عرفان سعید
محفلین
اس لڑی کی برکت سے آج ہیلسنکی میں مہینوں بعد مینہ برس رہا ہے۔
شکر ہے کہ مینہ ہی برسا ۔۔۔ کہیں مینا برس جاتی تو اہلیان ہیلنسکی مشکل میں آ سکتے تھےاس لڑی کی برکت سے آج ہیلسنکی میں مہینوں بعد مینہ برس رہا ہے۔
شکر ہے کہ مینہ ہی برسا ۔۔۔ کہیں مینا برس جاتی تو اہلیان ہیلنسکی مشکل میں آ سکتے تھے
اردو لغت بورڈ سائٹ کا رابطہ کا پیج استعمال کرتے ہوئے آپ یہ شکایات بھیج سکتے ہیں۔
مجھے بھی یہی تلفظ یاد پڑتا ہے سکول کے زمانے میںویسے ظہیر بھائی کے توسط سے مجھے اب پتہ چلا کہ مینہ کا اصل تلفظ یائے مجہول کے ساتھ ہے ۔۔۔ وگرنہ میں نے تو ہمیشہ می+نھ ہی سنا تھا۔
جب وہاں سے کچھ فرق نہیں پڑا، تو یہاں کوشش بیکار ہے۔شکریہ صدیقی صاحب!
لگتا ہے بورڈ والوں کو یہی اک شکایت ہے مجھ سے کہ میں شکایات بہت بھیجتا ہوں۔
میں تو پچھلے کچھ سالوں سے گاہے بگاہے کچھ بھیجتا ہی رہا ہوں ان کو، اور بہت سے الفاظ جو مطالعے کے دوران آئے میں نے ساتھ ہی ای میل یا رابطے کے صفحے سے ان کو بھیج دیے۔ مگر پھر ایک دن مجھے احساس ہوا کہ پتہ نہیں کوئی پڑھتا بھی ہے یا نہیں، کیونکہ کبھی کوئی جواب نہیں آیا۔ بہت سے الفاظ کی تو میرے پاس کوئی کاپی بھی نہیں۔
اب چونکہ انھوں نے آج تک کوئی تبدیلی بھی نہیں کی، تو مجھے یہی بہتر لگا کہ اس عوامی فورم پر ممکنہ اغلاط کی نشان دہی کر کے محنت محفوظ ہو جائے، اور سب کا فائدہ بھی۔
آپ اپنا مشن جاری رکھیں۔ کبھی نہ کبھی آپ کی محنت کسی کی نگاہ میں آئے گی۔ اس بہانے ہماری معلومات میں بھی اضافہ ہو جایا کرے گا۔شکریہ صدیقی صاحب!
لگتا ہے بورڈ والوں کو یہی اک شکایت ہے مجھ سے کہ میں شکایات بہت بھیجتا ہوں۔
میں تو پچھلے کچھ سالوں سے گاہے بگاہے کچھ بھیجتا ہی رہا ہوں ان کو، اور بہت سے الفاظ جو مطالعے کے دوران آئے میں نے ساتھ ہی ای میل یا رابطے کے صفحے سے ان کو بھیج دیے۔ مگر پھر ایک دن مجھے احساس ہوا کہ پتہ نہیں کوئی پڑھتا بھی ہے یا نہیں، کیونکہ کبھی کوئی جواب نہیں آیا۔ بہت سے الفاظ کی تو میرے پاس کوئی کاپی بھی نہیں۔
اب چونکہ انھوں نے آج تک کوئی تبدیلی بھی نہیں کی، تو مجھے یہی بہتر لگا کہ اس عوامی فورم پر ممکنہ اغلاط کی نشان دہی کر کے محنت محفوظ ہو جائے، اور سب کا فائدہ بھی۔
امجد صاحب ، اس آنلائن لغت میں ٹائپنگ کی تو بے تحاشہ اغلاط ہیں ۔ شاید ہی کوئی اندراج غلطی سے خالی ہو ۔ اگر لفظ میں غلطی نہیں ہے تو اسناد اور حوالہ جات میں متعدد ٹائپو ہوتے ہیں اور اکثر مضحکہ خیز ہوتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ لغت ٹائپ کروانے کے بعد اس کی پروف خوانی سرے سے کی ہی نہیں گئی اور اسے یونہی آنلائن رکھ دیا گیا ۔ یہ لغت بورڈ والوں کی انتہائی ناقص کارکردگی ہے ( سرکاری ادارہ جو ہوا!)۔ آپ کامؤقف سو فیصد درست ہے کہ لغت تو زبان کا معیار ہوتی ہے ، اگر اسی میں اغلاط ہوں گی تو طلبا کہاں جائیں گے ۔ لغت بورڈ کو اس طرف توجہ دینے کی فوری ضرورت ہے۔پیالی
قوسین میں پ کی کسرہ تو لکھی گئی ہے لیکن ی کے متحرک ہونے پر کچھ نہیں لکھا۔ اس سے یہ خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ شعرا اسے یائے مخلوط سمجھ کر کہیں فعلن کے وزن پر نہ باندھنا شروع کر دیں۔ جبکہ میرے خیال میں تو یہ فعولن کے وزن پر ہے، اگر میں غلطی پر نہیں۔
