جسطرح ایک موٹی سی کتاب کے شروع میں ایک یا دو صفحوں کا دیباچہ لکھا جاتا ہے ایسے ہی زندگی بھی موت کا دیباچہ ہے۔ اس کو غنیمت جانو اور آخرت کا سامان کر لو۔
نماز میں جب کھڑے ہو تو نظر سجدے کی جگہ پر رکھو۔کہ ہمیں اس زمین میں جانا ہے۔
جب رکوع کرو تو پاوں دیکھو۔کہ ہماری جان پاوں سے نکلنا شروع ہوگی۔
جب سجدہ کرو تو ناک کی سمت دیکھو۔کہ مرنے کہ بعد سب سے پہلے ناک ختم ہو گی۔
اور جب بیٹھ جاو تو نظرے جھولی میں ہونی چاہیے کہ میری جھولی اب بھی خالی ہے۔۔۔۔
جب ہم پیدا ہوتے ھیں تو ہمارے کان میں اذان دی جاتی ہیں نماز نہیں پڑھائی جاتی۔
جب ھم فوت ہوتے ہیں تو نماز پڑھائی جاتی ہے اذان نہیں دی جاتی۔
ذرا سوچئیے،،،،
زندگی اور موت میں کتنا فاصلہ ہے۔اذان سےنماز تک کا۔۔۔۔۔
ماں تیری عظمت کو سلام۔
ایک دن میں نے اپنی ماں سے پوچھا
جن کی ماں نہیں ہوتی ان کے لئے دعا کون کرتا ہے؟
وہ بولی۔
دریا اگر سوکھ بھی جائے تو ریت سے نمی نہیں جاتی۔
کعبہ پر غلاف اس لیے ہے کہ پتہ چلے یہ کوئی عام چیز نہیں مسلمانوںکا قبلہ ہے۔۔
قرآن پر غلاف اس لیے ہے کہ پتہ چلے یہ کوئی عام کتاب نہیں اللہ کی کتاب ہے۔
روزے پر چادر اس لیے ہے کہ یہ کوئی عام قبر نہیں اللہ کے محبوب کی ھے۔
اس لیے عورت کو پردے کا حکم ہے کہ پتہ چلے کہ یہ کوئی عام عورت نہیں مسلمان عورت ہے۔۔۔۔۔