کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمداحمد

لائبریرین
امیر شہر نے بانٹی یتیمی کس لیے ہم پر
سوالی دیکھ لو بچے کھڑے حیران سڑکوں پر

خوبصورت نظم اور اشعار پیش کر رہے تھے محترم عابی مکھنوی صاحب۔

اور اب ہم دعوتِ کلام دیتے ہیں محترم مانی عباسی صاحب کو کہ وہ تشریف لائیں اور اپنے دلنشین کلام سے حاضرین کے ذوق کی تسکین کا سامان کریں۔

محترم مانی عباسی صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
 

مانی عباسی

محفلین
سب سے پہلے تو سالگرہ کی مبارک سب کو...
صدر_محفل اور شرکا کی بصارتوں کی نظر ایک غزل

اب ایسا ظلم تو اے حضرتِ صیّاد مت کیجے
قفس سے عشق ہے ہم کو ہمیں آزاد مت کیجے

بلائے ہجر کو یوں تیشۂ فرہاد مت کیجے
یہ کوہِ چشم ہے یاں جوئے اشک ایجاد مت کیجے

اجی قبلہ! زمانہ منکرِ توحید سمجھے گا
خدا کا گھر ہے دل ...دل میں صنم آباد مت کیجے

خیالِ مرگ باعث بن گیا ہے دل کی راحت کا
دکھا کر خواب جینے کا اسے نا شاد مت کیجے

ہے اظہارِ فنِ نشتر زنی کا شَوق مژگاں کو
جگر پر تیر ہنس کے کھائیے فریاد مت کیجے

نہیں انکار مانی کو کہ ربط ان کو عدو سے ہے
مگر یہ کیا نصیحت ہے کہ ان کو یاد مت کیجے

-----------------------------

ایک اور غزل پیش کرتا ھوں

ہو باعث کچھ بھی اس بے آبرو کا ذکر مت کیجے
بہ اندازِ شکایت بھی عدو کا ذکر مت کیجے

ہماری شاعری سن کر لگے وہ ڈانٹنے ہم کو
"یوں اپنے بِیچ کی اس گفتگو کا ذکر مت کیجے"

بنی ہے یار کی آنکھیں سفیرِ بادہ و ساغر
ہمارے آگے اب جام و سبو کا ذکر مت کیجے

ہوا ہے گر شبابِ گل فنا تو کیوں ہے حیرانی
کہا تھا ہم نے رکیے ان کے رو کا ذکر مت کیجے

نہیں ہے خاک بھی مانی تَیَمُّم کو مُیَسَّر جب
لہو رو دیں گے ہم شرطِ وضو کا ذکر مت کیجے

-----------------------------

بس اس غزل کے بعد اجازت چاھوں گا...

ترا کردار یوں میری کہانی کو امرکر دے
بقا کا آب جیسے اک جوانی کو امرکر دے

بچھڑنے کی روایت کیا کسی حد تک ضروری ہے
جدا ہو کر مہک کیوں رات رانی کو امرکر دے

میرے در سے تیری یادیں بھی پیاسی لوٹ جایئں اب
بہا کر اشک چشمِ تر نہ پانی کو امرکر دے

کبھی کچے گھڑے کو تو کبھی مجنوں کی لیلیٰ کو
سنا ھے عشق اگر چاہے تو فانی کو امرکر دے

خدا سے مانگتا ہوں میں دعا بس اب یہی مانی
جہانِ دل میں ملکِ غم کے بانی کو امر کر دے.....
 
مدیر کی آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
اجی قبلہ! زمانہ منکرِ توحید سمجھے گا
خدا کا گھر ہے دل ...دل میں صنم آباد مت کیجے

خیالِ مرگ باعث بن گیا ہے دل کی راحت کا
دکھا کر خواب جینے کا اسے نا شاد مت کیجے

دلفریب اشعار سنا رہے تھے محترم مانی عباسی صاحب۔

اور اب ہم دعوتِ کلام دیتے ہیں محترم عظیم صاحب کو کہ وہ اپنا کلام پیش کریں۔

محترم عظیم صاحب۔۔۔۔!
 

عظیم

محفلین
السلام علیکم

بہت بہت شکریہ احمد بھائی !
اور مَیں آپ سب حضرات کا شُکر گزار ہوں کہ جنہوں نے مجھے اِس مشاعرے کے قابل جانا ۔ معاف کیجئے گا میں بات کرنے کے آداب سے واقف نہیں اِسی لئے بات کو مختصر کرتے ہوئے آپ صاحبان کی اجازت سے اپنی چند ایک نگارشات پیش کرنا چاہوں گا ۔

ایک تازہ غزل کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں ۔



چلو یہ طے تو ہُوا تُم وفا نہیں کرتے
مگر یہ کیا کہ تمہارا گلہ نہیں کرتے

تمہیں سے ملتے ہیں یُوں ٹُوٹ کر وگرنہ ہم
خُود اپنے آپ سے ایسے ملا نہیں کرتے

بُتوں کی ہوگی یہ خُوبی کہ چُپ کئے بیٹھیں
ہمارے علم میں ایسا خُدا نہیں کرتے

ہمارے بخت میں تاریکیاں ہیں بزمِ یار !
اِسی لئے تو چراغاں کِیا نہیں کرتے

عظیم کہتے ہیں صاحب ہمیں جہاں والے
مگر ہم آپ کو صاحب کہا نہیں کرتے



غزل

عشق میں صرف آہ و زاری ہے
نہ کرے جس کو جان پیاری ہے

اِک طرف کھینچتی ہے دُنیا ہمیں
ورنہ جو راہ ہے ، تمہاری ہے

اے شبِ ہجر جانتی ہے کیا
تُو قیامت سے کتنی بھاری ہے

چاہتیں اور بھی ہیں لیکن اب
صرف تیرا جنون طاری ہے

موت کے منتظر رہے ہر پل
زندگی اِس طرح گُزاری ہے

کاش محفل میں پھر سے آ جائے
جس پہ صاحب یہ جان واری ہے


غزل

تُجھ سے بس دِل ہی کیوں لگاتے ہم
جان پیاری تھی ، جاں گنواتے ہم

تُو جو اُن کا پیام لاتی، صبح !
شامِ غم کہہ کے کیوں بلاتے ہم

چھن گئی ہم سے دولتِ دُنیا
کاش تب آخرت کماتے ہم

دیکھنے کو تھے آئینے کیا کیا
تیری صورت جو دیکھ پاتے ہم

اے تغافل پسند کیا تُجھ سے
دُور جانے پہ دُور جاتے ہم

کان میں چیختی تھی خاموشی
کیوں نہ کوئی غزل سناتے ہم

رو چُکے ہم لہو مگر صاحب
تھی تمنا کہ مُسکراتے ہم



کہیں کوئی غلطی ہو گئی ہو تو اُسے میری کم علمی کا نتیجہ جان کر در گُزر فرما دیجئے گا ۔
جزاک اللہ
بہت سی دعائیں ۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بُتوں کی ہوگی یہ خُوبی کہ چُپ کئے بیٹھیں
ہمارے علم میں ایسا خُدا نہیں کرتے

محترم عظیم بھائی کے پرکیف کلام کے بعد ہم اب دعوتِ کلام دیتے ہیں محترم ابن رضا صاحب کو کہ وہ آکر اپنا کلام پیش کریں۔ ابنِ رضا صاحب جو کہتے ہیں:

خوب سے خوب تر کی تاب نہیں
رُک گیا تجھ پہ جستجو کا سفر

محترم ابنِ رضا صاحب ۔۔۔۔!
 

ابن رضا

لائبریرین
السلام علیکم
گرامیِ قدر ناظم مجلس و مہمانِ گرامی آداب عرض کرتا ہوں اور آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے مجھ سے طفلِ مکتب کو حاضری کا موقع دیا اور جنابِ صدر کی اجازت سے اپنی ایک دو تک بندیاں پیش کرتا ہوں۔

=====================
عفوِ بندہ نواز کی معترف ایک غزل
=====================

درِ توبہ وہ دَر ہے جو ہمیشہ ہی کھُلا ہے

تعلق یہ نہ بندے کا خدا سے ٹوٹتا ہے

کوئی جو گم شدہ اپنا اچانک مل گیا ہو
خدا تائب کو یوں چشمِ کرم سے دیکھتا ہے
ترازو کے جو اِک پلڑے میں عصیاں ہوں ہزاروں
تو دوجے میں ندامت کا اِک آنسو ہی بڑا ہے

دِلا دیتی ہے رِندوں کو رہائی نُطقِ شیریں
مگر زاہد، جو بد گو ہو، تو دوزخ ہی سزا ہے


رضا ، راضی ہوں اُس سے میں ، اُسی سے مانگتا ہوں
روا کرتا ہے ہر حاجت ، وہ سنتا جانتا ہے۔



=============
ایک مزید غزل
=============

ہر مداوا، نہ بے اثر ہوتا

دردِ دل لا دوا ، نہ گر ہوتا

تو اگر میرا چارہ گر ہوتا
یوں نہیں مجھ سے بے خبر ہوتا

سرِ صحرا یہی رہی حسرت
کبھی گلشن سے بھی گزر ہوتا


یاد رکھتا جو راستہ اپنا
آج میں یوں نہ در بدر ہوتا!


