فاخر رضا
محفلین
سورج ہمیشہ روشن ہوتا ہے اور روشن رہتا ہے. مگر جب انسان اسے زمین کے ریفرینس سے دیکھتا ہے تو وہ ڈھلتا اور ابھرتا نظر آتا ہےاپنی تابش کو زمینوں سے نہ کرنا مشروط
ورنہ سورج کی طرح شام کو ڈھل جاؤ گے
یہ ہمارے ظہیر احمد ظہیر بھائی کا خوبصورت شعر ہے، اور منفرد خیال ہے۔
مختصر الفاظ میں اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ
سورج جیسا نہ بنو جو ایک وقت میں ایک جگہ روشنی دیتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ زمین کے کسی حصہ پر روشنی کر رہا ہوتا ہے، اور کہیں غروب ہو رہا ہوتا ہے۔ بلکہ تمھاری روشنی ہر جگہ اور ہر وقت موجود رہنی چاہیے۔
شاعر کہ رہا ہے کہ اپنی تابش کو زمین کے ریفرینس سے مربوط مت کرو ورنہ ڈھلتے ابھرتے رہو گے
اس پر اور بھی بہت بات ہوسکتی ہے
ظہیراحمدظہیر
آپ کے پیٹ میں کیا مطلب تھا بھائی یہ تو بتا دیں