شاہ صاحب کا دیدار ہوتے ہی مابدولت کے لبوں پر اطمینان بخش اور مسرت آمیز تبسم پھیل گیا ۔دوسری جانب شاہ صاحب بشرۂ متبسم لئے مابدولت کے گاڑی سے اترنے کے منتظر تھے ۔مابدولت کے قریب آتے ہیں شاہ صاحب نے دھیمے اور استفسار ی لہجے میں' مابدولت ' کہہ کر انہیں مخاطب کیا۔معانقۂ پرتپاک کے بعد تعارف کی رسم ادا ہوئی اور پھر ہر دو محفلین نگۂ بے تاب سے بقیہ معزز محفلین کی راہ دیکھا کیے ۔ساعت قلیل ،جو کہ خاصا طویل محسوس ہوا ،کے بعد ایک نوجوان سر پر خود سجائے مٹل مابدولت آہنی مکانیکی گھوڑے پر سوار ہم منتظر محفلین کی جانب بڑھا۔یہ خود جو ایک ہیلمیٹ تھا اور جس کے شکنجے سے آزاد ہونے کے بعد ہمارے سامنے خوبرو چہرے والا ایک نوجوان کھڑا تھا۔یہ
فہیم تھے ،جو محفلین اور دیگر زائرین کو اردو محفل کی وساطت سے کتب کی فراہمی کے مقدس اور ذمہ دارانہ عہدے سے وابستہ ہیں کہ لائبریرین ہیں ۔ایک دوسرے سے معانقہ اور تعارف کی رسم ادا ہوئی اور پھر ایک پراشتیاق انتظار۔۔۔۔۔کچھ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ فاخر رضا بھائی کا ظہور دلخوش کن ہوا ۔اور اس بار منتظر محفلین نے اپنے روبرو ایک باوقار اور پڑھے لکھے شخص کو موجود پایا جن کے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ ہمہ وقت کھیل رہی تھی ۔ مابدولت ان کو محترم خلیل الرحمٰن صاحب سمجھ رہے تھےتاہم کچھ ہی دیر بعد مابدولت پر یہ عقدہ کھلا کے جناب محترم فاخر رضا صاحب ہیں اور درحقیقت مابدولت اپنے تئیں کچھ خفت محسوس کیے بنا نہ رہ سکے ۔ اس اثنا میں اب منتظر محفلین کی تعداد چار تک پہنچ گئ تھی اور یہ سب محفلین دیگر شرکاء کی آمد کے بیتابی سے منتظر تھے ۔مزید کچھ لمحے انتظار کرنے کے بعد اچانک کہیں سے ایک دراز قامت شخص وارد ہوئے جن کی آنکھوں پر چشمہ لگا ہوا تھا اور جو مردانہ وجاہت کا اعلی نمونہ نظرآرہے تھے۔یہ جناب
خالد محمود چوہدری بھائی تھے۔حسب سابق تعارف کی رسم ادا ہوئی ۔ چند ثانیوں بعد ایک کار گاڑی محفلین کی جانب بڑھتی ہوئی نظر آئی جس میں انتہائی مہذب نظر آنے والی ایک ہستی کو محفلین نے اپنی جانب متلاشی اور ٹٹولتی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے پایا اور مابدولت جو کہ قبل ازایں فاخر بھائی کو خلیل الرحمن صاحب سمجھنے کے مغالطے سے دوچار ہو چکےتھے ، اس بار صحیح اندازہ لگانے کا قصد مصمم کئے ہوئے مابدولت نے فوراً بآواز بلند کہا "خلیل بھائی آگئے۔"
مابدولت کو گمان واثق ہے کہ یہ آواز گاڑی میں بیٹھے ہوئے محترم جناب خلیل الرحمن صاحب کے بھی گوش گذار ہوگئی تھی کیونکہ اسی وقت انہوں نے مسکرا کر ہماری طرف اثبات میں سر ہلایا اور کہا کہ وہ گاڑی پارک کرکے حاضر ہوتے ہیں۔ مابدولت کو اسی وقت اندازہ ہوگیا کہ اب ان کے درمیان ایک بہت ہی مہذب اور شائستہ اطوار ہستی تشریف لا رہے ہیں اوردرحقیقت جب وہ تشریف لا چکے تو مابدولت کو احساس ہوا کہ ان کی یہ قیاس آرائیاں اس ہستی کی شخصیت کے شایان شان تھیں ۔آنکھوں پر دبیز شیشوں کی عینک سجائے ،بشرے پر شفیق تبسم اور سنجیدگی کا حسین امتزاج لئیے تعارف اور معانقے کی رسم کے دوران ادا کیے گئے رسمی جملوں کی تراش خراش سے جناب محترم خلیل الرحمن صاحب کی شخصیت کا تمام موجود محفلین پر بہت اچھا تاثر پڑا۔
اسی دوران جناب فاخر رضا بھائی نے اپنے موبائل کیمرے سے دو سیلفیز لے لںں جو کہدیگر معزز محفلین کی نظر سے گزر چکے ہیں ۔اب محفلین ، جن کی نفری چھ تک پہنچ چکی تھی ، شاید یہاں کھڑے ہونے کی یکسانیت سے بور ہوچلےتھے ، چناچہ جناب فہیم بھائی کی تجویز اور اتفاق رائے سے ناشتے کی غرض سے کسی مناسب رستوران کی جستجو میں اپنے اگلے پڑاؤ کی جانب گامزن ہوئے ۔فاصلۂ قلیل طے کرنے کے بعد پٹھان کے ریستوران کے حق میں قرعہ نکلا اور سب کرسیوں پر براجمان ہوگئے اور یہیں پر کچھ دیر بعد فہیم بھائی نے اکمل زیدی بھائی کو فون کر کے معلوم کیا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں؟ اور اس حقیقت کے انکشاف نے سب کو متبسم کردیا کہ موصوف برابر کے مالک ہوٹل میں بیٹھے ہر ذی نفس پر محفلین ہونے کے گمان موہوم میں مبتلا ہیں اور سخت کوفت محسوس کر رہے ہیں ۔الغرض فہیم بھائی نے اکمل زیدی بھائی کو بھی وہیں پر بلالیا جہان بیٹھے محفلین ان کا پرتپاک استقبال کرنے کے لئے چشم براہ تھے ۔اور پھر پلک جھپکتے میں ہی ایک صحت مند گورے اور باریش شخصیت کو ،جن کے چہرے پر معصومیت اور شرارت بیک وقت رقصاں تھی ،منتظر محفلین نے اپنی جانب بڑھتے دیکھا ۔یہ حضرت بھی آہنی میکانکی گھوڑے پر ہی سوار تھے ،جسے وہ برق رفتاری سے چلا رہے تھے ۔اکمل زیدی بھائی اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ تشریف لا چکے تھے اوران کے ساتھ مل ملیاں ہوئیاں، گلاں باتاں ہوئیاں ،بڑے مزے بڑے لشکارے ۔اور یوں ناشتے کی میز پر محفلین کی باقاعدہ محفل جم گئ ۔۔۔۔۔۔( جاری ہے ) ۔