سب یہاں میری آرزو کرتے
مجھ میں کوئی اگر ہنر ہوتا!


قدرِ منزل کہاں مجھے ہوتی
راستہ گر نہ پُرخطر ہوتا

حال پر میرے چھوڑ دیتا مجھے
خوب ہوتا جو یہ اگر ہوتا
 

محمداحمد

لائبریرین
تو اگر میرا چارہ گر ہوتا
یوں نہیں مجھ سے بے خبر ہوتا

خوبصورت اشعار سنا رہے تھے محترم ابن رضا صاحب۔۔۔!

محترم محمد اظہر نذیر صاحب سے مشاعرے میں دستیابی کا عندیہ ملا ہے سو ہم اُنہی مشاعرے میں اپنا کلام پیش کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔

محترم محمد اظہر نذیر صاحب۔۔۔۔!
 
آخری تدوین:
تو اگر میرا چارہ گر ہوتا
یوں نہیں مجھ سے بے خبر ہوتا

خوبصورت اشعار سنا رہے تھے محترم ابن رضا صاحب۔۔۔!

محترم محمد اظہر نذیر صاحب سے مشاعرے میں دستیابی کا عندیہ ملا ہے سو ہم اُنہی مشاعرے میں اپنا کلام پیش کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔

محترم محمد اظہر نذیر صاحب۔۔۔۔!
السلام و علیکُم و رحمتہ اللہ تعالیٰ و باراکاتہ
منتظمین مشاعرہ اور سبھی احباب سے معذرت کہ شہر سے دوری کی بنا پر اپنی باری پر حاضر نہ ہو پایا ، اللہ رب العزت کا شکر کہ بندہ کو اس قابل بنایا کہ دوست ایسے موقع پر یاد کرتے ہیں ، ورنہ بندہ ناچیز کس قابل۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کے بعد میں اپنے اساتذہ محترم جناب الف عین اور محترم جناب رفیع اللہ میاں کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ مجھ سے کوڑھ مغز پر اتنی محنت کی کہ آج یہاں آپ کے سامنے کلام پیش کر رہا ہوں

سب سے پہلے نبی پاکٖ کے حضور ایک حقیر کا نذرانہ


تیرا مقصود مدینہ ہے نہ کعبہ، کیا ہے
اور جانب کوئی منزل کوئی رستہ کیا ہے

اُس کی اور میری محبت کا وہی مرکز ہے
کون سمجھے گا مرا اُس سے یہ ناتا کیا ہے

ساگر دید مدینے کو ہی مرکز تُو بنا
یہ ادھر اور اُدھر ہو کے تو بہتا کیا ہے

میں تو گلیوں میں مدینے کی کئی بار گیا
جب بھی پہنچا تو کہا خود سے کہ دیکھا کیا ہے

میری جانب تُو مدینے سے چلا کر اے ہوا
اُن کے روضے سے نہ ہو آئے تو جھونکا کیا ہے

میں تو اس حرف کی نسبت سے یہی سمجھا ہوں
بعد اللہ، محمد نہ ہو، اپنا کیا ہے

کچھ بھی لکھو تو بہت سوچ کے لکھنا اظہر
ہے پکڑ اس کی، محمدﷺ پہ یہ لکھا کیا ہے

اب ایک آزاد نظم


بستہ حیات

کائناتی پردے پر
معلوم حیات جیسے بستہ ہو گئی ہے
منظر تبدیل کیوں نہیں ہو رہا؟
یوں لگتا ہے کہ صدیوں سے
یہی منظر جاگتی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں
کیوں نہیں سو رہا؟
پر سونے سے کیا منظر تبدیل ہو جائے گا؟
کرب کا وہی عالم ہے
بلا ٹلی نہیں
گلے میں خشک کانٹے لئے حیات
آج بھی دم توڑ رہی ہے
اس منظر میں، میں کون ہوں؟
آگے بڑھ کر مرنے والی کو
پانی کیوں نہیں پلا پاتا؟

ایک تازہ غزل پیش ہے


محبتوں کا محبت جواب، کیسے دوں
رہے جو تشنئہ تعبیر، خواب کیسے دوں

عجب ستم ہے کہ بندھے ہوئے ہیں ہاتھ مرے
تُمہیں میں سُرخ مہکتا گُلاب کیسے دوں

نمو فراق کا ہونا ہے جس کی مٹی میں
اُسی زمین میں اُلفت کو داب کیسے دوں

مجھے ہے خوف، مری سوچ پڑھ نہ لے کوئی
ترے خیال پہ گہرا نقاب کیسے دوں

حیات بھر کی جو آمد ہے، خرچ ہے میرا
پڑا ہوں سوچ میں سارا حساب کیسے دوں

نہ اختیار میں اظہر ہو جب ترا قصہ
بتا ملن کا کہانی کو باب کیسے دوں
جدت کے نام پر کچھ انٹ شنٹ


