تیرہویں سالگرہ اردو محفلینِ کراچی کی ملاقات کا آنکھوں دیکھا حال ، کچھ اپنی کچھ دیگر شرکا کی زبانی

اکمل زیدی

محفلین

سید عمران

محفلین
جب افسانو ی کردار حقیقت میں ڈھل گئے

اکمل زیدی بھی جب کرتے ہیں کمال کرتے ہیں۔۔۔

نہ جانے عشائیہ میں کیا کھالیا تھا کہ رات کو عجیب عجیب خواب دیکھے اور اگلی صبح اٹھتے ہی محفل پر مراسلہ داغ دیا۔۔۔

عمران بھائی اور عدنان بھائی کراچی والے محفلین کو بلائیں، اپنے خرچے پر۔۔۔

واہ بھئی واہ، یہ خوب رہی ۔۔۔

خواب آپ کا، بھگتیں ہم۔۔۔

اِدھر محفلین میں تو اس پیشکش سے ہاہاکار مچ گئی۔۔۔

ہر طرف سے داد و تحسین کے ڈونگرے برسنے لگے۔۔۔

ظاہر ہے مفت میں ملے سالن کے ڈونگے کس نے چھوڑنے تھے۔۔۔

خیر مذاق برطرف۔۔۔

سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اس پیشکش سے بہت خوشی ہوئی ، اعزاز جانا کہ ہمارے ساتھی ہمیں اس دعوت کی میزبانی کا شرف بخشیں،لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا، بہرحال یار زندہ صحبت باقی۔ان شاء اللہ ہم آئندہ پھر اپنے دوستوں سے عرض کریں گے کہ ہمیں اس شرف سے ضرور نوازیں۔۔۔

چلیے، واپس لوٹتے ہیں اکمل بھائی کی کارستانیوں کی طرف، جہاں سارے محفلین ان کی پیشکش پر ’’صاد‘‘ لگا رہے ہیں، یعنی قبول ہے قبول ہے کہہ رہے ہیں۔۔۔

چند دن تو محفل کے میڈیا پر اس اسکینڈل کو خوب اچھالا گیا، بڑی لے دے ہوئی، کچھ نے کہا دیکھنا قبول ہے کہنے والے ہی سب سے پہلے راہِ فرار اختیار کریں گے، کچھ نے کہا ہاں، کچھ نے کہا ناں، تو کچھ سے کہا گیا منظور ہے پردہ ترا۔۔۔

اس لے دے کے چند دن بعد اچانک معاملہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا، یا تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی یا کسی کی آواز سنائی نہیں دے رہی۔۔۔

سیانے سچ کہتے ہیں، خاموشی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے، چناں چہ چند دن کی خاموشی کے بعد اکمل بھائی نے رات کو پھر وہی الا بلا کھائی، اوٹ پٹانگ خواب دیکھے اور اگلی صبح اسکرین پر پھر ان کا مراسلہ جگمگا رہا تھا۔۔۔

بھائیو، دوستو، بزرگو،اتوار آنے میں چند دن رہ گئے ہیں، سب لوگ جلدی جلدی رجسٹریشن کرالیں۔۔۔

اس اچانک اعلان سے پھر محفلین میں بھگدڑ مچ گئی، دھڑا دھڑ مراسلے پوسٹ ہونے لگے، جگہ کے تعیین کے لیے آراء آنے لگیں جبکہ کچھ لوگ ان آراء پر اپنی آراء کا آرا چلانے لگے۔ایک طرف ذاتی مکالمے کا شعبہ کھل گیا تو دوسری طرف واٹس ایپ کا گروپ بن گیا، ہر دو جانب بھاری گولہ باری ہونے لگی۔۔۔

خدا خدا کرکے ہاں ہاں، ناں ناں کرتے کرتے دن، جگہ اور وقت کا تعین ہو گیا۔۔۔

اتوار کادن، بہادر آباد کا علاقہ اور صبح نو بجے کا وقت۔۔۔

چلو بھئی اب سارے مل کر کاؤنٹ ڈاؤن شروع کریں۔۔۔

ٹک ٹک ٹک ٹک۔۔۔

ارے یہ کیا ۔۔۔

ہم اچانک ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے، دیکھا تو گھڑی کھڑی سوا آٹھ بجے پر پنڈولم کی دُم ہلا رہی تھی۔۔۔

