اردو لغت میں تلفّظ کی غلطیاں

ابو ہاشم

محفلین
ایسا کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا لیکن نون غنہ پر غنہ کی علامت لگانے سے مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ نون غنہ کے بعد کا حرف چونکہ ہمیشہ ہی ساکن ہوتا ہے اس لئے اس حرف پر جزم کی ضرورت نہیں ۔ اگر نون پر غنہ کی علامت نہ لگائی جائے تو مینہ کو مینا پڑھنے کا خدشہ برقرار رہتا ہے ۔
آپ درست فرما رہے ہیں کہ منہ کے نون غنہ پر غنہ کی علامت لگانے سے مسئلہ حل ہوجاتا ہے ایسے مُن٘ہ ۔

البتہ لفظ کے آخر میں جزم لگانے کے معاملے کو ذرا تفصیل سے دیکھتے ہیں

مُن٘ہ کی طرح کے مجھے چار الفاظ ملے ہیں اور چاروں کا تلفظ نون غنہ پر غنہ کی علامت لگانے سے واضح ہو جاتا ہے یہ الفاظ ہیں مُن٘ہ، مِین٘ہ، بان٘ہ، اُون٘ہ۔ بان٘ہ اور اُون٘ہ کو عموماً تلفظ واضح کرنے کے لیے بانہہ اور اونہہ لکھا جاتا ہے یعنی ان کے آخر میں ہ دو دفعہ لکھی جاتی ہے۔
اسی طرح کچھ اور الفاظ بھی ہیں جن کے آخر میں -یہ آتا ہے اور ان کے تلفظ کو واضح کرنے کے لیے ان کے آخر میں ہ دو دفعہ لکھ دی جاتی ہے جیسے فقِیہ، توجِیہ، وجِیہ، تنبِیہ، شبِیہ، تشبِیہ وغیرہ۔ ان کا تلفظ ویسے تو ی سے پہلے آنے والے حرف پر زیر لگانے سے واضح ہو جاتا ہے پھر بھی میرا خیال ہے کہ اگر ہ پر جزم لگا دی جائے تو تلفظ زیادہ واضح ہو جائے گا۔
بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کے آخر میں -وہ آتا ہے۔ اس طرح کے اکثر الفاظ میں واؤ پر زبر ہوتی ہے جیسے علاوہ، قہوہ، حلوہ، جلوہ، عشوہ، میوہ، شیوہ، بیوہ، قلاوہ، لقوہ، ندوہ، نسوہ، کجاوہ، کلاوہ، یاوہ وغیرہ لیکن چند الفاظ ایسے بھی ہیں جن میں اس جگہ پر آنے والا واؤ ،واؤ صحیح نہیں بلکہ واؤ مجہول ہوتا ہے جیسے شِکوہ (جیسے پرشکوہ میں)، گروہ، انبوہ، اندوہ۔ ان الفاظ کا تلفظ واضح کرنے کے لیے، میرا خیال ہے کہ، ہ پر جزم لگانی ضروری ہے۔
پھر کئی الفاظ ایسے ہیں جن کے آخر میں واؤ صحیح آتا ہے جیسے محوْ، سہوْ، سرْوْ، غُلُوْ،لغوْ، بھن٘وْ وغیرہ؛ انگریزی الفاظ جیسے شیوْ، فائیوْ، لائیوْ، ڈْرائیوْ، لَوْ وغیرہ ؛ ہندو و مغربی نام جیسے راجِیوْ، سنجِیوْ، دیوْ، کلائیوْ وغیرہ ۔ ان تمام الفاظ کے صحیح تلفظ کو ظاہر کرنے کے لیے ان کے آخری حرف پر جزم لگانا ضروری ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
میرے ایک دوست کا نام Wajeeh ہے، وہ اسے کیسے لکھیں گے کہ وہ بھی اکثر نام کو لے کر کنفیوز ہو جاتے ہیں؛ وجیہ، وجیہہ یا کسی اور طرح۔ لڑکیوں کا نام بھی Wajeeha ہوتا ہے تو اس کا حل کیونکر برآمد ہو گا؟
میں اس قسم کے الفاظ کو ایک ہ سے ہی پسند کرتا ہوں، وجیہ، شبیہ، فقیہ، ہاں ہ پر جزم لگانے سے تلفظ واضح ہو جاتا ہے، مگر کون ڈالے گا لکھتے وقت؟
 

ابو ہاشم

محفلین
میرے ایک دوست کا نام Wajeeh ہے، وہ اسے کیسے لکھیں گے کہ وہ بھی اکثر نام کو لے کر کنفیوز ہو جاتے ہیں؛ وجیہ، وجیہہ یا کسی اور طرح۔ لڑکیوں کا نام بھی Wajeeha ہوتا ہے تو اس کا حل کیونکر برآمد ہو گا؟
لڑکے کے لیے وجیہ اور لڑکی کے لیے وجیہہ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ۃ کی شکل ہائے ملفوظی کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ بلکہ یہ رائج بھی ہے۔ صلوٰۃ کا درست تلفظ میرا خیال ہے کہ /s^la:h/ ہی ہے۔

