22/جولائی کی ملاقات کی کہانی
محمد امین صدیق کی زبانی
مابدولت اپنے آہنی اور مشینی گھوڑے پر سوار ،کبھی دلکی اور کبھی بگٹٹ چال سے چلتے ہوئے سوئے جائے ملاقات رواں دواں تھے۔شہر عظیم کراچی جہاں کی سڑکوں پر عام طور پر ٹریفک کا سیل رواں رہتا ہے ، کسی بھوکے کے پیٹ کی طرح خالی تھیں کہ معمولات روز و شب کی ہنگامہ خیزیوں کا آغاز ہنوز ندارد تھا ۔ مابدولت چونکہ مقام مقررہ سے اپنے ہاتھ کی لکیروں کی طرح واقف تھے چناچہ اس بابت قطعاً مبتلا ئے تردد نہ تھے ۔ساعت قلیل پر محیط یہ سفر پیارے محفلین سے ملاقات کی اشتیاق میں چشم زدن میں طے ہوا اور مابدولت بہادرآباد چارمینار چورنگی پہنچ گئے ۔
چار مینار چورنگی سے دست راست کی سمت مڑ کر مختصر سا فاصلہ طے کرنے کے بعد مقام ملاقات پر پہنچ گئے۔دوران ایں مابدولت کی متلاشی نظریں کسی شناسا چہرے کی جستجو میں مصروف تھیں اور یہ جستجو ایک خوبصورت اور پر وقار شخصیت کے روپ میں سامنے آئی جو سفید براق لباس میں ملبوس تھے، جن کے نورانی اور پرجلال چہرے پر سیاہ داڑھی ان کے جلال میں مہمیز لگا رہی تھی ۔اور یہی حضرت تھے محفل کے روح رواں یعنی شوخ و شنگ ہر دلعزیز
سید عمران صاحب
شاہ صاحب کا دیدار ہوتے ہی مابدولت کے لبوں پر اطمینان بخش اور مسرت آمیز تبسم پھیل گیا ۔دوسری جانب شاہ صاحب بشرۂ متبسم لئے مابدولت کے گاڑی سے اترنے کے منتظر تھے ۔مابدولت کے قریب آتے ہیں شاہ صاحب نے دھیمے اور استفسار ی لہجے میں' مابدولت ' کہہ کر انہیں مخاطب کیا۔معانقۂ پرتپاک کے بعد تعارف کی رسم ادا ہوئی اور پھر ہر دو محفلین نگۂ بے تاب سے بقیہ معزز محفلین کی راہ دیکھا کیے ۔ساعت قلیل ،جو کہ خاصا طویل محسوس ہوا ،کے بعد ایک نوجوان سر پر خود سجائے مٹل مابدولت آہنی مکانیکی گھوڑے پر سوار ہم منتظر محفلین کی جانب بڑھا۔یہ خود جو ایک ہیلمیٹ تھا اور جس کے شکنجے سے آزاد ہونے کے بعد ہمارے سامنے خوبرو چہرے والا ایک نوجوان کھڑا تھا۔یہ
فہیم تھے ،جو محفلین اور دیگر زائرین کو اردو محفل کی وساطت سے کتب کی فراہمی کے مقدس اور ذمہ دارانہ عہدے سے وابستہ ہیں کہ لائبریرین ہیں ۔ایک دوسرے سے معانقہ اور تعارف کی رسم ادا ہوئی اور پھر ایک پراشتیاق انتظار۔۔۔۔۔کچھ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ
فاخر رضا بھائی کا ظہور دلخوش کن ہوا ۔اور اس بار منتظر محفلین نے اپنے روبرو ایک باوقار اور پڑھے لکھے شخص کو موجود پایا جن کے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ ہمہ وقت کھیل رہی تھی ۔ مابدولت ان کو محترم خلیل الرحمٰن صاحب سمجھ رہے تھےتاہم کچھ ہی دیر بعد مابدولت پر یہ عقدہ کھلا کے جناب محترم فاخر رضا صاحب ہیں اور درحقیقت مابدولت اپنے تئیں کچھ خفت محسوس کیے بنا نہ رہ سکے ۔ اس اثنا میں اب منتظر محفلین کی تعداد چار تک پہنچ گئ تھی اور یہ سب محفلین دیگر شرکاء کی آمد کے بیتابی سے منتظر تھے ۔مزید کچھ لمحے انتظار کرنے کے بعد اچانک کہیں سے ایک دراز قامت شخص وارد ہوئے جن کی آنکھوں پر چشمہ لگا ہوا تھا اور جو مردانہ وجاہت کا اعلی نمونہ نظرآرہے تھے۔یہ جناب
