عمار ابن ضیا
محفلین
یوں تو اس روداد کا آغاز اس وقت سے ہونا چاہیے جب بیٹھے بٹھائے اچانک تقریب کے مہمانِ خصوصی نے ملاقات کی روداد لکھنے کی ذمہ داری ہم پر عائد فرما دی، لیکن ہم پھر بھی تمام خاطرات ملحوظ رکھتے ہوئے ابتدا سے حال بیان کرنے کو تیار ہیں۔
چند دن پہلے ابوشامل (فہد کیہر) کا پیغام آیا کہ اتوار، ۲۱ جولائی کو محب علوی کراچی آ رہے ہیں لہٰذا اگلے دن افطار پر ملاقات رکھ لیتے ہیں۔ ہم تو ایسی ملاقاتوں کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ فوراً رضامندی ظاہر کی۔ فہد اسی انتظار میں تھے، انھوں نے اگلے ہی لمحے چند احباب کے نام بتاکر انھیں مطلع کرنے کی ذمہ داری ہمارے سر ڈال دی۔ چناں چہ، ہم نے شعیب صفدر، فہیم اور کاشف نصیر کو پیغام بھیجا اور سب جیسے ہماری طرح تیار بیٹھے تھے۔
طے پایا تھا کہ نرسری پر واقع کراچی فوڈز پر ملاقات رکھیں گے جہاں گزشتہ سال بھی ایک افطار ملاقات ہوچکی ہے؛ لیکن عین ملاقات کے دن فہد بھائی نے اطلاع دی کہ محب چوں کہ صدر میں واقع ہوٹل سراوان میں ٹھہرے ہیں لہٰذا ملاقات بھی وہیں ہوگی۔ ہم چوں کہ دفتر میں تھے اور موبائل کریڈیٹ سے غیر مسلح تھے اس لیے اس بار ہم نے سب دوستوں سے رابطہ کرنے کی ذمہ داری فہد بھائی ہی کے سر رکھی۔
یوں تو ہمیں شام چھ، ساڑھے بجے گھر سے نکل جانا چاہیے تھا کہ افطار کا وقت آج کل سات بج کر بیس منٹ کے آس پاس ہے اور ہمارے گھر سے صدر تک کا فاصلہ بھی کوئی آدھ گھنٹے کا ہے لیکن ہم نے خوب جی کڑا کرکے فیصلہ کیا کہ آج ہم پہلی بار شارعِ فیصل پر موٹر بائیک دوڑائیں گے (ہماری نالائقی واضح رہے کہ ہم نے یہ خوف ناک سواری بس ابھی پچھلے ہی دنوں سیکھی ہے)۔ بہ ہر حال، جب تقریباً سات بجے ابو گھر پہنچے تو ہم نے ان کی بائیک کی چابیوں اور کاغذات پر قبضہ کیا، اللہ کا نام لیا اور یہ جا وہ جا۔
راستے بھر منھ منھ میں پڑھتے پڑھاتے احتیاط سے بائیک کو کبھی آہستہ اور کبھی تیز دوڑاتے جب ہم ہوٹل سراوان کے پاس پہنچے تو یوں سمجھیے کہ بالکل بروقت پہنچے کہ افطار میں کوئی پانچ منٹ باقی تھے۔ کاشف نصیر کی فون کال آ رہی تھی۔ انھوں نے اطلاع دی کہ تمام احباب ہوٹل سراوان کے سامنے ہوٹل الحرمین میں موجود ہیں۔ ہم نے بائیک کنارے لگائی، دیکھا تو کاشف اپنی گاڑی میں کچھ کھوج رہے ہیں۔ آخر، ان کے ہاتھ میں ان کی مطلوبہ چیز آ ہی گئی، ان کا کیمرا۔
پھر، ہم دونوں ایک ساتھ ہوٹل میں داخل ہوئے تو دیکھتے ہیں کہ تمام احباب خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ محب علوی تو خیر مہمانِ خصوصی اور میزبانِ خصوصی، دونوں ہی درجات پر فائز تھے، اس کے علاوہ فہد کیہر، شعیب صفدر، فہیم اسلم، وقار اعظم اور محمداحمد بھی رونقِ محفل تھے۔
