کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

صائمہ شاہ

محفلین
بہت شکریہ مہدی

منتظمین مشاعرہ کا بے حد شکریہ کہ اس مشاعرے کے قابل جانا آپ کی اجازت سے ایک غزل پیش کرنا چاہوں گی
یہ غزل آج تک محفل کی نذر نہیں کر پائی کیونکہ یہ مدیحہ گیلانی کی خواہش تھی کہ وہ اسے پیش کریں یہ غزل انہی کے نام کرتی ہوں

تیرے کرم کی ہیں سوغاتیں
میری غزلیں میری باتیں

آو چپ کا روزہ توڑیں
خاموشی سے کر کے باتیں

اک اک پل کو گرہ لگا کر
کاٹی ہیں برہا کی راتیں

اُس کے آگے سب اک جیسے
کسکا جاہ اور کیسی ذاتیں

عشق نے ہیر کو رانجھا کر کے
منوا لیں سب اپنی باتیں

جھولی پھیلا کر مانگی ہیں
تیری جیتیں اپنی ماتیں

سانسوں کے جھولے میں جھولیں
ہونے نہ ہونے کی باتیں

*****

ایک اور غزل پیش خدمت ہے

کچھ بھی باقی نہیں رہا مجھ میں
جانے ٹوٹا ہے ایسا کیا مجھ میں

ایک بارش کا جیسے سایا تھا
کوئی گیلا نہیں ہوا مجھ میں

وہی نوحہ خواں بنا ھے مرا
تھا کبھی جو غزل سرا مجھ میں

ایک شاعر بھی مجھ میں بس
تا تھا
جب بھی ڈھونڈا نہیں ملا مجھ میں

نارسائی تھی کیسی خواہش میں
حبس ہی حبس بھر گیا مجھ میں

میرے موسم تھے تیرے کہنے میں
جو بھی تو نے کہا ہوا مجھ میں

کیسی مٹی میں اس نے ڈھالا تھا
نہ رہی آگ نہ ہوا مجھ میں

اس نے اٹھنے میں دیر کیا کی تھی
اور یہاں دن نہیں چڑھا مجھ میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند اشعار

اک ہم ہیں دل دریدہ اور تار تار خواہش
پھر کیوں مچل رہی ہے ہم پر سوار خواہش

یہ آگ آرزو کی اور کاغذی سے جذبے
اب کسطرح سے بہلے یہ بےقرار خواہش

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سارے جذبے دہکنے لگ جائیں
ہم نفس تو اگر میسر ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کے وحشت نہ کسی طور سے ٹالی جائے
دل ہی بہلے نہ کہیں مردہ خیالی جائے

ہمیں منظور نہیں سوداگری سالوں کی
دل کے خانے سے اب عمر ہٹا لی جائے
 
مدیر کی آخری تدوین:

خوشی

محفلین
بہت شکریہ نوازش،،،،،،،،جو مجھے موقع دیا آپ نے

عنوان ھے

یقین


تمہارے بنا
وقت تھم سا جاتا ھے
سانسیں رک سی جاتی ھیں
مگر
یہ سب کہنے کی باتیں ھیں جاناں
تم بھی جانتے ہو
مجھے بھی یقین ھے
وقت کبھی نہیں تھمتا
اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔سانسیں
وقت سے پہلے
کبھی نہیں رکتیں

-------------

نارسائی
زندگی کی راہوں میں

بانہوں کی پناہوں میں

راستے تو کٹتے ھیں

راحتیں تو ملتی ھیں

زندگی نہیں ملتی


،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

کرائے کی عورت

منبر پہ بیٹھا

وہ اخلاقیات پہ درس دے رہا ھے

اور وہ

بیتی رات کے زخم چھپائے

کبھی اس کو دیکھتی ھے

اور کبھی

اپنی مٹھی میں بھینچے

اس کے دئیے ہوئے نوٹ کو

-----------

اگر اجازت ہو تو نئی نظم پیش کروں جو کتاب میں نہیں ھے
یا شایدکافی ہو گئیں

ایک نئی نظم پیش خدمت ھے


درخواست
،،،،،،،،،،

سانسیں لیتے جیون بیتا

اب جو لمحے باقی ھیں

ان میں

مجھ کو جی لینے دو

FDVIRK
 
مدیر کی آخری تدوین:

ساقی۔

محفلین
محترم کاشف سعید صاحب کے کلام کے بعد ہم گذارش کریں گے محترم ساقی۔ صاحب سے کہ وہ اپنے دلنشیں کلام سے اہلِ محفل کے ذوق کی تسکین کا سامان کریں۔

محترم ساقی۔ صاحب ۔

اسٹیج پر بلانے کا بہت بہت شکریہ ۔ کچھ مصروفیات کی وجہ سے نیا کلام پیش نہیں کر سکوں گا سوائے چند اشعار کے ۔ اس لیے اولڈ کو گولڈ سمجھ کر داد دے دیجئے گا ۔
پہلا پہلا مشاعرہ اٹینڈ کرنے آیا ہوں اس لیے سامعین کے ہاتھوں کی طرف غور سے بار بار دیکھتا ہوں کہ انڈے ، ٹماٹر تو ساتھ لے کے نہیں آئے۔
یہ مت سمجھیے کہ میں جو اشعار پڑھنے لگا ہوں وہ ترنم سے پڑھوں گا ۔اگر ایسی بات نظر آئے تو پہلے مشاعرے کی پہلی گھبراہٹ سمجھیے گا ۔

عر ض کیا ہے ۔

آو حسن یار کی باتیں کریں
یار کے دیدار کی باتیں کریں

چھوڑ دو دنیا کے قصے آج بس
اس کے لب رخسار کی باتیں کریں
جیت جاو گے مجھے معلوم ہے
آو میری ہار کی باتیں کریں

صاحب کردار خود کو کہتے ہیں
اوروں کے کردار کی باتیں کریں



اولڈ از گولڈ

رات ہی تو ہے آخر
رات کٹ ہی جائے گی
تیرگی کے بڑھتے ہی
راستے جو کھو جائیں
تم ذرا نہ گھبرانا
ڈر کے رک گئے جو تم
فیصلے پہ اپنے پھر
ہو گا تم کو پچھتاوا
رات ہی تو ہے آخر
رات کٹ ہی جائے گی
تیرگی کے پہلو سے
چاند پھر بھی نکلے گا
رات کے اندھیروں کی
موت بن کے چمکے گا
سوچ مت ذرا بھی یہ
راہ میں شکاری ہیں
حوصلے جواں رکھنا
منزلیں تمھاری ہیں
 
آو حسن یار کی باتیں کریں
یار کے دیدار کی باتیں کریں
ساقی صاحب اپنے کلام سے محفلین کو محظوظ کر رہے تھے۔
اب شمعِ محفل محترمہ ناعمہ عزیز صاحبہ کے سامنے لائی جاتی ہے کہ وہ محفلین کو اپنے کلام سے نوازیں اور خراج تحسین پائیں۔

"میں لکھتی زندگانی کے
سبھی حصے سبھی قصے
مگر یہ تب ہی ممکن تھاکه جب
میں شاعرہ ہوتی۔۔۔
ناعمہ عزیز صاحبہ!
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بہت ممنون و مشکور ہوں مہدی بھیا، اردو محفل کی سالگرہ کے موقع پر اردو محفل سے محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ایک ٹوٹا پھوٹا کلام محفلین کی نذر

عرض کیا ہے

زمین ڈھونڈتے رہے، زمان ڈھونڈتے رہے
ترے وجود کا فقط نشان ڈھونڈتے رہے

ترے جہان نے ہمیں تو بے امان کر دیا
کہ شہر کربلا میں ہم امان ڈھونڈتے رہے

وہ مسجدِ نبی ہو یا مدینۃ النبی کی خاک
حبَش کے اک غلام کی اذان ڈھونڈتے رہے

کہاں ہے تو چھپا ہوا، کبھی تو ان کی آہ سن
تجھے پکارنے کو جو زبان ڈھونڈتے رہے

خوشی میں اور فغان میں، گمان اور دھیان میں
تجھے کہاں کہاں نہیں ، اے جان ڈھونڈتے رہے


