کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمداحمد

لائبریرین
اردو محفل کا سالانہ مشاعرہ 2014

شعر و ادب سے تعلق رکھنے والے احباب کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ
اردو محفل کی نویں سالگرہ کی تقریبات
کا آغاز ہوچکا ہے۔ دوسرا ہفتہ محفلِ ادب کی سرگرمیوں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے

اس سلسلے میں اردومحفل کے سالانہ عالمی مشاعرے 2014
کا انعقادکیا جارہا ہے۔

شعراء کرام کو ، باقاعدہ دعوت نامہ ارسال کیا جا چکا ہے اور ان سے درخواست ہے
کہ جوں ہی ان کے نام کا اعلان کیا جائے اور شمع دان
ان کے سامنے رکھی جائے
وہ محفل کی اس لڑی میں تشریف لائیں اور تمام محفلین کو اپنے قیمتی کلام سے نوازیں


مشاعرے میں نشت و برخاست کا مکمل تہذیبی پاس رکھتے ہوئے
صدرِ مشاعرہ اور مہمانِ خصوصی کی مسند بھی رکھی گئی ہے۔

محفلین داد پسند کی ناب سے ہی ادا کرپا ئیں گے، البتہ
باقاعدہ تبصرہ جات کے لیے الگ لڑی کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔

زیرِ سرپرستی: عزت مآب جناب محمد وارث صاحب
مہمانانِ گرامی
صدارت: عزت مآب جناب اعجاز عبید صاحب
مہمانِ خصوصی: عزت مآب جناب محمد یعقوب آسی صاحب



آپ کی بھر پور شرکت کے متمنی
منتظمین:
خرم شہزاد خرم (ناظم ِ مشاعرہ)
مہدی نقوی حجاز(ناظم ِ مشاعرہ)
محمد خلیل الرحمٰن
محمد اسامہ سرسری
محمد بلال اعظم
اور
محمد احمد
 

محمداحمد

لائبریرین
مشاعرے کا آغاز کرتے ہیں محترم جناب مظفر وارثی صاحب کے دلنشین حمدیہ کلام سے:

تیرا بندہ تری توصیف و ثنا کرتا ہے
میرا ہر سانس ترا شکر ادا کرتا ہے
تیرے آگے مری جھکتی ہوئی پیشانی سے
میری ہر صبح کا آغاز ہوا کرتا ہے
رحمتیں دیتی ہیں آواز گنہ گاروں کو
یہ کرشمہ بھی ترا عفو کیا کرتا ہے
رزق پہنچاتا ہے پتھر میں چھپے کیڑے کو
تو ہی سوکھی ہوئی شاخوں کو ہرا کرتا ہے
زندگی پر کبھی اتراؤں نہ مرنے سے ڈروں
تو ہی پیدا بھی کرے تو ہی فنا کرتا ہے
تیرے الطاف کسی کے لیے مخصوص نہیں
تو ہر اک چاہنے والے کی سنا کرتا ہے
خیر مقدم کیا کرتی ہیں اسی کی راہیں
تیرے کہنے کے مطابق جو چلا کرتا ہے

اور یہ خوبصورت نعت بھی محترم جناب مظفر وارثی کے قلم سے

یا رحمتہ العالمیں
الہام جامہ ہے تیرا
قرآں عمامہ ہے تیرا
منبر تیرا عرشِ بریں
یا رحتمہ العالمیں

آئینہء رحمت بدن
سانسیں چراغِ علم و فن
قربِ الٰہی تیرا گھر
الفقر و فخری تیرا دھن
خوشبو تیری جوئے کرم
آنکھیں تیری بابِ حرم
نُورِ ازل تیری جبیں
یا رحمتہ العالمیں

تیری خموشی بھی اذاں
نیندیں بھی تیری رتجگے
تیری حیاتِ پاک کا
ہر لمحہ پیغمبر لگے
خیرالبشر رُتبہ تیرا
آوازِ حق خطبہ تیرا
آفاق تیرے سامعیں
یا رحمتہ العالمیں