خالد محمود چوہدری بھائی
تھے۔حسب سابق تعارف کی رسم ادا ہوئی ۔ چند ثانیوں بعد ایک کار گاڑی محفلین کی جانب بڑھتی ہوئی نظر آئی جس میں انتہائی مہذب نظر آنے والی ایک ہستی کو محفلین نے اپنی جانب متلاشی اور ٹٹولتی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے پایا اور مابدولت جو کہ قبل ازایں فاخر بھائی کو خلیل الرحمن صاحب سمجھنے کے مغالطے سے دوچار ہو چکےتھے ، اس بار صحیح اندازہ لگانے کا قصد مصمم کئے ہوئے مابدولت نے فوراً بآواز بلند کہا "خلیل بھائی آگئے۔"
مابدولت کو گمان واثق ہے کہ یہ آواز گاڑی میں بیٹھے ہوئے محترم جناب محترم
محمد خلیل الرحمٰن صاحب کے بھی گوش گذار ہوگئی تھی کیونکہ اسی وقت انہوں نے مسکرا کر ہماری طرف اثبات میں سر ہلایا اور کہا کہ وہ گاڑی پارک کرکے حاضر ہوتے ہیں۔ مابدولت کو اسی وقت اندازہ ہوگیا کہ اب ان کے درمیان ایک بہت ہی مہذب اور شائستہ اطوار ہستی تشریف لا رہے ہیں اوردرحقیقت جب وہ تشریف لا چکے تو مابدولت کو احساس ہوا کہ ان کی یہ قیاس آرائیاں اس ہستی کی شخصیت کے شایان شان تھیں ۔آنکھوں پر دبیز شیشوں کی عینک سجائے ،بشرے پر شفیق تبسم اور سنجیدگی کا حسین امتزاج لئیے تعارف اور معانقے کی رسم کے دوران ادا کیے گئے رسمی جملوں کی تراش خراش سے جناب محترم خلیل الرحمن صاحب کی شخصیت کا تمام موجود محفلین پر بہت اچھا تاثر پڑا۔
اسی دوران جناب فاخر رضا بھائی نے اپنے موبائل کیمرے سے دو سیلفیز لے لںں جو کہدیگر معزز محفلین کی نظر سے گزر چکے ہیں ۔اب محفلین ، جن کی نفری چھ تک پہنچ چکی تھی ، شاید یہاں کھڑے ہونے کی یکسانیت سے بور ہوچلےتھے ، چناچہ جناب فہیم بھائی کی تجویز اور اتفاق رائے سے ناشتے کی غرض سے کسی مناسب رستوران کی جستجو میں اپنے اگلے پڑاؤ کی جانب گامزن ہوئے ۔فاصلۂ قلیل طے کرنے کے بعد پٹھان کے ریستوران کے حق میں قرعہ نکلا اور سب نے اپنی اپنی کرسیاں سنبھال لیں ۔
بہادرآباد میں پٹھان کے ہوٹل پر اپنی نشستوں پر براجمان محفلین کی ہنوز شش نفری استقبالیہ کمیٹی دیگر پیارے محفلین کے استقبال کے لئے چشم براہ تھی کہ' تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آگیا ۔۔۔
بجائے گوشت پوست کےگھوڑے کی ہنہناہٹ کی آواز کے محفلین نے آہنی گھوڑے کی پھٹپھٹاہٹ سنی اور محفلین ہمہ تن چشم وگوش ہو گئے ۔آہنی گھوڑے پر سوار کوئی اور نہیں بلکہ سنجیدگی اور سادگی کے پیکر مجسم ، شلوار قمیض زیب تن کیے ہوئے ، سر پر کلاہ سہہ رنگی جمائے ہوئے جو جبیں مناسب کانصف حصہ ڈھکے ہوئے تھی ،محفلین کو دیکھ کر ایک شگفتہ مسکراہٹ چہرۂ دلکش پر نمودار ہوئی جو بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں تک عیاں تھی ۔یہ تھے ہمارے اور بلاشبہ تمام محفلین کے ہر دلعزیز محترم جناب
محمد عدنان اکبری نقیبی ۔۔
