اردو بحور کی 122 یعنی ہجائے بلند اور کوتاہ کا نظام کس نے ایجاد کیا؟

آصف اثر

معطل
ساغر صدیقی کے مشہور مقطع ”آؤ اِک سجدہ کرے عالم مدہوشی میں، لوگ کہتےہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں“ کے دونوں مصرعوں کی بحر جدا جدا ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے؟
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ساغر صدیقی کے مشہور مقطع ”آؤ اِک سجدہ کرے عالم مدہوشی میں، لوگ کہتےہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں“ کے دونوں مصرعوں کے بحر جدا جدا ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے؟
کسی بھی شعر یا غزل کی بحر جدا نہیں ہو سکتی ورنہ شعر بے وزن سمجھا جائے گا۔ ساغر کے دونوں مصرعے ایک ہی بحر میں ہیں۔
 
میں نے پہلی بار پروفیسر غضنفر کے ہاں پڑھیں۔

حبیب اللہ خان غضنفر امروہوی
کراچی(سندھ)، پاکستان
پیدائش : 1902-07-16 امروہہ (اُترپردیش) - بھارت ۔۔۔ وفات : 1973-02-15 کراچی (سندھ) - پاکستان
تصانیف:
مثنوی ناسخ؛ ناشر،کتابستان.الہ آباد ، 1931ء ، 80 ص (ناسخ شناسی) مرتب
ہندی ادب؛ کراچی،غضنفر اکیڈمی پاکستان ، بار اول 1972ء بار دوم 1979ء 96 ص
اردو کا عروض؛ کراچی،اقبال بُک ڈپو،س ن، 60 ص کراچی،غضنفر اکیڈمی پاکستان (بار سوم 2005ء 143 ص)
فردوس ِبریں؛ زبان و ادب؛ ناشر:غضنفر اکیڈمی پاکستان. کراچی

۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
پروفیسر غضنفر صاحب کی کتاب کے بعد عروض پر کئی ایک کتب شائع ہوئیں جن میں ان کے نظام کا چربہ تھا لیکن افسوس ان مصنفین نے پروفیسر صاحب کو کریڈٹ دینا تو کجا ان کا ذکر تک نہیں کیا۔
 

شاہد شاہ

محفلین
کیا عروض ڈاٹ کام سے شاعری کروانے حضرات سید ذیشان کو کریڈٹ دیتے ہیں؟
پروفیسر غضنفر صاحب کی کتاب کے بعد عروض پر کئی ایک کتب شائع ہوئیں جن میں ان کے نظام کا چربہ تھا لیکن افسوس ان مصنفین نے پروفیسر صاحب کو کریڈٹ دینا تو کجا ان کا ذکر تک نہیں کیا۔
 

سید ذیشان

محفلین
جی اسی کتاب کا حوالہ دیا تھا۔

مزے کی بات یہ کہ اردو عروض پر جو ہماری روایتی کتب ہیں وہ میں کئی کئی مہینوں تک چاٹتا رہا لیکن عروض کا یہ جن ایسا تھا کہ قابو ہی میں نہ آتا تھا، پھر یہ کتاب میرے ہاتھ لگ گئی، تھوڑے سے غور و فکر کے بعد عروض کی کلید میرے ہاتھ میں تھی۔ پھر میں نے پروفیسر صاحبہ سے ای میل پر کچھ خط و کتابت بھی کی، ان کی اس عظیم کاوش پر ان کو ہدیۂ تبریک پیش کیا اور ان کو اپنی کہانی بھی سنائی، بہت خوش ہوئیں اور پھر مجھے اپنی ویب سائٹ بنانے اور اس موضوع پر لکھنے کا مشورہ بھی دیا۔ ویب سائٹ تو نہ بنا پایا لیکن اپنے بلاگ پر کچھ تحاریر ضرور لکھیں۔
ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ عروض سائٹ کے کافی سارے اصول اسی کتاب سے اخذ ہیں۔ اور سائٹ بننے کے بعد پروفیسر صاحبہ کو میں نے لنک بھیجا تھا تو وہ کافی حیران تھیں کہ یہ کام کمپیوٹر نے کر دیا۔ پھر مجھے ایک اور پروفیسر، شان پیئو، کے بارے میں بتایا جو اسی طرح کا کام کرنا چاہتے تھے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ علم کسی کی میراث نہیں ہے۔ کام کو دیکھنا چاہئیے چاہے مغرب والوں نے کیا ہو یا مشرق والوں نے۔ :)
 
کیا وہ سمجھ بھی گئے؟ بڑی بات ہے پھر تو!
ایک صاحب نے عِلۡم کو عَلَم کے وزن پر باندھا ہوا تھا۔ توجہ دلائی تو کہتے ہیں کہ عروض ڈاٹ کام پر ٹھیک آ رہا یے۔
پھر ان کو سمجھایا کہ بھائی عروض پر دونوں الفاظ موجود ہیں، وہ شعر کا مطلب سمجھ کر درست لفظ کا چناؤ نہیں کر سکتا۔ جو وزن پر بیٹھتا ہے، اسے اٹھا لیتا ہے۔
 
ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ عروض سائٹ کے کافی سارے اصول اسی کتاب سے اخذ ہیں۔ اور سائٹ بننے کے بعد پروفیسر صاحبہ کو میں نے لنک بھیجا تھا تو وہ کافی حیران تھیں کہ یہ کام کمپیوٹر نے کر دیا۔ پھر مجھے ایک اور پروفیسر، شان پیئو، کے بارے میں بتایا جو اسی طرح کا کام کرنا چاہتے تھے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ علم کسی کی میراث نہیں ہے۔ کام کو دیکھنا چاہئیے چاہے مغرب والوں نے کیا ہو یا مشرق والوں نے۔ :)

جناب سید ذیشان صاحب۔ آپ کیوں دل میلا کرتے ہیں؟ صرف اپنی بات کرتا ہوں۔ میں نے بلامبالغہ سینکڑوں دوستوں کو عروض ڈاٹ کام کا راستہ دکھایا ہے اور کئی مقامات پر اس کے مختلف فوائد کو بھی ہائی لائٹ کیا ہے۔ دوسرے جانیں اور ان کا طرزِ عمل جانے۔ آپ کو پتہ ہے ہمارے ہاں ویسے بھی مغرب پرستی اور قومی دُون ہمتی کی وہ فضا چھائی ہے کہ یار لوگ اردو غزل پر ڈاکٹر جالبی کی رائے کو وہ اہمیت نہیں دیتے جو کسی "مسٹر ڈیوک یاں پووسکی" کی رائے کو دیتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ یار، اُن کا اردو غزل سے کیا کام!
 

فہد اشرف

محفلین
ایک صاحب نے عِلۡم کو عَلَم کے وزن پر باندھا ہوا تھا۔ توجہ دلائی تو کہتے ہیں کہ عروض ڈاٹ کام پر ٹھیک آ رہا یے۔
پھر ان کو سمجھایا کہ بھائی عروض پر دونوں الفاظ موجود ہیں، وہ شعر کا مطلب سمجھ کر درست لفظ کا چناؤ نہیں کر سکتا۔ جو وزن پر بیٹھتا ہے، اسے اٹھا لیتا ہے۔
عروض انجن اعراب تو سمجھتا ہوگا
 
Top