MD MUBARAK ANSARI
محفلین
ماشاءاللہ
گوہرِ نایاب
گوہرِ نایاب
آخری تدوین:
آپ درست فرما رہے ہیں کہ منہ کے نون غنہ پر غنہ کی علامت لگانے سے مسئلہ حل ہوجاتا ہے ایسے مُن٘ہ ۔ایسا کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا لیکن نون غنہ پر غنہ کی علامت لگانے سے مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ نون غنہ کے بعد کا حرف چونکہ ہمیشہ ہی ساکن ہوتا ہے اس لئے اس حرف پر جزم کی ضرورت نہیں ۔ اگر نون پر غنہ کی علامت نہ لگائی جائے تو مینہ کو مینا پڑھنے کا خدشہ برقرار رہتا ہے ۔
میرے ایک دوست کا نام Wajeeh ہے، وہ اسے کیسے لکھیں گے کہ وہ بھی اکثر نام کو لے کر کنفیوز ہو جاتے ہیں؛ وجیہ، وجیہہ یا کسی اور طرح۔ لڑکیوں کا نام بھی Wajeeha ہوتا ہے تو اس کا حل کیونکر برآمد ہو گا؟
میں اس قسم کے الفاظ کو ایک ہ سے ہی پسند کرتا ہوں، وجیہ، شبیہ، فقیہ، ہاں ہ پر جزم لگانے سے تلفظ واضح ہو جاتا ہے، مگر کون ڈالے گا لکھتے وقت؟میرے ایک دوست کا نام Wajeeh ہے، وہ اسے کیسے لکھیں گے کہ وہ بھی اکثر نام کو لے کر کنفیوز ہو جاتے ہیں؛ وجیہ، وجیہہ یا کسی اور طرح۔ لڑکیوں کا نام بھی Wajeeha ہوتا ہے تو اس کا حل کیونکر برآمد ہو گا؟
شکریہ۔ میرا بھی یہی خیال ہے۔میں اس قسم کے الفاظ کو ایک ہ سے ہی پسند کرتا ہوں، وجیہ، شبیہ، فقیہ، ہاں ہ پر جزم لگانے سے تلفظ واضح ہو جاتا ہے، مگر کون ڈالے گا لکھتے وقت؟
لڑکے کے لیے وجیہ اور لڑکی کے لیے وجیہہمیرے ایک دوست کا نام Wajeeh ہے، وہ اسے کیسے لکھیں گے کہ وہ بھی اکثر نام کو لے کر کنفیوز ہو جاتے ہیں؛ وجیہ، وجیہہ یا کسی اور طرح۔ لڑکیوں کا نام بھی Wajeeha ہوتا ہے تو اس کا حل کیونکر برآمد ہو گا؟
شکریہ بھائی۔ ٹھیک ہو گیا۔لڑکے کے لیے وجیہ اور لڑکی کے لیے وجیہہ
ۃ کی شکل ہائے ملفوظی کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ بلکہ یہ رائج بھی ہے۔ صلوٰۃ کا درست تلفظ میرا خیال ہے کہ /s^la:h/ ہی ہے۔
آنگن؟نون غنہ کے بعد کا حرف چونکہ ہمیشہ ہی ساکن ہوتا ہے
فہد یہ نون دراصل نون غنہ نہیں ۔ بلکہ نون ہی کی ایک قدرے خفیف شکل ہے ۔ جیسے برنجی ۔نارنگی ۔ بھانجا وغیرہ ۔(ان سے مشابہ آوازوں کے لیے سندھی میں بالکل الگ حروف مختص ہیں )
شاید عربی کا قاعدہ یہ ہے کہ تا مربوطہ ۃ تبھی ہ سے بدلتی ہے جب یا تو لفظ مفرد بولا جائے، یا جملے کے آخر میں آئے۔ اضافتوں میں تو ہمیشہ ت کی آواز دیتی ہے؟لیکن ریحان میرے خیال میں ۃ تو اردو میں بھی ت کی آواز رکھتی ہے اس کو ہ میں بدلنا عربی ہی کا طریقہ ہے اردو نہیں (کلمے کے آخر میں سکون کے شکل میں) اردو میں اس کو ت سے بد دیا جاتا ہے ۔جیسے قدرۃ کو قدرت ،فطرۃ کو فطرت ،حرارۃ کو حرارت اور ضرورۃ کو ضرورت وغیرہ ۔
علاوہ ازیں ہم صلوۃ کو نماز کہتے ہیں ۔لیکن اگر صلوٰۃ کہیں بھی تو اردو میں صلات ہی کہتے ہیں ۔ ( صلاہ ۔ کا یہ تلفظ اردو میں عرب ممالک ہی میں محدود ہے کیوں کہ عرب ماحول اور مخاطبین کا خیال رکھنا ہوتا ہے اور بس ) ۔ اسی طرح معاملہ زکوٰۃ کا ہے ۔ ہم کبھی زکاہ نہیں کہتے ہمیشہ زکات ہی کہتے ہیں ۔ جبکہ لکھتے ہم اردو میں بھی زکوٰۃ ہی ہیں ہمیشہ ۔ اور صلوٰۃ بھی ۔