حسب دستور تعارف اور معانقہ کی رسم ادا ہوئی اور یہ بتانا غیر ضروری ہے کہ عدنان بھائی کو سبھی نے فوراً پہچان لیا کیونکہ ہمہ جہتئ گوناگوں کی خصوصیات سے معمور ان کے مراسلے گمان اغلب ہے کہ سب سے زیادہ شرف مطالعہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں
اور یہیں پر کچھ دیر بعد فہیم بھائی نے
اکمل زیدی بھائی کو فون کر کے معلوم کیا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں؟ اور اس حقیقت کے انکشاف نے سب کو متبسم کردیا کہ موصوف برابر کے مالک ہوٹل میں بیٹھے ہر ذی نفس پر محفلین ہونے کے گمان موہوم میں مبتلا ہیں اور سخت کوفت محسوس کر رہے ہیں ۔الغرض فہیم بھائی نے اکمل زیدی بھائی کو بھی وہیں پر بلالیا جہان بیٹھے محفلین ان کا پرتپاک استقبال کرنے کے لئے چشم براہ تھے ۔اور پھر پلک جھپکتے میں ہی ایک صحت مند گورے اور باریش شخصیت کو ،جن کے چہرے پر معصومیت اور شرارت بیک وقت رقصاں تھی ،منتظر محفلین نے اپنی جانب بڑھتے دیکھا ۔یہ حضرت بھی آہنی میکانکی گھوڑے پر ہی سوار تھے ،جسے وہ برق رفتاری سے چلا رہے تھے ۔اکمل زیدی بھائی اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ تشریف لا چکے تھے اوران کے ساتھ مل ملیاں ہوئیاں، گلاں باتاں ہوئیاں ،بڑے مزے بڑے لشکارے ۔اور یوں ناشتے کی میز پر محفلین کی باقاعدہ محفل جم گئ ۔
اور سب محفلین دن کی اس پہلی شکم سیری کا حظ و لطف اٹھانے لگے ۔اس دوران موضوعات متعدد پر سیر حاصل گفتگو ہوتی رہی جو معلوماتی اور تفریحی مواد پر مشتمل تھیں ۔مابدولت کو یوں گمان ہو رہا تھا جیسے وہ محفلین سے پہلی بار نہیں مل رہے ہیں بلکہ برسوں کی شناسائی ہے اور جذبات ھٰذا محض مابدولت ہی تک محدود نہیں تھے بلکہ سارے محفلین کے یہی تاثرات تھے۔آثار بتا رہے تھے کہ یہ ملاقات ایک یادگار ملاقات ہوگی اور ہو کر رہی ۔۔۔برادرم سید عمران کی شوخیاں اور اکمل زیدی کے جملہ ہائے ظریفانہ اس ملاقات کی رونقوں میں چار چاند لگا رہے تھے ۔برادرم خالد محمود چوہدری معاشرتی ناہمواریوں کے حوالے سے گفتگو فرما رہے تھے اور اسی دوران گفتگو انہوں نے اپنے محترم والد گرامی کا ذکر کیا اور ان کے بارے میں بتایا کہ وہ دن میں کم از کم سولہ یا سترہ نمازیں پڑھا کرتے تھے ۔مابدولت یہ سن کر بہت متاثر ہوئے کیونکہ مابدولت نے اکثر جگہ لکھا ہوا دیکھا ہے کہ ' تعجب ہے تجھے نماز کی فرصت نہیں '! برادرم خالد محمود چوہدری کے والد گرامی کے بارے میں سن کر مابدولت کو یہی بات کچھ اس پیرائے میں لگی کہ ' اسی معاشرے میں ایسے بھی اللہ کے نیک بندے ہیں جنہیں نماز کے علاوہ کسی چیز کی فرصت نہیں ' ۔واہ ۔سبحان اللہ ۔۔۔ناشتے کے دوران جناب فاخر رضا بھائی اور محترم جناب خلیل الرحمٰن صاحب کے درمیان کافی معلومات افزا گفتگو سننے کو ملی ۔مابدولت نے برادرم فہیم سے بھی لائبریری کے حوالے سے چند ایک سوالات کیے جن کاجواب انہوں نے بطریق احسن اور خوش خلقی سے دیا۔شاہ صاحب اور اکمل نےاس دوران مسلسل محفل کو زعفران زار بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔تاہم محفلین کی توقع کے سراسر برخلاف عدنان بھائی ساعت کثیرچپ سادھے رہے ۔