candidate, but not by any means the only one.

The really neat thing about syllables, to my mind, is that we can use the distinction between vowels and consonants to help us understand the shaping and reshaping of syllable divisions; while in Arabic no such distinction is made. So using syllables is not only simple and intuitive, but also gives us an extra, and very powerful, analytical tool.

بہت آداب
 
پریچٹ صاحبہ کو کل ای میل کی تھی جس میں صاحب دھاگہ کا سوال پوچھا تھا۔ جواب میں انہوں نے یہ کہا:


I don't know whether such a debate can ever be settled, because describing metrical patterns in terms of long and short syllables is so common in metrical discussion in so many languages. So no matter who first used it for Urdu poetry, that person probably didn't 'invent' it, but simply imported it from metrical discussion about some other language. English is of course an obvious candidate, but not by any means the only one.


The really neat thing about syllables, to my mind, is that we can use the distinction between vowels and consonants to help us understand the shaping and reshaping of syllable divisions; while in Arabic no such distinction is made. So using syllables is not only simple and intuitive, but also gives us an extra, and very powerful, analytical tool.

بی بی کا فرمودہ ہم جیسے کم فہم لوگوں کے لئے اردو میں بیان فرما دیجئے، تو بہت نوازش۔ انگریزی اور اردو میں اساسی فرق موصوفہ کی بات کو مشکل بنا رہا ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
بی بی کا فرمودہ ہم جیسے کم فہم لوگوں کے لئے اردو میں بیان فرما دیجئے، تو بہت نوازش۔ انگریزی اور اردو میں اساسی فرق موصوفہ کی بات کو مشکل بنا رہا ہے۔
خلاصہ یہی ہے کہ انہیں بھی نہیں معلوم کہ پہلے پہل کون اردو میں یہ لے کر آیا۔ اور اس کو ایجاد نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ شارٹ اور لانگ سیلیبل کی بحث کئی زبانوں میں بہت پہلے سے چلتی آ رہی ہے۔ ان کے مطابق انگریزی سے شائد یہ نظام اردو میں آیا ہو اگرچہ اور بھی کئی زبانوں سے درآمد ممکن ہے۔

دوسرے پیراگراف میں اس بات کا بیان ہے کہ عربی کے مقابلے میں اردو کے لئے اس طرز کا استعمال زیادہ فائدہ مند ہے کیونکہ اردو میں حروف علت کے استعمال سے ہجوں کو مختلف اشکال میں ڈھالنا ممکن ہے۔ اس سے ہمیں ایک بہت طاقتور ٹول میسر آ جاتا ہے جس سے اردو شاعری کو پرکھا جا سکتا ہے۔
 
خلاصہ یہی ہے کہ انہیں بھی نہیں معلوم کہ پہلے پہل کون اردو میں یہ لے کر آیا۔ اور اس کو ایجاد نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ شارٹ اور لانگ سیلیبل کی بحث کئی زبانوں میں بہت پہلے سے چلتی آ رہی ہے۔ ان کے مطابق انگریزی سے شائد یہ نظام اردو میں آیا ہو اگرچہ اور بھی کئی زبانوں سے درآمد ممکن ہے۔

دوسرے پیراگراف میں اس بات کا بیان ہے کہ عربی کے مقابلے میں اردو کے لئے اس طرز کا استعمال زیادہ فائدہ مند ہے کیونکہ اردو میں حروف علت کے استعمال سے ہجوں کو مختلف اشکال میں ڈھالنا ممکن ہے۔ اس سے ہمیں ایک بہت طاقتور ٹول میسر آ جاتا ہے جس سے اردو شاعری کو پرکھا جا سکتا ہے۔

بابائے عروضِ اردو حضرت مولانا نجم الغنی نجمی ”ہجائے بلند“ اور ”ہجائے کوتاہ“ کی اصطلاحات بھلے نہ لائے ہوں، تاہم ان کا تقطیع کا سارا نظام ان ہی دو پر مبنی ہے۔

میں نے یہ دونوں اصطلاحات (”ہجائے بلند“ اور ”ہجائے کوتاہ“) اول اول غضنفر کے ہاں دیکھی ہیں۔
کسی دوست نے اس سے پہلے کسی کے ہاں دیکھی ہوں تو مطلع فرمائیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
بابائے عروضِ اردو حضرت مولانا نجم الغنی نجمی ”ہجائے بلند“ اور ”ہجائے کوتاہ“ کی اصطلاحات بھلے نہ لائے ہوں، تاہم ان کا تقطیع کا سارا نظام ان ہی دو پر مبنی ہے۔