چند دن پہلے ابوشامل (فہد کیہر) کا پیغام آیا کہ اتوار، ۲۱ جولائی کو محب علوی کراچی آ رہے ہیں لہٰذا اگلے دن افطار پر ملاقات رکھ لیتے ہیں۔ ہم تو ایسی ملاقاتوں کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ فوراً رضامندی ظاہر کی۔ فہد اسی انتظار میں تھے، انھوں نے اگلے ہی لمحے چند احباب کے نام بتاکر انھیں مطلع کرنے کی ذمہ داری ہمارے سر ڈال دی۔ چناں چہ، ہم نے شعیب صفدر، فہیم اور کاشف نصیر کو پیغام بھیجا اور سب جیسے ہماری طرح تیار بیٹھے تھے۔
طے پایا تھا کہ نرسری پر واقع کراچی فوڈز پر ملاقات رکھیں گے جہاں گزشتہ سال بھی ایک افطار ملاقات ہوچکی ہے؛ لیکن عین ملاقات کے دن فہد بھائی نے اطلاع دی کہ محب چوں کہ صدر میں واقع ہوٹل سراوان میں ٹھہرے ہیں لہٰذا ملاقات بھی وہیں ہوگی۔ ہم چوں کہ دفتر میں تھے اور موبائل کریڈیٹ سے غیر مسلح تھے اس لیے اس بار ہم نے سب دوستوں سے رابطہ کرنے کی ذمہ داری فہد بھائی ہی کے سر رکھی۔
یوں تو ہمیں شام چھ، ساڑھے بجے گھر سے نکل جانا چاہیے تھا کہ افطار کا وقت آج کل سات بج کر بیس منٹ کے آس پاس ہے اور ہمارے گھر سے صدر تک کا فاصلہ بھی کوئی آدھ گھنٹے کا ہے لیکن ہم نے خوب جی کڑا کرکے فیصلہ کیا کہ آج ہم پہلی بار شارعِ فیصل پر موٹر بائیک دوڑائیں گے (ہماری نالائقی واضح رہے کہ ہم نے یہ خوف ناک سواری بس ابھی پچھلے ہی دنوں سیکھی ہے)۔ بہ ہر حال، جب تقریباً سات بجے ابو گھر پہنچے تو ہم نے ان کی بائیک کی چابیوں اور کاغذات پر قبضہ کیا، اللہ کا نام لیا اور یہ جا وہ جا۔
راستے بھر منھ منھ میں پڑھتے پڑھاتے احتیاط سے بائیک کو کبھی آہستہ اور کبھی تیز دوڑاتے جب ہم ہوٹل سراوان کے پاس پہنچے تو یوں سمجھیے کہ بالکل بروقت پہنچے کہ افطار میں کوئی پانچ منٹ باقی تھے۔ کاشف نصیر کی فون کال آ رہی تھی۔ انھوں نے اطلاع دی کہ تمام احباب ہوٹل سراوان کے سامنے ہوٹل الحرمین میں موجود ہیں۔ ہم نے بائیک کنارے لگائی، دیکھا تو کاشف اپنی گاڑی میں کچھ کھوج رہے ہیں۔ آخر، ان کے ہاتھ میں ان کی مطلوبہ چیز آ ہی گئی، ان کا کیمرا۔
پھر، ہم دونوں ایک ساتھ ہوٹل میں داخل ہوئے تو دیکھتے ہیں کہ تمام احباب خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ محب علوی تو خیر مہمانِ خصوصی اور میزبانِ خصوصی، دونوں ہی درجات پر فائز تھے، اس کے علاوہ فہد کیہر، شعیب صفدر، فہیم اسلم، وقار اعظم اور محمداحمد بھی رونقِ محفل تھے۔
آخری تدوین: