اردو رباعیات

محمد وارث

لائبریرین
مختصر تعارف


اصنافِ سخن میں رباعی ایک خاصے کی چیز ہے، چار مصرعوں میں جامع سے جامع مضمون کو خوبصورتی سے مکمل کر دینا دریا کو کوزے میں بند کر دینے کے مترادف ہے۔

رباعی عربی لفظ رُبَع سے ہے جسکا مطلب چار ہے یعنی اس میں چار مصرعے ہوتے ہیں، رباعی کو دوبیتی اور ترانہ وغیرہ بھی کہا جاتا ہے۔ اردو شاعری فارسی سے اور فارسی شاعری عربی شاعری سے نکلی ہے لیکن رباعی خالصتاً فارسی شعراء کی ایجاد ہے۔ رباعی کی ابتدا کے متعلق بہت سی ابحاث، واقعات اور حکایات ملتی ہیں، جنہیں طوالت کے خوف سے چھوڑتا ہوں۔

رباعی کے اوزان مخصوص ہیں، بحر ہزج کے چوبیس وزن رباعی کے لیئے مخصوص ہیں، جن میں غزل، نظم وغیرہ کہنا بھی جائز ہے، لیکن ان اوزان کے علاوہ اگر دو یا زیادہ شعر کسی اور وزن میں ہوں تو وہ رباعی نہیں بلکہ قطعہ کہلاتے ہیں، یہ تھریڈ ان اوزان کی تفصیل کا متحمل نہیں ہوسکتا سو انہیں بھی چھوڑتا ہوں۔ رباعی کا پہلا، دوسرا، اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہوتے ہیں، تیسرے مصرعے میں بھی قافیہ لایا جا سکتا ہے۔ رباعی کی خوبصورتی کا دار و مدار چوتھے مصرعے پر ہوتا ہے جس کے حسن اور برجستگی سے پہلے تین مصرعوں کو بھی چار چاند لگ جاتے ہیں۔

رباعی کا کوئی مخصوص موضوع نہیں ہوتا، لیکن شعراء کرام کی روایت رہی ہے کہ رباعی میں زیادہ تر پند و نصائح، تصوف، حمد، نعت، منقبت، فلسفہ، اخلاقیات اور دنیا کی بے ثباتی وغیرہ کے موضوع بیان کرتے ہیں۔ عشقیہ رباعیاں خال خال ہی ملتی ہیں۔

فارسی شاعری کا باوا آدم، رودکی، رباعی کا اولین شاعر مانا جاتا ہے، رودکی کے علاوہ بابا طاہر عریاں، سرمد، ابوسعید ابوالخیر، فرید الدین عطار، حافظ شیرازی اور شیخ سعدی وغیرہ معروف و مشہور رباعی گو ہیں لیکن فارسی شاعری میں جس شاعر کا نام رباعی گو کی حیثیت سے امر ہو گیا ہے وہ عمر خیام ہے۔

فارسی شعرا کے تتبع میں اردو شعرا نے بھی رباعی گوئی میں اپنی اپنی طبع کی جولانیاں دکھائی ہیں۔ مشہور اردو رباعی گو شعرا میں میر تقی میر، سودا، میر درد، میر انیس، غالب، ذوق، مومن، حالی، اکبر الہ آبادی وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن جس شاعر نے صحیح معنوں میں اردو رباعی سے کام لیا ہے وہ علامہ اقبال ہیں۔ غالب کی طرح علامہ نے بھی اردو اور فارسی میں رباعیاں کہی ہیں اور کیا کمال کہی ہیں۔

اقبال کی کئی رباعیات، رباعی کے مروجہ اوزان کی قید میں نہیں ہیں، لیکن اقبال نے اپنی کتب میں انہیں رباعی ہی کہا ہے، اسطرف ایک اشارہ سید قدرت اللہ نقوی نے کیا ہے لیکن اس موضوع پر باوجود تلاش کے مجھے مواد نہیں مل سکا۔ میری ناقص سمجھ میں یہی آتا ہے کہ اقبال نے اس سلسلے میں بابا طاہر عریاں کا تتبع کیا ہے۔ بابا طاہر کی دوبیتیاں عموماً رباعیات ہی سمجھی جاتی ہیں لیکن ان کے اوزان بھی رباعی کے مروجہ اوزان سے مختلف ہیں۔