قبل ازیں مابدولت کافی تصاویر بھی لے چکے تھے ،جو پیارے محفلین ملاحظہ کرچکے ہوں گے ۔ناشتے کے بعد چائے کا دور چلا جس کے دوران محمداحمد بھائی کے انتظار کے علاوہ اگلی حکمت عملی طے کی جانے لگی ۔مابدولت اور یقیناً اور دوسرے محفلین کو بھی یہ تحفظات لاحق تھے کہ اس قدر ثقیل ناشتے کے بعد ان کے شکم ناتواں بھاری بھرکم نہاری کا بارگراں کیونکر سہارپاویں گےجو کہ چند گھنٹوں کی دوری یعنی پر تکلف ظہرانے کے لیےرکھی گئی تھی ۔
بہرکیف ناشتہ اختتام پذیر ہوا اور ایک متوقع لیکن خوشگوار حیرت کا سامنا محفلین کو ہوا ۔یہ تھی جناب محترم
محمد احمد بھائی کی آمد جنہیں تاخیر سے ہی سہی تاہم اپنے مابین پاکر محفلین کو درجہ غایت مسرت محسوس ہوئی ۔ محمداحمد بھائی نفیس تراش خراش کے پینٹ شرٹ میں ملبوس ،کھلتے ہوئے رنگت اور جاذب قلب نگاہ ایک جوان العمر شخص تھے جن کے لبوں پرایک من موہنی مسکان تھی۔محمداحمد بھائی سے معانقے اور تعارف کے بعد محفلین کےاگلے پڑاؤ کے لئے کراچی کے مشہور ہل پارک کا انتخاب کیا گیا جہاں پر جانے کے لیے محفلین رخت سفر باندھنے لگے جوکہ محض مابدولت کے پائپ کے تھیلے پر مشتمل تھا ۔۔
چونکہ پل کی خبر نہیں جنانچہ سامان سو برس کا لینے کی بجائے مابدولت نے اپنا مختصر سا تھیلا جس میں دو پائپ اور ایک پاؤج تمباکو تھا سنبھالا اور یہ قافلۂ رفیقان اردو محفل ملاقات کی اگلی جائے نشست یعنی ہل پارک کی جانب عازم سفر ہوئے۔
وہاں پہنچ کر گاڑیاں پارک کی گئیں اور چند تصاویر لی گئیں ۔ کراچی کا یہ مشہور پارک ایک پہاڑی پر واقع ہے اور اس کی اونچائی پر کھڑے ہوکر کراچی کی وسعتوں کا نظارہ کیا جاسکتا ہے جیسا کہ پہلی تصویر میں فہیم کر رہے ہیں ۔چونکہ ہل پارک میں رونقیں سر شام سے شروع ہوجاتی ہیں اور ابھی دوپہر بھی نہ ہو چلی تھی چناچہ سکوت اور سنسانی کا راج تھا ۔پارکنگ لاٹ سے چلتے ہوئے سب محفلین ایک بارہ دری جیسی جگہ پہنچ گئے اور وہاں کے سنگی بنچوں پر آرام کرنے لگے۔
اس موقع پر محترم جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب اور برادرم محمد احمد صاحب نےاپنی خوبصورت شاعری سے سامعین کے دل موہ لئے۔اسی دوران محفلین کی فرمائش کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہوئے مابدولت نے بھی نغمہ سرائی میں اپنی سی کوشش کر ڈالی جسے محفلین نے بہت سراہا۔ مابدولت اس قدر دانی کے لیے محفلین کے سراپا ممنون ہیں ۔یہاں بھی گوناگوں دلچسپ موضوعات پر گفتگو جاری رہی اور یوں اذان ظہر کے وقت محفلین نے اگلی کسی ملاقات کے حوالے سے وعدے وعید کرنے کے بعد ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا ۔اور اس طرح محفلین کی یہ یادگار ملاقات اپنے اختتام کو پہنچی جس کے بارے میں مابدولت کو گمان واثق ہے کہ اس یادگارملاقات کی سنہری یادوں نے محفلین کے اذہان و قلوب میں ناقابل محو و فرو نقوش ثبت کیے ہونگے ۔