حسان خان
لائبریرین
دوغلا
اردو میں استعمال ہونے والا یہ لفظ نہ تو ہندی الاصل ہے نہ ہی عربی الاصل۔ ہندی اور اردو لغات میں اس کا ماخذ فارسی بتایا گیا ہے، پر فارسی کی کسی لغت میں مجھے یہ لفظ نہیں ملا۔ البتہ اس سے ملتا جلتا لفظ 'دوغلو' اور اس کی دوسری اشکال (دوقلو، دوقلی، دغلی) لغتنامۂ دہخدا میں ضرور مل گئیں۔ لغت کے مطابق یہ ترکی زبان کا لفظ ہے، جبکہ لفظ کا مطلب 'جڑواں' یعنی وہ دو بچے جو ایک ہی ماں کے شکم سے پیدا ہوئے ہوں درج ہے۔
دوغماق ترکی مصدر ہے جس کا مطلب ہے پیدا ہونا، دوغ اسی مصدر کی جڑ ہے جبکہ لو/لی نسبت کی علامت ہے۔ (مثلا: صبرلی = صابر؛ پاکستانلی = پاکستانی، یاش = عمر؛ یاشلی = عمر والا (یعنی بوڑھا)؛ رنگلی = رنگین؛ سس = آواز؛ سسلی = آوازدار؛ طوز = نمک؛ طوزلو = بانمک)
اردو میں ہم دوغلا عموما منافق کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن دوغلا کا ایک اور مطلب بھی لغات میں درج ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اولا یہ لفظ مخلوط النسل، نیچ ذات یا حرام زادے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ دیکھا جائے تو یہاں بھی پیدائش کے معنی ایک لحاظ سے موجود ہیں۔ اس لیے گمانِ ٖ غالب ہے کہ یہ لفظ دوغلا ترکی کے 'دوغلو' کی ہی مشرف بہ اردو شکل ہے۔ صوتی لحاظ سے بھی یہ لفظ ترکی الاصل ہی معلوم ہوتا ہے۔
اب اس سوال کا جواب کہ اس لفظ کا مطلب اردو میں اپنے اصل ترکی/فارسی مطلب جڑواں سے مختلف کیوں ہے، یہ ہے کہ جب ایک لفظ کسی زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہوتا ہے تو بسا اوقات اپنے معنی بھی تبدیل کر لیتا ہے۔ مثلا عربی میں انقلاب کسی چیز کے ایک قالب سے نکل کر دوسرے قالب میں منتقل ہونے کو کہتے ہیں، جبکہ اردو اور فارسی میں اس کا مطلب revolution ہے۔ ایک اور ایسی مثال برداشت کی ہے جو فارسی میں اوپر اٹھانے کے عمل کو کہتے ہیں، جبکہ اردو میں یہ tolerance کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ جب فارسی کے ذریعے دوغلو اردو میں آیا تو لفظ کی شکل کے ساتھ ساتھ اس کے معنی بھی تبدیل ہو گئے ہوں۔
اردو میں استعمال ہونے والا یہ لفظ نہ تو ہندی الاصل ہے نہ ہی عربی الاصل۔ ہندی اور اردو لغات میں اس کا ماخذ فارسی بتایا گیا ہے، پر فارسی کی کسی لغت میں مجھے یہ لفظ نہیں ملا۔ البتہ اس سے ملتا جلتا لفظ 'دوغلو' اور اس کی دوسری اشکال (دوقلو، دوقلی، دغلی) لغتنامۂ دہخدا میں ضرور مل گئیں۔ لغت کے مطابق یہ ترکی زبان کا لفظ ہے، جبکہ لفظ کا مطلب 'جڑواں' یعنی وہ دو بچے جو ایک ہی ماں کے شکم سے پیدا ہوئے ہوں درج ہے۔
دوغماق ترکی مصدر ہے جس کا مطلب ہے پیدا ہونا، دوغ اسی مصدر کی جڑ ہے جبکہ لو/لی نسبت کی علامت ہے۔ (مثلا: صبرلی = صابر؛ پاکستانلی = پاکستانی، یاش = عمر؛ یاشلی = عمر والا (یعنی بوڑھا)؛ رنگلی = رنگین؛ سس = آواز؛ سسلی = آوازدار؛ طوز = نمک؛ طوزلو = بانمک)
اردو میں ہم دوغلا عموما منافق کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن دوغلا کا ایک اور مطلب بھی لغات میں درج ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اولا یہ لفظ مخلوط النسل، نیچ ذات یا حرام زادے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ دیکھا جائے تو یہاں بھی پیدائش کے معنی ایک لحاظ سے موجود ہیں۔ اس لیے گمانِ ٖ غالب ہے کہ یہ لفظ دوغلا ترکی کے 'دوغلو' کی ہی مشرف بہ اردو شکل ہے۔ صوتی لحاظ سے بھی یہ لفظ ترکی الاصل ہی معلوم ہوتا ہے۔
اب اس سوال کا جواب کہ اس لفظ کا مطلب اردو میں اپنے اصل ترکی/فارسی مطلب جڑواں سے مختلف کیوں ہے، یہ ہے کہ جب ایک لفظ کسی زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہوتا ہے تو بسا اوقات اپنے معنی بھی تبدیل کر لیتا ہے۔ مثلا عربی میں انقلاب کسی چیز کے ایک قالب سے نکل کر دوسرے قالب میں منتقل ہونے کو کہتے ہیں، جبکہ اردو اور فارسی میں اس کا مطلب revolution ہے۔ ایک اور ایسی مثال برداشت کی ہے جو فارسی میں اوپر اٹھانے کے عمل کو کہتے ہیں، جبکہ اردو میں یہ tolerance کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ جب فارسی کے ذریعے دوغلو اردو میں آیا تو لفظ کی شکل کے ساتھ ساتھ اس کے معنی بھی تبدیل ہو گئے ہوں۔