شمع
اس کا صرف ایک ہی تلفّظ لکھا گیا ہے۔ حالانکہ اساتذہ نے بفتح اول و دوم بھی باندھا ہے۔ ذرا وہاں دی گئی اسناد اور مثالیں ہی دیکھ لیجیے۔ اگر میں غلطی پر نہیں تو ولی نے شمع کی م متحرک رکھی ہے:
تجھے شمع کے برابر سو کہہ سکوں کیوں میں
کہ نخل موم جدا سر و سر بلند جدا
اگرچہ میرا مطالعہ آپ حضرات کی طرح بہت وسیع نہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ جدید شاعری میں میری نظر سے ایسی غزلیات بھی گزری ہیں جس میں شمع کو فعلن کے وزن پر باندھا گیا۔ مثلاً ڈاکٹر ابرار عمر کی یہ غزل دیکھیے۔ خصوصاً یہ شعر:
پروانے کی مثال رہی اپنی زندگی
شمع کے اعتبار میں مارے گئے ہیں ہم
یہ ایک مشہور شاعر کا کلام ہے جو کتنی ہی کتابوں کے مصنف ہیں، کوئی مبتدی نہیں۔
بہر حال، کم از کم دو تلفّظ تو دینے چاہیے تھے۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں شمع کی متحرک م کو تو فرہنگِ آصفیہ بھی غلط نہیں کہہ رہی۔
تابش بھائی ، کوشش کیسے بیکار ہوسکتی ہے ۔جب وہاں سے کچھ فرق نہیں پڑا، تو یہاں کوشش بیکار ہے۔
حالات نازک ہی ہیں۔
راحل بھائی ، کراچی میں اردو زبان اور تلفظ خالص نہیں رہے ۔ ہر میٹروپولٹن کی طرح کئی زبانوں کا ایک مکسچر بن گیا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ یائے معروف کے ساتھ مینھ کا تلفظ شاید سرائیکی یا پنجابی میں ہوتا ہے اور اب ہر جگہ پھیل گیا ہے ۔ میڈیا کا بھی کوئی کردار ہوگا اس میں شاید۔ اردو صوتی لغت سے کچھ امید تھی کہ اس طرح درست تلفظ آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ ہوجائے گا لیکن لگتا ہے کہ یہ پروجیکٹ بھی دیگر سرکاری کاموں کی طرح قابلِ اعتبار نہیں ۔ویسے ظہیر بھائی کے توسط سے مجھے اب پتہ چلا کہ مینہ کا اصل تلفظ یائے مجہول کے ساتھ ہے ۔۔۔ وگرنہ میں نے تو ہمیشہ می+نھ ہی سنا تھا۔
اردو لغت بورڈ تک گذارشات پہنچنے کے حوالے سے کہا تھا۔تابش بھائی ، کوشش کیسے بیکار ہوسکتی ہے ۔
بلا سے ہم نہ سہی تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم
عربی میں یہ لفظ غالباََ شمعۃ ہے۔ یعنی فعلن اور فاع دونوں اوزان درست ہونے چاہیئیں۔شمع
اس کا صرف ایک ہی تلفّظ لکھا گیا ہے۔ حالانکہ اساتذہ نے بفتح اول و دوم بھی باندھا ہے۔ ذرا وہاں دی گئی اسناد اور مثالیں ہی دیکھ لیجیے۔ اگر میں غلطی پر نہیں تو ولی نے شمع کی م متحرک رکھی ہے:
تجھے شمع کے برابر سو کہہ سکوں کیوں میں
کہ نخل موم جدا سر و سر بلند جدا
اگرچہ میرا مطالعہ آپ حضرات کی طرح بہت وسیع نہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ جدید شاعری میں میری نظر سے ایسی غزلیات بھی گزری ہیں جس میں شمع کو فعلن کے وزن پر باندھا گیا۔ مثلاً ڈاکٹر ابرار عمر کی یہ غزل دیکھیے۔ خصوصاً یہ شعر:
پروانے کی مثال رہی اپنی زندگی
شمع کے اعتبار میں مارے گئے ہیں ہم
یہ ایک مشہور شاعر کا کلام ہے جو کتنی ہی کتابوں کے مصنف ہیں، کوئی مبتدی نہیں۔
