محمد اظہر نذیر
محفلین
جب بھی، جہاں بھی چاہوں اسے
سامنے بیٹھا دیکھوں میں
واہ کیا خوبصورت بات ہے
واہ واہ واہ واہ واہ واہ
سامنے بیٹھا دیکھوں میں
واہ کیا خوبصورت بات ہے
واہ واہ واہ واہ واہ واہ
سب سے پہلے اپنی اس خوبصورت اردو محفل کیلیے ایک قطعہمحفِلِ اردو تجھے میرا سلاماے دِلِ اردو تجھے میرا سلاماس جہانِ برق، دل و جاں سوز میںتُو گِلِ اردو، تجھے میرا سلام
اور اب دو رباعیاںمحبوب کے انکار میں اقرار کو دیکھاپنوں پہ نظر رکھ، نہ تُو اغیار کو دیکھکیوں ہوتا ہے گرفتہ دل میرے اسدچھوڑ اسکی برائیاں فقط "یار" کو دیکھہے تیر سے اُلفت نہ نشانے سے ہمیںکھونے سے غرَض کوئی، نہ پانے سے ہمیںسو بار کہے ہمیں سگِ لیلیٰ، خلقکچھ بھی نہیں چاہیے زمانے سے ہمیں
اور ایک غزل کے ساتھ آپ سے اجازت چاہوں گاتازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھےدنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھےمیں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھابہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھےسازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علممُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھےبخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میںقسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھےبیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیںتو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھےتسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسدیوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھےوالسلام
تُو لائے یار کی خوشبو، سدا سلامتی ہوسلام تجھ پہ ہو، باد صبا سلامتی ہومیں دھڑکنوں کے تلاطم سے لطف لیتا ہوںہزار وحشتِ موج ِہوا سلامتی ہومری حیاتِ گذشتہ سے لوٹ آتی ہوئیصباحتِ لب و رخ کی صدا سلامتی ہوملال ِ شام ِ مسلسل کی حکمرانی ہےالم نصیب، دلِ باوفا سلامتی ہوتمام کون و مکاں کے لئے دعائے خیرفقط یہاں ہی نہیں جابجا سلامتی ہووہاں بچھانی ہے اک جانماز میں نے بھیکنارِ چشمہ ء حمد و ثنا سلامتی ہومیں چل رہا تھا کسی بدکلام بستی میںکسی نے مجھ کو اچانک کہا سلامتی ہوسیاہ دن سے گزرتی ہوئی سفید قبااٹھے ہوئے ہیں یہ دست دعا سلامتی ہوپڑوس میں بھی ترے دم سے کچھ اجالا ہےسلامتی مرے گھر کا دیا سلامتی ہومیں خوشہ چین ہوں غالب ترے گلستاں کااے کائناتِ سخن کے خدا سلامتی ہوشبِ فراق چمکتی ہے تیرے جلوئوں سےاے مہتاب کی دھیمی ضیا سلامتی ہویہیں پہ خیر بھی رہتی ہے شر بھی ہے آبادمری زمین پہ منصور کیا سلامتی ہو
ہاتھ میں لے لے وقت کی باگ
چھوڑ دے بیراگی بیراگ
اک دن تو کوئی آئے گا
آس منڈیر پہ بولے کاگ
گلشن کو جھلسا ڈالے گی
سبز رتوں کی ٹھنڈی آگ
گونگی ہیں نعروں کی زبانیں
بیٹھ گئے جذبوں کے جھاگ
جانے پھر کیا چال چلے گا
اندھے وقت کا بوڑھا گھاگ
آنسو ، درد ، کسک اور یاس
واہ پریمی۔ ۔ ۔ !تیرے بھاگ !
