سب سے پہلے تو بہت معذرت کہ کچھ مصروفیات کے باعث اس موضوع کو باقائدہ وقت نہیں دے سکا۔ اور پھر اس کے بعد ان تمام دوستوں کا شکریہ جنہوں نے اس سلسلے میں اپنا کلام بھیجا اور اُن کا بھی جو اپنا کلام بھیجنا چاہتے ہیں۔
تمام دوستوں کا کلام ہمیں پسند آیا سوچا سب کو ایک ساتھ ہی نذرانہ ء تحسین پیش کر دیا جائے۔
سو اس حقیر پر تقصیر کی جانب سے اب تک کے تمام شرکائے مشاعرہ کو دلی داد پیش ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم، مشقِ سخن تیز
اب تک کی پیش کی جانے والی غزلوں سے کچھ اشعار جو مجھے زیادہ پسند آئے وہ بھی یہاں انتخاب کر رہا ہوں۔
چھوڑ جاتا ہے حسرتیں ، ناکام
آدمی جب جہاں سے اٹھتا ہے
لاشے بکھرے ہیں شہر میں ہر سُو
نالہ ہر اک مکاں سے اٹھتا ہے
تُو نے سوچا بھی ہے کبھی راجا !
کیوں غضب آسماں سے اٹھتا ہے ؟
ایم اے راجا
آتش عشق سرد ہے کب سے
یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے
بزم ہے چل چلاؤ کی جاری
جس کو دیکھو، یہاں سے اٹھتا ہے
کون سا زہر مل گیا جگ میں
جی تو جیسے یہاں سے اُٹھتا ہے
محمد اظہر نذیر
جس کے دم سے تھی انجمن آباد
اب وہی درمیاں سے اُٹھتا ہے
اِک ستم ہے ستم پہ چُپ رہنا
حشر کچھ تو فغاں سے اُٹھتا ہے
یونہی پڑتی ہے قافلے کی بناء
میں یہاں تُو وہاں سے اُٹھتا ہے
نویدظفرکیانی
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
رنگ و بو کے جہاں سے اٹھتاہے
لوحِ محفوظ میں ہے سب مرقوم
کون، کس دن، کہاں سے اٹھتا ہے
منتظر ہوں حفیظ کب پردہ
رازِ کون و مکاں سے اٹھتا ہے
محمد حفیظ الرحمٰن
اس پہ نظرِ کرم نہیں ہوتی
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
"امن کی فاحتہ ہے اڑ نے کو"
تیرکوئی کماں سے اٹھتا ہے
عقل والے بھی اب نہیں ملتے
عشق بھی داستاں سے اٹھتا ہے
کون جانے کہ کیا ہوا خرم
کون آتش فشاں سے اٹھتا ہے
خرم شہزاد خرم
درد سا اک ،جو یاں سے اٹھتا ہے
کون جانے ؟کہاں سے اٹھتا ہے ؟
چوٹ پڑتی ہے جب، نئی دل پر
’’زلزلہ، جسم وجاں سے اٹھتا ہے ‘‘
توڑ جائیں نہ دل کہیں ، ذیشاںؔ
اعتبار ان بُتاں سے اٹھتا ہے
(متلاشی) ویسے ذیشان صاحب آپ کا اصل نام کیا ہے؟
دل سے اٹھتا ہے جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
اٹھ کر آئے ہیں یوں ترے در سے
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
خلیل الرحمن
غم کا بادل ، غبار عالم کا
دل کے دردِ نہاں سے اٹھتا ہے
اے جگر پیار کا گھنا بادل
کیا کبھی آسماں سے اٹھتا ہے
جگر صحرائی
دل کی اب راکھ بھی نہیں باقی
"یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتاہے"
جس کی خاموشیاں قیامت ہوں
حشر اس کے بیاں سے اُٹھتا ہے
دل پہ لے کر گلاب زخم فصیحؔ
محفلِ دوستاں سے اُٹھتا ہے
شاہین فصیحؔ ربانی
آخر میں ایک بار پھر سب دوستوں کو بہت بہت مبارکباد۔
اللہ اس خوبصورت محفل کو آباد رکھے (آمین)