اور ایک نظم جو کہ شاید یہاں پوسٹ نہیں کرنی چاہئے مگر اب مجھے سنانے کا موقع ملا ہے تو سوچا کہ آپ لوگوں کو برداشت کا موقع دوں ۔
مدتیں ہوئیں گزرے
پھر بھی تیرے جانے کا
دکھ نہیں گھٹا سکتے
غم میں جلنے والوں کا
غم نہیں بٹا سکتے
لہجہ اجنبی سا ہے
دل گرفتہ سا ہے پل
اس طرح الجھتا ہے
گزرا بیتا ہر اک کل
یاد کے حوالے ہیں
دل میں یوں اجالے ہیں
پر کہیں کمی سی ہے
آنکھ میں نمی سی ہے
ہر کسی کے جانے کا
سوگ جاں مناتی ہے
جانے کیوں مجھے ایسے
یاد تیری آتی ہے
 
آخری تدوین:
کہاں ہے تو چھپا ہوا، کبھی تو ان کی آہ سن
تجھے پکارنے کو جو زبان ڈھونڈتے رہے

ناعمہ عزیز صاحبہ اپنا کلام پیش کر رہی تھیں۔
اب ہم دعوت دیتے ہیں اٹھتے ہوئے اسلوب کی شاعرہ، محترمہ نمرہ صاحبہ کو کہ وہ تشریف لائیں اور اپنے کلام سے محفلین کے ذوق کی تسکین فرمائیں۔ کہتی ہیں:


شک تو تھا ہم کو محبت میں خسارے ہوں گے
لیکن ایسا تو نہ تھا سب ہی ہمارے ہوں گے

نمرہ صاحبہ!
 
آخری تدوین:

نمرہ

محفلین
بہت شکریہ کل منتظمین کا مجھے یہاں دعوت دینے کے لیے۔مزید کسی کا شکریہ تو نہیں ادا کروں گی مگر محفل اور محفلین کی عمومی طور پر اور استادِ محترم جناب اعجاز عبید صاحب کی خصوصی شکر گزار ہوں اور رہوں گی بہت سی حوصلہ افزائی اور توجہ کے لیے۔

ایک غزل پیشِ خدمت ہے، تازہ کلام کی جملہ خرابیوں سمیت:

کاغذ پہ حرف فرضی حقیقی اتار کر
چل دیں گے ہم بھی اپنی سی مدت گزار کر
سرو و سمن ملیں تو پھر ان سے کنار کر
آ جائے راستے میں جو صحرا سو پار کر
مٹی سے میری یا تو ستارہ بنا دے ایک
یا رہروانِ شوق کی رہ کا غبار کر
اے خود پرست، خُو سے کوئی بت شکن ہے تو
موقع ملے تو اپنی انا پر بھی وار کر
سود و زیاں کے باب میں اب سوچنا ہے کیا
کس نے کہا تھا ، عشق کو سر پر سوار کر
راضی تھا وہ تو لوٹ کے آنے پہ خودبخود
بیداد گر کو ہم نے نہ دیکھا پکار کر
ترتیب ایک شام رہی ہے حیات میں
آیا تھا باغ میں کوئی زلفیں سنوار کر

اور زمانہء طالب علمی کی یادگار ایک نظم جو ٹال مٹول یا procrastination کے بارے میں ہے:

کل ہے میرا امتحاں اور امتحاں مشکل بھی ہے
پر ابھی ہے شام ساری، فکر تو مہمل سی ہے
کورس میں ایسا ہے کیا، بس دس منٹ درکار ہیں
ہم کوئی عامی نہیں، پہنچی ہوئی سرکار ہیں
شام آ پہنچی ، رہینِ گردش افلاک ہوں
اک ذرا سی فلم تو دیکھوں، دلِ صد چاک ہوں
نو بجے ہیں اور اب تو ہو چلا وقت طعام
رنگ اپنا زرد ہے، پھر ہے مضر ہر وقت کام
باندھ لی آخر کمر تو بجلی ہی مفقود ہے
'کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟'
یہ صدا بارش کی ہے؟ کوئی سریلا ساز ہے؟
ٹھہرئیے، کالج کی بس کی بھی یہی آواز ہے
بس میں سو جائیں ذرا کہ اب جہاں ہے زندگی
'برتر از اندیشہ ء سود و زیاں ہے زندگی'
 
اے خود پرست، خُو سے کوئی بت شکن ہے تو
موقع ملے تو اپنی انا پر بھی وار کر
سود و زیاں کے باب میں اب سوچنا ہے کیا
کس نے کہا تھا ، عشق کو سر پر سوار کر

نمرہ صاحبہ نے اپنے کلام سے نوازا۔
اب شمعِ محفل محترمہ سارہ بشارت گیلانی صاحبہ کے سامنے لائی جاتی ہے۔ فرماتی ہیں:


چلو سوئے فصیل شہر پهر سے
حدوں کا آزمانا کیا ہوا ہے

سارہ بشارت گیلانی صاحبہ!
 
آخری تدوین:
تمام صاحبانِ ذوق اور قدردانانِ سخن کے نام محبت اور عقیدت کے ساتھ ایک تازہ غزل:
راہِ دیارِ عشق سے پھر گئے جاں نثار کیوں؟
شہرِ نگار چھوڑ کر چل دئیے دل فگار کیوں؟
دشتِ دل و جگر میں ہے‘ چشمۂ چشمِ تر میں ہے
وسعتِ ریگ زار کیوں؟ مستئ جوئےبار کیوں؟
موسمِ گل فرار میں‘ تتلیاں اِنتشار میں
عرصۂ روزگار میں ہائے رے اِختصار کیوں؟
آئینہ حسنِ یار سے پوچھے کبھی یہ کاشکے
اہلِ نظر کے سامنے پردگی اِختیار کیوں؟
تجھ کو خبر ہے اے خدا کوئی بُرا ہے یا بھلا
روزِ جزا میں پھر بتا اِس قدر اِنتظار کیوں؟
یومِ حساب کیا کہیں؟ بس میں ہو اُس سے پوچھ لیں
دوسری دفعہ کیا جئیں؟ مر گئے پہلی بار کیوں؟
چشمِ صنم ہری ہری‘ دیکھ یہ سبز تُرمِری
حسرتِ مرغزار کیوں؟ خواہشِ سبزہ زار کیوں؟
کہنے لگا بہ صد فخر‘ تجھ سے ہزار ہیں اِدھر
میں نے کہا بجا مگر مجھ سوں کا ہی شمار کیوں؟
فصلِ خزاں ہے عنقریب جان لے گر یہ عندلیب
میری طرح سے پھر منیبؔ ہو نہ وہ سوگوار کیوں؟​
شکریہ!
 
راہِ دیارِ عشق سے پھر گئے جاں نثار کیوں؟
شہرِ نگار چھوڑ کر چل دئیے دل فگار کیوں؟

دشتِ دل و جگر میں ہے‘ چشمۂ چشمِ تر میں ہے
وسعتِ ریگ زار کیوں؟ مستئ جوئےبار کیوں؟​

یہ تھے نوجوان شاعرمحترم منیب احمد فاتح جو اپنی خوبصورت غزل مرحمت فرمارہے تھے۔

اب ہم درخواست کرتے ہیں ابھرتے ہوئے شاعر جناب محمد بلال اعظم سے کہ وہ اپنے مسحور کن کلام سے محفلین کے دلوں کو گرمائیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
احباب کی خدمت میں سلام اور آداب! سب سے پہلے تو اردو محفل، بابا جانی، استادِ محترم محمد یعقوب آسی صاحب اور دیگر احباب کا اس حوصلہ افزائی پہ بے حد شکریہ ورنہ من آنم کہ من دانم۔ میں شعر کہنے کے معاملے میں قطعی خود مختار نہیں لہٰذا کچھ تازہ اور کچھ پرانے اشعار صاحبِ صدر کی اجازت سے آپ سب کی نذر