قبضہ تیری پرچھائیں کا
بینائی پر ادراک پر
قدموں کی جنبش خاک پر
اور آہٹیں افلاک پر
گردِ سفر تاروں کی ضَو
مرقب براقِ تیز رَو
سائیس جبرئیلِ امیں
یا رحمتہ العالمیں

تو آفتابِ غار بھی
تو پرچم ِ یلغار بھی
عجز و وفا بھی ، پیار بھی
شہ زور بھی سالار بھی
تیری زرہ فتح و ظفر
صدق و وفا تیری سپر
تیغ و تبر صبر و یقیں
یا رحمۃ للعالمیں

پھر گڈریوں کو لعل دے
جاں پتھروں میں ڈال دے
حاوی ہوں مستقبل پہ ہم
ماضی سا ہم کو حال دے
دعویٰ ہے تیری چاہ کا
اس امتِ گُم راہ کا
تیرے سوا کوئی نہیں
یا رحمتہ العالمیں


شاعر: مظفر وارثی
 

محمداحمد

لائبریرین
اور اب مشاعرے کی روایت کو نبھاتے ہوئے بطورِ ناظمِ مشاعرہ خاکسار اپنا کلام پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہے۔

سب سے پہلے ایک غزل سے کچھ اشعار:

اک تعلق کہ گلِ تازہ پہ ہنستی خوشبو
اک تصور کہ شب و روز برستی خوشبو

تھام کر دستِ صبا خوابِ عدم ہوتی ہے
گُلفروشوں کے بدن میں نہیں بستی خوشبو

میں دکھاوے کی محبت کا نہیں ہوں قائل
میں لگاتا نہیں اظہار کی سستی خوشبو

میں کہ پر شوق پرندہ ہے تخیّل میرا
تو ورا الماورا ہے، تری ہستی خوشبو

وہی اطوار ہیں دنیا ترے اُس شوخ کے سے
وہی پھولوں سا بدن ہے وہی ڈستی خوشبو

********
کچھ مزید اشعار ایک اور غزل سے:

ہوا چلے یا رُکے خوشنما سماں ہو جائے
یہ سات رنگ کا آنچل جو بادباں ہو جائے

سُلگ رہا ہوں کئی دن سے اپنے کمرے میں
دریچہ کھولوں تو دنیا دھواں دھواں ہو جائے

بدل کے نام سُنا رکھی ہے اُسے ہر بات
یہ ایک بات بتا دوں تو رازداں ہو جائے

میں اپنے آپ کو چھوڑ آیا ہوں کہیں پیچھے
کچھ اور تیز چلوں میں تو کارواں ہو جائے

یہیں کہیں وہ مرے ساتھ تھا، میں سوچتا ہوں
یہاں گھڑی دو گھڑی کوئی سائباں ہو جائے

یہ انتشار ہے ترتیبِ نو نہ جان اسے
کہ کائنات کی ہر شے یہاں وہاں ہو جائے

سرشکِ غم کو تبسم کی سیپ میں رکھیے
کہ راز راز رہے، حالِ دل بیاں ہو جائے

پروں پہ تتلی کے پیغام لکھ کے بھیجوں میں
ہوا کا جھونکا کسی دن خبر رساں ہو جائے

جہاں کی رِیت ہے کُہرام مچنے لگتا ہے
کسی کو عشق ہو یا مرگِ ناگہاں ہو جائے

ابھی تو جسم مرا دھوپ کی امان میں ہے
پرائے سائے میں آ کر نہ بے اماں ہو جائے

ہے اس جہان کی ہر بات عام سی لیکن
جو سچے شعر میں ڈھل جائے داستاں ہو جائے
بہت شکریہ​
 

غزالہ ظفر

محفلین
صاحبِ صدر ، شعرائے کرام اور تمام حاضرین ! السّلام علیکم!

اردو محفل کو اس کی نویں سالگرہ مبارک ہو! اس سالگرہ کو یاد گار بنانے کے لیے میں تمام منتظمین کو اس مشاعرے کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتی ہوں ۔۔۔ مجھ نو آموز کو اس مشاعرے میں شامل کرنے کے لیے آپ سب کابے حد شکریہ!