میں نے یہ دونوں اصطلاحات (”ہجائے بلند“ اور ”ہجائے کوتاہ“) اول اول غضنفر کے ہاں دیکھی ہیں۔
کسی دوست نے اس سے پہلے کسی کے ہاں دیکھی ہوں تو مطلع فرمائیں۔
مجھے ایک کتاب ملی ہے جس کے صفحہ 15 پر لانگ اور شارٹ سیلیبل کا ذکر بھی ہے اور بحور کو بھی اسی شکل میں دکھایا گیا ہے۔

۔
History Of Urdu Literature by Bailey, Grahame. T.
Publication date 1932
 
مجھے ایک کتاب ملی ہے جس کے صفحہ 15 پر لانگ اور شارٹ سیلیبل کا ذکر بھی ہے اور بحور کو بھی اسی شکل میں دکھایا گیا ہے۔

۔
History Of Urdu Literature by Bailey, Grahame. T.
Publication date 1932

بہت نوازش جنابِ محترم! 1932ء یہ بھی تو غضنفر کے دورِ حیات کی بات ہے۔
ہر کتاب کی تاریخِ اشاعت کا ریکارڈ اول تو خاصا مشکل کام ہے، اور ہو بھی جائے تو وہی ہمت رائے شرما اور چراغ حسن حسرت والا جھگڑا چل نکلتا ہے کہ اولیت کس کی ہے۔

نجمی بابا نے وہ کچھ کر دیا ہے کہ مجھ جیسا باغی بھی اسی سے مستفیض ہوتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مجھے ایک کتاب ملی ہے جس کے صفحہ 15 پر لانگ اور شارٹ سیلیبل کا ذکر بھی ہے اور بحور کو بھی اسی شکل میں دکھایا گیا ہے۔

۔
History Of Urdu Literature by Bailey, Grahame. T.
Publication date 1932
ڈاکٹر پرویز ناتل خانلزئی کی 1949ء میں ایک کتاب چھپی تھی، "تحقیق انتقادی در عروض و قافیه و چگونگی تحول اوزان غزل فارسی" اس میں بھی یہی نظام ہے۔ اس کتاب کا اردو میں ترجمہ بذل حق محمود نے "فارسی عروض کی تنقیدی تحقیق اور اوزانِ غزل کے ارتقاء کا جائزہ" کے نام سے کیا تھا اور میرے پاس موجود ہے!
 
یہ ہوئی نا، بات! عربی فارسی اردو کے عروض کے حوالے سے عربی فارسی اردو کے اسکالروں کی بات!

مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
اقبالؔ
 
اردو بحور کے لیے جو ریاضیاتی ماڈل مستعمل ہے اس کی تاریخ کے متعلق معلومات درکار ہے۔ میں اس نظام سے کافی متاثر ہوں کہ اتنا انقلابی اور حیرت انگیز نظام کس نے وضع کیا ہوگا۔ میں اس عظیم شخصیت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اس حوالے سے آپ حضرات سے استفسار ہے۔

محمد وارث صاحب الف عین صاحب محمد تابش صدیقی مزمل شیخ بسمل محمد اسامہ سَرسَری اور دیگر احباب۔
یہ بڑا کارآمد نظام ہے اور حقیقتا عروض کا سادہ اور آسان ترین نظام ہے۔ میں نے اس سے استفادہ کیا ہے لیکن آپ والے سوال پر کبھی غور نہیں کیا۔۔۔واقعی اس کے موجد کو خراج تحسین پیش کرنا تو بنتا ہے۔
 
بلا تبصرہ
DdK3QokW0AAKqjZ.jpg:large
 
یہ بڑا کارآمد نظام ہے اور حقیقتا عروض کا سادہ اور آسان ترین نظام ہے۔ میں نے اس سے استفادہ کیا ہے لیکن آپ والے سوال پر کبھی غور نہیں کیا۔۔۔واقعی اس کے موجد کو خراج تحسین پیش کرنا تو بنتا ہے۔
شواہد بتاتے ہیں کہ اس ماڈل کو اردو کے لئے نجمی بابا نے اختراع کیا؛ نمونہ اوپر پیش کیا جا چکا ہے۔
 
آپ کے اس سوال کو پڑھتے ہی ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ یہی تو وہ نظام ہے جسے ہم سمجھنا چاہتے ہیں،
مزید یہ کہ آصف اثر بھائی تو اس سے متاثر بھی ہولیے جبکہ ہم تو اسے سمجھ ہی نہیں پائے۔

لہٰذا فوراً یو ٹیوب میں غوطہ لگایا اور پروفیسر مقبول فاروقی (سابق صدر شعبۂ اردو آندھرا یونیورسٹی) کے لیکچر سے استفادہ کیا۔

ذیل میں اس سے ایک ٹکڑہ درج ہے جس کی تشریح و تفصیل محمد وارث صاحب و دیگر اساتذہ ہی دے پائیں گے ۔