فجر کے بعد تھوڑی دیر ہی کمر سیدھی کی ہوگی کہ یہ گھڑی سر پہ آن کھڑی ہوئی۔۔۔

جلدی سے بستر چھوڑا، غسل کیا، چند رکعات پڑھیں اور بھیک مانگنے کے لیے ہاتھ پھیلادئیے کہ یااللہ اس ملاقات کو محض وقت گزاری یا وقت کا زیاں نہ بننے دیجیے بلکہ اپنی پسند کا عمل بنالیجیے، آمین۔۔۔

سب کاموں سے فارغ ہو کر بقول مابدولت ’’کریم‘‘ والوں کا مشینی گھوڑا بک کروایا جو چند منٹ بعد دروازے پر حاضر تھا۔گھر سے نکلتے وقت وقت دیکھا، پونے نو۔۔۔

چھٹی کا دن تھا، راستے کُھلے کُھلے تھے اور فضا کِھلی کِھلی۔۔۔

تقریباً نو بجے جائے وقوعہ ملک ہوٹل کے سامنے پہنچ گئے۔ دیکھا چند لوگ کسی کے منتظر کھڑے ہیں۔ ہم نے سوچا ہوا تھا کہ جب تک کسی دیکھے بھالے محفلین کو دیکھ بھال نہ لیں کسی سے گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔۔۔

ان لوگوں کو کسی کا منتظر پا کر یہی سمجھے کہ شاید ہمارے استقبال کے لیے چشم براہ کھڑے ہیں۔ چوں کہ ان میں سے کسی کو نہیں دیکھا تھا چناں چہ کچھ سوچتی ہوئی نظروں سے آہستہ آہستہ ان کی جانب بڑھنے لگے، ہمیں اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر وہ ہم سے زیادہ سوچتی ہوئی نظروں سے ہمیں گھورنے لگے۔۔۔

ابھی دونوں جانب سے یہ تماشہ جاری ہی تھا کہ اچانک چند لوگوں پر مشتمل ایک ٹولی آئی جسے یہ لوگ اپنے ہمراہ ملک ہوٹل میں لے گئے۔۔۔

چلو جی کہانی مُک گئی۔ اچھا ہوا ہم ان سے نہیں ملے۔ کبھی زیادہ ایفیشینسی دکھانا بھی مہنگا پڑسکتا ہے۔۔۔

ابھی اس تازہ تازہ ’’بےزتی‘‘ کو چند لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ اچانک بائیک پر کاؤ بوئے ہیٹ لگائے ایک صاحب رُکے، ہیٹ اور چہرے سے پہلی نظر میں مابدولت لگے۔۔۔

چوں کہ قلب پر تازہ تازہ ’’بے زتی‘‘ کا اثر باقی تھا لہٰذا ان کے قریب جاکر قدرے آہستہ آواز میں پوچھا مابدولت؟ آہستہ آواز سے اس لیے تاکہ اگر یہ مابدولت نہ نکل سکیں تو اس آہستہ آواز کی بدولت ہم جان بچا کر نکل سکیں۔ خوش قسمتی سے یہ مابدولت ہی نکلے۔۔۔

اپنی بائیک سے اتر کر فوراً ہم سے لپٹے پھر دفعتاً دوبارہ اپنی بائیک سے لپٹے اور قریب ہی ایک جگہ پارک کردی، پھر دوبارہ ہمارے قریب آکھڑے ہوئے۔۔۔

ہم نے واٹس ایپ پر میسج کیا سب لوگ کہاں ہیں؟ فوراً فاخر رضا بھائی کا میسج آیا میں ملک ہوٹل کے آس پاس ہوں آپ کہاں ہیں؟ اب ہم نے انہیں کال کی، جواب میں انہوں نے پوچھا کہ آپ وہی ہیں جو سامنے کھڑے ہیں؟ (شخصیت ہی ایسی ہے کہ لاکھوں میں پہچانے جائیں)۔ ہم نے جواب دیا جی جی ہم یہی ہیں۔ کہنے لگے بس میں یہ رہا۔ اور واقعی وہ گاڑی لیے سامنے آرہے۔ ۔۔

ذرا وقفے سے سر خلیل اور چوہدری خالد بھائی بھی آگئے۔ ابھی ہم کھڑے ہی تھے کہ اچانک دیکھا تو فہیم بھائی سامنے موجود تھے۔ کہاں سے آئے کیسے آئے کچھ پتا نہ چلا۔ اچھے جاسوس کی یہی نشانی ہے، نہ اس کے آنے کا پتا چلے نہ جانے کا۔۔۔