صدرِ محفل کی اجازت سےمیں یہاں اپنی ایک نظم پیش کرنا چاہوں گی جس کا عنوان ہے "کیوں؟"
لیکن اس سے پہلے ، آپ کی اجازت سے اپنی ایک غزل کے چند اشعار پیش کرتی ہوں :


پھر عمل لائے گا رنگ، پھر سحرہوجائے گی
تیرے خوابوں کو نئی تعبیر پھر مل جائے گی


پھر قلم لکھ جائے گا تاریخ کی اِک داستاں
محفلِ اربابِ دانش پھر جواں ہو جائے گی


یہ لکھا دیوار پر ہے روزِ روشن کی طرح
مہرِِ تاباں کی چمک تاریک دن پر چھائے گی

*****

نظم پیش کرتی ہوں جس کا عنوان ہے " کیوں؟ "


کام جب بھی کہیں بگڑتا ہے
مرد الزام زن پہ دھرتا ہے


کوئی اولاد جب بگڑتی ہے
اُنگلی ماں کی طرف ہی اُٹھتی ہے


جب فرائض کی بات ہوتی ہے
ماں پہ بیوی پہ بات ہوتی ہے


قصّہ ابلیس کا میں پڑھتی ہوں
دل پہ اک بوجھ لے کے اُٹھتی ہوں


بات شیطان کی وہ کرتے ہیں
اور الزام ماں پہ دھرتے ہیں


باوا آدم ، وہ شجرِ ممنوعہ
کیا یہ قصّہ نہیں تھا مرقومہ؟


جنّت اک عارضی ٹھکانہ تھا
اُن کو آخر زمیں پہ آنا تھا


پھر ہراِک بات پر بہانہ کیوں؟
عورتوں پر ہی ہے نشانہ کیوں؟
 
مدیر کی آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
پھر عمل لائے گا رنگ، پھر سحرہوجائے گی
تیرے خوابوں کو نئی تعبیر پھر مل جائے گی

یہ لکھا دیوار پر ہے روزِ روشن کی طرح
مہرِِ تاباں کی چمک تاریک دن پر چھائے گی

اشعار کی صورت میں یہ خوبصورت خیالات تھے محترمہ غزالہ ظفر صاحبہ کے۔

اور اب ہم دعوتِ کلام دیتے ہیں ہر دلعزیز محفلین محترم خرم شہزاد خرم صاحب کو کہ وہ محفلِ مشاعرہ کی رونق کو بڑھاتے ہوئے اپنا کلام پیش کریں۔

محترم خرم شہزاد خرم صاحب
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت شکریہ پیارے بھائی احمد صاحب کا جن کی وجہ سے ہم مشاعرے میں موجود ہیں۔ اردو محفل کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ قائم رکھے کہ یہ ہماری استاد ہے اوراساتذہ کی بستی بھی۔
جنابِ صدر کی اجازت سے کچھ بے تکا کلام پیش کرتا ہوں۔

ایک شعر دسمبر کے حوالے سے لیکن جولائی میں۔

سرد لہجے یہاں ہیں لوگوں کے
تم دسمبر کی بات کرتے ہو

دو شعر

اپنی اوقات میں رکھا ہوا ہوں
چاند ہوں رات میں رکھا ہوا ہوں

میں وہ شکوہ ہوں جو گفتگو کے لیے
تیری ہر بات میں رکھا ہوا ہوں
اور اب ایک غزل پیش خدمت ہے اس کے بعد اجازت چاہوں گا