اب کہ اُٹھتا ہوا شعلوں سے دھنواں پکڑیں گے
کیا ہے اس آگ کے پردے میں نہاں پکڑیں گے

پھر بھی چھوڑو گے کہاں اُس کی گلی تُم جانا
شوق آوارہ جو قدموں کے نشاں پکڑیں گے

اب کہ پابند سلاسل نہیں بس شہر کے بیچ
آہ روکیں گے مری اور فغاں پکڑیں گے

اتنا مُشکل بھی نہیں خواب حقیقت کرنا
ہاتھ آ جائے یقیں ایسے گماں پکڑیں گے

ہاتھ لمبے تو ہیں، پر آپ کے سو ہاتھ کہاں
بولنے دیجئے، کس کس کی زباں پکڑیں گے

حاصل عشق مرا جو بھی ہوا اب اظہر
سود ممنوع ہے، سودے میں زیاں پکڑیں گے​

اور نہایت میں ایک عاجزانہ سی تازہ بہ تازہ کاوش

کیا ہے انمول، دام ہوتا ہے
یوں ہی کہنے کو نام ہوتا ہے

اب ملاقات ، یاد ماضی ہے
دور سے پر سلام ہوتا ہے

یاد کرتا ہے وہ مجھے بارے
جس گھڑی مجھ سے کام ہوتا ہے

مجھ سے ملتا ہے کچھ نہیں کہتا
دیکھتا ہے، پیام ہوتا ہے

دوڑ جاتی ہے دور کیوں منزل
راستہ دو ہی گام ہوتا ہے

بعد میں ہوش کس کو رہتا ہے
آنکھ ملتی ہے، جام ہوتا ہے

مانتا ہوں کہ تھک گیا اظہر
پر سفر تو تمام ہوتا ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
عجب ستم ہے کہ بندھے ہوئے ہیں ہاتھ مرے
تُمہیں میں سُرخ مہکتا گُلاب کیسے دوں

یہ تھے محترم محمد اظہر نذیر صاحب ۔

اور اب ہم دعوتِ کلام دیں گے محترم سلمان حمید صاحب کو کہ حاضرینِ مشاعرہ کو اپنے کلام سے محظوظ فرمائیں۔

میرے ہاتھوں سے محبت کی خطا ہوتے ہی
بھول بیٹھا ہے مجھے تْو بھی خدا ہوتے ہی

محترم سلمان حمید صاحب۔۔۔!​
 

سلمان حمید

محفلین
میں اس محفل کی سالگرہ کے پر مسرت موقع پر دلی مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ محفل کے تمام ارکان بالخصوص اس مشاعرے میں شامل شعرا اور تمام قارئین کرام کو سلام پیش کرتا ہوں. اور مجھے دعوت کلام دینے کے لیے میں منتظمین کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں.

کچھ پرانا اور کچھ بہت پرانا کلام سنانے کے سوا چارہ نہیں تو بس برداشت کیجئے. ایک بہت پرانی غزل سے آعاز کرتا ہوں.

کبھی جو تو مری الفت کی حد سے پار جائے گا
ترے ہمراہ ان یادوں کا اک انبار جائے گا

تری سوچوں سے میری شام پھر محظوظ ہوتی ہے
کوئی اندر سے ہنستا ہے کہ تو پھر ہار جائے گا

ہواؤ سرسراتے اس طرح گزرو کہ آہٹ ہو
مرے آنگن کا سناٹا مجھے اب مار جائے گا

اسے گر روکنا چاہو تو بے پروائیاں برتو
کہ جتنی بار روکو گے وہ اتنی بار جائے گا

یہی بے موسمی رم جھم اسے بے زار کرتی ہے
یہ رونا پیٹنا تیرا یونہی بے کار جائے گا

وہ صدیوں بعد لوٹا ہے اسے اندر تو آنے دو
ترا در آخری در ہے کہاں اس بار جائے گا

وہ ملک الموت بیٹھا ہے کسی کی تاک میں دیکھو
اور اب کی بار سنگ اس کے ترا بیمار جائے گا

...............

اور اب ایک چھوٹی سی نظم جس کا عنوان ہے "حقیقت"

فرض کرتے کرتے ہم
اس جگہ پہ آ پہنچے
جس جہاں میں اب سب کچھ
فرضی فرضی لگتا ہے

...........