فہیم بھائی نے کہا کہ سماں ہے سہانا، ایسے میں کہیں اور کیا جانا ، بہتر ہے اوپن ائیر تھیٹر کا لطف اٹھانا، سب نے کہا ہاں نا۔۔۔

اب یہ پارٹی سامنے بچھی میز کرسیوں پر بیٹھ گئی۔ ذرا دیر بعد سامنے سے عدنان بھائی گزرے، انہیں پہچان کر سب نے شور مچادیا، ورنہ تو وہ کب کے گزر گئے ہوتے۔ ۔۔

شور سن کر انہوں نے بائیک روکی، نیچے اُترے، بائیک کو قریب ہی پارک کیا، ہمارے پاس آئے اور سب سے گلے ملے، سب نے اپنا تعارف کرایا، ہم چپ رہے، دیکھیں پہچانتے ہیں یا نہیں، اور وہ واقعی نہیں پہچانے۔۔۔

اب کورم پورا ہونے کے لیے صرف قائدتحریک اکمل بھائی کی کسر باقی تھی۔ جاسوسِ محفل یعنی فہیم بھائی نے فوراً جاسوسی کی کہ سب کو بہلا پھسلا کر یہاں جمع کرنے والے کہیں خود تو نہیں پھسل گئے۔ معلوم ہوا واقعی پھسل گئے۔۔۔

حسینوں کا ایک جھرمٹ ملک ہوٹل میں داخل ہوا تو موصوف بھی پھسلتے پھسلتے وہیں جاپہنچے۔ اب محفلین کے نام پر ایک ایک کو جی بھر کے دیکھ رہے ہیں۔ وہ تو برا ہوا جسوس مسوس کی کال کا کہ انہیں یہ رنگینی نو بہار چھوڑ کر ہمارے پاس آنا پڑا۔۔۔

ہم نے کہا کہ ناشتے پر محمد احمد بھائی کا انتظار کیا جائے۔ جسوس مسوس نے فوراً فون پر احمد بھائی کی جاسوسی کی، معلوم ہوا وہ ناشتے کرکے آئیں گے۔ بس پھر کیا تھا سدا کے بھوکے پیاسوں نے ناشتہ منگوا کر جو اس کے ساتھ انصاف کیا تو تحریک انصاف کو کامیاب کراکر ہی دم لیا۔۔۔

ناشتے سے قبل، دوران اور بعد میں گفتگو و تعارف کا سلسلہ جاری رہا۔ لیکن اس کا حال بھی محفل کی طرح ہی تھا، بات شروع کہیں سے ہوتی اور ہوتے ہوتے کہیں اور جا کھڑی ہوتی۔ لیکن اس بے ربطگی کا بھی اپنا ہی لطف رہا۔۔۔

احمد بھائی شاید کہیں دور کھڑے ناشتہ ختم ہونے کا انتظار کررہے تھے۔ جیسے ہی ناشتہ ختم ہوا احمد بھائی سامنے آکھڑے ہوئے۔ ایک بار پھر معانقے کا دور دورہ ہوا جس کے بعد سب اجتماعی طور پر ہل پارک کی جانب چل پڑے۔۔۔

وہاں پہنچ کر ایک طویل نشست جمی جو ظہر کی اذان تک جاری رہی۔ بعد از اذانِ ظہر سب جانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے تاکہ گھر پہنچ کر جماعت سے نماز پڑھ سکیں۔

جھلکیاں:

۔۔۔۔۔عدنان بھائی جب تشریف لائے تو ہماری برابر والی کرسی پر بیٹھ کر مسلسل ادھر ادھر دیکھ رہے تھے، جیسے کسی کو تلاش کررہے ہوِں، سب بھانپ گئے کہ یہ عمران بھائی کو ڈھونڈ رہے ہیں، کیوں کہ ہم نے ملاقات کے وقت اپنا تعارف نہیں کرایا تھا۔ اچانک کسی نے انہیں چھیڑا عدنان بھائی عمران بھائی آپ کے برابر بیٹھے ہیں۔ اس پر انہوں نے منمناتی آواز میں کہا ہاں جی میں نے انہیں پہچان لیا تھا، (کوئی نہیں پہچانا تھا، عدنان بھائی دو رکعات توبہ کی پڑھیں ابھی جاکر۔)