سُنا ہے ریت کے صحرہ میں مینہ برستے ہیں
وہ بات بات پہ جب کھیل کھلا کے ہنستے ہیں

میں تیری قید میں رہنے کا خود ہی قائل ہوں
وگرنہ بھاگ نکلنے کے سارے رستے ہیں

ہمارے دام لگانے کو تم نہیں آتے
یقین مانوں کہ ہم بے حساب سستے ہیں

ہمارے حال سے ہم کو نا جانئے تنہا
غموں کے ساتھ ہمارے ہزار دستے ہیں

ہمیں نصابِ محبت کی کیا خبر خرم
کتابِ عشق سے خالی ہمارے بستے ہیں

آپ کی محبت کا بہت شکریہ اجازت چاہتا ہوں
 

محمداحمد

لائبریرین
اپنی اوقات میں رکھا ہوا ہوں
چاند ہوں رات میں رکھا ہوا ہوں

میں وہ شکوہ ہوں جو گفتگو کے لیے
تیری ہر بات میں رکھا ہوا ہوں

یہ تھے محترم خرم شہزاد خرم صاحب

اور اب میں دعوتِ کلام دیتا ہوں محترم واسطی خٹک صاحب کو کہ وہ اپنے خوبصورت کلام سے حاضرینِ مشاعرہ کے ذوق کی تسکین فرمائیں۔

جناب واسطی خٹک صاحب ۔۔۔۔!
 

الف عین

لائبریرین
کم از کم اطلاع تو دے ہی دوں کہ ما بدولت بھی اپنی مسند پر براجمان ہیں۔
اب اگلے شاعر یا شاعرہ کے پاس شمع لائی جائے۔
 

واسطی خٹک

محفلین
سب سے اول اردو محفل کا بہت بہت شکریہ
کہ جس نے مجھے اس قابل سمجھا..
السلام علیکم دوستوں
سلام کے بعدکلام ملاحظہ فرمائیں

گرایا خود ہی جب تو نے اٹھانا چهوڑ دو صاحب
مرے زخموں پہ اب مرہم لگانا چهوڑ دو صاحب

ہمیں تم سے محبت ہے زمانے کی پڑی تم کو
ہمیں باتیں کرو اپنی زمانہ چهوڑ دو صاحب

ترا چہرہ مرے دل میں تجهے ہم کیسے سمجھائیں
مری نظروں سے اب چہرہ چپهانا چهوڑ دو صاحب

محبت کا کوئی جذبہ رکھو دل میں مرے ہمدم
عداوت کی زمینوں پر اگانا چهوڑ دو صاحب

والسلام
 
آخری تدوین:
محبت کا کوئی جذبہ رکھو دل میں مرے ہمدم
عداوت کی زمینوں پر اگانا چهوڑ دو صاحب

جناب واسطی خٹک صاحب اپنا کلام پیش کر رہے تھے۔

ساتھ ہم محفلِ مشاعرہ میں، رونقِ بزم اور اس مشاعرے کے مہمان خصوصی جناب قبلہ یعقوب آسیؔ صاحب کا خیر مقدم کرتے ہیں، اور ان کی تشریف آوری پر ان کے ممنون ہیں۔
مشاعرے کے صاحبِ صدر جناب اعجاز عبید صاحب قبلہ بھی تشریف لا چکے ہیں، کہ ان کا وجود گوارائے جانِ مشاعرہ ہے۔ بہت خوش آمدید جناب، اور بہت نوازش۔
اب شمعِ محفل محترمہ نور سعدیہ شیخ صاحبہ کے مقابل لائی جاتی ہے۔ فرماتی ہیں:


پامال دل کے ارماں کرکے ہوا پشیماں
افسوس سے مٹے غم تو اضطرار کیسا

الفت کی آڑ میں بھی پوشیدہ راز تو ہے
یہ انتقام گر ہے، تو اس میں بار کیسا
نور سعدیہ شیخ صاحبہ!
 