کچھ اشعار

تو گیا تو اس دل میں درد نے جگہ لے لی
میرے گھر کے آنگن میں گرد نے جگہ لے لی

وحشتوں کا موسم تو ٹھہر سا گیا ہے اب
سبز رنگ اڑتے ہی زرد نے جگہ لے لی

دہر اور تری محفل ایک ہی طرح کے ہیں
میرے اٹھتے ہی اک اور فرد نے جگہ لے لی
.......

اور دو مختلف اشعار کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں...

اب کے ملنا تو میری ذات میں ضم ہو جانا
سہہ نہیں پاؤں گا اک اور کا کم ہو جانا

.......

مجھے گمان ہے یہ شب مجھے نگل لے گی
میں سو گیا تو میری صبح کو جگا دینا

والسلام
 

محمداحمد

لائبریرین
ہواؤ سرسراتے اس طرح گزرو کہ آہٹ ہو
مرے آنگن کا سناٹا مجھے اب مار جائے گا

اسے گر روکنا چاہو تو بے پروائیاں برتو
کہ جتنی بار روکو گے وہ اتنی بار جائے گا
دلفریب اشعار سنا رہے تھے محترم سلمان حمید صاحب۔۔۔۔!

اور اب میں ملتمس ہوں محترم فیصل عظیم فیصل صاحب سے کہ وہ اپنے کلام سے مشاعرے کی رونق بڑھائیں۔

محترم فیصل عظیم فیصل ۔۔۔۔!
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عنایت آپ کی ہم کو بلایا بر سرِ محفل۔۔۔۔۔۔!
وگرنہ ہم اکیلے اور بھی محفل میں رہ جاتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا بہت بہت شکریہ کہ بندہ کو اظہار خیال کا موقع دیا ۔ وقت ضائع کیئے بنا کچھ کاوش حاضر خدمت ہے۔

کس طرح بیاں ہو کہ میری سوچ پریشاں
بس گھوم رہی ہے کہ یہاں گھوم رہی ہے

دستار کے پردے میں ہوس ناک ہیں واعظ
حق بات تو بازار میں مذموم رہی ہے

ہر سو یہ تماشا ہے یہاں چاک گریباں
مدہوش ہے رقصاں ہے جو مظلوم رہی ہے

امت کو ملے ہر جگہ فتنوں کے ہدایا
سمجھی نہیں اب بھی بڑی معصوم رہی ہے

ہر شخص جو اللہ کا لیئے نام ملے ہے
جنت کی تمنا میں اسے چوم رہی ہے

خاکم بدہن اب بھی اگر ہم نے نہ سمجھا
تقدیر امم سب کو یہ معلوم رہی ہے ۔۔!

لٹنا اسے مقبول ہے منظور ہے فیصل
تفریق شدہ امتِ معدوم رہی ہے ۔۔۔!
------------

اتنے برس کے بعد بچھڑنا
اب اتنا ۔۔۔۔۔۔۔ آسان نہیں ہے
سانسوں سے خوشبو کا نکلنا
اب اتنا۔۔۔۔۔۔۔ آسان نہیں ہے
تم کو۔۔ تیری باتیں ۔۔ بھولیں
اب اتنا ۔۔۔۔۔۔ آسان نہیں ہے
تیرے بن تو زندہ ہوں میں
اب اتنا ۔۔۔۔۔ آسان نہیں ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
لٹنا اسے مقبول ہے منظور ہے فیصل
تفریق شدہ امتِ معدوم رہی ہے ۔۔۔!

محترم فیصل عظیم فیصل صاحب اپنے منظوم خیالات کا اظہار فرما رہے تھے اور اب گذارش کریں گے محترم عمران شناور صاحب سے کہ وہ اپنا دلنشین کلام پیش کریں۔ عمران شناور صاحب کہتے ہیں:

تتلیاں اڑ گئیں یہ غم لے کر
اب کے پھولوں میں باس کم کم ہے

جناب عمران شناور ۔۔۔!
 
السلام علیکم!
صاحبِ صدر، مہمانانِ گرامی۔ منتظمینِ مشاعرہ اور دیگر تمام احباب کا بے حد مشکور ہوں۔
کلام پیشِ خدمت ہے۔ امید ہے شرفِ قبولیت بخشیں گے۔