سب سے پہلے کچھ متفرق اشعار

خورشیدِ جہاں تاب ترےؐ حسن کا پرتو
یہ مہرِ منور تراؐ نقشِ کفِ پا ہے
جب حشرکا دن ہو، تریؐ قربت ہو میسر
ہم خاک نشینوں کی بس اتنی سی دعا ہے


اُس شخص پہ لکھنے بیٹھا جب، اک پل میں صدیاں بیت گئیں
کب دن ڈوبا اور رات ڈھلی، کچھ ہوش نہیں، کچھ یاد نہیں
تھا ایک زمانہ اجلا سا، جب لوگ بھی سارےسچے تھے
اب بات ہے دنیا داری کی، کوئی قیس نہیں، فرہاد نہیں


ہم کہ تجھ سے تری آنکھوں کا پتہ پوچھتے ہیں
ایک بھٹکے ہوئے آہو کی سکونت کے لئے


ممنون ہوں میں تیرا کہ تُو نے اے جانِ جاں
لاچار کر دیا، مجھے پاگل نہیں کیا
روئے ترے فراق میں، پر حوصلہ تو دیکھ
ہم نے تجھے بھلا دیا، قائل نہیں کیا


سوکھا ہوا جنگل ہوں، مجھے آگ لگا دو
اور پھر کسی دریا میں مری راکھ بہا دو
مصلوب کرو، سنگِ ملامت مجھے مارو
لوگو! مجھے اِس عہد کا منصور بنا دو
اِس بار میں آیا ہوں چراغوں کو بجھا کر
اِس بار مجھے اپنی نگاہوں کی ضیا دو


ہو کسی اور کا گزر کیسے
دل کی دنیا فقط تمہاری ہے
آج تو چاند بھی نہیں نکلا
آج کی رات کتنی بھاری ہے


رنگِ حنا چمکے گا جب اِن ریشمی ہاتھوں میں
دیکھنا تب تم اِن ہاتھوں میں، مَیں یاد آؤں گا


جن کے انداز تھے ساون کی گھٹاؤں والے
اب کہاں لوگ وہ مخمور اداؤں والے
اس نے تعبیر کی خاطر مری آنکھیں لے کر
اُن میں سب رنگ بھرے زرد خلاؤں والے
اُس کا ہر دکھ مری قسمت میں لکھا جائے بلال
جس کی خاطر لکھے اشعار دعاؤں والے​

اور اب ایک غزل کے کچھ اشعار

ہو جائے کسی طور جو تکمیلِ تمنا
لہجوں میں اتر آئے گی تفضیلِ تمنا

سنتا رہا تاویلِ جفا اُس کی زباں سے
بہتا رہا آنکھوں سے مری نیلِ تمنا

اُس صورتِ مریم کو سرِ بام جو دیکھا
سینے میں اتر آئی اک انجیلِ تمنا

ایسا بُتِ کافر ہے کہ دیکھا نہیں مڑ کر
ہر چند کہ ہوتی رہی تعلیلِ تمنا

مدھم ہوئی آنکھوں میں تو پھر دل میں جلا لی
پر بجھنے نہیں دی کبھی قندیلِ تمنا

اُس عہدِ اذیت میں اتارا گیا مجھ کو
جس عہد میں ہوتی رہی تذلیلِ تمنا​
 

محمداحمد

لائبریرین
اب چونکہ کافی وقت گزر گیا ہے سو ہم مشاعرے کو آگے بڑھاتے ہوئے دعوتِ کلام دیتے ہیں محترم محمد اظہر نذیر صاحب کو وہ اپنے دلنشین کلام سے مشاعرے کی رونق بڑھائیں۔

محترم محمد اظہر نذیر صاحب۔۔۔۔!
 