اقبال کے بعد، افسوس، اردو رباعی کا چلن بہت کم رہ گیا ہے۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ ترقی پسند تحریک اور "جدیدیت" کی لہر میں جب نئے اردو شعرا نے شاعری میں تجربات کیے اور آزاد نظم کا چلن عام ہوا تو اس سے کلاسیکی اصنافِ سخن پیچھے چلی گئیں، نہ صرف انکا رواج کم ہو گیا بلکہ ایک طرح سے ان سے نفرت بھی کی گئی۔ مشہور ناقد سلیم احمد نے اس کلاسیکیت کی مخالفت میں غزل کو بھی "وحشی صنفِ سخن" کہہ دیا۔ اور اب بھی ڈاکٹر وزیر آغا اپنی " انتہائی ذاتی" رائے کے مطابق غزل کا کوئی مستقبل نہیں سمجھتے۔ اقبال کے بعد کے معروف رباعی گو شعرا میں جوش، فانی، فراق، شمس الرحمن فاروقی اور صبا اکبر آبادی وغیرہ کے نام ہیں۔ احمد فراز نے بھی چند ایک رباعیاں کہی ہیں لیکن جو شاعر اس وقت بھی بالالتزام رباعیاں کہتا ہے وہ عبدالعزیز خالد ہے۔

یہاں پر میں اپنی پسند کے اردو رباعیات پیش کر رہا ہوں، اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اسطرح اردو رباعیات، جنہیں ہم بھولتے جا رہے ہیں اور وہ ادھر ادھر بکھری ہوئی پڑی ہیں، نہ صرف یکجا ہو جائیں بلکہ نیٹ کی دنیا میں محفوظ بھی ہو جائیں۔

احباب سے استدعا ہے کہ یہاں پر اپنی پسند کی رباعیاں پیش کر کے شکریہ کا موقع دیں۔

والسلام

محمد وارث
 

محمد وارث

لائبریرین
سب سے پہلے غالب کی ایک انتہائی مشہور اور متنازع اور اپنی پسند کی رباعی پیش کرتا ہوں۔ سید حیدر نظم طباطبائی نے سب سے پہلے اپنی کتاب 'شرح دیوانِ غالب' میں اس پر اعتراض کیا تھا کہ اسکا دوسرا مصرع رباعی کے وزن سے خارج ہے، پھر تو اس پر خوب خوب بحثیں ہوئیں اور اب بھی ہوتی ہیں۔ ناقدینِ غالب اور "قتیلانِ غالب" اسے پر بہت سر پھٹول کر چکے، قتیلِ غالب ہوں سو سید قدرت اللہ نقوی کی بات سے اتفاق کرتا ہوں جنہوں نے اس مصرعے کو باوزن ثابت کیا ہے۔


دُکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے غالب
 

محمد وارث

لائبریرین
عزّت رہے یارو آشنا کے آگے
محجوب نہ ہوں شاہ و گدا کے آگے
یہ پاؤں چلیں تو راہِ مولا میں چلیں
یہ ہاتھ جب اٹھیں تو خدا کے آگے


(میر انیس)
 

محمد وارث

لائبریرین
کبھی تنہائیٔ کوہ و دمَن عشق
کبھی سوز و سرور و انجمن عشق
کبھی سرمایۂ محراب و منبر
کبھی مولا علی خیبر شکَن عشق

(اقبال)
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعی کے بارے میں ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ اسکا خاص وزن "لا حَولَ و لا قُوّۃَ الّا باللہ" ہے، یہ بات درست ہے لیکن فقط اتنی کہ رباعی کے اوزان کا دار و مدار اس آیہ کریمہ کے ٹکڑے پر نہیں ہے بلکہ رباعی کے چوبیس اوزان میں سے ایک وزن پر یہ ٹکڑا بھی پورا اترتا ہے۔ مثلاً:

عاشق میں ہوا ہوں اک بُت کا ناگاہ
کچھ کام نہیں ہے مجھ کو جز نالہ و آہ
اب کفر سے مطلب ہے نہ اسلام سے کام
لا حَولَ و لا قُوّۃَ الّا باللہ

(یہ رباعی شاید حکیم نیر واسطی کی ہے کہ بحر الفصاحت جہاں سے یہ رباعی لی ہے شاعر کا نام صرف "واسطی" لکھا ہے)
 

محمد وارث

لائبریرین
عشرت کا ثمر تلخ سوا ہوتا ہے
ہر قہقہہ پیغامِ بُکا ہوتا ہے
جس قوم کو عیش دوست پاتا ہوں
کہتا ہوں کہ اب دیکھیے کیا ہوتا ہے

(الطاف حسین حالی)
 