۔۔۔۔۔دورانِ گفتگو چوہدری خالد بھائی نے انکشاف کیا کہ ان کی اہلیہ نے بھی اردو محفل جوائن کرلی ہے، سب ان کے پیچھے پڑ گئے کہ نام بتائیں ، نام بتائیں، یہاں تک کہ انہیں نام بتا نا ہی پڑا۔

۔۔۔۔۔ناشتے کے دوران اچانک چائے کی پیالی گر گئی اور چائے بہہ کر ہماری طرف آنے لگی۔ عدنان بھائی نے کمال ہوشیاری سے اپنا ہاتھ رکھ کر اسے ہمارے لباس پر گرنے سے روک دیا اور ہم سے کہا آپ یہاں سے اٹھ کر مابدولت کی برابر والی کرسی پر بیٹھ جائیں ورنہ آپ کے کپڑے خراب ہوجائیں گے۔ (ویسے یہ اپنے پاس سے اٹھانے کا بہانہ تو نہیں تھا نا عدنان بھائی، سچ سچ بتائیں، ورنہ پھر دو رکعات توبہ کی پڑھنی پڑیں گی۔)

۔۔۔۔۔جیسے ہی ہم ہل پارک پہنچے تو جاسوس اعظم نے ہری ہری گھاس کی طرف اشارہ کرکے ہم سے پوچھا کہ پتا ہے گھاس دیکھتے ہی ہمارا دل کیا چاہتا ہے؟ ابھی ہم نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ وہ کھلے کا کھلا رہ گیا کیوں کہ جاسوس اعظم نے اچانک نیچے بیٹھ کر گھاس پر ایک قلابازی کھائی اور فوراً اٹھ کھڑے ہوئے۔ لوگ ہائیں ہائیں، لینا پکڑنا، تصویر وڈیو کا شور کرتے رہ گئے، ادھر فہیم بھائی اپنی دلی خواہش پوری کرکے فارغ بھی ہوگئے۔

۔۔۔۔۔پارک میں سیمنٹ کے چھتری نما سائبان کے نیچے بنی بینچوں پر مجلسی ڈیرہ جمایا گیا تھا۔

۔۔۔۔۔دوران محفل اچانک رخ مذہبی اختلافات کی طرف مڑ گیا۔ ہم نے کہا اس وقت شام کے تمام علاقے جنگ کی لپیٹ میں نہیں ہیں، چند علاقے ہیں جہاں شدید جنگ ہورہی ہے، باقی لوگ خوش ہورہے ہیں کہ اچھا ہے یہ لوگ مریں۔ یہی ہمارا المیہ ہے، ہمیں اس بات سے چوکنا رہنا ہے، ایک مسلک والا کہتا ہے کہ اچھا ہوا فلاں مسلک و فرقے والے مرے، دوسرا کہتا ہے اچھا ہوا پہلے والے مرے۔ اور حقیقت میں ایک ایک کرکے مسلمان ہی مر رہے ہوتے ہیں۔ مسلمانوں نے آپس میں فرقہ در فرقہ کرکے نفرتیں پالیں پھر ایک دوسرے کو مارنے لگے، جبکہ ہونا اس کے برعکس چاہیے تھا کہ بے شک اپنے اپنے عقائد و مسائل پر عمل کریں لیکن ہر کڑے وقت میں دشمن کو بتا دیں کہ تمہارے مقابلے کے لیے ہم سب ایک ہیں۔ جیسے حضرت علی اور حضرت معاویہ کے اختلافات کے دوران شاہِ روم نے حضرت معاویہ کو خط لکھا کہ اچھا موقع ہے ہم تمہیں فوجی مدد دیتے ہیں تم ہمارے ساتھ مل کر علی کی حکومت ختم کرو اور پوری سلطنت پر قابض ہوجاؤ۔اس کا جواب حضرت معاویہ نے یہ دیا کہ ’’او رومی کتے، میرے اپنے بھائی سے جو بھی اختلافات ہیں لیکن اگر تو نے علی کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو علی کی جانب سے سب سے پہلا سپاہی میں ہوں گا جو تیرے راستے میں کھڑا ہوں گا۔ ‘‘ آج ہمیں اسی جذبے کا مظاہرہ کرنا ہے۔ دشمنوں نے ایک دوسرے کے خلاف ذرا ذرا سی باتوں میں ہوا بھر کے اور اسے پھلا پھلا کر بہت بڑا بنادیا ہے، حالاں کہ اگر اس کی ہوا نکال دیں تو کچھ بھی باقی نہ رہے، اگر ہر ایک کے نیگیٹو پوائنٹ کو مثبت انداز سے دیکھیں تو دیکھیں گے کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ اصل خرابی تو کچھ بھی نہ تھی، کسی میں نہ تھی۔ ہمارے اس مختصر پُر اثر (خود سے تعریفیں) مراسلے پر سب نے متفق کی ریٹنگ دی۔ اکمل بھائی اور فاخر رضا بھائی کا یہ نظریہ بھی سامنے آیا کہ جب تک ہم ایک دوسرے سے نہیں ملتے آپس میں دل نہیں ملتے۔ دور دور رہنے سے محبتیں دور اور بدگمانیاں بھرپور ہوتی ہیں۔