نور وجدان

لائبریرین
سب سے پہلے تو بہت شکریہ محترم منتظیمین محفل اور صدرِ محفل کا مجھے اس قابل گردانا کہ میں اس میں شرکت کر سکوں ... شکریہ

تمھارے خواب سے نکل سکوں تو کوئی کام ہو
میں اس سراب سے نکل سکوں تو کوئی کام ہو
٭٭

تمام روز و شب تیرے فراق میں جو کٹ گئے
اس احتساب سے نکل سکوں تو کوئی کام ہو

٭٭
میں مشت خاک جس کو کہکشاں صدائیں دیتی ہیں
زمیں کے باب سے نکل سکوں تو کوئی کام ہو۔
٭٭

عبادتوں سے قرب اور لذتوں سے فاصلہ
سنِ شباب سے نکل سکوں تو کوئی کام ہو
٭٭

مَنُش ہوں رست زندگی کی شوخیاں لُبھاتی ہیں
مے اور شراب سے نکل سکوں تو کوئی کام ہو
٭٭

مجھے اکیلی راتوں کی وہ یادیں اب ستاتی ہیں
خودی کے باب سے نکل سکوں تو کوئی کام ہو
...................................................................


مجھ پہ گزری یہ ابتلا برسوں
میں رہی تجھ میں مبتلا برسوں
٭٭
وہ دیا لے گئی ہوا کیونکر
میری امید جو رہا برسوں
٭٭
اسکو مدت ہوئی نہیں دیکھا
جو کہ دل میں بسا رہا برسوں
٭٭
اس کی ہی ذات کے بیاباں میں
دل اسے ڈھونڈتا پھرا برسوں
٭٭
شہر ویران کر گیا ہے وہ
بن کے جس میں رہا خدا برسوں
٭٭
ایک آنسو نے فاش کر ڈالا
راز جو تھا نہیں کُھلا برسوں
٭٭
اس کا آسیب مجھ پہ ہےچھایا
جو رہا تھا مجھ پہ فدا برسوں
٭٭
آج بھی آ گئی وہی نوبت
وہ جو کل ہے ہوا، ہوا برسوں
...................................


مجھے تو وقت نے تھمنے کا حوصلہ نہ دیا
مرا نصیب تھا ایسا، دیا دیا، نہ دیا
÷÷÷÷
اُڑان بھر نہ سکی میں، چلی ہوا ایسی
کوئی مدد کو جو آیا تو راستہ نہ دیا
÷÷÷÷
مثال دوں بھی تو کیا دوں جب ارسطو نے
کسی بھی طور فلاطوں کو حوصلہ نہ دیا
÷÷÷÷
بھلائی کرتی رہی میں سبھی تھا لاحاصل
برا کیا ہے سبھی نے کبھی صلہ نہ دیا
÷÷÷÷
یہ کیا کہ رنج دیے بےشمار تُو نے مگر
انہیں سہار سکوں، ایسا حوصلہ نہ دیا
÷÷÷÷
ِدوانی جان کے کھاتے رے ترس تو لیکن
کسی نے تھام مرے ہاتھ آسرا نہ دیا
÷÷÷
خیال اُس کا مرے دل سے نوچ دے کوئی
کہ جس نے نورؔ، محبت کا بھی صلہ نہ دیا


عزت افزائی پر شکر گزار ہوں ....
 

محمداحمد

لائبریرین
مجھ پہ گزری یہ ابتلا برسوں
میں رہی تجھ میں مبتلا برسوں

وہ دیا لے گئی ہوا کیونکر
میری امید جو رہا برسوں

اپنے پر خیال کلام سے اہلِ محفل کے ذوق کی تشکین کا سامان کر رہیں تھیں محترمہ نور سعدیہ شیخ صاحبہ ۔

اب میں ملتمس ہوں محترم وفا عباس صاحب سے کہ وہ اپنے کلام سے مشاعرے کی رونق بڑھائیں۔
 
آخری تدوین:

وفا عباس

محفلین
سب سے پہلے میں شکر گذار ہوں محترمانِ منتظیمین اور صدرِ محفلجنہوں نے اختلاط ہوکر ادب کی ایک طرز جستجو کو اعلیٰ مقام اور ہر سال کی طرح اس سال بھی اپنی کوشش قاءم و دام رکھی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مجھے بیحد خوشی ہوءی کے میں اس میں حصہ لے رہا ہوں۔۔۔!!میں اپنا کلام پیش کرنا چاہے۔۔۔