ہم دوبارہ دعوت دیتے ہیں سارہ بشارت گیلانی صاحبہ کو کہ وہ آئیں اور اپنے کلام سے نوازیں۔
اب چونکہ کافی وقت گزر گیا ہے سو ہم مشاعرے کو آگے بڑھاتے ہوئے دعوتِ کلام دیتے ہیں محترم محمد اظہر نذیر صاحب کو وہ اپنے دلنشین کلام سے مشاعرے کی رونق بڑھائیں۔

محترم محمد اظہر نذیر صاحب۔۔۔۔!

مشاعرہ رک گیا کیا؟
 

محمداحمد

لائبریرین
حاضرینِ بزم۔۔۔۔!

رمضانِ کریم کی نسبت سے احباب کی مصروفیات کے باعث کچھ شعراء بروقت کلام نہیں پڑھ پائے جس کے لئے ہم معذرت خواہ ہیں۔ رہ جانے والے شعراء کی آمد پر اُنہیں دوبارہ دعوت دی جاسکتی ہے۔

اب ہم دعوتِ کلام دیتے ہیں محترم شاہد شاہنواز صاحب کو کہ وہ تشریف لائیں اور اپنا دلنشین کلام مرحمت فرمائیں۔

شاہد شاہنواز کہتے ہیں:

اپنا ہی نقش ڈھونڈنے نکلے تو یوں ہوا
ہم عکس بن کے آئنہ خانوں میں رہ گئے

محترم شاہد شاہنواز صاحب۔۔۔۔۔۔!
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
شکریہ جناب ۔۔۔ بقول محمد بلال اعظم ۔۔۔ میں بھی شعر کہنے کے معاملے میں "خود مختار" نہیں ۔۔۔ ۔۔اور آج کل شاعری کے معاملے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے، سو گزشتہ کہے گئے اشعار میں سے کچھ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔۔۔ ۔ایک غزل پیش خدمت ہے:

جس طرف قدم جائے، چھوڑ کر نشاں جائے
میں جہاں جہاں جاؤں، تیری داستاں جائے

موت ایک جھونکا ہے، لے کے صرف جاں جائے
زیست ایک آندھی ہے، لے کے امتحاں جائے

کوئی عشق کی بازی جیت کر بھی روتا ہے
اور کوئی ہارا ہو پھر بھی شادماں جائے

دور تک سمندر میں ناخدا نہیں کوئی
خود ہی اپنی کشتی کو لے کے بادباں جائے

خون کی ہیں تحریریں، موت کی یہ تصویریں
دل کہاں کہاں تڑپے؟ جاں کہاں کہاں جائے؟

ایک مختصر سی کاوش ، جسے میں تو غزل ہی سمجھتا ہوں:
لوگ وہ کب ملول ہوتے ہیں
جن کے سجدے قبول ہوتے ہیں

ان کی آنکھیں سمندروں جیسی
ان کے دل جیسے پھول ہوتے ہیں

حسن فانی ہے اہلِ دنیا کا
وہ تو قدموں کی دھول ہوتے ہیں

آخر میں یہ میری یہ تخلیق بھی آپ کے ذوق کی نذر:
کس لیے اُس نے مجھے رُسوا کیا؟
میں نے اُس کے ساتھ آخر کیا کیا؟؟

زندگی میری تھی ، اُس کا جو کروں
اُس نے میرے ساتھ کیوں جھگڑا کیا؟

عشق میں کھو بیٹھے اپنی جان ہم
اُس نے جو کچھ بھی کیا، اچھا کیا

زندگی نے مار ڈالا تھا مجھے
موت نے آکر مجھے زندہ کیا
 
عشق میں کھو بیٹھے اپنی جان ہم
اُس نے جو کچھ بھی کیا، اچھا کیا

زندگی نے مار ڈالا تھا مجھے
موت نے آکر مجھے زندہ کیا

یہ تھے جناب شاہد شاہنواز صاحب جو اپنے کلام سے محفل کو محظوظ فرما رہے تھے۔
اب ہم دعوت کلام دیں گے جناب عابی مکھنوی صاحب کو کہ تشریف لائیں اور اپنے کلام سے نوازیں


سچ کو اگتے کسی نے دیکھا ہے؟
اس کو دیتے ہیں راستہ پتھر!