۔۔۔۔۔دورانِ مجلس احمد بھائی اور سر خلیل نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔ ابتدا سر خلیل کے مزاحیہ اور ہلکے پھلکے کلام سے ہوئی۔ بعد میں احمد بھائی نے اپنا سنجیدہ مگر پُر اثر کلام پیش کیا۔ آخری کلام مسلمانوں کی آپس میں بدگمانیوں اور دوریوں کے نتیجے میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات کا مرثیہ تھا جس نے سب کے دلوں پر بہت گہرا اثر چھوڑا۔

۔۔۔۔۔ شعراء کے کلام کے بعد مابدولت نے اپنی سریلی آواز کا جادو جگانا شروع کیا تو پرندے بھی سانس روکے آکھڑے ہوئے (خیر یہ کچھ زیادہ ہی ہوگیا)۔ بہرحال مابدولت کی مدھر آواز نے واقعی فضاؤں میں سُر بکھیر دئیے تھے۔ محفلین فرمائشیں کرتے رہے اور وہ پوری کرتے رہے۔

شخصیات و تاثرات:

اب ملاحظہ فرمائیے ان شخصیات کا احوال جو اس ملاقات سے پہلے ایک دوسرے کے لیے افسانوی کردار کی حیثیت رکھتے تھے، لیکن جب ایک دوسرے سے ملے تو افسانویت کا یہ طلسم ٹوٹا اور سب حقیقت کے سانچے میں ڈھل کر جیتے جاگتے کردار بن گئے۔۔۔

خلیل الرحمٰن صاحب:

جب سر خلیل نے ملاقات کے لیے متفق کا بٹن دبایا تو ہمارے کافی سارے بٹن ڈوب گئے۔ اپنی سنجیدہ اور باوقار تصویر اور مراسلات میں نپے تلے انداز کے ساتھ سر خلیل ہمیں سخت گیر پروفیسر لگتے تھے۔ ہم چشم تصور سے دیکھ رہے تھے کہ سر خلیل کی موجودگی میں تمام محفلین سر جھکائے، لائن بنائے اچھے بچوں کی طرح بیٹھے ہوں گے، ادب کے ساتھ ادبی باتیں ہوں گی، نہایت احترام کے ساتھ ناشتہ کیا جائے گا، عزت سے ایک دوسرے کا تعارف حاصل کیا جائے گا اور وقت ختم ہونے پر خاموشی سے لائن بنا کر اپنے اپنے گھر روانہ ہوجائیں گے۔ کسی نے ذرا بھی آؤٹ آف سلیبس ہونے کی کوشش کی تو سر خلیل غصہ کا ہنکارا بھر سکتے ہیں۔

لیکن جیسے ہی ان پر پہلی نظر پڑی تو دیکھا کہ انکساری، شگفتگی اور بشاشت کا ایک پیکر مشفقانہ مسکراہٹ لیے کھڑا ہے۔ اتنا زوردار جھٹکا تو شاید کرنٹ لگنے کا بھی نہیں ہوتا جتنا ہمیں اپنے تصورات کے ٹوٹنے پر لگا تھا۔ دلوں کو کھینچ لینے والی اس شخصیت کے ساتھ بقول فہیم بھائی گھنٹوں بھی گزارے جائیں تو وقت کا پتا نہ چلے اور بقول فاخر رضا بھائی عمر کا فرق کیا ہوتا ہے یہ سر خلیل کے پاس بیٹھنے سے کہیں نظر نہیں آتا۔

