یہ کب کی بات ہے، غالباً مجھے بھی یاد نہیں۔
آج سر میں درد کچھ سَوا ہوتا ہے۔ چائے کے بھی تین چار کپ پی لیے، کوئی فائدہ نہیں ہوا، درد دُور کرنے کی گولیاں بھی کھا لیں، اُن کا بھی کچھ فائدہ نہ ہوا، اب ایک ہی گولی رہ گئی تھی جسے کھانے سے درد تو یقیناً سو فیصد دُور ہو جاتا ہے لیکن اس کا نقصان یہ ہے کہ جس کو درد ہو وہ بھی دُور ہو جاتا ہے۔ تو اس کو کھانے کی بجائے کاغذ قلم کا سہارا لیا کہ یہ سردرد اسی بہانے قلم کے ذریعے کاغذ پر منتقل ہو جائے۔
اللہ تعالٰی خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ اس کی ہر تخلیق خوبصورت ہے۔ اور ان تخلیقات میں عورت سب سے زیادہ خوبصورت تخلیق ہے۔ عورت چاہے ماں کے رُوپ میں ہو، بہن ، بیوی یا بیٹی کے رُوپ میں، اس کا ہر رُوپ خوبصورت ہے۔
مزید یہ کہ عورت کی تخلیق جو اللہ تعالٰی نے اُسے ودیعت کی، وہ ہے بچے کی پیدائش۔ اور یہ تخلیق دردِ زہ سے گزرے بغیر ممکن نہیں۔ کسی بھی خوبصورت تخلیق کے لیے اس درد سے گزرنا پڑے گا، وگرنہ وہ تخلیق خوبصورت نہ ہو گی۔ یہ تخلیق چاہے کسی فنکار کا فن پارہ ہو یا کسی شاعر کی شاعری ہو۔
وہ بھی روزی کمانے کی خاطر دیس کو چھوڑ کر پردیس میں آ بسا۔ اب تو اسے یہ بھی یاد نہیں کہ اُس نے پردیس میں کتنے سال گزار دیئے۔ اتنے ڈھیر سارے سالوں میں اس نے بہت دولت کمائی اور ساری کی ساری کمائی اپنے دیس میں بھجواتا رہا۔ اس کے چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلم مکمل ہوئی، شادی بھی کر لی، دو بچے بھی ہو گئے۔ ایک بیٹی اور ایک بیٹا۔ جیون ساتھی بھی بہت اچھی ملی جس نے وقت اور حالات کو دیکھتے ہوئے گزارا کیا۔ تین سال بیوی بچوں سے دور رہا، پھر ایک دن اُسے ویزہ مل گیا۔ وہ بہت خوش تھا کہ اب بیوی بچے اس کے ساتھ رہ سکیں گے۔ کچھ ہی ہفتوں میں اس کے بچے بھی اس کے پاس پہنچ گئے۔ بیٹی کی عمر چار سال کے قریب اور بیٹا ابھی دو سال سے چھوٹا تھا۔
بیوی بچوں کے آنے سے اس کی تنخواہ میں تو اضافہ نہیں ہوا تھا لیکن خرچ بہت بڑھ گیا تھا۔ اس کے لیے اُسے زیادہ محنت کرنی پڑ رہی تھی۔ صبح کا گیا وہ رات گئے گھر آتا تھا۔ اس کی بیوی بھی اس کا ہاتھ بٹا رہی تھی کہ گھر کے خرچ کو کم سے کم رکھے۔ اس کے آرام کا بہت خیال رکھتی تھی۔ چُھٹی والے دن وہ سب کے سب تفریح کے لیے کبھی کسی باغ میں یا پھر کبھی سمندر کنارے چلے جاتے تھے۔ لیکن کام کے دنوں میں وہ بچوں کا جلد سُلا دیتی تھی ۔ آج بھی وہ بچوں کو سُلا رہی تھی۔ بیٹا سامنے کی طرف اور بیٹی پیچھے لیٹی ہوئی تھی۔ وہ باتوں باتوں میں بچوں کو چھوٹے چھوٹے سبق بھی یاد کرواتی رہتی تھی۔ وہ بیٹھے کو کہہ رہی تھی کہ چلو اب قل ھو واللہ سُناؤ، بیٹی جھٹ سے بولی "میں سناتی ہوں۔" اُس نے بیٹی کی طرف کروٹ بدلتے ہوئے کہا کہ چلو پہلے اس سے سُن لیتے ہیں، بیٹے نے "چھاڑا" ڈال دیا۔ ماما ادھر، ماما ادھر۔ اُسے پھر کروٹ بدل کر بیٹے کی طرف ہونا پڑا۔ بیٹی کو بھی اُس نے اس طرف ہی بُلا لیا۔ بیٹا اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں پاؤں پکڑے ہوئے مُنہ سے مختلف قسم کی آوازیں نکال رہا ہے۔پڑھنے کا موڈ بالکل بھی نہیں لگ رہا۔
اُس نے کہا پڑھو "بسم اللہ"
"بس الہ"
بس الہ نہیں بسم اللہ
بس الہ اور ساتھ ہی کھلکھلا کر ہنس دیا۔
اس نے بیٹے کو گدگداتے ہوئے کہ “ٹھیک سے پڑھتے ہو کہ نہیں؟“
اس نے پڑھنے کی بجائے "ماما دُودُو، ماما دُودُو" کی گردان شروع کر دی۔
اُسے معلوم تھا کہ اب یہ گردان دودھ ملے بغیر نہیں رُکے گی۔ بیٹی اتنے میں نیند کی آغوش میں جا چکی تھی۔ باورچی خانےمیں آ کر اس نے بیٹے کے لیے دودھ کی بوتل بنا کر بیٹے کو دی۔ وہ بھی بوتل لیتے ہی سکون سے لیٹ کر دودھ پینے لگا۔ کمبل اُوڑھا کروہ کمرے سے نکل آئی۔
ابھی اُسے برتن دھونے ہیں، اپنے شوہر کے لیے صبح کے لیے کپڑے استری کرنے ہیں پھر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز بھی ہونا ہے۔
لگتا ہے اُلٹا سیدھ لکھ کر سر کا درد ختم ہو گیا ہے۔