غزل
------------------------
اگر شمع دل خاک تدبیر ہوتی
کہ ذلت میں یوں آج انساں نہ رہتا
مُرَوَّت جو دل سے ہی نکلے تو اچھّا
کہ نفرت بھری دل میں ایماں نہ رہتا
جو نکلے تھے ہم راہ غفلت میں یارو
کسی دوست پے کوئی بہتاں نہ رہتا
ہوائیں اگر چل پڑی بے ادب سے
کہ موسم بدلنے سےطوفاں نہ رہتا
عجب شمعِ پہلو میں ہے انجمن کی
کہ دل میں ترا ہم کو ارماں نہ رہتا
امانت ہے میرا یہ پیکر زمیں کا
مگر موت کا یوں فرشتہ نگہباں نہ رہتا
فنا ہونا ہے زندگی میں وفاؔ کو
کبھی دل میں حسرت کہ امکاں نہ رہتا
-----------------------
وفاؔ عباس

ایک اور غزل محفیلین کی خدمت میں

غزل
---------------------------------------------
اس محفل میں اک وہ نہ تھی نم، جب دل نے پکارا اس دن تھا
جب دل سے دل کا دل نہ لگا، تب موت نے مارا اس دن تھا
اس ایندھن میں ہم گر ہی پڑے، جو روگِ محبت کہتے ہیں
جب رونا ہم پے ضبط نہ تھا، انساں نے پکارا اس دن تھا
ہم صحرا میں جب دفن نہ تھے، ہر روز بغاوت کرتے تھے
اپنی اپنی حسرت میں مرے، پھولوں پے جنازہ اس دن تھا
اک ہم ہی غافل یاد نہ تھے، جب یاد نے دل پے دستک دی
پھولوں سے خوشبو جاتی رہی، ہر پیڑ امارہ اس دن تھا
کے اس سے ہم جب دور رہے، ہر بات کہ مطلب سیدھا تھا
اک ہم نا تھے شب ِ غم میں وفاؔ، ہر درد کہ مارا اس دن تھا
---------------------------------------
وفاؔ عباس
 
مدیر کی آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
اگر شمع دل خاک تدبیر ہوتی
کہ ذلت میں یوں آج انساں نہ رہتا

مُرَوَّت جو دل سے ہی نکلے تو اچھّا
کہ نفرت بھری دل میں ایماں نہ رہتا

محترم وفا عباس صاحب اپنا کلام پیش کر رہے تھے۔ اب ہم دعوتِ کلام دیتے ہیں محترم کاشف سعید صاحب کو کہ وہ محفل میں اپنا خوبصورت کلام پیش کریں۔
 

کاشف سعید

محفلین
السلام وعلیکم،

اس مشاعرے میں شرکت کا اعزاز پا کر بہت خوش ہوں۔ اپنا ٹوٹا پھوٹا کلام پیشِ خدمت کر رہا ہوں۔

غزل

دل کی دنیا کا سکندر ہو جاؤں گا

تیاگ کر سب میں قلندر ہو جاؤں گا

قطرہ قطرہ پیتا جاؤں گا زندگی

اور پھر اک دن سمندر ہو جاؤں گا

میں ہی اس جانب ہوں، میں ہوں اُس سمت بھی

میں ہی درماں،میں ہی خنجر ہو جاؤں گا

یوں جتن سے ہے اُٹھایا پہلا قدم

مڑ کے جو دیکھا تو پتھر ہو جاؤں گا

پہلے چلوں گا کسی پیغمبر کے ساتھ

خود ہی اپنا پھر میں رہبر ہو جاؤں گا

تیرا ملنا عارضی، ایسا ہی سہی

یہ تو ہو گا میں معطر ہو جاؤں گا

تب بھی تیرے قدموں میں عزت ہو گی ماں

جب میں سورج کے برابر ہو جاؤں گا

دوسروں کی روشنی سےدیکھا جہاں

اور گماں یہ تھا سخن ور ہو جاؤں گا

بہت شکریہ۔
-----------------------------------------------------
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top