فاخر رضا صاحب:


ایک مرتبہ فاخر بھائی نے اپنے ایک مراسلے میں قدرے ڈانٹ بھرے انداز میں ہمیں مخاطب کیا تھا کہ آپ اچھے بھلے مراسلے پوسٹ کرتے تھے، اب آہستہ آہستہ برے بھلے پوسٹ کرنے لگے ہیں، بس آپ بھی پھسل گئے لائن سے۔ ان کی اس بات کے ساتھ ہی ہمارے دل میں ایک سنجیدہ قسم کی شخصیت نے جنم لیا جو ڈنڈا لیے ہر ایک کو محض کام کی باتیں کرنے کی تاکید کررہا ہے اور جہاں کسی نے ہنسی مذاق کرنے کی کوشش کی ان کی پیشانی پر پندرہ بیس ہزار بل پڑگئے۔ان کے بارے میں بھی ہم فکرمند تھے کہ ان کے ساتھ کیسے گزارا ہوگا، کہاں تک کام کی باتیں ہوں گی، کون کون سے کام کی کون کون سی باتیں ہوں گی۔ پتا نہیں کیا قیامت ڈھائے گی ہم پر یہ مجلس۔

لیکن جیسے ہی ان کے ساتھ نشست شروع ہوئی اور انہوں نے جو چھت پھاڑ قہقہے لگانے شروع کیے تو کبھی ہمیں ان کی کبھی اپنی دماغی صحت پر شک ہونے لگتا، کہ کیا یہ وہی مراسلہ نگار ہیں؟ سچ سچ بتائیں فاخر بھائی ’’وہ‘‘ مراسلہ کس نے پوسٹ کیا تھا؟ فاخر بھائی کی گفتگو کا انداز ایسا بے تکلفانہ تھا کہ جی چاہتا تھا کہ بس وہ بولتے رہیں اور ہم سنتے رہیں، ان کی پاٹ دار آواز میں لگے بھرپور قہقہے ہماری جگت بازیوں کے لیے داد کا کام کر رہے تھے جس سے ہم جگت بازیوں پر مزید شیر ہوجاتے تھے۔

چوہدری خالد محمود صاحب:

جابجا مراسلوں میں چبھے ان کے کانٹوں نے سارے محفلین کا ناک میں دم کررکھا تھا۔ جہاں کوئی ہنسا ان کا کانٹا حاضر، کوئی رویا ان کا کانٹا موجود، حتی کہ ابھی کسی نے کچھ کہنے کی کوشش ہی شروع کی ہوتی کہ ان کا سرخ کانٹا موجود۔ غرض خالد بھائی کی آمد کا مطلب خون آلود کانٹے کی موجودگی، اور رِستے ہوئے خونی کانٹے کا مطلب کہ ابھی ابھی خالد بھائی یہاں سے ہوکر گزرے ہیں۔

ہم نے ان کے بہت ستم سہہ لیے تھے، آج ہمارا دن تھا۔ اب محفلین جو بات کرتے ہم خالد بھائی کو متوجہ کرکے کہتے، لگادیں خالد بھائی اس پر کانٹا، ہوجائے خالد بھائی ایک کانٹا، اتنے کانٹوں کا اسٹاک کہاں ہے؟ غرض ہم نے کانٹا کانٹا کرکے خالد بھائی کے تمام کانٹے چن چن کر نکال دئیے اور آخر میں چلتے چلتے بھی عہد و پیمان لیے کہ کانٹے سے احتراز آپ کی اور محفلین کی صحت کے لیے ازحد ضروری ہے۔ انہوں نے اس شرط پہ وعدہ کیا کہ اسلام اور پاکستان کے خلاف اگر کسی نہ کچھ کہا تو ہمارا کانٹا اپنا کہا کہے گا۔

محمد امین صدیق صاحب:

مابدولت کے نامِ نامی سے جانے مانے یہ ہیں امین بھائی۔ ہم سمجھتے تھے کہ یہ جیسی نستعلیق اردو بولتے ہیں خود بھی ویسے ہی ہوں گے، نہایت ٹھسے کے، رعب داب اور شاہی جاہ و جلال لیے، ہر ایک پر کڑی اور کڑوی نظر رکھیں گے۔ کسی کو خاطر میں نہ لائیں گے، نخوت سے منہ بنائیں بیٹھے رہیں گے۔

