اردو محفلینِ کراچی کی ملاقات کا آنکھوں دیکھا حال ، کچھ اپنی کچھ دیگر شرکا کی زبانی
چورنگی سے گاڑی کو آگے بڑھایا اور بائیں جانب ریستوران کا نام تلاشنے لگے۔ کچھ بھلا سا نام تھا ۔ یاد کچھ اور آرہا ہے لیکن سامنے ملک ہوٹل لکھا ہے ۔ شاید یہی ہو۔ گاڑی کچھ اور آگے رینگ آئی۔ سامنے کچھ نامعلوم افراد کھڑے ہمیں ہی گھور رہے تھے۔
’’ لیجیے! خلیل بھائی آگئے۔‘‘ ایک صاحب جو کاؤ بوائے ہیٹ لگائے بڑی شان سے کھڑے تھے انہوں نے رسان سے کہا جو ہمیں گاڑی میں سنائی دے گیا۔ ان کے برابر ایک تو شاید فہیم بھائی تھے اور دوسرے کوئی اور۔
’’ ہم گاڑی پارک کرکے ابھی حاضر ہوتے ہیں۔‘‘ ہم منمناتے ہوئے گاڑی آگے بڑھالے گئے۔
اتر کر آئے اور تعارف شروع ہوا تو پتا چلا کہ یہی امین صدیق بھائی عرف ’’ مابدولت‘‘ تھے۔ ان کے ساتھ ایک تو فہیم بھائی ہی نکلے اور دوسرے خالد چوہدری بھائی تھے، ساتھ ہی اپنے نورانی چہرے سمیت سید عمران بھائی نے بھی اپنا تعارف کروادیا۔ ایک دوسرے کا حال چال پوچھ کر ہم سب دوبارہ لائن بنا کر آنے والوں کے انتظار اور استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے۔
یہ ملاقات اچانک ہی نہیں ہوگئی تھی بلکہ عدنان اکبری نقیبی بھائی اور اکمل زیدی بھائی کے ان مراسلوں کی مرہونِ منت تھی جو انہوں نے کراچی میں رہنے والے محفلین کی ملاقات کی تقریب کے لیے کھولے تھے۔ بہت پاپڑ بیلنے پڑے ان دونوں دوستوں کو لیکن آخرِ کار ملاقات طے پاگئی۔ ہوا یوں کہ اتوار ۲۲ جولائی کو صبح سات بجے ملاقات کا وقت طے کرلیا گیا۔ یا وحشت! اتوار کے دن آدھی رات کو بھی بھلا کوئی اٹھتا ہے۔ یہ تو بھلا ہو ان میں سے کسی کا کہ نو بجے کا مشورہ دے دیا، جو ظاہر ہے مقبولیت کی تمام حدیں پار کرگیا اور نتیجتاً ہم کراچی کے علاقے بہادرآباد میں مشہور چار مینار چورنگی کے قریب اس ریستوران کے سامنے کھڑے تھے۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر فاخر بھائی بھی اپنے مسکراتے چہرے سمیت نمودار ہوگئے۔
اب کافی نفری جمع ہوچکی تھی لہٰذا سوچا کہ اب چل کر کہیں بیٹھنے کا انتظام کرتے ہیں۔ فہیم بھائی نے مشورہ دیا کہ تھوڑا آگے کی جانب چلیں وہاں بیٹھنے کے لیے عمدہ لبِ سڑک فولڈنگ کرسیوں اور میز کا انتظام ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا آگے چل دئیے۔ ہم ہنس دئیے، ہم چل دئیے ، منظور تھا ناشتہ ہمیں۔ بھوک زوروں پر لگی تھی۔
آگے بڑھے اور ایک جگہ چکن چھولے اور پائے ملتے دیکھے تو بھائی لوگوں کے منہ میں پانی بھر آیا۔ یہیں بیٹھ جاتے ہیں، سب کا متفقہ فیصلہ آیا ۔
اسی اثناء نقیبی بھائی اپنی پھٹپھٹی پر آتے دکھائی دئیے۔ انہیں فوراً رکوایا اور موٹر سائیکل کھڑی کرنے کا کہہ کر ہم سب بیرے کی لگائی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ فاخر بھائی آگےبڑھے اور ایک کرسی کو اٹھاکر پیچھے پھینک دیا۔ ہم حیرانی میں اس کرسی کی جانب مڑے۔ ہم لوگوں کو مزید کرسیاں درکار ہوں گی ، لہٰذا اس پر بھی قبضہ جمالیتے ہیں لیکن دیکھا کہ وہ کرسی ٹوٹی ہوئی تھی۔ اوہ اچھا! اب سمجھ میں آیا۔