“ ہندی میں دو قسم کی بحریں ہوتی ہیں۔
۱: ماترک چھند
۲: ورنک چھند

ماترک چھندوں کی بنیاد ماتراؤں پر ہوتی ہے۔ ماترا آواز کے ایک چھوٹے سے وقفے کو کہتے ہیں۔ یہ ماترا دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک چھوٹی اور ایک بڑی۔ چھوٹی ماترا کو لگھو ماترا کہتے ہیں اور اسے ایک کھڑی لکیر سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس کی قیمت ایک ہے۔

“آ” بڑی ماترا ہے جس کو گُرو ماترا کہتے ہیں۔ اس کی علامت ایک کھڑی دوہری لکیر ہے۔ اس کی عددی قیمے دو ہے۔

اگر ہم ایک لفظ “ آدمی” لے لیں تو اس کی عددی قیمت پانچ ہوتی ہے۔

آ : گُرو ماترا عددی قیمت ۲
د : لگھو ماترا عددی قیمت ۱
می : گُرو ماترا عددی قیمت ۲

ہندی کے ماترک چھندوں میں ایک ایک ماترا کے فرق سے بحر بدل جاتی ہے۔ اس لیے ماتراؤں کی تعداد اور لکھو گُرو کی ترتیب کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مثلاً

۲۴ ماتراؤں کا چھند ہے دوہا۔

ادھر ورنک چھندوں میں بحروں کی تشکیل چند صوتی ساانچوں کی مدد سے ہوتی ہے جن کو ورن یا گُن کہا جاتا ہے۔ ورن ماتراؤں کے مقابلے میں کچھ بڑے ہوتے ہیں، اس لیے کہ ایک ایک ورن یا گُن میں تین تین چھوٹی ماترائیں ہوتی ہیں نیز ہر ورن میں لگھو اور گُرو ماتراؤں کی خاص ترتیب ہوتی ہے۔


بھائی اگر آپ چھند کو اس 1212 پر ترجیح دیتے ہیں تو گوروں کو بابائے اردو کیسے مانا جائے گا۔آپ نے یقیناً بہت قیمتی خزانے کا پتہ دیا ہے۔ اردو کا وطنِ پیدائش برصغیر ہے اور یقیناً اس کی ساخت میں مقامی چھند کا نظام ہی بہترین نظام ہوتا (بلکہ اگر کوئی سمجھے تو ہے بھی)۔ مگر کاش ہمیں چھان پھٹک کی عادت ہوتی اور خود ساختہ ترجیحات سے نکلنے کا یارا بھی ہوتا۔
عربی اور فارسی اردو کے خمیر میں شامل ہیں، اس سے کوئی ذی شعور بندہ انکار نہیں کر سکتا۔ عربی اور فارسی سے بیزاری آپ کی اردو کے لئے زہرِ قاتل ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ عربی اور فارسی والا عروض اردو کے صوتیاتی ماڈل کی روح کے مطابق نہیں۔ ہمارے پاس شاید تھا کچھ نہیں، سو ہم نے عربی اور فارسی عروض کو جزوِ ایمان بنا لیا مگر بہت سارے مسائل حل ہو ہی نہیں رہے تھے۔
پھر ایک معجزہ رونما ہو گیا: 1980 میں ایک گورے کو بابائے اردو کے منصب پر فائز کر دیا گیا۔ دو سو برس تک انگریز راج کے تحت رہنے والی سوچ نے اس 1212 کو عشائے ربانی سمجھ لیا۔ پکی پکائی کھانے والوں کو کیا پڑی تھی کہ وہ چھند کی سنگلاخ وادی میں قدم رکھتے۔ مزید بد قسمتی دیکھئے کہ علامہ غلام یعقوب انور سمیت جن چند بزرگوں نے یہ اس (چھند) میں محنت کی اور اسے اردو سے منطبق کیا، وہ معتوب سے بھی ایک قدم آگے یعنی ناقابلِ اعتناء قرار پائے (ان میں علامہ غلام یعقوب انور، اور غضنفر امرہوی نام نمایاں ہیں، اہلِ عروض پتہ نہیں انہیں جانتے بھی ہیں یا نہیں)۔ کیوں؟ کہ ان کی سنی جاتی تو ہم یا تو عروضی کافر قرار پاتے گوری سرکار کے باغی۔
آپ وہ باتیں کر رہے ہیں جن سے یہاں کوئی بھی نہ تو آشنا ہے اور نہ ہونا چاہتا ہے۔ یہاں لوگوں کو ماترک چھند، ورنک چھند، پنگل وغیرہ کے نام بھی اجنبی لگتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ آپ کی بات بھی صدا بہ صحرا ثابت ہو گی، اور آپ کی میری طرح لائقِ عتاب قرار پائیں گے۔ اس سے پہلے کہ یہاں کے والی وارث میرے ان "کلماتِ کفر" کو پھر مٹا ڈالیں، اللہ کرے یہ جسارت ایک بار آپ کی نظر سے گزر جائے۔
 
Top