محمد اظہر نذیر
محفلین
بڑی نوازش جناب راجہ صاحب
کھول اب آنکھ، دیکھ اے حاکم"یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے"
آتش عشق سرد ہے کب سےیہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے
پُوچھتا ہے لگا کے آگ ظفر“یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے“
جیتی رہو بہنا ۔ سلامت رہو۔ مکمل غزل کا انتظار ہے ۔۔محمود بھیا جانی آپ کے حکم کے مطابق غزل شروع کی ہے ، ایک شعر آپ کی محبتوں کی نذر کرتے ہیں، اسی بہانے اصلاح بھی ہو جائے گی
سہل سمجھو نہ ہجر سہنے کو
شعلہ آتش فشاں سے اٹھتا ہے
واہ بھئ واہ، آپ نے بھی کیا مصرع لگایا ہے اظہر نذیر صاحب۔
ایم اے راجا بھائی کیا حال ہے آپ کا۔ کیسے ہیں
غزل تو آپ کی پہلے ہی پڑھ چکا تھا لیکن تبصرہ کرنے کا وقت نہیں مل رہا تھا آج وقت ملا تو اپنی غزل بھی پوسٹ کی اور باقی سب کی غزلیں بھی پڑھیں کیا خوب مزہ آ گیا
جو ترے در پہ جھک گیا اک بارسر وہ پھر کب وہاں سے اٹھتا ہے
کیا کہنے بہت خوب
چھوڑ جاتا ہے حسرتیں ، ناکامآدمی جب جہاں سے اٹھتا ہے
بے شک سچ بات کہیں آپ نے
جناب محمد اظہر نزیر صاحب آپ اور ہم ایک ہی استاد کے شاگرد ہونے کی وجہ سے بھائی ہی ہوئے آپ بھی اعظیم انسان جناب اعجاز عبید صاحب کے زیر سایہ ہیں اور ہم بھی۔
دیکھ مت یوں دھواں دھواں چہرہیہ تو پوچھو، کہاں سے اٹھتا ہےآتش عشق سرد ہے کب سےیہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہےیو تو ساری غزل کمال کی ہے لیکن یہ دو شعر مجھے زیادہ اچھے لگے کیونکہ پسند اپنی اپنی ہے اس لیے یہ دو شعر مجھے باقی سے زیادہ اچھے لگے بہت شکریہ
نوید ظفر کیانی صاحب السلام علیکم
ماشاءاللہ آپ کی غزل تو کمال کی ہے سارے شعر بہت پیارے ہیں کسی ایک کو منتخب کرنا میرے لیے مشکل ہے اور میری اتنی اوقات بھی نہیں ہے کہ میں آپ کے کلام پر کوئی رائے دے سکوں بہت پیاری غزل ہے ماشاءاللہ
محمد حفیظ الرحمٰن صاحب السلام علیکم ماشاءاللہ بہت اچھا کلام ہے مجھے لگتا ہے آپ اور نوید ظفر صاحب خاص طور پر اس مشاعرے کے لیے ہی آئیں ہیں یا آپ کو دعوت دی گئی ہے آپ کی آمد کا بہت شکریہ
پیارےمحمود بھیا جانی سلام و آداب۔ راہنمائی فرمائیں کہ طرحی مشاعرے کےجس دھاگے میں غزلیں پوسٹ ہو رہی ہیں وہاں کومنٹس پر پابندی ہے تو وہاں کا اقتباس یہاں کیسے لیا جائے گا یا کوئی ایسا طریقہ ہو کہ وہاں اقتباس لے کر کومنٹس دیں تو وہ کومنٹس یہاں ری ڈائریکٹ ہو جائیں اور ہمارے بابا جانی سر فاروق درویش تو اس فورم پر معطل ہیں وہ تو غزل پوسٹ کرنے سے رہے، اب ان کا نام دعوت نامےمیں لکھ کر خدارا ہمارا کلیجہ تو نہ جلائیےاحباب کے کلام کا شدّت سے انتظار ہے ۔۔
غزل ناز غزل ، الف عین ، محمد یعقوب آسی ، آصف شفیع ، فاروق درویش ، محمد وارث ، محمد احمد ، جیا راؤ ، زھرا علوی ، ، ، متلاشی ، سید مقبول شیرازی زلفی ، محمود احمد غزنوی ، امر شہزاد ، ش زاد ، ، نافرع ، پیاسا صحرا ، عین عین ،محمد امین ، F@rzana ، نوید صادق ، عمار خاں ، ابن سعید ، فاتح ، فرخ منظور ، یوسف ثانی ، سیدہ سارا غزل ، ایس فصیح ربانی ، عمران شناور ، عبدالرحمن سید ، انیس فاروقی ، سید نصرت بخاری ، زیف سید ، کاظمی بابا ، علی ساحل، محمد شعیب خٹک ، روحانی بابا ، ، شاہ حسین ، عطاء رفیع، فیصل عظیم فیصل ، سلیمان جاذب ، نویدظفرکیانی ، محمد حفیظ الرحمٰن ۔۔۔ ۔۔