ذرا اردو میں ۃ کی کچھ مثالیں بتائیے میرے ذہن میں ہی نہیں آ رہیں فی الحال ۔ یہ بات دلچسپ لگتی ہے ۔
دراصل میں صرف صوتیاتی تناظر میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ ۃ ہائے ملفوظی کے طور پر کہیں نہ کہیں استعمال ہوتا ہے یعنی اگر اسے اس کام کے لیے مخصوص کر لیا جائے تو مضائقہ نہیں ہے۔لیکن ریحان میرے خیال میں ۃ تو اردو میں بھی ت کی آواز رکھتی ہے اس کو ہ میں بدلنا عربی ہی کا طریقہ ہے اردو نہیں (کلمے کے آخر میں سکون کے شکل میں) اردو میں اس کو ت سے بد دیا جاتا ہے ۔جیسے قدرۃ کو قدرت ،فطرۃ کو فطرت ،حرارۃ کو حرارت اور ضرورۃ کو ضرورت وغیرہ ۔
جیسا کہ ہم نے دیکھا اس کا استعمال اسحد تک محدود ہےکہ ہمیں دس پانچ الفاظ بھی مشکل سے مل رہے ہیں ۔ تو تمام مروجہ ذخیرۂ الفاظ کی کتابت اور املاء کے وضع شدہ قوانین کے لیے کچھ اعادے کی ضرورت نہیں ۔ املاء کی تمام مروجہ ساختیں میچور ہی (کہی جاسکتی ) ہیں ۔ ان الفاظ کو مستثنیات میں رکھ چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ۔ کسی زبان میں کوئی قاعدہ خود ہی الفاظ کی تراکیب اور مقدار کے لحاظ سے ماخوذ ہو جاتا ہے ۔ جو قاعدہ بتکلف وضع کیا جائے، اس کا استعمال ہی اگر اتنا محدود ہو تو وہ بہت غیر اہم رہے گا ۔دراصل میں صرف صوتیاتی تناظر میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ ۃ ہائے ملفوظی کے طور پر کہیں نہ کہیں استعمال ہوتا ہے یعنی اگر اسے اس کام کے لیے مخصوص کر لیا جائے تو مضائقہ نہیں ہے۔
جن الفاط میں ۃ، ت پڑھا جاتا ہے وہاں اسے ت سے ہی تبدیل کر دینا چاہیے۔
جزم وغیرہ کا استعمال میرا نہیں خیال کہ رائج ہو پائے گا۔ نونِ غنہ کے لیے بھی ڹ یا ایسا ہی کوئی حرف میرے نزدیک زیادہ مناسب رہے گا۔
جو لوگ پہلے ہی الفاظ سے واقفیت رکھتے ہیں ان کے لیے تو مسئلہ ہے ہی نہیں۔ خط و کتابت کا بنیادی مقصد تو ان کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے جو کہ واقف نہیں ہیں۔املاء کی تمام مروجہ ساختیں میچور ہی (کہی جاسکتی ) ہیں ۔
موجودہ املا سے تو تلفظ کا اندازہ کرنے کے لیے بھی کوئی دو سو قسم کے رولز کی ضرورت ہوگی جو کبھی ٹھیک سے کام کریں گے اور کبھی نہیں۔البتہ زبان میں مستقبل کی سائنٹفک تجزیہ کاری اور آٹومیشن کے لیے ہر چھوٹی سے چھوٹی کتابتی قدر کا ایک سٹینڈرڈ ہونا بھی وقت کا ایک تقاضا معلوم ہوتا ہے ۔
Et tu, Brute?البتہ زبان میں مستقبل کی سائنٹفک تجزیہ کاری اور آٹومیشن کے لیے ہر چھوٹی سے چھوٹی کتابتی قدر کا ایک سٹینڈرڈ ہونا بھی وقت کا ایک تقاضا معلوم ہوتا ہے
کیا مطلب ؟Et tu, Brute?
آپ بھی اردو زبان میں تبدیلیوں اور سٹینڈرڈائزیشن کے قائل ہو گئے آخرکیا مطلب ؟
میں اس میں پوشیدہ طنز یا مزاح کو اپریشئیٹ نہ کر سکا !
زیک اس ضمن میں :آپ بھی اردو زبان میں تبدیلیوں اور سٹینڈرڈائزیشن کے قائل ہو گئے آخر