بہر حال، کم از کم دو تلفّظ تو دینے چاہیے تھے۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں شمع کی متحرک م کو تو فرہنگِ آصفیہ بھی غلط نہیں کہہ رہی۔
ریحان بھائی ، عربی میں موم کے لئے شمع (فاع) اور موم بتی کے لئے شمعۃ (فعلن) استعمال ہوتے ہیں ۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے لئے تو دلیل یہ ہے کہ اہلِ اردو نے شمع کو کس طرح استعمال کیا ہے ۔ اردو لفظ پر عربی کا اصول نہیں لگے گا۔ اردو میں شمع موم بتی کے معنوں میں مستعمل ہے اور اس کا وزن فاع بندھتا چلا آیا ہے سو یہی درست اور فصیح ہے ۔عربی میں یہ لفظ غالباََ شمعۃ ہے۔ یعنی فعلن اور فاع دونوں اوزان درست ہونے چاہیئیں۔
ایسے کئی ایک تین حرفی الفاظ ہیں جن کا پہلا حرف متحرک اور اگلے دو ساکن ہیں لیکن عام بول چال میں پہلے دو متحرک کر کے بولے جاتے ہیں، کچھ مثالیں آپ نے لکھیں اور کچھ میں لکھتا ہوں:میں ذاتی طور پر زبان کی وسعت کے حق میں ہوں ۔ مجھ سمیت تمام لوگ عام گفتگو میں شمع ، گرم ، شرم ، وزن وغیرہ کو فعو کے وزن پر بولتے ہیں۔ سو ان الفاظ کو اسی وزن پر باندھنا منطقی طور پر درست ہے ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ گھنٹی کون باندھے گا ۔
یہی وجہ ہے کہ لغات میں لفظ کے استعمال میں اشعار بطور تمثیل اور بطور دلیل شامل کیے گئے ہیں ۔میرے خیال میں تو شعرا کرام کو ان الفاظ کا صحیح اور وہی وزن باندھنا چاہیئے جو ہمارےٹکسالی شعرا صدیوں سے باندھ رہے ہیں کیونکہ اگر عوامی تلفظ کو رواج دے دیا گیا تو بعید نہیں دو چار دہائیوں کے بعد میر اور غالب پر اعتراض ہونا شروع ہو جائے کہ ان الفاظ کا غلط تلفظ باندھ گئے ہیں۔
فارسی میں لغت نامہ دہخدا اور فرہنگ بزرگ اس معیار پر لکھی گئی ہیں کہ ہر لفظ کی سند میں شعرا و ادبا کے کئی کئی اشعار و ارشادات مع حواشی و تعلیقات نقل کیے گئے ہیں، یہ دونوں لغات انسائیکلوپیڈیا حجم کی ہیں۔ اردو میں ایسی کوئی جامع اور معیاری لغت نہیں ہے، امیر مینائی مرحوم نے ایک کاوش کی تھی اور امیر اللغات اس طرز پر لکھنا شروع کی تھی، اس کی صرف دو جلدیں اور "الف" ہی مکمل کر پائے تھے کہ اجل نے آ لیا اور لغت نا مکمل رہ گئی۔ اسکی بعد کی لغات میں اسناد تو ہیں لیکن مکمل نہیں۔ یہ والی اردو لغت ایسی ہی ایک کاوش ہے لیکن اس کا معیار سب کے سامنے ہے۔یہی وجہ ہے کہ لغات میں لفظ کے استعمال میں اشعار بطور تمثیل اور بطور دلیل شامل کیے گئے ہیں ۔
وارث بھائی اس لغت کے حوالے سے بھی رہنمائی کیجیے۔فارسی میں لغت نامہ دہخدا اور فرہنگ بزرگ اس معیار پر لکھی گئی ہیں کہ ہر لفظ کی سند میں شعرا و ادبا کے کئی کئی اشعار و ارشادات مع حواشی و تعلیقات نقل کیے گئے ہیں، یہ دونوں لغات انسائیکلوپیڈیا حجم کی ہیں۔ اردو میں ایسی کوئی جامع اور معیاری لغت نہیں ہے، امیر مینائی مرحوم نے ایک کاوش کی تھی اور امیر اللغات اس طرز پر لکھنا شروع کی تھی، اس کی صرف دو جلدیں اور "الف" ہی مکمل کر پائے تھے کہ اجل نے آ لیا اور لغت نا مکمل رہ گئی۔ اسکی بعد کی لغات میں اسناد تو ہیں لیکن مکمل نہیں۔ یہ والی اردو لغت ایسی ہی ایک کاوش ہے لیکن اس کا معیار سب کے سامنے ہے۔