لیکن ریحان میرے خیال میں ۃ تو اردو میں بھی ت کی آواز رکھتی ہے اس کو ہ میں بدلنا عربی ہی کا طریقہ ہے اردو نہیں (کلمے کے آخر میں سکون کے شکل میں) اردو میں اس کو ت سے بد دیا جاتا ہے ۔جیسے قدرۃ کو قدرت ،فطرۃ کو فطرت ،حرارۃ کو حرارت اور ضرورۃ کو ضرورت وغیرہ ۔

علاوہ ازیں ہم صلوۃ کو نماز کہتے ہیں ۔لیکن اگر صلوٰۃ کہیں بھی تو اردو میں صلات ہی کہتے ہیں ۔ ( صلاہ ۔ کا یہ تلفظ اردو میں عرب ممالک ہی میں محدود ہے کیوں کہ عرب ماحول اور مخاطبین کا خیال رکھنا ہوتا ہے اور بس ) ۔ اسی طرح معاملہ زکوٰۃ کا ہے ۔ ہم کبھی زکاہ نہیں کہتے ہمیشہ زکات ہی کہتے ہیں ۔ جبکہ لکھتے ہم اردو میں بھی زکوٰۃ ہی ہیں ہمیشہ ۔ اور صلوٰۃ بھی ۔

ذرا اردو میں ۃ کی کچھ مثالیں بتائیے میرے ذہن میں ہی نہیں آ رہیں فی الحال ۔ یہ بات دلچسپ لگتی ہے ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
فہد یہ نون دراصل نون غنہ نہیں ۔ بلکہ نون ہی کی ایک قدرے خفیف شکل ہے ۔ جیسے برنجی ۔نارنگی ۔ بھانجا وغیرہ ۔(ان سے مشابہ آوازوں کے لیے سندھی میں بالکل الگ حروف مختص ہیں )
ایسی اشکال میں عربی غنہ کرتے ہیں ۔ اردو غنہ اس سے قدرے مختلف ہے ۔
 
لیکن ریحان میرے خیال میں ۃ تو اردو میں بھی ت کی آواز رکھتی ہے اس کو ہ میں بدلنا عربی ہی کا طریقہ ہے اردو نہیں (کلمے کے آخر میں سکون کے شکل میں) اردو میں اس کو ت سے بد دیا جاتا ہے ۔جیسے قدرۃ کو قدرت ،فطرۃ کو فطرت ،حرارۃ کو حرارت اور ضرورۃ کو ضرورت وغیرہ ۔

علاوہ ازیں ہم صلوۃ کو نماز کہتے ہیں ۔لیکن اگر صلوٰۃ کہیں بھی تو اردو میں صلات ہی کہتے ہیں ۔ ( صلاہ ۔ کا یہ تلفظ اردو میں عرب ممالک ہی میں محدود ہے کیوں کہ عرب ماحول اور مخاطبین کا خیال رکھنا ہوتا ہے اور بس ) ۔ اسی طرح معاملہ زکوٰۃ کا ہے ۔ ہم کبھی زکاہ نہیں کہتے ہمیشہ زکات ہی کہتے ہیں ۔ جبکہ لکھتے ہم اردو میں بھی زکوٰۃ ہی ہیں ہمیشہ ۔ اور صلوٰۃ بھی ۔

ذرا اردو میں ۃ کی کچھ مثالیں بتائیے میرے ذہن میں ہی نہیں آ رہیں فی الحال ۔ یہ بات دلچسپ لگتی ہے ۔
شاید عربی کا قاعدہ یہ ہے کہ تا مربوطہ ۃ تبھی ہ سے بدلتی ہے جب یا تو لفظ مفرد بولا جائے، یا جملے کے آخر میں آئے۔ اضافتوں میں تو ہمیشہ ت کی آواز دیتی ہے؟
 
لیکن ریحان میرے خیال میں ۃ تو اردو میں بھی ت کی آواز رکھتی ہے اس کو ہ میں بدلنا عربی ہی کا طریقہ ہے اردو نہیں (کلمے کے آخر میں سکون کے شکل میں) اردو میں اس کو ت سے بد دیا جاتا ہے ۔جیسے قدرۃ کو قدرت ،فطرۃ کو فطرت ،حرارۃ کو حرارت اور ضرورۃ کو ضرورت وغیرہ ۔
دراصل میں صرف صوتیاتی تناظر میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ ۃ ہائے ملفوظی کے طور پر کہیں نہ کہیں استعمال ہوتا ہے یعنی اگر اسے اس کام کے لیے مخصوص کر لیا جائے تو مضائقہ نہیں ہے۔