روپ نگر میں پگ پگ شاکر
ڈستے ہیں زلفوں کے ناگ
===================
ہر طرف ہے اداس تنہائی
آگئی مجھ کو راس تنہائی
وہ کہ محو نشاط محفل ہے
اور مرے آس پاس تنہائی
اب یہی چند اپنے ساتھی ہیں
آرزو ، درد ، یاس ، تنہائی
وحشت دل بڑھائی دیتی ہے
آرزو ناشناس تنہائی
================
زخم دل پر اگر نگاہ کریں
میرے عیسیٰ بھی آہ آہ کریں
اب کسے اعتماد منصف پر
آؤ قاتل سے رسم و راہ کریں
اپنی نظروں میں گر کے ہم کیسے
آرزوئے حصولِ جاہ کریں
ہم نہ زردار ہیں نہ حاکم ہیں
کس لیئے ہم سے وہ نباہ کریں
رحمت کر دگار جوش میں ہے
آؤ ہم بھی کوئی گنا ہ کریں
حسن کی بے حجابیاں ’’شاکر‘‘
دل کو آمادۂ گناہ کریں
================
عزیزان کرام
پہلے میں اردو محفل کا شکر گزار ہوں کہ اس مشاعرے میں مجھے صدارت کے منصب جلیلہ سے سرفراز کیا گیا جس کا میں قطعی اہل نہیں تھا۔ شاید محض بزرگی کے خیال سے کہ میں محفل کا سب سے بزرگ رکن ہوں!!!
بہر حال جب صدر بنا ہی دیا گیا تو اب آخر میں غزل بھی سنانی ہو گی بلکہ اس سے پہلے خطاب بھی کرنا ہو گا۔ خطاب کیا، بس یہی کہنا ہے کہ محفل کے ارکان نے ایک سے بڑھ کر ایک کلام پیش کیا ہے۔ شاکر بھائی منصور آفاق صاحب اور وارث وغیرہ جیسے قادر الکلام شعرا کے علاوہ مبتدی حضرات نے بھی اپنی کاوشیں حسن طریقے سے یہاں پیش کی ہیں۔ (یہ دوسری بات ہے کہ اکثر مبتدی حضرات کا میں اپنے منہ میاں ’استاد‘ ہوں)۔ بہر حال میں تمام شعرا کرام کو ہدیہء تہنیت پیش کرتا ہوں۔ عزیزم خرم اور محمد احمد نے اس مشاعرے کی کارروائی بھی بہت عمدہ طریقے سے چلائی۔
بہر حال اب بغیر کسی مزید تمہید کے، اور بغیر کسی کی اجازت کے) اپنا کلام پیش کرتا ہوں۔ ایک غزل پرانی، اور ایک غزل نسبتاً نئی۔ یعنی تقریباً صرف دو سال پرانی!!
ارشاد کیا ہے:
چاندی سونا دیکھوں میں
مئی میں کیا دیکھوں میں
صبح سویرے اٹھتے ہی
کس کا چہرا دیکھوں میں
فرشِ خاک پہ سوؤں جب
سچّا سپنا دیکھوں میں
وہ تو میرے گھر میں ہے
کس کا رستا دیکھوں میں
یاہو1 کی ایک ’وِنڈو‘2 میں
اس کا مکھڑا دیکھوں میں
جب بھی، جہاں بھی چاہوں اسے
سامنے بیٹھا دیکھوں میں
آنکھوں میں رِم جھِم ہو جائے
جب اسے ہنستا دیکھوں میں
صبح اٹھنے کی جلدی میں
خواب ادھورا دیکھوں میں
بول یہ سندر سندر درشّیہ
کب تک تنہا دیکھوں میں
میرؔ تمہاری غزلوں میں
اپنا دُکھڑا دیکھوں میں
مانیٹر3 کے پردے پر
ایک ہی چہرا دیکھوں میں
اس کی یاد آئے جب بھی
مونا لیزا دیکھوں میں
تو ہی بتا تیرا ایسا روپ
دیکھوں یا نا دیکھوں میں
1. Yahoo 2. Window 3. Monitorواہ واہ استادِ محترم، کیا خوب کلام پیش کیا ہے آپ نے، مئی، میر، یاہو، مونا لیزا والے اشعار تو بہت پسند آئے۔اور اب ’نئی‘ غزل۔۔۔ ۔آنسو ندّی سوکھ گئی
دکھ کی کھیتی سوکھ گئی
اب کے وہ قحطِ آب پڑا
غم کی ٹہنی سوکھ گئی
نیندیں جل کر راکھ ہوئیں
خواب کی بستی سوکھ گئی
غزل کے پیڑ میں بور آئے
جب ہر پتّی سوکھ گئی
سرخ کلی تھی لفافے میں
باہر رکھی سوکھ گئی
ان کے آتے دیر بھئ
جان ہماری سوکھ گئی
اس کے پیار سے بھیگی جاں
دھوپ میں جلدی سوکھ گئی
اب کیا مہکے دل کا باغ
رات کی رانی سوکھ گئی
ہرا رہا جنگل سارا
دھرتی پیاسی سوکھ گئی
واہ کیا پیاری غزل ہے، ڈھیرساری بلکہ ساری کی ساری داد وصول کیجیے۔ بہت پسند آیا آپ کا کلام۔
اور اب خاکسار اجازت چاہتا ہے۔ امید ہے اگلی سالگرہ سے پہلے ہی کسی مشاعرے میں ملاقات ممکن ہو گی۔
انشاءاللہ!