یہ اشعار خوب ہوئے بقیہ غزل پر مذید محنت درکار ہے
دل میں برپا ہے شور ماتم کادرد کیا یوں بیاں سے اٹھتا ہےآتش عشق سرد ہے کب سےیہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہےبھر گئی ہے زمیں گناہوں سےشور جو آسماں سے اٹھتا ہےمحمد اظہر نذیر
یوں تو ساری غزل ہی خوب ہے لیکن یہ اشعار ہمیں بیحد پسند آئے، حجرہء کہکشاں واہ کیا خوب ترکیب استعمال کی ، بہت سی داد قبول کیجئے۔ سلامت رہیںاِک ستارہ جو تیرے نام کا تھاحجرۂ کہکشاں سے اُٹھتا ہےکوئی کُوئے نگار سے یُوں اُٹھاجیسے خوابِ گراں سے اُٹھتا ہےکس کی یادوں کی آہٹیں جاگیںزلزلہ جسم و جاں سے اُٹھتا ہےبجلیاں ہوں نہ ہوں سحابوں میںاعتبار آسماں سے اُٹھتا ہے
خرم بھیا چند اشعار خوب ہیں باقی غزل میں بحر اور ربط کے مسائل ہیں، نظر ثانی کیجئےالسلام علیکم۔
اس پہ نظرِ کرم نہیں ہوتی
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
مال سے اور جاں سے جاتا ہے
جو بھی اپنے نشاں سے اٹھتا ہے
تیری محفل کی داستاں ہو پھر
کون درمیاں سے اٹھتا ہے
تیری دہلیز پر قدم رکھ کر
لفظ مشکل زباں سے اٹھتاہے
لوگ سب کہہ رہے ہیں تھا انصاف
اب مگر اس جہاں سے اٹھتا ہے
ہر کسی کو یہی تجسس ہے
" یہ دھواں سا کہاں سےاٹھتا ہے"
عقل والے بھی اب نہیں ملتے
عشق بھی داستاں سے اٹھتا ہے
کون جانے کہ کیا ہوا خرم
کون آتش فشاں سے اٹھتا ہے
بہت شاندار غزل ، ہر شعر خوب اور خوبصورت مقطع، ڈھیروں داد قبول کیجئےغزلمحمد حفیظ الرحمٰن
منزلیں اس غبار میں گم ہیں جو ترے کارواں سے اٹھتا ہےہے منافق وہی کہ جس کا خمیر فکرِ سود و زیاں سے اٹھتا ہےپھر کہاں اس کے دل کو چین و قرار جوترے درمیاں سے اٹھتاہےگردِ مہتاب ہے فلک کا غبار یا کسی کہکشاں سے اٹھتا ہےلوحِ محفوظ میں ہے سب مرقوم کون، کس دن، کہاں سے اٹھتا ہےمنتظر ہوں حفیظ کب پردہ رازِ کون و مکاں سے اٹھتا ہے
ایک بجلی سی کوند جاتی ہے، بہت خوب راجا بھیا، سلامت رہیںبسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔جنابِ صدر ، جناب مہمانِ خصوصی اور شرکاء مشاعرہ کو السلام علیکم ۔
مجھے بہت خوشی ہوئی کہ م م مغل صاحب نے اس طرحی محفلِ مشاعرہ کو ترتیب دیا اور حضرت میر تقی میر کی خوبصورت غزل، دیکھ دل سے کہ جاں سے اٹھتا ہے ۔ یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے۔ سے اس محفل کا آغاز کیا، اور مجھ سے جاہل کو بھی دعوتِ کلام دی۔گو کہ بہت بڑے شاعر کا بہت بڑا مصرعہ طرح ہے جس پر مجھ سے طفلِ مکتب کا اشعار باندھنا گو کہ بہت مشکل عمل تھا مگر اپنی سی کوشش کی ہے جو کہ آپ کی نذر کرتا ہوں، فیصلہ آپ پر ہے کہ کس قدر کامیاب رہا ہوں، آپ کی تنقید یقیناً میرے لیئے مشعلِ راہ ہو گی۔
غزل عرض ہے۔۔۔ ۔
ایک بجلی سی کوند جاتی ہےایک شعلہ سا جاں سے اٹھتا ہےدل تڑپتا ہے ، خون جلتا ہےشعر تب اک زباں سے اٹھتا ہےلاشے بکھرے ہیں شہر میں ہر سُونالہ ہر اک مکاں سے اٹھتا ہے(ایم اے راجا)
( سیدہ سارا غزل ) ۔۔۔ جی بھیّا کی دلاری بہنا۔ مراسلات یہاں منتقل کر دیے ہیں جیتی رہو ۔سلامت رہو شاد باد کامران رہو۔پیارے محمود بھیا جانی ، حفیظ الرحمن صاحب کی غزل کے بارے یہ کومنٹ غلطی سے یہاں پوسٹ ہو گیا ، میں معذرت خواہ ہوں، پلیز اسے کومنٹس کے دھاگے میں منتقل کر دیجئے۔ شکریہ