عابی مکھنوی صاحب۔
 
نوازش جناب مہدی صاحب ۔۔ تمام حاضرین محفل و منتظمین کی خدمت میں السلام علیکم ۔۔۔
ایک عدد نظم ۔۔۔ ایک غزل نما مخلوق پیش خدمت ہے مع ۔ طفلانہ جذباتیت سے لبریز چند اشعار

خوشیاں بھاری ہوتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چار جوڑے کپڑوں کے
چار جوڑے جوتوں کے
تھوڑی چینی تھیلی میں
ایک پیکٹ کھیر کا
ایک ڈبہ دودھ کا
دس یا بیس والی ہو
ایک گڈی نوٹوں کی
کل وزن بتاؤ تو
کتنا ان کا بنتا ہے
ہلکے پھلکے تھیلے میں
ڈال دو تو آئے گا
جس قدر یہ ساماں ہے
اگلے پچھلے خرچوں کو
آگے پیچھے کر کے بھی
تھیلا چار چیزوں کا
مجھ سے بھر نہیں پاتا
عید جیسے ہوتی ہے
ویسے کر نہیں پاتا
روز جو اٹھاتا ہوں
بوجھ وہ ٹنوں میں ہے
تھیلا چار چیزوں کا
میں اٹھا نہیں پاتا
اسی لیے میں کہتا ہوں
غم تو ہلکے ہوتے ہیں
خوشیاں بھاری ہوتی ہیں
خوشیاں بھاری ہوتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزانہ جشن سجتا ہے مری سنسان سڑکوں پر
کہ محوِ رقص ہوتا ہے یہاں شیطان سڑکوں پر

امیر شہر نے بانٹی یتیمی کس لیے ہم پر
سوالی دیکھ لو بچے کھڑے حیران سڑکوں پر

مِرے بیٹے دلاؤں گا تجھے میں عید پر کپڑے
لہو میں ڈوب کر بکھرا مگر پیمان سڑکوں پر

سراپا موت بکھری ہے جہاں تک دیکھ سکتا ہوں
کہیں بے گور لاشے تو کہیں ارمان سڑکوں پر

کوئی پتھر نہیں دکھتا آُٹھا کر ہاتھ میں رکھ لوں
سگان ِ زر مچاتے ہیں جبھی طوفان سڑکوں پر

ہیں یُوں تو لوگ لاکھوں میں مِرے اس شہر میں عابی
دکھائی کیوں نہیں دیتا کوئی انسان سڑکوں پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1. قفس میں پھڑپھڑاہٹ سے فقط پھر شور ہوتا ہے
کہ ہے پیغامِ شہبازی جو کرنا ہے فِضا میں کر

حصارِ عِشق و مستی میں مقید کر کے جاں اپنی
نظارہ اپنی آہوں کا تُو عرشِ مُنتہا میں کر

کڑک تُو مثلِ رَعد و برق اکڑتی اِن ہواؤں پر
وہ طالب ہیں بقا کی پر تُو سودا یہ فنا میں کر

نِصابِ عاشقاں پایا ہے میں نے ایک جُملے میں...
سُوئے مقتل جو ہوتا ہے وہی سب کچھ وفا میں کر

یہی آئینِ اِیماں ہے یہی مومن کی پہچاں ہے
اِدھر سے تُو اُدھر جو کر وہ منشائے خُدا میں کر

خُودی کو زادِ راہ رکھ کر دِکھا رَقصِ جُنوں عابی
بُلند کلمہ بِلالی تُو ذرا شوقِ سزا میں کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top