کسی نے اکمل زیدی بھائی کو فون کیا تو پتہ چلا موصوف بڑی دیر سے ملک ریستوران میں بیٹھے ہر ایرے غیرے کو گھورر رہے ہیں کہ کہیں ان میں سے کوئی شخص محفلین تو نہیں۔ لیکن محفلین تو خاصے معقول لوگ ہیں۔ یہ جو بیٹھے بوٹیاں توڑ رہے ہیں کسی صورت محفلین نہیں ہوسکتے۔ اب ٹیلیفون گیا کہ ہم سب تو ذرا آگے براجمان ہیں تو وہ بھی لپکے ہوئے آئے اور سب سے مصافحہ معانقہ کرکے ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔
خیر صاحب اب سب نے بیٹھنا شروع کیا۔ ہم فاخر بھائی کے برابر بیٹھ گئے۔ ہمارے دائیں جانب عدنان بھائی اور سید عمران بھائی تھے۔ سامنے فہیم بھائی ،اکمل زیدی بھائی اور خالد چوہدری بھائی بیٹھے ۔
سید عمران بھائی بیٹھتے ہی عدنان بھائی کے ساتھ شرارتوں میں مصروف ہوگئے۔ عدنان بھائی نے گزشتہ ملاقاتوں کا تذکرہ کیا تو فوراً بولے، ’’ہائیں! آج ہماری پہلی ملاقات ہورہی ہے ، آپ کن پچھلی ملاقاتوں کا ذکر کر رہے ہیں؟‘‘
عدنان بھائی نے جواب میں سمجھایا کہ وہ محفل کی ملاقاتوں کا تذکرہ کررہے ہیں، تب جاکر اُن کی جان بخشی ہوئی ورنہ پہلے ہی لمحے میں پکڑے گئے تھے۔
ناشتے کا آرڈر دیا گیا، پائے ( اف فوہ! کیا ہم اپنے ہاتھ روک سکیں گے)، چکن چھولے ( چلو یہی غنیمت ہے )، تل والے نان ( مزہ آگیا) ، سادہ نان اور چائے ( چلے گا، چلے گا)۔ اگر کسی کو حلوہ پوری کھانی ہے تو وہ بھی سامنے کسی دوسرے ریستوران ( کراچی کی زبان میں ’ہوٹل‘) سے آجائے گا۔ سرِ دست کسی کا موڈ نہیں ہوا تو ہم نے بھی خدا کا شکر ادا کیا، ورنہ اپنے آپ کو کیسے روک پاتے؟
آرڈر سے فارغ ہوئے تو کسی نے تجویز دی کہ اب سب سے پہلے تعارف کروالیا جائے۔ سب سے پہلے فاخر بھائی کو پکڑا گیا۔ کہاں جاب کرتے ہیں، کتنے بچے ہیں وغیرہ۔ وہ ابھی جواب دے ہی رہے تھے کہ گفتگو کسی اور جانب نکل گئی۔ کوئی صاحب اٹھے اور بڑی مشکل سے اس کا رخ دوبارہ تعارف کی جانب موڑا، سید عمران بھائی اور عدنان بھائی سے ہوتی ہوئی شمع ِ تعارف ہمارے سامنے پہنچ گئی۔ ادھر محفلین کی گفتگو پھر گھاس چرنے چلی تو اسے دوبارہ پکڑ کر موضوع کی طرف لانا پڑا۔ الغرض کئی مرتبہ کی سعئ ناکام کے بعد اسے خیر باد کہہ دیا گیا اور سب مہمان دو دو تین تین کی ٹولیوں میں حالاتِ حاضرہ پر تبصرے کرنے لگے۔
ڈاکٹر فاخر کا کہنا تھا کہ ہم کراچی والے اہلِ زبان کہلاتے ہیں لیکن اردو محفل پر ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم نے انہیں یاد دلایا کہ عموماً اہلِ پنجاب اردو کی خدمت میں سب سے آگے ہیں۔
بات اردو زبان تک پہنچی تو ہم نے کہا کہ اردو اس لحاظ سے بہت اہم زبان ہے کہ اس میں زیادہ تر آوازیں موجود ہیں اور اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ اردو میں برخلاف عربی اور فارسی کے ،سینتیس حروفِ تہجی ہیں ۔ شاید خالد بھائی نے توجہ دلائی کہ سندھی میں اردو سے بھی زیادہ حروفِ تہجی ہیں۔ ہم نے یاد دلایا کہ پنجابی زبان اپنا ایک رسم الخط نہ ہونے کے سبب کچھ نقصان اٹھاتی رہی ہے، کہ پاکستانی اسے اردو رسم میں لکھتے ہیں اور ہندوستانی، گرمکھی میں۔
