تو اگر میرا چارہ گر ہوتا
یوں نہیں مجھ سے بے خبر ہوتا
خوبصورت اشعار سنا رہے تھے محترم ابن رضا صاحب۔۔۔!
محترم
محمد اظہر نذیر صاحب سے مشاعرے میں دستیابی کا عندیہ ملا ہے سو ہم اُنہی مشاعرے میں اپنا کلام پیش کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
محترم محمد اظہر نذیر صاحب۔۔۔۔!
السلام و علیکُم و رحمتہ اللہ تعالیٰ و باراکاتہ
منتظمین مشاعرہ اور سبھی احباب سے معذرت کہ شہر سے دوری کی بنا پر اپنی باری پر حاضر نہ ہو پایا ، اللہ رب العزت کا شکر کہ بندہ کو اس قابل بنایا کہ دوست ایسے موقع پر یاد کرتے ہیں ، ورنہ بندہ ناچیز کس قابل۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کے بعد میں اپنے اساتذہ محترم جناب
الف عین اور محترم جناب رفیع اللہ میاں کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ مجھ سے کوڑھ مغز پر اتنی محنت کی کہ آج یہاں آپ کے سامنے کلام پیش کر رہا ہوں
سب سے پہلے نبی پاکٖ کے حضور ایک حقیر کا نذرانہ
تیرا مقصود مدینہ ہے نہ کعبہ، کیا ہے
اور جانب کوئی منزل کوئی رستہ کیا ہے
اُس کی اور میری محبت کا وہی مرکز ہے
کون سمجھے گا مرا اُس سے یہ ناتا کیا ہے
ساگر دید مدینے کو ہی مرکز تُو بنا
یہ ادھر اور اُدھر ہو کے تو بہتا کیا ہے
میں تو گلیوں میں مدینے کی کئی بار گیا
جب بھی پہنچا تو کہا خود سے کہ دیکھا کیا ہے
میری جانب تُو مدینے سے چلا کر اے ہوا
اُن کے روضے سے نہ ہو آئے تو جھونکا کیا ہے
میں تو اس حرف کی نسبت سے یہی سمجھا ہوں
بعد اللہ، محمد نہ ہو، اپنا کیا ہے
کچھ بھی لکھو تو بہت سوچ کے لکھنا اظہر
ہے پکڑ اس کی، محمدﷺ پہ یہ لکھا کیا ہے
اب ایک آزاد نظم
بستہ حیات
کائناتی پردے پر
معلوم حیات جیسے بستہ ہو گئی ہے
منظر تبدیل کیوں نہیں ہو رہا؟
یوں لگتا ہے کہ صدیوں سے
یہی منظر جاگتی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں
کیوں نہیں سو رہا؟
پر سونے سے کیا منظر تبدیل ہو جائے گا؟
کرب کا وہی عالم ہے
بلا ٹلی نہیں
گلے میں خشک کانٹے لئے حیات
آج بھی دم توڑ رہی ہے
اس منظر میں، میں کون ہوں؟
آگے بڑھ کر مرنے والی کو
پانی کیوں نہیں پلا پاتا؟
ایک تازہ غزل پیش ہے
محبتوں کا محبت جواب، کیسے دوں
رہے جو تشنئہ تعبیر، خواب کیسے دوں
عجب ستم ہے کہ بندھے ہوئے ہیں ہاتھ مرے
تُمہیں میں سُرخ مہکتا گُلاب کیسے دوں
نمو فراق کا ہونا ہے جس کی مٹی میں
اُسی زمین میں اُلفت کو داب کیسے دوں
مجھے ہے خوف، مری سوچ پڑھ نہ لے کوئی
ترے خیال پہ گہرا نقاب کیسے دوں
حیات بھر کی جو آمد ہے، خرچ ہے میرا
پڑا ہوں سوچ میں سارا حساب کیسے دوں
نہ اختیار میں اظہر ہو جب ترا قصہ
بتا ملن کا کہانی کو باب کیسے دوں
جدت کے نام پر کچھ انٹ شنٹ
اب کہ اُٹھتا ہوا شعلوں سے دھنواں پکڑیں گے
کیا ہے اس آگ کے پردے میں نہاں پکڑیں گے
پھر بھی چھوڑو گے کہاں اُس کی گلی تُم جانا
شوق آوارہ جو قدموں کے نشاں پکڑیں گے
اب کہ پابند سلاسل نہیں بس شہر کے بیچ
آہ روکیں گے مری اور فغاں پکڑیں گے
اتنا مُشکل بھی نہیں خواب حقیقت کرنا
ہاتھ آ جائے یقیں ایسے گماں پکڑیں گے
ہاتھ لمبے تو ہیں، پر آپ کے سو ہاتھ کہاں
بولنے دیجئے، کس کس کی زباں پکڑیں گے
حاصل عشق مرا جو بھی ہوا اب اظہر
سود ممنوع ہے، سودے میں زیاں پکڑیں گے
اور نہایت میں ایک عاجزانہ سی تازہ بہ تازہ کاوش
کیا ہے انمول، دام ہوتا ہے
یوں ہی کہنے کو نام ہوتا ہے
اب ملاقات ، یاد ماضی ہے
دور سے پر سلام ہوتا ہے
یاد کرتا ہے وہ مجھے بارے
جس گھڑی مجھ سے کام ہوتا ہے
مجھ سے ملتا ہے کچھ نہیں کہتا
دیکھتا ہے، پیام ہوتا ہے
دوڑ جاتی ہے دور کیوں منزل
راستہ دو ہی گام ہوتا ہے
بعد میں ہوش کس کو رہتا ہے
آنکھ ملتی ہے، جام ہوتا ہے
مانتا ہوں کہ تھک گیا اظہر
پر سفر تو تمام ہوتا ہے