لوگ پابندِ سلاسل ہیں مگر خاموش ہیں
بے حسی چھائی ہے ایسی گھر کے گھر خاموش ہیں
دیکھتے ہیں ایک دوجے کو تماشے کی طرح
ان پہ کرتی ہی نہیں آہیں اثر‘ خاموش ہیں
اپنے ہی گھر میں نہیں ملتی اماں تو کیا کریں
پھر رہے ہیں مدتوں سے دربدر‘ خاموش ہیں
ہم حریفِ جاں کو اس سے بڑھ کے دے دیتے جواب
کوئی تو حکمت ہے اس میں ہم اگر خاموش ہیں
ٹوٹنے سے بچ بھی سکتے تھے یہاں سب آئنے
جانے کیوں اس شہر کے آئینہ گر خاموش ہیں
پیش خیمہ ہے شناور یہ کسی طوفان کا
سب پرندے اڑ گئے ہیں اور شجر خاموش ہیں
------
چھوٹی بحر کی ایک غزل

گام گام خواہشیں
نا تمام خواہشیں
ہر خوشی کی موت ہیں
بے لگام خواہشیں
لے ہی آئیں آخرش
زیرِ دام خواہشیں
ہوش میں نہیں ہوں میں
صبح و شام خواہشیں
کاٹتی ہیں روح کو
بے نیام خواہشیں
----

کیا محسوس کیا تھا تم نے میرے یار درختو
تنہائی جب ملنے آئی پہلی بار درختو

ہر شب تم سے ملنے آ جاتی ہے تنہا تنہا
کیا تم بھی کرتے ہو تنہائی سے پیار درختو

تنہائی میں بیٹھے بیٹھے اکثر سوچتا ہوں میں
کون تمہارا دلبر‘ کس کے تم دلدار درختو

لڑتے رہتے ہو تم اکثر تند و تیز ہوا سے
تم بھی تھک کر مان ہی لیتے ہو گے ہار درختو

اب کے سال بھی پت جھڑ آئے گا یہ ذہن میں رکھو
اتنا خود پہ کیا اترانا سایہ دار درختو

خود تم دھوپ میں جھلس رہے ہو مجھ پر سایہ کرکے
یہ ہے سیدھا سیدھا چاہت کا اظہار درختو
----
ستارے سب مرے‘ مہتاب میرے
ابھی مت ٹوٹنا اے خواب میرے

ابھی اڑنا ہے مجھ کو آسماں تک
ہوئے جاتے ہیں پر بے تاب میرے

میں تھک کر گر گیا‘ ٹوٹا نہیں ہوں
بہت مضبوط ہیں اعصاب میرے

ترے آنے پہ بھی بادِ بہاری!
گلستاں کیوں نہیں شاداب میرے

بہت ہی شاد رہتا تھا میں جن میں
وہ لمحے ہو گئے نایاب میرے

ابھی آنکھوں میں طغیانی نہیں ہے
ابھی آئے نہیں سیلاب میرے

سمندر میں ہوا طوفان برپا
سفینے آئے زیرِ آب میرے

تُو اب کے بھی نہیں‌ ڈوبا شناور
بہت حیران ہیں‌ احباب میرے
----
آخر میں ایک نظم کے ساتھ اجازت چاہوں گا

--شناور--
خلا میں‌ غور سے دیکھوں
تو اک تصویر بنتی ہے
اور اس تصویر کا چہرہ
ترے چہرے سے ملتا ہے
وہی آنکھیں‘ وہی رنگت
وہی ہیں‌ خال و خد سارے
مری آنکھوں سے دیکھو تو
تجھے اس عکس کے چہرے پہ
اک تل بھی دکھائی دے
جو بالکل تیرے چہرے پہ
سجے اُس تل کے جیسا ہے
جو گہرا ہے
بہت گہرا
سمندر سے بھی گہرا ہے
کہ اس گہرائی میں اکثر
شناور ڈوب جاتا ہے

بہت بہت شکریہ
 
ستارے سب مرے‘ مہتاب میرے
ابھی مت ٹوٹنا اے خواب میرے

اپنا کلام پیش کر رہے تھے جناب عمران شناور صاحب۔ اور اب ہم دعوتِ کلام دیتے ہیں جناب محمد حفیظ الرحمٰن صاحب کو کہ وہ تشریف لائیں اور اپنے کلام سے محفل کی رونق میں اضافہ کریں۔ فرماتے ہیں

جوشِ طوافِ کوچہء جاناں کو دیکھ کر
ہر جنبشِ زمیں پہ ہیں قرباں کئی فلک

جناب حفیظ الرحمن صاحب!
 