اللہ پاک آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔
والسلام
عزیزان کرام
پہلے میں اردو محفل کا شکر گزار ہوں کہ اس مشاعرے میں مجھے صدارت کے منصب جلیلہ سے سرفراز کیا گیا جس کا میں قطعی اہل نہیں تھا۔ شاید محض بزرگی کے خیال سے کہ میں محفل کا سب سے بزرگ رکن ہوں!!!
بہر حال جب صدر بنا ہی دیا گیا تو اب آخر میں غزل بھی سنانی ہو گی بلکہ اس سے پہلے خطاب بھی کرنا ہو گا۔ خطاب کیا، بس یہی کہنا ہے کہ محفل کے ارکان نے ایک سے بڑھ کر ایک کلام پیش کیا ہے۔ شاکر بھائی منصور آفاق صاحب اور وارث وغیرہ جیسے قادر الکلام شعرا کے علاوہ مبتدی حضرات نے بھی اپنی کاوشیں حسن طریقے سے یہاں پیش کی ہیں۔ (یہ دوسری بات ہے کہ اکثر مبتدی حضرات کا میں اپنے منہ میاں ’استاد‘ ہوں)۔ بہر حال میں تمام شعرا کرام کو ہدیہء تہنیت پیش کرتا ہوں۔ عزیزم خرم اور محمد احمد نے اس مشاعرے کی کارروائی بھی بہت عمدہ طریقے سے چلائی۔
بہر حال اب بغیر کسی مزید تمہید کے، اور بغیر کسی کی اجازت کے) اپنا کلام پیش کرتا ہوں۔ ایک غزل پرانی، اور ایک غزل نسبتاً نئی۔ یعنی تقریباً صرف دو سال پرانی!!
ارشاد کیا ہے:
چاندی سونا دیکھوں میں
مٹی میں کیا دیکھوں میں
صبح سویرے اٹھتے ہی
کس کا چہرا دیکھوں میں
فرشِ خاک پہ سوؤں جب
سچّا سپنا دیکھوں میں
وہ تو میرے گھر میں ہے
کس کا رستا دیکھوں میں
یاہو1 کی ایک ’وِنڈو‘2 میں
اس کا مکھڑا دیکھوں میں
جب بھی، جہاں بھی چاہوں اسے
سامنے بیٹھا دیکھوں میں
آنکھوں میں رِم جھِم ہو جائے
جب اسے ہنستا دیکھوں میں
صبح اٹھنے کی جلدی میں
خواب ادھورا دیکھوں میں
بول یہ سندر سندر درشّیہ
کب تک تنہا دیکھوں میں
میرؔ تمہاری غزلوں میں
اپنا دُکھڑا دیکھوں میں
مانیٹر3 کے پردے پر
ایک ہی چہرا دیکھوں میں
اس کی یاد آئے جب بھی
مونا لیزا دیکھوں میں
تو ہی بتا تیرا ایسا روپ
دیکھوں یا نا دیکھوں میں
1. Yahoo 2. Window 3. Monitor
اور اب ’نئی‘ غزل۔۔۔ ۔آنسو ندّی سوکھ گئی
دکھ کی کھیتی سوکھ گئی
اب کے وہ قحطِ آب پڑا
غم کی ٹہنی سوکھ گئی
نیندیں جل کر راکھ ہوئیں
خواب کی بستی سوکھ گئی
غزل کے پیڑ میں بور آئے
جب ہر پتّی سوکھ گئی
سرخ کلی تھی لفافے میں
باہر رکھی سوکھ گئی
ان کے آتے دیر بھئ
جان ہماری سوکھ گئی
اس کے پیار سے بھیگی جاں
دھوپ میں جلدی سوکھ گئی
اب کیا مہکے دل کا باغ
رات کی رانی سوکھ گئی
ہرا رہا جنگل سارا
دھرتی پیاسی سوکھ گئی