جن الفاط میں ۃ، ت پڑھا جاتا ہے وہاں اسے ت سے ہی تبدیل کر دینا چاہیے۔

جزم وغیرہ کا استعمال میرا نہیں خیال کہ رائج ہو پائے گا۔ نونِ غنہ کے لیے بھی ڹ یا ایسا ہی کوئی حرف میرے نزدیک زیادہ مناسب رہے گا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
دراصل میں صرف صوتیاتی تناظر میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ ۃ ہائے ملفوظی کے طور پر کہیں نہ کہیں استعمال ہوتا ہے یعنی اگر اسے اس کام کے لیے مخصوص کر لیا جائے تو مضائقہ نہیں ہے۔
جن الفاط میں ۃ، ت پڑھا جاتا ہے وہاں اسے ت سے ہی تبدیل کر دینا چاہیے۔
جزم وغیرہ کا استعمال میرا نہیں خیال کہ رائج ہو پائے گا۔ نونِ غنہ کے لیے بھی ڹ یا ایسا ہی کوئی حرف میرے نزدیک زیادہ مناسب رہے گا۔
جیسا کہ ہم نے دیکھا اس کا استعمال اسحد تک محدود ہےکہ ہمیں دس پانچ الفاظ بھی مشکل سے مل رہے ہیں ۔ تو تمام مروجہ ذخیرۂ الفاظ کی کتابت اور املاء کے وضع شدہ قوانین کے لیے کچھ اعادے کی ضرورت نہیں ۔ املاء کی تمام مروجہ ساختیں میچور ہی (کہی جاسکتی ) ہیں ۔ ان الفاظ کو مستثنیات میں رکھ چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ۔ کسی زبان میں کوئی قاعدہ خود ہی الفاظ کی تراکیب اور مقدار کے لحاظ سے ماخوذ ہو جاتا ہے ۔ جو قاعدہ بتکلف وضع کیا جائے، اس کا استعمال ہی اگر اتنا محدود ہو تو وہ بہت غیر اہم رہے گا ۔
البتہ زبان میں مستقبل کی سائنٹفک تجزیہ کاری اور آٹومیشن کے لیے ہر چھوٹی سے چھوٹی کتابتی قدر کا ایک سٹینڈرڈ ہونا بھی وقت کا ایک تقاضا معلوم ہوتا ہے ۔
 
املاء کی تمام مروجہ ساختیں میچور ہی (کہی جاسکتی ) ہیں ۔
جو لوگ پہلے ہی الفاظ سے واقفیت رکھتے ہیں ان کے لیے تو مسئلہ ہے ہی نہیں۔ خط و کتابت کا بنیادی مقصد تو ان کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے جو کہ واقف نہیں ہیں۔
البتہ زبان میں مستقبل کی سائنٹفک تجزیہ کاری اور آٹومیشن کے لیے ہر چھوٹی سے چھوٹی کتابتی قدر کا ایک سٹینڈرڈ ہونا بھی وقت کا ایک تقاضا معلوم ہوتا ہے ۔
موجودہ املا سے تو تلفظ کا اندازہ کرنے کے لیے بھی کوئی دو سو قسم کے رولز کی ضرورت ہوگی جو کبھی ٹھیک سے کام کریں گے اور کبھی نہیں۔
حوصلہ افزا صورتحال بالکل بھی نہیں ہے۔ خودکار تقطیع کا بھی یہی مسئلہ ہے، ٹیکسٹ ٹو سپیچ اور دیگر کئی ٹولز کا بھی۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آپ بھی اردو زبان میں تبدیلیوں اور سٹینڈرڈائزیشن کے قائل ہو گئے آخر
زیک اس ضمن میں :

کوئی دھاگا اردو کی ڈیجیٹل ترقی اور اس میں گزشتہ بیس بائیس برس میں حاصل کردہ نمایاں سنگ ہائے میل پر ہو پر ہو تو اس میں جان ڈالی جائے اور حالیہ در پیش مسائل پر ایک بحث ہو تو اچھا ہو ۔
یقیناََ آپ کے علم میں ضرور ہو گا ۔
اس دھاگے کو تلفظ کے اغلاط اور تصحیحات کا مفید مجموعہ رہنے دیتے ہیں ۔
محفل میں میرا مشاہدہ ہے کہ عموماََ کسی ایک دھاگے میں دوسرے موضوعات پر انتہائی قیمتی مشورے "ضائع" ہو جاتے ہیں ۔
 

وصی اللہ

محفلین
یہ لڑی اردو لغت کے تلفظ کی اغلاط کے حوالے سے تھی جو کہ املا وغیرہ کے مباحث کی نذر ہوتی جا رہی ہے۔۔۔۔
 
Top