آخری تدوین:
صدرِ محفل، جناب مہمانِ خصوصی اور تمام محفلین کی خدمت میں السلام علیکم عرض کرنے کے بعد ایک غزل کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

غزل
محمد حفیظ الرحمٰن

حقیقت جانتی ہے سب خدائی
شہنشاہی سے بڑھکر ہے گدائی

دوعالم دسترس میں ہوں ہماری
کرے گرکوئی قسمت آزمائی

وہی صورت جو کل لگتی تھی اپنی
نجانے ہوگئی ہے کیوں پرائی

بچھڑنے کی کہانی کیسے کہتے
زمانے بھر میں ہوتی جگ ہنسائی

خزاں کے دن بہت کم رہ گئے ہیں
صبا چپکے سے یہ پیغام لائی

شبِ شعر و سخن میں میرے ساتھی
فقط کاغذ قلم اور روشنائی

اب پیشِ خدمت ہے ایک چڑ چڑی غزل

چڑ چڑی غزل

اوج پہ ہو قسمت کا ستارہ ایسے سکندر تُم بھی نہیں
تیر چلیں جو بیچ بھنور کچھ ایسے شناور تُم بھی نہیں

خود کو کھو کر اس کو پانا میرا تو مقسوم نہ تھا
وہ جو نہیں تھا میری قسمت، اس کا مقدر تُم بھی نہیں

مجھ کو ہے معلوم کہ میں ہوں اِک معمولی جوئے کم آب
جس میں گریں دریاؤں کے دھارے ، ایسا سمندر تُم بھی نہیں

کون بڑا اور کون ہے چھوٹا، اس کا تعین ناممکن
میں جو نہیں ہوں تم سے برتر ، مجھ سے برتر تُم بھی نہیں

اُس محفل میں بار نہ پایا، پھر بھی دل کو تسلی ہے
میں ہوں اگر باہر تو اس محفل کے اندر تم بھی نہیں

قیس ہو وہ فرہاد کہ وامق ، سب کی منزل عشق ہی تھی
میں جو نہیں ہوں ان کا مقلّد، اس رستے پر تُم بھی نہیں

ہم کو حدیں معلوم ہیں اپنی، جیسا تیسا کہتے ہیں
کوئی غزل اچھی سی کہہ دو اتنے سخنور تُم بھی نہیں


غزل

مقابلہ ہے ہواؤں میں اپنی زد کے لیے
کوئی اصول نہیں ہے جنوں کی حد کے لیے

ہمارے بیچ نیا کوئی مسئلہ ہی نہیں
یہ اختلاف تو سارے ہیں ابّ و جد کے لیے

جو خود دلیلِ مجسّم بنا ہوا آئے
دلیل لاؤں کہاں سے میں اس کی رد کے لیے

نہ سرو میں نہ ہے شمشاد میں کشش باقی
مثال کوئی نئی لاؤ اُس کے قد کے لیے

لگا گیا تھا کوئی آگ جنگلوں میں حفیظؔ
سلگتے پیڑ پکارا کیے مدد کے لیے
 
مدیر کی آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
لگا گیا تھا کوئی آگ جنگلوں میں حفیظؔ
سلگتے پیڑ پکارا کیے مدد کے لیے

خوبصورت اشعار پیش کر رہے تھے محترم محمد حفیظ الرحمٰن صاحب۔

اور اب
عشق میں پہلے ڈرتے تھے بربادی سے
ہوتے ہوتے ہو گئے ہیں اب عادی سے

اس شعر کے خالق محترم آصف شفیع صاحب کو دعوتِ کلام دی جاتی ہے کہ وہ اپنے دلنشین کلام سے مشاعرے کی رونق کو بڑھائیں۔
 

آصف شفیع

محفلین
مشاعرے میں شرکت کی دعوت کیلیے بے حد شکریہ۔ دو غزلیں احباب کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد اجازت چاہوں گا۔

نہیں ہوتا نسب محبت میں
کیا عجم، کیا عرب محبت میں
ہم نے اک زندگی گزاری ہے
تم تو آئے ہو اب محبت میں
اور کیا کلفتیں اٹھاتے ہم
ہو گئے جاں بلب محبت میں
خامشی ہی زبان ہوتی ہے
بولتے کب ہیں لب محبت میں
آگہی کے جہان کھلتے ہیں
چوٹ لگتی ہے جب محبت میں
یہ ہے دشتِ جنوں، یہاں آصف
چاک داماں ہیں سب محبت میں

دوسری غزل کے کچھ اشعار:

یہ معجزہ بھی کسی روز کر ہی جانا ہے
ترے خیال سے اک دن گزر ہی جانا ہے
نہ جانے کس لیے لمحوں کا بوجھ ڈھوتے ہیں
یہ جانتے ہیں کہ اک دن تو مر ہی جانا ہے
بہت حسین ہے تو بھی اے پھول سی خواہش
ہوا کے ساتھ تجھے بھی بکھر ہی جانا ہے
وہ کہہ رہا تھا نبھائے گا پیار کا وعدہ
میں جانتا تھا کہ اس نے مکر ہی جانا ہے
ہوائے شام! کہاں لے چلی زمانے کو
ذرا ٹھہر‘ کہ ہمیں بھی اُدھر ہی جانا ہے
میں خواب دیکھتا ہوں اور شعر کہتا ہوں
ہنروروں نے اسے بھی ہنر ہی جانا ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
میں خواب دیکھتا ہوں اور شعر کہتا ہوں
ہنروروں نے اسے بھی ہنر ہی جانا ہے