لیکن یہ تو نہیات میٹھے، بہت نرم، آہستہ اور دھیرے لب و لہجہ میں بات کرنے والے نکلے۔ سب کے ساتھ نہایت بے تکلفانہ انداز میں گھلنا ملنا، بات چیت کرنا اور ہنسنا بولنا لگائے رکھا۔

محمد احمد بھائی؛

اس ملاقات کا گھڑاک پھیلنے کی وجہ سے پچھلی ملاقاتی لڑی اوپر آئی جس کے باعث محمد احمد بھائی کی تصاویر اور وڈیو دیکھنے کو ملیں۔اس لیے ان کو دیکھ کر اجنبیت محسوس نہیں ہوئی، پھر بھی چند انچ کی اسکرین پر دیکھنا حقیقت میں دیکھنے کے برابر نہیں ہوسکتا۔

احمد بھائی متانت اور بشاشت کا مجموعہ ہیں۔ وہ اس طرح کہ چہرہ پر متانت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے احمد بھائی کی شخصیت مدھم اور دھیمے سروں کی مانند لگتی ہے۔

فہیم بھائی:

شوخ و طرار، ہر پل بے چین، کچھ کرنے کی جستجو اور لگن۔ یہ ہیں فہیم بھائی۔ جیسے اپنی تصویر اور اپنے مراسلوں میں نظر آتے ہیں حقیقت میں بھی بالکل ویسے ہی ہیں۔ محفل کے سینئر ممبر ہیں ، محفل میں کب، کہاں، کیا اور کیوں ہورہا ہے، انہیں سب معلوم ہے۔ کون محفل کیوں چھوڑ کر گیا، کم کم کیوں آرہا ہے، کل کیا کرتا تھا، آج کل کیا کررہا ہے، اچھا کررہا ہے یا برا، پہلے کیسا تھا، اب کیساہے، اس میں یہ تبدیلی کیوں آئی؟ غرض محفلین کا سارا کچا چٹھا فہیم بھائی بخوبی جانتے ہیں۔

عدنان بھائی:

یہ ایک طرف محفل میں لوگوں کو اردو املا کی اغلاط سے آگاہ کرتے ہیں تو دوسری جانب محفل کے رپورٹرکی حیثیت سے ہر اخبار میں چھپنے والی دلچسپ و سنسنی خیز خبروں سے محفلین کو آگاہ کرنے کا فریضہ بھی بلا کسی معاوضے کے انجام دیتے ہیں۔

جس دن ان کی اغلاط یا سنسنی خیز خبر محفل پر نظر نہ آئے تو محفلین میں تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہےکہ عدنان بھائی خیر و عافیت سے تو ہیں۔ویسے یہ غیر حاضری اکثر و بیشتر ان کی دفتری مصروفیات کا سبب نکلتی ہے۔ عدنان بھائی آپ سدا یونہی سدا بہار سنسنیاں پھیلاتے رہیں ۔

اکمل زیدی بھائی:

اور یہ ہیں قائد تحریک، اس ملاقات کا سبب بنے والی روحِ رواں، سب کو ملاقات پر اُکسانے والے اکمل زیدی صاحب۔ اپنے مراسلوں کی نوک جھوک، تندی تیزی، اٹھا پٹخ اور آموں کی جان کی دشمنی کے لحاظ سے ان کی شہرت چار دانگ عالم میں پھیل چکی ہے۔آم ان کی آمد سے کانپ کانپ جاتے ہیں کہ اب ہماری خیر نہیں کہ یہ کس دشمنِ جاں کی آمد آمد ہے۔

جیسا محفلین ان کی شخصیت کو مراسلوں میں دیکھتے ہیں یقین جانیئے یہ حقیقت میں بالکل ایسے ہی ہیں۔ اس کے علاوہ نہایت مخلص اور سمجھ دار بھی واقع ہوئے ہیں۔ہم تمام محفلین اس ملاقات کے لیے ان کے شکر گزار ہیں۔

حرف آخر:

یہ سارے احباب جن کے بارے میں پڑھنے والوں نے اپنے اپنے انداز کے خاکے بنارکھے ہوں گے حقیقت میں کیسے ہیں یہ تو ملنے کے بعد ہی پتا چلتا ہے۔ قصہ مختصرسب کے سب طبیعت کے لحاظ سے نہایت بے تکلفانہ مزاج کے، عادت کے لحاظ سے نہایت منکسر المزاج، بول چال کے لحاظ سے نہایت ہنس مکھ اور اپنے اپنے میدان میں قابلیت کے جھنڈے گاڑنے والے ہیں۔ خدا ان کا دم سلامت رکھے اور بار بار ایک دوسرے سے ملنے کے مواقع عطا کرتا رہے۔ بہرحال یقین نہیں آتا کہ سارے کے سارے ہی ہیرے تھے، کوئی بھی کھیرا نہیں نکلا۔

ویسے ہم اسے اپنی صحبتِ نیک کے اثرات کے ثمرات سمجھتے ہیں۔۔۔

کسی کو کوئی اعتراض تو نہیں؟؟؟
 
آخری تدوین:
بہت خوب انداز تحریر۔
چوں کہ قلب پر تازہ تازہ ’’بے زتی‘‘ کا اثر باقی تھا لہٰذا ان کے قریب جاکر قدرے آہستہ آواز میں پوچھا مابدولت؟ آہستہ آواز سے اس لیے تاکہ اگر یہ مابدولت نہ نکل سکیں تو اس آہستہ آواز کی بدولت ہم جان بچا کر نکل سکیں۔ خوش قسمتی سے یہ مابدولت ہی نکلے۔۔۔
گویا کسی جاسوسی ناول کا کوڈ ورڈ ہو۔
۔۔۔۔۔دورانِ گفتگو چوہدری خالد بھائی نے انکشاف کیا کہ ان کی اہلیہ نے بھی اردو محفل جوائن کرلی ہے، سب ان کے پیچھے پڑ گئے کہ نام بتائیں ، نام بتائیں، یہاں تک کہ انہیں نام بتا نا ہی پڑا۔
ہمم۔ اندازہ تھا۔


محمد عدنان اکبری نقیبی بھائی ، یہ جہاں جہاں بھی ایک سے زائد فل سٹاپ ہیں، ان کا اقتباس لے کر لال کر دیں۔
 
ناشتے کے دوران اچانک چائے کی پیالی گر گئی اور چائے بہہ کر ہماری طرف آنے لگی۔ عدنان بھائی نے کمال ہوشیاری سے اپنا ہاتھ رکھ کر اسے ہمارے لباس پر گرنے سے روک دیا اور ہم سے کہا آپ یہاں سے اٹھ کر مابدولت کی برابر والی کرسی پر بیٹھ جائیں ورنہ آپ کے کپڑے خراب ہوجائیں گے۔ (ویسے یہ اپنے پاس سے اٹھانے کا بہانہ تو نہیں تھا نا عدنان بھائی، سچ سچ بتائیں، ورنہ پھر دو رکعات توبہ کی پڑھنی پڑیں گی۔)
نیکی کر کنوئیں میں ڈالا ۔آپ کو دھوپ سے بچانے کے لیے ہم نے آپ کو جگہ تبدیل کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔
 
خلیل بھائی اور محمد احمد بھائی
8AlxsJVGkbsjGCacqMZes_zNjaZcWJ6XDRTAGokwkE50WozxAjPrZZRtVcuJYdus-DbFd0eMspUXXULDqRRlKYGXZvUUB0iC2hGoYH6rmRG6UDT311sjMXBV93SA68e2czUbElzenCsAWYfTeVscwJbYoZDe8rbPVdmH7Q3KsjjKSMToSoa8zrrYAmGOaaSIxSEsZtpsDhRKm_E53XKaotozHUWfi8YxjEaXJSRFJhrLCXGiI85j51pEdDEPSAbtawx9bkLaD_yKM_3USghOuqvn21gYC6YlGGr7vhHinmAm3eSlfBWRXrOZ2bcDVq5azT2gxejk20XWSzj2Q4B4xaE6Yec_-Be3ehHV8ra5bOmhLiAGyDvEfD_Iei01mzeV1HJD6llmYceHwgw5iGWCRhYBW_lgXCZPtn9TNb1AUDI_bwWlDNcXZgaL64OsqLIYxmPI7xum6VvBqMX36vJa7d4dNhnbSuYCkEo3myTJBWSoqU5fqZfiufQZkNI46CSOklB1RgGMuGez_UNiKDOmoAYCU60Slnzy-jLiFVvCzX-FEYZ2UabTzy75Ve7d1iq1bS9idmAHwgurQSWJ7zIxe4QG8Fr1kbowM6sqWN4=w1130-h635-no
 
Top