محمد وارث

لائبریرین
بے سود ہے گنج و مال و دولت کی تلاش
ذلّت ہے دراصل جاہ و شوکت کی تلاش
اکبر تو سرورِ طبع کو علم میں ڈھونڈ
محنت میں کر سکون و راحت کی تلاش

(اکبر الٰہ آبادی)
 

محمد وارث

لائبریرین
تحقیق کو بے سود سمجھنے والو
انسان کو بے سود سمجھنے والو
تقدیر و توکل سے عمل بہتر ہے
اے وہم کو معبود سمجھنے والو

(احسان دانش)
 

محمد وارث

لائبریرین
جمالِ عشق و مستی نے نوازی
جلالِ عشق و مستی بے نیازی
کمالِ عشق و مستی ظرفِ حیدر
زوالِ عشق و مستی حرفِ رازی


(اقبال)
 

باسم

محفلین
رباعیات میں ایک اور نام معروف مصور (صادقین)

عاشق کیلیے رنج و الم رکھے ہیں
شاہوں کیلیے تاج و علم رکھے ہیں
میرے لیے کیا چیز ہے؟ میں نے پوچھا
آئی یہ صدا لوح و قلم رکھے ہیں
 

باسم

محفلین
ہم حسن پرستی کے قرینوں کیلیے
ہوجاتے ہیں معتکف مہینوں کیلیے
تصویر بناتے ہیں خود اپنی خاطر
اور شاعری کرتے ہیں حسینوں کیلیے
(صادقین)
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا فائدہ فکرِ بیش و کم سے ہوگا
ہم کیا ہیں جو کوئی کام ہم سے ہوگا
جو کچھ ہوا، ہوا کرم سے تیرے
جو کچھ ہوگا، ترے کرم سے ہوگا

(ابراہیم ذوق)
 

محمد وارث

لائبریرین
پیدا کرے ہر چند تقدّس بندا
مشکل ہے کہ حرص سے ہو دل بَرکندا
جنّت میں بھی اکل و شرب سے نہیں نجات
دوزخ کا، بہشت میں بھی ہوگا دھندا

(میر درد)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
جمالِ عشق و مستی نے نوازی
جلالِ عشق و مستی بے نیازی
کمالِ عشق و مستی ظرفِ حیدر
زوالِ عشق و مستی حرفِ رازی


(اقبال)

پیدا کرے ہر چند تقدّس بندا
مشکل ہے کہ حرص سے ہو دل بَرکندا
جنّت میں بھی اکل و شرب سے نہیں نجات
دوزخ کا، بہشت میں بھی ہوگا دھندا

(میر درد)


بہت بہت شکریہ وارث ۔۔۔:)
خوش رہیے
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ فرحت، آپ کو یہ تھریڈ اچھا لگا مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اور آپ کی نیک خواہش کیلیئے صمیمِ قلب سے شکریہ آپ کا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بالفرض حیاتِ جاودانی تم ہو
بالفرض کہ آبِ زندگانی تم ہو
ہم سے نہ ملو تو خاک سمجھیں تم کو
لیں نام نہ پیاس کا جو پانی تم ہو

(امیر مینائی)
 
وارث بھائی بہت پیاری کوشش بلکہ ابتداء ہے۔

انشاء اللہ جلدی ہی اس میں اتنا مواد ہو جائے گا کہ لائبریری کے خانوں میں ایک اور ای بک سجی نظر آئے گی۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
ٹُوٹا ہے پڑا ایک طرف پیمانہ
لَوٹے ہے کوئی ایک طرف مستانہ
نہ ذکر ہے یاں نماز نہ روزے کا
مسجد نہ ہوئی، ہوا یہ قہوہ خانہ

(غلام ہمدانی مصحفی)
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی بہت پیاری کوشش بلکہ ابتداء ہے۔

انشاء اللہ جلدی ہی اس میں اتنا مواد ہو جائے گا کہ لائبریری کے خانوں میں ایک اور ای بک سجی نظر آئے گی۔ :)

شکریہ آپ کا سعید صاحب۔

اور محترم میں منتظر ہوں کہ آپ بھی اپنی پسند کی رباعیات ہمارے ساتھ شیئر کریں، عین نوازش ہوگی۔ :)
 
دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آکے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جاکے نہ آئے وہ جوانی دیکھی

(نا معلوم)

اگر کسی کو شاعر کا نام معلوم ہو تو بتا دیں میں تدوین کر دوں گا۔

بہتر ہوگا کہ اس موضوع پر تبصرے کا الگ دھاگہ کھول لیا جائے۔
 
Top