دلفریب اور دلنشیں اشعار سنا رہے تھے محترم آصف شفیع صاحب ۔

اور اب ہم دعوتِ کلام دیتے ہیں محترم نوید رزاق بٹ صاحب کو کہ وہ اپنے کلام سے محفلِ مشاعرہ کی رونق بڑھائیں۔ فرماتے ہیں:

تُو شریکِ سفر ہُوا نہ مگر
تیری خوشبو ہے ہمسفر میری

محترم نوید رزاق بٹ صاحب ۔۔۔۔!
 
صاحبِ صدر، مہمانِ خصوصی، شعرائے کرام، اور تمام قارئین، السلام علیکم و رحمتہ اللہ

میں اردو محفل اور جناب محمد احمد صاحب کا بے حد مشکور ہوں کہ اُنہوں نے اس اہم مشاعرے میں شرکت کی دعوت دی۔ سائبر دنیا میں اتنے طویل عرصہ تک اردو زبان کی بہترین خدمت پر اردو محفل کی انتظامیہ اور متحرک اراکین سبھی بہت سی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس کے ساتھ صاحبِ صدر کی اجازت سے اپنے کلام میں سے دو نظمیں، 'ڈیڑھ' غزلیں، اور ایک شعر پیش کرنا چاہوں گا۔

خضر سے۔۔۔

کہامشکل میں رہتا ہوں
کہا آسان کر ڈالو!
کہ جس کی چاہ زیادہ ہو
وہی قربان کر ڈالو!

کہا بے قلب ہیں آہیں
کہا اُس سے تڑپ مانگو!
اُٹھو تاریکیء شب میں
ذرا خونِ جگر ڈالو!

کہا رازِ سُکوں کیا ہے؟
کہا لوگوں کے دکھ بانٹو!
جو چہرہ بے دھنک دیکھو
اُسے رنگوں سے بھر ڈالو!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اقبال کی وصیت

نوشتہء رُخ بشر
نویدِ راہِ بیکراں
عذابِ فکر و آگہی
عذاب وہ کہ الاماں
نگاہِ شوق مضطرب
حجابِ ہوش درمیاں
سپاہِ عقل بے خبر
نگاہِ عشق رازداں
سکونِ قلب ذکرُہُ
غفور و عَفو و مہرباں
انا شہیدِ مرگِ دل
خودی حیاتِ جاوداں
رہینِ ذات ضوبجیب
ندیمِ خلق ضوفشاں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل

بھری محفل میں وہ تنہا رہا ہے
کہ جس دل کو تِرا سودا رہا ہے

کِیا ہے جس نے مذہب عشق اپنا
زمانے بھر میں وہ رُسوا رہا ہے

ثنا خوانوں کی سازش ہے یقینا"
بُرا ہر دور میں اچھا رہا ہے

لکیریں ہاتھ کی وِیران ہیں اب
کبھی اِن میں تِرا چہرہ رہا ہے

اُسے کہنا تمہارے بعد یہ دل
کوئی دو چار پل زندہ رہا ہے

حقیقت جانتا ہے ہر بَلا کی
مُصیبت میں بھی جو ہنستا رہا ہے

سبھی کردار سہمے پھر رہے ہیں
نہ جانے موڑ کیسا آ رہا ہے

بجھے گی پیاس اِک دن، اِس ہوس پر
لبِ ساحل لبِ دریا رہا ہے

وفا کے گیت گاتا حُسن صاحب
یونہی دل آپ کا بہلا رہا ہے

اگر بدلی روش ہم نے نہ اپنی
وہی ہوگا، کہ جو ہوتا رہا ہے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک فی الحال ادھوری غزل

ہر پل دلِ ناشاد تجھے یاد کرے ہے
یوں وقت تِری یاد میں برباد کرے ہے

لٹکا ہُوا زنجیر سے ملتا ہے محل میں
اِس دور میں مظلوم جو فریاد کرے ہے

مِلتا ہے درِ یار سے اِکسیر کی صورت
وہ درد جو ہر درد سے آزاد کرے ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شعر

رائج ہے میرے دیس میں نفرت کا قاعدہ
ہو جس سے اختلاف، اُسے مار ڈالیے​


ایک بار پھر اردو محفل کے سب احباب کا بے حد شکریہ۔
والسلام۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top