ناشتہ آیا اور سب نے ڈٹ کر کھایا گویا پائے اور مرغ چھولے کے ساتھ خوب انصاف کیا گیا۔ کچھ اس کا سبب باتیں اور باقی بھی اس کا سبب باتیں ہی تھیں۔ ہم نے بھی کئی مرتبہ للچائی ہوئی نظروں سے پائے کی پلیٹ کی جانب دیکھا لیکن ہاتھ بڑھانے کی جرأت نہ کرسکے۔ ناشتہ قریب الاختتام تھا کہ زیدی بھائی نے ہم سے معذرت کی اور پائے کی پلیٹ صرف اپنی جانب کھینچ لی۔ ہم نے ہنس کر انہیں بتایا کہ ہمیں پائے منع ہیں لہٰذا انہیں اس پلیٹ کے ساتھ بھی انصاف کرتے ہی بنی۔
چائے کا دور چلا تو صدیق بھائی نے پائپ نکال لیا اور اس میں اسٹائیل سے تمباکو بھرنے لگے۔ ہم سے پوچھا، ’’ آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں؟‘‘
ہم نے انہیں بتلایا کہ اب سے کوئی تیس سال اُدھر ہم چین اسموکر تھے اور اس دوران ہر قسم کے تمباکو کا ذائقہ لے چکے ہیں، لیکن اب عرصہ تیس سال سے ایک بھی کش نہیں لگایا۔ اس سب کے باوجود ہمیں ان کی تمباکو نوشی پر کوئی اعتراض نہیں۔اب انہوں نے پائپ میں تمباکو بھرا اور ایک لمبے عرصے تک لائیٹر سے اسے آگ دکھانے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ ارد گرد کے کئی لوگ ان کی جانب متوجہ ہوئے اور ان کی مدد کے متمنی ہوئے۔ کئی لائیٹر ٹرائی کرنے کے باوجود ان کے پائپ نے آگ پکڑنے سے انکار کردیا۔ خیر پھر اٹھ کر اندر کی جانب گئے اور تمباکو سلگا کر ہی واپس لوٹے، یادش بخیر کہ ہم لبِ سڑک بیٹھے تھے جہاں ہوا کا زور دیدنی تھا۔ایک بار تو چائے میز پر انڈیلی گئی اور سید عمران بھائی کے کپڑوں کی جانب بہنا شروع کیا تو عدنان نقیبی بھائی نے ہاتھ بڑھا کر اپنی ہتھیلی سے چائے کے اس بہاؤ پر بند باندھ دیا اور عمران بھائی کو اس سے بچنے کا ایک سنہری موقع فراہم کیا۔ ہم اس دوستی پر حیران رہ گئے۔
ناشتے کا آخری آئیٹم محمد احمد بھائی کا انتظار تھا جو ان کی آمد آمد پر ختم ہوا۔ ایک مرتبہ سب ان سے گلے ملے ۔اب ناشتے سے فارغ ہوئے تو تصویریں بنانے کے لیے کسی اور بہتر جگہ کی تلاش ہمیں ہل پارک لے گئی۔ اتوار کا دن ہونے کے باعث پارک میں یوں تو سناٹا تھا البتہ کہیں کہیں چکوا چکوی کے جوڑے بیٹھے چہلیں کررہے تھے۔ ہم نے اگنور مارا اور ایک سنگلاخ سائیبان دیکھ کر اس کے نیچے فراہم کردہ سنگی بنچوں پر براجمان ہوگئے۔
ہمارا ارادہ تھا کہ محفلین کو ادبی سرگرمیوں کی جانب لے جائیں گے، اس لیے ہم نے اپنی ڈائری سنبھال لی اور موقع کی تلاش میں بیٹھ گئے۔ لیکن ان کا موڈ کچھ اور تھا۔ گفتگو نے کئی رنگ بدلے اور حسبِ دستور مذہبی موضوع تک آگئی۔ محمد احمد بھائی نے ہمارے کان میں سرگوشی کی کہ مذہبی زمرے کے ماڈریٹر تو موجود نہیں ، جانے گفتگو کیا رنگ اختیار کرلے۔ ہم نے ان کے ساتھ مل کر ساجد بھائی کی خدمات کو یاد کیا اور یہ سوچ کر بیٹھ گئے کہ دیکھا جائے گا جو بھی ہو!۔ کراچی کے محفلین بہت پیارے لوگ ثابت ہوئے اور شیعہ سنی تک پہنچنے کے باوجود طے کیا کہ بہت کچھ پروپیگنڈا ہوتا ہے جس سے مسلمانوں کو احتراز کرنا چاہیے اور اتحاد بین المسلمین کو قائم رکھنا چاہیے ورنہ وہی حال ہوگا جو شام میں مسلمانوں کا ہورہا ہے۔ہمیں واٹس اپ پر ایک سلائیڈ یاد آئی جس میں سوال و جواب کے ذریعے دونوں فریق مسلمان ، سنی، دیوبندی تک پہنچتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ فرقہ وہی ہے اپنے والا لیکن آگے بڑھتے ہیں تو اشاعرہ اور ماتریدیہ ہونا بنائے فساد بن جاتا ہے۔ اس دوران اکمل زیدی بھائی اور سید عمران بھائی نے اپنی شراتوں سے محفلین کا ناک میں دم کیے رکھا۔ ( اس جملہ معترضہ کو یوں بھی پڑھ سکتے ہیں کہ اپنی شرارتوں سے محظوظ کرتے رہے) ہنسنے والوں میں سب سے آگے فاخر بھائی تھے جو ٹھٹھے مار مار کر ہنس رہے تھے۔
موقع دیکھ کر ہم نے محفل کے شاعر جناب محمد احمد بھائی کے نام کا اعلان کروادیا لیکن ان کے غزل ڈھونڈنے تک اپنی نوٹ بک کھول کر
لب پہ آتی ہے صدا بن کے شکیلہ میری
سنانا شروع کردی۔ ہمارے ترنم اور مزاحیہ اشعار سے سامعین محظوظ ہوئے ہی تھے کہ ہم نے داغ کی غزل کا اردش ترجمہ پیش کرنا شروع کردیا۔ ہونٹوں پہ ہنسی نہ رکنے پائی تھی کہ ہم نے فہیم بھائی کی فرمائش پوری کرنے کی ٹھانی اور مچھلی کا شکار سنادی۔
فارغ ہوئے تو اتنے میں دیکھا کہ احمد بھائی نیٹ پر اپنی غزل پانے میں کامیاب ہوچکے تھے۔ انہوں نے شمع محفل سنبھالی تو سماں بندھ گیا۔ ایک کے بعد دوسری شاندار غزل سننے کو ملی تو محفلینِ کراچی جھوم اٹھے۔
دو غزلوں کے باد آخر میں احمد بھائی نے ایک نظم سناکر سامعین کو غمزدہ کردیا۔ بہت سی داد سمیٹی اور اپنی الیکٹرانک نوٹ بک یعنی موبائل کو بند کر ہی رہے تھے کہ صدیق بھائی ایک مصرع گنگنا اٹھے۔
اب تو ہم سب ان کے سر ہوگئے اور لگے گانے کی فرمائش کرنے۔ وہ مان گئے اور ان کے منہ سے بھی بھگوان بولنے لگا۔ سب سے پہلے انہوں نے رام کی دہائی دی۔ آپ کچھ خیال نہ کیجیے۔ صدیق بھائی کے عقیدے میں اللہ کا شکر ہے کوئی نقص نہیں ، بلکہ یہ تو اس گانے کے بول تھے جو وہ سنا رہے تھے۔
تین چار گانے سنا کر ان کی گلو خلاصی ہوپائی۔ انہوں نے اپنی جادوئی آواز سے سماں باندھ دیا۔ ایک گیت کی فی البدیہہ ریکارڈنگ ہم نے موسیقی کے زمرے میں پیش کردی ہے سنیے اور اس جادوئی آواز پر سر دھنیے۔
ظہر کی اذانیں ہورہی تھیں جب ہم سب نے ایک دوسرے سے اجازت طلب کی اور اپنے اپنے گھروں کی جانب عازمِ سفر ہوئے۔
نوٹ: ملاقات کی روداد کی رسم اردو محفل پر نہایت اعلیٰ پائے کی ہے اور ہمیں احساس ہے کہ ہم اس رسم سے صحیح طور وفا نہ کرسکے اور اس بلند پائے کی رپورٹنگ نہ کرسکے اس لیے باقی شرکاٗ کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ وہ بلا جھجک اپنا اپنا ورژن پیش کریں تاکہ دیگر محفلین تشنہ نہ رہ جائیں۔ خوش رہیے۔